The Best Article-No.12 اللہ کا دوست

اللہ کا دوست
Share Now

Story Description:
This heart-touching story revolves around the first day of a teacher in a prestigious school. It captures how a simple introduction by a humble student, who proudly calls his hardworking father “a friend of Allah,” changes the perspective of an entire classroom and sets the tone for a meaningful lesson about dignity, respect, and the true spirit of Islam.

Introduction:

Starting a new job can be both exciting and a little nerve wracking. On the first day at a new school, the teacher is filled with mixed emotions but is determined to make a difference.

As he steps into the principal’s office and later the classroom, he knows that teaching isn’t just about books it’s about values.

‘‘ اللہ کا دوست

  گھر سے نکلتے ہوئے میرے دل میں مسرت اور خدشات کے ملے جلے جذبات تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ طمانیت کا احساس بھی تھا۔ میں

اس کیفیت کو پوری طرح محسوس کررہا تھا۔ نئے اسکول میں آج میرا پہلا دن تھا۔ اس خوشی میں، میں نے ناشتہ بھی برائے نام کیا تھا۔ شکر

ہے کہ پہلے ہی دن بروقت اسکول پہنچا۔ اسکول کے مین گیٹ میں قدم رکھتے ہوئے سامنے پرنسپل کے آفس پر نگاہیں جم گئیں۔

*۔۔۔*۔۔۔*

’’میں اسلامیات پڑھاتا نہیں، سکھانے کی کوشش کرتا ہوں‘‘۔ میں نے اپنے نئے اسکول کے پرنسپل سے کہا۔

’’میں سمجھا نہیں‘‘۔ پرنسپل صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ذرا وضاحت کردیں‘‘۔ اسی لمحے چپراسی نے چائے لاکر ٹیبل پر رکھ دی۔ میں

چائے کا کپ اُٹھا کر پرنسپل صاحب کی طرف متوجہ ہوا۔

’’بات یہ ہے جناب اس مضمون کی افادیت مطالعے میں نہیں، اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے۔ اس مضمون کا مقصد طالب علم

کو یہ بتانا ہے کہ معاشرہ افراد سے بنتا ہے، لہٰذا ہر فرد اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ فرد معاشرے کی عمارت میں لگی اینٹ کی طرح ہے۔ اینٹ

ذرا بھی ٹیڑھی لگے گی تو عمارت میں کمی ضرور آئے گی اور بھدا پن بھی ہوگا۔ یہ مضمون بتاتا ہے کہ اچھا انسان کیا ہوتا ہے؟ اسلام کیا

ہے؟ ہمیں اپنی معاشرتی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزارنی چاہئے۔ اس کا مقصد طالب علم کو سچا مسلمان اور سچا پاکستانی بنانا ہے،

تاکہ وہ مسلمان ہونے کے ناتے ایک پاکستانی بھی بنے۔ اس کی پہچان صرف اسلام اور پاکستان ہونی چاہئے‘‘۔

’’بہت دلچسپ تھیوری ہے‘‘۔ پرنسپل صاحب نے چائے کا گھونٹ لے کر کہا۔

پرنسپل صاحب کے ستائشی کلمات میرے اندر نئی روح پھونک رہے تھے۔ ’’مگر آپ نے ایک چیز پر بہت زیادہ زور دینا ہے، وہ ہے محنت۔

جس کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم ترقی سے محروم ہیں۔ اسی محنت کے بل بوتے پر مغربی اقوام ہم سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔ ہمارے

دوست ملک چین کی مثال لیں۔ ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا۔ لیکن میدان ترقی میں وہ ہم سے دو سو سال آگے ہے۔ پاکستان کی تمام مارکیٹس میں

’’میڈ اِن چائنا‘‘ چھا چکا ہے۔ یہ سب ان کی محنت کا صلہ ہے‘‘۔

میں نے پرنسپل صاحب کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے اُٹھ کر مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔

’’آپ کو ہر مرحلے پر، ہر معاملے میں میرا مکمل تعاون حاصل رہے گا‘‘۔ پرنسپل صاحب مسکرائے۔ ’’گڈلک‘‘۔

’’تھینک یو سر‘‘۔

*۔۔۔*۔۔۔*

کلاس روم میں خوب شور شرابا تھا۔ بچوں کی چیخ و پکار عروج پر تھی۔ سب اپنی فطرت و عادت کے مطابق گپیں ہانک رہے تھے۔ میں نے

کمرے میں قدم رکھا تو سب کو سانپ سونگھ گیا۔ سب کے سب خاموشی سے سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔ پھر اچانک کلاس روم کے دائیں کونے

سے ’’کلاس اسٹینڈ‘‘ کی آواز گونجی۔ یقیناً یہ کلاس مانیٹر تھا۔ آواز کے ساتھ ساری کلاس باادب کھڑی ہوگئی۔

’’سٹ ڈاؤن پلیز‘‘۔ سب بیٹھ گئے۔

’’شاید آپ جانتے ہوں میں آپ کا اسلامیات کا نیا ٹیچر ہوں‘‘۔

’’یس سر‘‘۔ چند بچوں کی آواز آئی۔

’’آج میں پہلی بار آپ کی کلاس لے رہا ہوں اور آج کچھ پڑھاؤں گا نہیں۔ میرا اصول ہے کہ پہلے میں اپنے شاگردوں سے تعارف حاصل کرتا

ہوں۔ میرا نام شہاب حیدر ہے۔ صحافت میں گریجویشن کیا، مگر عملی طور پر تدریسی میدان میں آگیا۔ پڑھانا میرا پروفیشن ہی نہیں، بلکہ اس

سے مجھے دلی طمانیت ملتی ہے۔ میں نے اسلامیات کا مضمون اس لئے منتخب کیا ہے کہ آپ کو اس پرفتن دور میں حقیقی اسلام سے آگاہ

کروں اور آپ کو محب وطن شہری بناؤں، اب آپ لوگوں کی باری ہے۔ اپنا تعارف کرادیں‘‘۔ میں نے پہلیے قطار میں داہنی جانب بیٹھے لڑکے

کی طرف اشارہ کیا۔

’’سر! میرا نام عمر احمد ہے۔ میرے ابو کا نام احمد حیات ہے۔ وہ ایک بینک منیجر ہیں‘‘۔ اس کے والد کا سن کر پوری کلاس پر رعب طاری

ہوگیا۔ دوسرا لڑکا کھڑا ہوا۔

’’سر! میرا نام حمزہ بشیر ہے۔ میرے ابو ایک پرائیویٹ فرم میں جنرل منیجر ہیں‘‘۔ اس کے بعد تیسرا لڑکا کھڑا ہوا۔ وہ بھی پہلے دونوں سے کم

نظر نہیں آرہا تھا۔

’’مجھے ارشد نذیر کہتے ہیں۔ میرے ابو ایک تاجر ہیں۔ ان کا کپڑے کا بزنس ہے‘‘۔

ان کے تعارف میں حیران کن بات ان کے بیک گراؤنڈ کی تھی، جسے وہ بڑھ چڑھ کر بیان کررہے تھے۔ یہ بات مجھے ہضم نہیں ہورہی تھی۔

اسی طرح تعارف کا سلسلہ چلتا گیا۔ سب لڑکے اعلیٰ اور کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے، کیونکہ یہ ایک مہنگا اسکول تھا۔ غریب

آدمی اس اسکول کے بارے میں صرف سوچ سکتا تھا۔ میں ابھی انہی خیالوں میں مگن تھا کہ ایک لڑکا ذرا جھجکتے ہوئے کھڑا ہوا۔ اس کا

چہرہ اعتماد سے عاری نظر آرہا تھا۔ میں نے اسے تعارف کا کہا تو وہ قدرے جھجکتے ہوئے بولا۔

’’سر! میرا نام محمد علی ہے۔ میرا تعلق ایک عام سے گھرانے سے ہے‘‘۔ کلاس کے تمام لڑکے اس کا منہ تکنے لگے۔ وہ نروس ہونے لگا۔

’’آپ کے ابو کیا کام کرتے ہیں؟‘‘ میں نے تجسس سے پوچھا۔

’’جی۔۔۔ جی وہ۔۔۔ اللہ کے دوست ہیں‘‘۔

اس کا جواب سن کر کلاس میں قہقہے گونجنے لگے۔ مگر میری سنجیدگی دیکھ کر وہ خاموش ہوگئے۔

’’اللہ کے دوست۔۔۔ وہ کیسے؟ کیا آپ اس کی وضاحت کرنا چاہیں گے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’جی وہ محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ہاتھ سے کمانے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے‘‘۔ تو

میرے ابو اللہ کے دوست ہوئے نا۔ کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے کماتے ہیں۔ وہ سارا دن محنت کرتے ہیں تاکہ میرے اسکول کی فیس ادا کرسکیں‘‘۔

اس کا جواب سن کر مجھے حیرت ہوئی۔ اس قدر پختہ یقین کے لوگ دیکھ کر دل کو سرور ملا۔ میں نے اسے شاباش دے کر بٹھادیا اور پوری

کلاس سے مخاطب ہوا۔

’’اس بچے نے مجھے خوش کردی ہے۔ واقعی ہاتھ سے کمانے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ محنت کی عظمت و برکت سے کون واقف نہیں ہے۔

آپ کے ابو کا مقام بہت بلند ہے۔ آپ کو احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے فخر محسوس کرنا چاہئے۔ ہمارے نبی حضرت داؤد علیہ

السلام بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا کرتے تھے۔ آپ کے ابو بھی اپنے ہاتھ سے کماتے ہیں، وہ اللہ کے دوست ہیں‘‘۔

میرے جواب پر پوری کلاس محمد علی کو رشک کی نگاہ سے دیکھنے لگی۔ محمد علی بھی پرسکون نظر آرہا تھا۔ مجھے خوشی تھی کہ میں

نے پہلے ہی دن کلاس کو ایک اچھا سبق دیا۔

Conclusion:
The teacher’s heart fills with joy and satisfaction. On just his first day, he’s able to teach his students a valuable life lesson  that dignity lies in hard work, not in wealth. It becomes a memorable start to a meaningful teaching journey.

Thank You Note:
Thank you for reading this story! We hope it reminded you of the value of hard work, respect, and staying grounded in faith. Let’s continue to appreciate the unseen efforts of those who work tirelessly for their families.

FAQs:

Q1: What is the main message of the story?
A: The story teaches us that dignity and respect should be given to everyone, especially those who work hard with honesty. True greatness lies in character, not status.

Q2: Who is the ‘Friend of Allah’ in the story?
A: The boy refers to his father, who does manual labor, as the “Friend of Allah” — inspired by a Hadith that says those who earn with their own hands are beloved to Allah.

Q3: What can teachers learn from this story?
A: A good teacher not only imparts knowledge but also instills values. Connecting with students emotionally can create lasting lessons.

Q4: Is this story based on a real incident?
A: It may be fictional, but it’s deeply inspired by real values, teachings of Islam, and everyday experiences that reflect strong morals.

Q5: Why did the teacher appreciate Muhammad Ali’s answer so much?
A: Because it showed wisdom, humility, and deep understanding of Islamic teachings. Despite being nervous, Muhammad Ali proudly honored his father’s honest work, reminding everyone that true respect comes from character and effort not wealth or status.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *