The Best Article-No.10 قطروس کا پچھتاوا

قطروس کا پچھتاوا
Share Now

تعارف :قطروس کا پچھتاوا

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے بہت پہلے فلسطین کی قدیم سرزمین میں دو بھائی رہتے تھے یعنی یہودا اور قطروس۔ اگرچہ وہ ایک ہی

والدین کا اشتراک کرتے تھے، ان کے دل اور راستے الگ الگ تھے. یہودا مہربان، ایماندار اور اللہ کا شکر گزار تھا۔ قطروس، تاہم، مغرور، خود غرض اور خدا کی

نعمتوں پر یقین نہ کرنے والا تھا۔

یہ طاقتور کہانی ہمیں دولت، غرور، عاجزی اور آخری ندامت کے سفر پر لے جاتی ہے۔ یہ جذبات میں لپٹا ہوا ایک سبق ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح

شکرگزاری اور مہربانی کو نظر انداز کرنا مکمل نقصان کا باعث بن سکتا ہے، اور اگر ان کا اشتراک نہ کیا جائے تو دولت کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ اس کہانی

کو پڑھتے ہیں، آپ قطروس کے عروج و زوال کو محسوس کریں گے اور اس لازوال سچائی کو دریافت کریں گے کہ حقیقی دولت دل میں رہتی ہے، سونے یا باغات میں نہیں۔

: ہمارے رسول پاک ﷺکے دنیا میں تشریف لانے سے کئی سو سال پہلے کا ذکر ہے کہ فلسطین کے شہر میں دو سگے بھائی رہتے تھے۔ایک کا نام یہودا تھا اور دوسرے کا

نام قطروس۔دونوں نے ایک ہی ماں کا دودھ پیا تھااور دونوں ایک ہی باپ کی شفقت کے سائے میں جوان ہوئے تھے۔اس طرح کہنے کو تو وہ ماں اور باپ دونوں کی نسبت

سے سگے بھائی تھے۔

لیکن دونوں کے مزاج اور عادتوں میں زمین اورآسمان کا فرق تھا۔یہود اللہ سے ڈرنے والا بڑا ایماندار،پرہیزگار،رحمدل اور سخی دل کا آدمی تھاجبکہ قطروس اللہ کو نہیں

مانتا تھااور بڑا ظالم ،تنگ دل بخیل اور مغرور شخص تھا۔ان کاباپ بہت دو لت مندآدمی تھااور بہت بڑی جائداد کا مالک تھا۔جب وہ فوت ہوا تو دونوں بھائیوں نے باپ کی

چھوڑی ہوئی دولت اور جائداد آپس میں تقسیم کر لی اوردونوں اپنی طبیعت اور مزاج کے مطابق زندگی گزارنے لگے۔

یہود اتنا زیادہ مال و دولت پاکر اللہ کا شکر گزار بندہ بن گیا۔اس نے اللہ کا شکر ادا کر تے ہوئے کہا: اے میرے پروردگار!میں اپنی دولت تیری رضاحاصل کرنے کے لئے

خرچ کرونگا ،ہمیشہ تیری نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہوں گا اور تیری عبادت کرنے میں کبھی سستی نہیں کروں گا۔ چنانچہ اس نے اپنا مال کھلے د ل سے محتاجوں،یتیموں

اور بیواؤں کی مدد کرنے کے لئے خرچ کرنا شروع کردیا۔کسی کو دکھ اور تکلیف میں مبتلا دیکھتا توااس کی تکلیف اوردکھ دور کرنے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھتا۔

کوئی سوالی اس کے دروازے سے خالی ہاتھ نہ جاتا۔یہاں تک کہ اس کی تمام دولت نیکی کے کام کرتے کرتے ختم ہو گئی اور وہ قریب قریب مفلس(غریب)ہو گیا لیکن اسکا

دل مطمئن رہا۔غریبوں اور حاجت مندوں پر اپنی دولت خرچ کر کے جو اس کو سچی خوشی حاصل ہوئی وہ دولت کو سینت سینت کر رکھنے سے کبھی نہ مل سکتی تھی

جو کچھ تھوڑا بہت اس کے پاس رہ گیا تھا وہ صبر شکر کے ساتھ اس سے گزارہ کر تا تھا۔

دوسری طرف قطروس کو جو دولت ملی،اس نے اس کو لوہے کی صندوقچوں میں بند کر دیااور ان کو تالے لگا دیئے کو ئی غریب اور حاجت مند اس سے کچھ مانگتا تو وہ

اس کو جھڑک دیتااور ایک پیسا تک نہ دیتا۔اس کی بخیلی کی وجہ سے لوگ اس سے نفرت کرنے لگے لیکن اپنی دولت کے نشے میں اس کو کسی کی پروا نہیں تھی۔اس

نے اپنی دولت کا بڑا حصہ خرچ کر کے لمبے چوڑے رقبے پر دو باغ لگائے۔ان میں انگورکی بے شمار بیلوں کے ساتھ قسم قسم کے پھل دار درخت لگائے۔

دونوں باغوں کے درمیان سڑک بنائی،ان میں پانی کی نہر جاری کی۔سڑک اور نہر کے دونوں جانب کھجوروں کے درخت لگائے اس طرح یہ باغ جنت کا نمونہ بن گئے۔ان

کی سر سبزی اور رونق کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی تھیں۔ ان باغوں کی صورت میں اللہ نے قطروس کو جو نعمت عطا کی تھی،وہ اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے

کہتا تھا کہ یہ باغ میں نے اپنی محنت اور دولت سے بنائے ہیں ،اللہ نے میرے لئے کچھ نہیں کیا ۔

ایک دن قطروس کا بھائی یہودا اس حال میں اس سے ملنے آیاکہ اس نے معمولی سادے کپڑے پہن رکھے تھے ۔قطروس نے گردن اکڑا کر اس کو بڑی حقارت سے دیکھا

اور کہا: تمہیں جو دولت اور جائداد ملی تھی ،وہ کدھر گئی ؟تم نے سب ضائع کردی۔اسی لئے تم مفلس ہو اور روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتے ہو ۔میری طرف دیکھو۔

میں بے حساب مال و دولت اور ان باغوں کا مالک ہوں ۔

میرے کتنے ہی نوکر چاکر ہیں ۔میرے باغ کے درختوں میں ہر سال خوب پھل آتا ہے اسے بیچ کر میری دولت اور ہی بڑھ جا تی ہے ۔ان درختوں پر ہمیشہ بہار آتی رہے گی

ا ور تم ہمیشہ مفلسی کی حالت میں ٹھوکریں کھاتے رہو گے۔،، یہودا نے اس سے کہا :تم اپنے مال اور باغوں پر مت اتراؤ؛ایک دن میں اورتم دونوں اس دنیا سے خالی ہاتھ جائیں گے۔

جب ہم اللہ کے سامنے پیش ہونگے تو جو کچھ ہم نے اس دنیا میں کیا ہے اس کا حساب دینا ہوگاتم ہر وقت اپنے باغوں کی حفاظت میں رہتے ہو اللہ کا شکر ہے کہ مجھے

ایسی کوئی فکر نہیں اور میں بڑے آرام سے زندگی گزار رہا ہوں ۔،، قطروس نے کہا یہ سب باتیں تم نے اپنے پاس سے گھڑرکھی ہیں مرنے کے بعد حساب والی بات میری

سمجھ میں تو نہیں آتی،بھلامرنے کے بعد کیسے کسی کو زندہ کرکے اس سے حساب لیا جاسکتاہے۔

اگر میں تمہاری بات مان لوں توپھر تم بھی میری یہ بات مان لوکہ اگر تمہارے اللہ نے مجھے اس قابل سمجھا ہے کہ دنیا میں مجھے اتنی دولت اور جائداد دے تومجھے

مرنے کے بعد وہ مجھے اس سے بھی بہتر اور اچھی دولت جائداد اور اچھے باغ دے ۔ تمھاری عقل پرپردہ پڑگیا ہے ۔اللہ جو ہر شے کا خالق و مالک تم اس کا انکار و نا

شکری کر تے ہو۔

تم مجھے مفلسی کا طعنہ دے کر اپنی دولت پر اکڑ رہے ہو لیکن میں اس مفلسی میں تم سے زیادہ دولت مند ہوں اس لئے میرے دل اور میری روح کو سکون حاصل ہے جو

کچھ میرے پاس ہے اس سے زیادہ مجھے کسی چیز کی لالچ نہیں ہے۔تمہارے ہیرے موتی میرے نزدیک پتھر کے ٹکڑے ہیں ۔تمہارے یہ باغ میرے نزدیک اس گھاس کی

طرح ہے جو زمین پر اگتی اور بڑھتی رہتی ہے اور پھر ایک دن خشک ہو کر بھوسا بن جاتی ہے۔

یہودا نے اسی طرح اور بہت سی باتیں کیں اور بہت کوشش کی کہ قطروس کسی طرح سیدھے راستے پر آجائے اور اللہ کا شکر گزار بندہ بن جائے لیکن قطروس پر کچھ

اثر نہ ہوا ۔وہ یہودا کی ہنسی اڑاتا رہا اور بار بار یہی کہتا رہا کہ نہ میرے مال و دولت کو کوئی خطرہ ہے اور نہ میرے باغوں کی سر سبزی و شادابی کبھی ختم ہو گی۔آخر

یہودا اس کی طرف سے مایوس ہو کر چلا گیا۔

کر نا خدا کا کہ ایک رات کو معلوم نہیں اللہ کی طرف سے باغوں پر کیسی آفت آئی کہ وہ تباہ و برباد ہو گئے ۔نہ نہر و سڑک باقی رہی نہ کوئی درخت باقی بچا…………اس

رات بستی کے لوگوں پر ایسی نیند طاری ہوئی کہ کسی کو اس بربادی کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔قطروس صبح کو اٹھا اور روز کی طرح سیرکے لئے دونوں باغوں کی

طرف روانہ ہواوہاں جا کر اس نے جو کچھ دیکھا اسکی آنکھیں پھٹی پھٹی رہ گئیں۔باغوں کی جگہ مٹی کے ڈھیر پڑے تھے ۔

نہ کوئی انگوروں کی بیل نظر آتی تھی اور نہ کوئی درخت ہر شئے برباد چکی تھی۔اس کی بڑی دولت اس کے باغ تھے۔ان کے برباد ہونے سے اس کی دولت بھی برباد ہو

گئی۔ اب اس کی اکڑی ہوئی گردن جھک گئی ۔اسے یہودا کی باتیں یاد آنے لگیں اور وہ اپنے آپ کو ملامت کرنے لگاکہ میں نے یہودا کی بے عزتی کیوں کی اور اس کی

باتوں کو ہنسی میں کیوں اڑایا۔ قطروس کی زبان پر اب بار بار یہی لفظ آ رہے تھے۔

کاش میں نے اپنے بھائی کی بات مان لی ہوتی ،کاش میں نے اپنی دولت دولت غریبوں اور مسکینوں کو جھولیاں بھر بھر کہ دی ہوتی،کاش میں نے اپنے اللہ کو جوسب کا

خالق و مالق ہے اس کو نہ بھلایا ہوتا۔،، لیکن اب کیا ہوسکتا تھا،جب چڑیا چگ گئی کھیت پھر پچھتائے کیا ہوت،قطروس کے پچھتاوے اور توبہ کا کیا نتیجہ ہوا؟ اس کا علم

اللہ ہی کو ہے۔ہاں ہمیں یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے۔برے کا موں سے بچنا چاہیئے۔

حاجت مندوں کی دل کھول کر مدد اور خدمت کرنی چاہیئے اور غرور و تکبرکبھی نہیں کرنا چاہیے کہ اس سے اللہ سخت ناراض ہوتا ہے۔ “

نتیجہ: ایک سبق جو بہت دیر سے آیا

آخر میں، قطروس نے جو کچھ غرور سے بنایا تھا، اس کے باغات، اس کی دولت، اس کی شہرت، ایک ہی رات میں خاک میں مل گئی۔ جو رہ گیا وہ حسرت تھا۔ اسے ہر وہ

لفظ یاد تھا جو اس کے بھائی یہودا نے کہا تھا اور خواہش تھی کہ وہ سنتا۔ لیکن بہت سے لوگوں کی طرح، اس کا احساس بہت دیر سے آیا.

قطروس کی کہانی ہم سب کو یاد دلاتی ہے کہ تکبر اندھا کر دیتا ہے، لیکن شکر دل کو کھول دیتا ہے۔ دوسروں کو دینا، شکر گزار ہونا، اور یہ تسلیم کرنا کہ سب کچھ اللہ کی

طرف سے آتا ہے، امن کا حقیقی راستہ ہے۔ دولت، احسان کے بغیر، صرف ایک بوجھ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کہانی قطروس کے لیے ندامت میں ختم ہوئی ہو، لیکن یہ ہر

اس شخص کے لیے ایک نئی شروعات پیش کرتی ہے جو اس کے پیغام کو دل میں لے جانا چاہتا ہے۔

شکریہ نوٹ

“قطروس کا افسوس” پڑھنے کے لیے دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکریہ۔ آپ کا وقت ہر چیز کا مطلب ہے۔ اس طرح کی کہانیاں صرف پڑھنے کے لیے نہیں ہوتی ہیں – یہ

عاجزی کے ساتھ رہنے، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دینے اور ہمیشہ شکر گزار رہنے کی نرم یاد دہانی ہیں۔ پیغام کو اپنے دل کے قریب رکھیں، اور اسے ہر روز اپنے اعمال

کی رہنمائی کرنے دیں۔

اکثر پوچھے گئے سوالات – قطروس کا افسوس

سوال نمبر 1. “قطروس کے ندامت” کا اخلاق کیا ہے؟

کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ غرور اور لالچ تباہی کا باعث بن سکتے ہیں، جب کہ شکرگزاری، عاجزی، اور صدقہ امن اور حقیقی کامیابی لاتے ہیں۔

سوال نمبر 2. یہودا اور قطروس کون تھے؟

یہودا ایک متقی، سخی آدمی تھا جو دوسروں کے لیے جیتا تھا اور اللہ کا شکر ادا کرتا تھا۔ قطروس، اس کا بھائی، امیر اور مغرور تھا، اس کا یقین تھا کہ اس کی کامیابی خدا

کی طرف سے نہیں، اس کی اپنی کوششوں سے آئی ہے۔

سوال نمبر 3. قطروس نے سب کچھ کیوں کھو دیا؟

وہ اللہ کو بھول گیا، اپنے بھائی کا مذاق اڑایا، اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ اُس کا زوال اچانک سزا کے طور پر آیا، جس نے ہر وہ چیز تباہ کر دی

جس پر اُس نے فخر کیا تھا۔

سوال نمبر 4. کیا قطروس جیسے لوگوں کو معاف کیا جا سکتا ہے؟

ہاں اگر وہ سچے دل سے توبہ کریں اور اللہ کی طرف سچے دل سے رجوع کریں۔ جبکہ قطروس کو گہرا افسوس ہوا، اس کی توبہ کا نتیجہ نامعلوم رہ گیا ہے — جو ہمیں

صحیح کام کرنے میں کبھی تاخیر نہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔

سوال نمبر 5. یہ کہانی آج بھی کیوں متعلقہ ہے؟

کیونکہ تکبر، سخاوت اور ایمان کے موضوعات لازوال ہیں۔ خواہ امیر ہو یا غریب، ہم سب کو ایسے انتخاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہمارے کردار اور خدا اور انسانیت

کے ساتھ ہمارے تعلق کی عکاسی کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *