Bachpan Quotes in Urdu-Sweet Memories of Childhood in Words
Introduction
Childhood, or “Bachpan” in Urdu, is the most beautiful and pure time of our life. It is full of fun, love, and sweet memories. We all remember those carefree days when we had no worries, just laughter and joy. Bachpan quotes in Urdu help us feel those moments again. These quotes bring back the golden memories of playing with friends, going to school, enjoying small things, and being close to family.
In this article, we bring you the best collection of Bachpan Urdu quotes that are emotional, funny, heart-touching, and full of love. Whether you want to use them for social media captions, Whats App status, or just to relive your childhood, these quotes are perfect for all.
Keep reading to enjoy and share the magic of childhood in your own language – Urdu.
“بچپن کی وہ شامیں بھی کیا خوب تھیں، نہ فیس بک تھا، نہ انسٹا، بس دوستوں کے ساتھ ہنسی خوشی کھیلنا ہوتا تھا”
کیا آپ بچپن سے سے روحانی طور پر طاقتور تھے؟ یا آپ بہت مذہبی گھرانے میں پیدا ہوتے ہیں یا آپ تھوڑا تھوڑا دنیا داری والے گھرانے میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس چیز کا بہت اثر ہوتا ہے۔ آپ کو ابھی سے
پلان کرنا ہے کہ آپ اپنے بچوں کو کیسا ماحول دینے والے ہیں۔ وہ بچے جو بچپن سے اپنے ماں باپ کو قرآن پڑھتا ہوا اور نماز پڑھتے ہوئے اور صدقات دیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ایسے بچوں کی عام
بچوں سے روحانیت تھوڑی زیادہ ہوتی ہے۔ بچوں کی زندگی پر اس کا بہت اثر پڑتا ہے اور ان کی روح بہت مضبوط ہوتی ہے.
Bachpan Quotes in Urdu

گھر تو ہمارا شعلوں کے نرغے میں آ گیا
لیکن تمام شہر اجالے میں آ گیا
یہ بھی رہا ہے کوچۂ جاناں میں اپنا رنگ
آہٹ ہوئی تو چاند دریچے میں آ گیا
ہونٹوں پہ غیبتوں کی خراشیں لیے ہوئے
یہ کون آئنوں کے قبیلے میں آ گیا
آندھی بھی بچپنے کی حدوں سے گزر گئی
مجھ کو بھی لطف شمع جلانے میں آ گیا
کچھ دیر تک تو اس سے مری گفتگو رہی
پھر یہ ہوا کہ وہ مرے لہجے میں آ گیا

میں سمندر تھا مجھے چین سے رہنے نہ دیا
خامشی سے کبھی دریاؤں نے بہنے نہ دیا
اپنے بچپن میں جسے سن کے میں سو جاتا تھا
میرے بچوں نے وہ قصہ مجھے کہنے نہ دیا
کچھ طبیعت میں تھی آوارہ مزاجی شامل
کچھ بزرگوں نے بھی گھر میں مجھے رہنے نہ دیا
سربلندی نے مری شہر شکستہ میں کبھی
کسی دیوار کو سر پر مرے ڈھنے نہ دیا
یہ الگ بات کہ میں نوح نہیں تھا لیکن
میں نے کشتی کو غلط سمت میں بہنے نہ دیا
بعد میرے وہی سردار قبیلہ تھا مگر
بزدلی نے اسے اک وار بھی سہنے نہ دیا

بچپن تمام گزرا ہے تاروں کی چھاؤں میں
تتلی کے پیچھے جاتی تھی بادل کے گاؤں میں
گرمی کی تیز دھوپ میں پیپل کی چھاؤں میں
سونیؔ بڑا سکون تھا چھوٹے سے گاؤں میں
منزل کی آرزو بھلا کرتے بھی کس طرح
کانٹے چبھے ہوئے تھے ہمارے تو پاؤں میں
جب دھوپ کے سفر سے وہ آئے گا لوٹ کر
اس کو بٹھا کے رکھوں گی زلفوں کی چھاؤں میں
اے دوست راہ عشق میں چلتی میں کس طرح
زنجیر ڈال رکھی تھی دنیا نے پاؤں میں

دیوں سے آگ جو لگتی رہی مکانوں کو
مہ و نجوم جلا دیں نہ آسمانوں کو
مرے قبیلے میں کیا شہر بھر سے مل دیکھو
کوئی بھی تیر نہیں دیتا بے کمانوں کو
شکستگی نے گرا دیں سروں پہ دیواریں
مخاصمت تھی مکینوں سے کیا مکانوں کو
یہ سوچتا ہوں وہ کیا حسن کار تیشہ تھا
جو ایسے نقش عطا کر گیا چٹانوں کو
یہی کرے گی کسی سمت کا تعین بھی
اسی ہوا نے تو کھولا ہے بادبانوں کو
جہاں ضدیں کیا کرتا تھا بچپنا میرا
کہاں سے لاؤں کھلونوں کی ان دکانوں کو

نہ پوچھو مسافر کہاں سو رہا ہے
وہی گھر ہے اس کا جہاں سو رہا ہے
پرندے بھی حمد و ثنا کر رہے ہیں
مگر تو بہ وقت اذاں سو رہا ہے
تھپیڑوں میں لو کی جو دن بھر چلا تھا
وہ منزل پہ اب کارواں سو رہا ہے
نہ چھت ہے سروں پر نہ بستر ہی کوئی
یہ محنت کشوں کا جہاں سو رہا ہے
جگاؤ نہ اس کو کہ کچھ دیر پہلے
سنا کر دکھوں کا بیاں سو رہا ہے
یہ بچپن کے ساتھی کی ہے قبر ساحلؔ
جو سب کو رلا کر یہاں سو رہا ہے

Bachpan Quotes in Urdu
کبھی گوکل کبھی رادھا کبھی موہن بن کے
میں خیالوں میں بھٹکتی رہی جوگن بن کے
ہر جنم میں مجھے یادوں کے کھلونے دے کے
وہ بچھڑتا رہا مجھ سے مرا بچپن بن کے
میرے اندر کوئی تکتا رہا رستہ اس کا
میں ہمیشہ کے لئے رہ گئی چلمن بن کے
زندگی بھر میں کھلی چھت پہ کھڑی بھیگا کی
صرف اک لمحہ برستا رہا ساون بن کے
میری امیدوں سے لپٹے رہے اندیشوں کے سانپ
عمر ہر دور میں کٹتی رہی چندن بن کے
اس طرح میری کہانی سے دھواں اٹھتا ہے
جیسے سلگے کوئی ہر لفظ میں ایندھن بن کے

ائیرپورٹ اسٹیشن سڑکوں پر ہیں کتنے سارے لوگ
جانے کون سے سکھ کی خاطر پھرتے مارے مارے لوگ
شام گئے یہ منظر ہم نے ملکوں ملکوں دیکھا ہے
گھر لوٹیں بوجھل قدموں سے بجھے ہوئے انگارے لوگ
سب سے شاکی خود سے نالاں اپنی آگ میں جلتے ہیں
دکھ کے سوا اور کیا بانٹیں گے ان جیسے اندھیارے لوگ
پر نم آنکھوں بوجھل دل سے کتنی بار وداعی لی
کتنا بوجھ لئے پھرتے ہیں ہم جیسے بنجارے لوگ
وہ کتنے خوش قسمت تھے جو اپنے گھروں کو لوٹ گئے
شہروں شہروں گھوم رہے ہیں ہم حالات کے مارے لوگ
رات گئے یادوں کے جنگل میں دیوالی ہوتی ہے
دیپ سجائے آ جاتے ہیں بھولے بسرے پیارے لوگ
بچپن کتنا پیارا تھا جب دل کو یقیں آ جاتا تھا
مرتے ہیں تو بن جاتے ہیں آسمان کے تارے لوگ

اک مدت کے بعد ملی احساس جگاتی تنہائی
خاموشی سے دھیرے دھیرے گھر مہکاتی تنہائی
آوازوں کی بھیڑ میں جب بھی مجھ کو پریشاں دیکھا ہے
ہاتھ پکڑ کر لے آئی ہے کچھ سمجھاتی تنہائی
آنکھوں سے جب نیند بھٹک کر صحرا صحرا گھومتی ہے
میرے سرہانے رات گئے تک لوری گاتی تنہائی
بچپن میں جب گرم دوپہری ننگے پاؤں پھرتی تھی
آم کے باغوں میں ملتی تھی رس برساتی تنہائی
پیار کی خواب رتوں میں کیسی جاگی سوئی رہتی تھی
چاند ہنڈولے میں جھولی تھی جب مدھ ماتی تنہائی
پہروں ہم نے باتیں کی ہیں پہروں خواب سجائے ہیں
میں روئی تو مجھ سے چھپ کر اشک بہاتی تنہائی
بہت دنوں کے بعد سنور کر اپنا چہرہ دیکھا تھا
آئینے سے جھانک رہی تھی آنکھ چراتی تنہائی

#محبت چیز ایسی ہے . ❣
#کبھی ہوتی ہے اپنوں سے . ❣
#کبھی ہوتی ہے سپنوں سے . ❣
#کبھی انجان راہوں سے . ❣
#کبھی گمنام ناموں سے . ❣
♥♥♥
#محبت چیز ایسی ہے . ❣
#کبھی ہوتی ہے پھولوں سے . ❣
#کبھی بچپن کے جھولوں سے . ❣
#کبھی بے اِخْتِیاری میں .
#کبھی پکے اصولوں سے . ❣
♥♥♥
#محبت اک محبت ہے . ❣
#محبت اک صداقت ہے .
#محبت اک عبادت ہے . ❣
#محبت چیز ایسی ہے ., ❣
♥♥♥
#دکھوں میں رول دیتی ہے ، ❣
#درد انمول دیتی ہے ، ❣
#زہر بھی گھول دیتی ہے . ❣
#محبت چیز ایسی ہے . . . ! ❣

“بچپن پر شاعری”
بہت یاد آتا ہے گُزرا زمانہ،
وہ گاؤں کی گلیوں میں پیپل پُرانا۔
وہ گرمی کی چُھٹّی مزے سے بِتانا،
وہ نانی کا قِصّہ کہانی سُنانا
وہ باغوں میں پیڑوں پہ ٹائر کے جھولے،
وہ بارش کی بوندوں میں چھت پر نہانا۔
وہ گاؤں کے میلے میں گُڑ کی جلیبی،
وہ سرکس میں خوش ہو کے تالی بجانا۔
وہ اِملی کے پیڑوں پہ پتّھر چلانا،
جو پتّھر کسی کو لگے بھاگ جانا۔ ♂
وہ اُنگلی چُھپا کر پہیلی بُجھانا،
وہ پیچھے سے ہو کر کے سب کو ڈرانا۔
چُھپا کر کے سب کی نظر سے ہمیشہ،
وہ ماں کے دوپٹے سے سِکّے چُرانا۔
وہ کاغذ کے ٹکڑوں پہ چور اور سپاہی، ♂
وہ شادی میں اُڑتا ہوا شامیانہ۔
وہ سائیکل کے پہیے کی گاڑی بنانا،
بڑے فخر سے دوسروں کو سکھانا۔
مگر یادِ بچپن کہیں سو گئی ہے،
کہ خوابوں کی جیسے سحر ہو گئی ہے۔
وہ ماں کی محبت وہ والد کی شفقت،
وہ ماتھے پہ کاجل کا ٹیکہ لگانا۔
یہ نفرت کی آندھی عداوت کے شعلے،
یہ سیاست دلوں میں زہر بو گئی ہے۔
وہ کاغذ کی چڑیا بنا کر اُڑانا،
وہ پڑھنے کے ڈر سے کتابیں چُھپانا۔
زبان بند رکھنے کا آیا زمانہ،
لبوں پہ نہ آئے امن کا ترانہ۔
وہ نرقل کی قلموں سے تختی پہ لکھنا،
وہ گھر سے سبق یاد کر کے نہ جانا۔✍
کہ جب مل کے رہتے تھے سارے مسلماں،
😢نہیں آئے گا اب وہ موسم سُہانا_”

کون کہے معصوم ہمارا بچپن تھا
کھیل میں بھی تو آدھا آدھا آنگن تھا
جو بھی ملا سب بانٹ لیا تھا آپس میں
ایک تھے ہم اور ایک ہی اپنا برتن تھا
تجھ سے بچھڑ کر اور تری یاد آئے گی
شاید ایسا سوچنا میرا بچپن تھا

جب ہم رو نہیں پاتے
سوکھ سے سو نہیں پاتے
جب ہم کھو نہیں پاتے
جب ہم ٹھوٹ جاتے ہے
جب اپنے روٹھ جاتے ہے
جب سپنے ستاتے ہے
تب بچپن یاد آتا ہے

کس لیے میرے خیالات پہ دھرنے دینا
شعر اترتا ہے تو پھر کیوں نہ اترنے دینا
مجھ کو دنیا میں گناہوں کی اجازت دے دے
جو یہاں کر لوں وہ جنت میں نہ کرنے دینا
یہ دلیری بڑے نقصان کیا کرتی ہے
بچے بچپن میں اگر ڈرتے ہوں، ڈرنے دینا
اس کو تبلیغ نہ کرنا جو بہت روتا ہو
ظلم مت کرنا ، خدارا اسے مرنے دینا
ایک قانون بنایا ہے سو خوش رہتاہوں
جو بھی وعدوں سے مکر جائے، مکرنے دینا
دل محلہ ہے ، کوئی آئے ، گزر جائے ، رہے
اس محلے کوئی کچھ بھی کرے، کرنے دینا
میرا ہر فیصلہ اک اچھی خبر لاتا ہے
میں بکھرنے بھی لگوں، مجھ کو بکھرنے دینا۔۔!!

یادیں ( اپنے انتہائ عزیز دوست کی یاد میں)
یادوں سےتیری یاد فسانے آئے-
بچپن کے آنکھوں میں زمانے أۓ
بھولا نہ کبھی اپنا تو وعدہ
وعدے تجھےکیا کیا نہ نبھانے آئے۔
ملاقات جو ھوئ تو فسانہ نکلا
فسانہ وہ ھنسی آج ستانے أۓ
پیوستہ ھیں تجھ سے میری یادیں کتنی
کیا کیا نہ تیرے یاد فسانے آئے
دستک جو تیرے ھاتھ سے ھوئ در پر
میں نے سمجھا کہ تم غزل سنانے آئے
اس طور پہ آتے ھومیرے خواب میں جیسے
غم فرقت کی ھو آگ بجھانے آئے
دل ھے سوچ کا أک گہرا دریا ابھری
جو کوئ سوچ تو یار پرانے آئے
چھوڑ کے گھر اپنا تم شہر میں آئے
گھر اور نیا اپنی محبت کا بسانے آئے
خود ھی آجاتے تھے کبھی چلتے پھرتے
اب نہ آنے کے تجھے لاکھ بہانے آئے
ھوتے ھیں بہت لوگ مگر تم نہیں ھوتے
بسیار دفعہ لوٹ زمانے آۓ
بہت ذوق سے لکھیں تو نے نظمیں, غزلیں
تیرے نغمے اور یاد ترانے آئے
کالم بھی لکھے تو نے قلم ھاتھ میں رکھا
اخبار کی دتیا میں شہرت کے فسانے آئے
فرصت جو ھو تمکو پھر لوٹ کےأؤ
دیکھو تو ذرا موسم ھیں سہانے آئے
مسکراتے ھوۓ دیکھا تجھے ھنستے دیکھا
سپنوں میں تیرے کیا کیا نہ ٹھکانے آئے
اوجھل جو ھوۓ أنکھ سے
انورتیری یادوں کے انمول خزانے آئے

وہ دن پرانے کوئی تو لے کے آؤ
بارش کے پانی میں کشتی کوئی تو لے کے آؤ
وہ یار ساتھ بیٹھے چرچا کرتے ہیں
اتوار تُو ہر اتوار آتا ہے کوئی تو بچپن لے کے آؤ
وہ زندگی کا مزا کوئی تو لے کے آؤ
پیار محبت ہماری کھیل سے کوئی تو لے کے آؤ
وہ سُہانے گزرے ہوئےلمحے کوئی تو لے کے آؤ
وہ دن پرانے کوئی تو لے کے آؤ

عمر رفتہ
میری عمر رفتہ کو پیغام دینا
کرے بات کوئ نہ بیشک وہ مجھ سے
صورت دکھا دے وہ اک بار آ کے
چپکے سے آ کے وہ مجھکو چرا لے
چرا کر مجھے اپنے دل میں بسا لے
محبت کواسکی مجھےدیکھنا ھے
باھوں میں لیکرگلے سے لگا لے
وہ اک با ر أکے
اگر بات مانے
أۓ اگر وہ
زرا پوچھ لینا
اسکو بٹھا کر
بہانہ بنا کر
فرصت ملے تو محبت سے اسکو
پوچھنا ھاتھ اسکا پکڑ کے
واپس مجھے میرا بچپن وہ لا دے
ٹھنڈی ھواؤں کے جھونکے وہ لا دے
بلاۓ ذرا وہ میرے دوستوں کو
جو لوگ زینت تھے میرےچمن کی
ضمانت تھے گاؤں میں وہ اک امن کی
بٹھا کے ذرا پھر اسے پوچھنا تم
واپس مجھے میرا بچپن وہ لا دے
ھاتھ سے اپنے أکے وہ
چاۓ پلا دے
مجھے اسکی یادوں نے گھیرا ھوا ھے
میرے دل میں اس نے بسیرا کیا ھے
پوچھنا پیار سے مسکرا کر ذرا تم
خیالوں میں اسکے کبھی ھوں میں أیا
خوابوں میں اس نے کبھی ھے بلایا
مجھے یاد کرکے ھے خود کو رولایا
کبھی بات کرکے ھے مجھ کو ہنسایا
میری عمر رفتہ کو پیغام دینا

میرے دوستو مجھ کو آواز دینا
بزرگوں کے منہ سے وہ پریوں کی باتیں
بھوتوں کی سننا ڈراؤنی کہانی
کبھی خوف کھانا
کبھی مسکرانا
سناؤں کسے یہ میں سچی کہانی
عہد میرے بچپن کا لا دے مجھے
شہد مجھ کو خالص پلا دے مجھے
بسے لوگ سارے عدم کے شہر میں j
اللہ کرے ہو ں وہ کرم کے شہر میں
نشاں انکی قبروں کے بتلا رھے ھیں
مجھے اب وہ سارے یاد آ رہے ہیں
انساں مسافر ھے دو چار دن کا
ھو پھول جیسےاجڑے چمن کا
جائے جو بچپن تو آئے جوانی
انور یہ ھے ایک لمبی کہانی
اسے کوئ اکے سناتا رھے گا
خوشی سے کوئ گیت گاتا رھے گا
مگر ھاتھ سے وقت جاتا رھے گا
ھمیں گیت اپنا سناتا رھے گا
صدیوں سے ایسا ھوتا رھا ھے
أتا رھا کوئ جاتا رھا ھے

میری عمر رفتہ کو پیغام دینا
ذرا پوچھ لینا
بہانہ بناکے
بچپن کی باتیں جوانی کے قصے
وہ پرانی کہانی کا بھی ذکر کرنا
وہ رنجشں وہ غصہ
پھر پھول لیکر محبت کے أنا
ھنستے ھوۓ مسکراتے ھوۓ
وہ رنجش کی باتیں سب بھول جانا
محبت سے باھم گلے سے لگانا
بچپن کی یادیں کرتی ھیں پیچھ
ٹہر کر ذرا پیچھے جب دیکھتا ھوں
قدم روک کر مجھے دیکھتی ھیں
میں تھک ھار کر چلا جا رہا ھوں
بچپن میرا مجھ سے بہت دور ھے
ملاقات کرنے سے مجبور ھے
کہیں راستے میں ملے گر تجھے
تو بچپن سے میرے سب پوچھ لین
اسکا گلی میں تو گھر پوچھ لینا
اک پیڑ تھا گاؤں کے چوک میں
گھنا جس کا سایہ تھا ھر پیڑ سے
نہ چھاؤں ھے اسکی نہ وہ رہ گیا ھے
بچپن میرا یہ بھی سہہ گیا ہے
عہد میرے بچپن کا لا دے مجھے
دو گھونٹ شربت بلا دے مجھے
اے زندگی مجھ کو واپس تو لا دے
میرا کھویا بچپن تو مجھ کو ملا دے
میری عمر رفتہ سے تیرا ھے رشتہ
عمر رواں سے بھی ھے تیرا ناتا
پرانے دنوں کی پرانی کہانی
پیڑوں کے سائے میں مجلس لگانا
کہانی وہ ایک دوسرے کو سنانا
ہنسنا ہنسانا قہقے لگانا
آتا ھے یاد اب وہ گزرا زمانہ
چاند کی چاندنی وہ کہاں رہ گئی
ستاروں کے جھرمٹ اب وہ کہاں ھیں
وہ منظر سہانے وہ بارش کا موسم
قوس قزاح کا نمودار ھونا
دیکھنا ھنسنا مسکرانا
بارش کے پانی سے خوشبو کا أنا
ھوتا یہ کیسا تھا منظر سہانا
آتی ہیں اب یاد گاؤں کی باتیں
محبت کی باتیں وہ چاہت کی باتیں

أۓ دھوپ کا موسم تو گھبرا نہ جانا تم
میرا سایہ سمجھ لینا مجھے أواز دینا تم
گدا گر در پہ أ جاۓ تو اسکو جھڑک نہ دینا
خطا ھرگز نہ کرنا یہ مجھے أواز دینا تم
نیت میں خرابی ہو تو ہوتا کام رک جائے
ھمیشہ یاد رکھنا یہ مجھے أواز دینا تم
یادوں میں تیری أکے اگر رک جاؤں رستے میں
اسی تم پیڑ کے نیچے مجھے آواز دینا تم
دل میں زھر مت رکھنا شیریں بات کرنا تم
جدا اپنوں سے مت ہونا مجھے آواز دینا تم
سماں برسات کا ھوگا گھٹائیں گھر کے أئیں گی
اسی رم جھم کے موسم میں مجھے أواز دینا تم
جوانی یاد جب أۓ یا بچپن خواب میں أۓ
جوانی پر ہنس دینا مجھے أواز دینا تم
کرنا یاد خوشیوں کو غموں کو بھول جانا تم
ہنسنا سیکھ ھی لینا مجھے آواز دینا تم
نہ لانا خوف کو دل میں اکیلے میں نہ ڈر جانا
ذرا تم حوصلہ کرنا مجھے آواز دینا تم
پریشاں حال ھو جاؤ مصیبت کوئ أ جاۓ
اکیلے خود کو مت سمجھو مجھے أواز دینا تم
زمانہ مال کو دیکھے خدا اعمال کو دیکھے
جلانا علم کی مشعل مجھے آواز دینا تم
اگر مشکل پڑے سر پر حل کر سکو نہ تم
گھبرا نہ جانا تم مجھے أواز دینا تم
کانٹے تلخیوں اور رنجشوں کے سب
سبکو کو طاق میں رکھنا مجھے آواز دینا تم
وحشت سی لگے دلکو تو نوک پر رکھنا
خدا کا نام لینا تم مجھے آواز دینا تم
ھو شکوہ گر تجھے کوئی انور بھول جانا تم
شکایت اور کچھ کرکے مجھے أواز دینا تم

دکھ درد محبت کا سراپا نکلا
وہ شخص زمانےکا شناسا نکلا
فاصلہ اس نے رکھا دریا کے کناروں جیسا
رفتہ رفتہ وہ اپنا سا نکلا
ہاتھ پہ اسکے جو خراشیں دیکھیں
پھولوں سے کانٹوں کا خلاصہ نکلا
چپ چاپ وہ رھتا تھا نظریں جھکائے
محفل میں جو دیکھا تو پٹاخہ نکلا
بدستور رھےبرسوں سے مراسم اپنے
دل سے نہ کبھی اسکا دلاسہ نکلا نکلا
بادل کہیں أکے گرجا ھو گا
کھڑکی سے جو دیکھا تو دھماکہ نکلا
شب تار یک تھی کون آیا ہوگا
دروازہ جو کھولا تو سناٹا نکلا
بچپن تو گیا گزری جوانی
دکھ درد مصیبت کا بڑھاپا نکلا
ناداں تھا وہ جس بات پہ نازاں
انور سے محبت کا اثاٹہ نکلا

یارو نئے موسم نے یہ احسان کیے ہیں
اب یاد مجھے درد پرانے نہیں آتے
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے
اس شہر کے بادل تری زلفوں کی طرح ہیں
یہ آگ لگاتے ہیں بجھانے نہیں آتے۔

ے بچپن کو جوانی ترستی رہ گئی
عمر رفتہ نے بڑھاپے کا اشارہ کر دیا
زرد پتوں کی طرح یہ خاک میں مل جائیگا
زندگی ایک کھیل ہے انسان بیچارہ ہے کیا

بچپن گیا یارو جوانی ترستی رہ گئی
عمر رفتہ نے بڑھاپے کا اشارہ کر دیا

ایک مدت سے تجھے دل میں بسا رکھا ہے
میں تجھے یاد دہانی سے الگ رکھتا ہوں
وہ جو بچپن میں ترے ساتھ پڑھا کرتا تھا
ان کتابوں کو نشانی سے الگ رکھتا ہوں
تذکرہ اس کا غزل میں نہیں کرتا ہوں رئیسؔ
میں اسے لفظ و معانی سے الگ رکھتا ہوں

خوابوں میں بچپن کو صد بار ھے دیکھا
اس وقت کی نبضوں کی رفتار کو دیکھا
خوابوں نے ھمیں کیا کیا نہ دکھلایا
سرحد پار جالندہر کے بازار کو دیکھا
گلیاں اور بازارمیں ہندو سکھ دیکھے
شہر کے اک چوک پہ ناصر دربار کو دیکھا
فصلیں تھیں جوبن پر پھول تھےلہراتے
دو چار قدم أگے گھر بار کو دیکھا
امی بھی ابو بھی ہر فرد تھا گھر میں
مشتاق کو بھی دیکھا مختار کو دیکھا
اب یادنہیں کسں نے کیا بات کری تھی
امی اور ابو کو بڑا ھنستے دیکھا
ہر شے تھی نظر أتی بچپن کے زمانے کی
حاضر کے زمانے میں انوار کو دیکھا
بچھڑو نہ ابھی ھم سے سو بار کہا تھا
ضد دیکھی جوانی کی اصرار کو دیکھا
انجانے طریقےسے بدل جاتی
ھے صورت
قدرت کے عجب ھم نے اسرار کو دیکھا
مفلس سے کہا اس نے سر اپنا جھکالو
اس دنیا کے ھم نے سردار کو دیکھا
اک شخص بہانوں سے ملتا تھا
روزانہ
اس شخص کے بھی ھم نے پندار کو دیکھا
بچپن میں جوانی تھی اک خواب سنہرا
جب آئی جوانی تو اختیار کو دیکھا
خواب سہانا تھا کہا اس نے جگا کر
خوابوں کے کبھی انور اقرار کو دیکھا

اک شخص سدا یادوں کا مہمان بنا ہے
برسوں سے بچھڑا وہ أچ ملا ہے
شکوہ نہ شکایت کوئ نہ ہجر کا رونا
لوٹا جو پاس میرے مسکرا کے ملا ہے
پھول سا نازک وہ شخص ہے ایسا
چاند وہ دریا کا جسے پتھر نہ لگا ہے
بےخبر محبٹ سے نہ عشق سے واقف
انجان زمانے کا محبت میں پڑا ہے
ہو جاتی ہے محبت یونہی ہوتے ہوتے
کہا اسکو کئ بار، مگر ضد پہ اڑا ہے
نہ جانے وہ غالب کو نہ میر کو جانے
عشق نگینے کی طرح دل میں جڑا ہے
دامن پہ لگا داغ تو دیکھا ہم نے
نہ تیر نظر أیا جو دل پہ لگا ہے
ہمراز ہے بچپن کا محرم ہے پرانا
پوچھا اسے کیسے ہو ہنس پڑا ہے
اب چلتے ہیں گھر انور شام ہوئ ہے
تھک ہار کے سورج اب ڈوب چلا ہے

مرے خوابوں سے اوجھل اس کا چہرہ ہو گیا ہے
میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے
یقیناً ہم نے آپس میں کوئی وعدہ کیا تھا
مگر اس گفتگو کو ایک عرصہ ہو گیا ہے
مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز
چلو عرفانؔ اٹھ جاؤ سویرا ہو گیا ہے

جاگنا سائے میں اور دھوپ میں سونا اس کا
اس کے احساس سے ثابت تھا نہ ہونا اس کا
دل شکستہ ہو وہ کیوں سر پھری باتوں سے مری
میں نے بچپن میں بھی توڑا تھا کھلونا اس کا
اک ستم پیشہ طبیعت کا پتہ دیتا ہے
کاغذی ناؤ کو بارش میں ڈبونا اس کا
پھر کوئی یاد چھڑا لیتی ہے انگلی مجھ سے
یاد آتا ہے کسی بھیڑ میں کھونا اس کا
ایک ہی ٹوٹے ہوئے پل کے تھے راہی دونوں
موت سے بڑھ کے تھا وہ دور سے رونا اس کا
خود شناسی کا کوئی علم نہ تھا آہؔ اسے
لوگ مٹی میں ملاتے رہے سونا اس کا

یہ اور بات دور رہے منزلوں سے ہم
بچ کر چلے ہمیشہ مگر قافلوں سے ہم
ہونے کو پھر شکار نئی الجھنوں سے ہم
ملتے ہیں روز اپنے کئی دوستوں سے ہم
برسوں فریب کھاتے رہے دوسروں سے ہم
اپنی سمجھ میں آئے بڑی مشکلوں سے ہم
منزل کی ہے طلب تو ہمیں ساتھ لے چلو
واقف ہیں خوب راہ کی باریکیوں سے ہم
جن کے پروں پے صبح کی خوشبو کے رنگ ہیں
بچپن ادھار لائے ہیں ان تتلیوں سے ہم
کچھ تو ہمارے بیچ کبھی دوریاں بھی ہوں
تنگ آ گئے ہیں روز کی نزدیکیوں سے ہم
گزریں ہمارے گھر کی کسی رہ گزر سے وہ
پردہ ہٹائیں دیکھیں انہیں کھڑکیوں سے ہم
جب بھی کہا کہ یاد ہماری کہاں انہیں
پکڑے گئے ہیں ٹھیک تبھی ہچکیوں سے ہم

موت آتی ہے غم آتا ہے عذاب آتا ہے
ساتھ ان آفتوں کو لے کے شباب آتا ہے
آفتیں آئیں گی ہو جائے گا محشر برپا
شوخیاں ساتھ لئے ان کا شباب آتا ہے
ایک ہی بار جوانی ہو قیامت آ جائے
ناز کرتا ہوا کیوں ان کا شباب آتا ہے
اس کے آنے کی نہ جانے کی خبر ہوتی ہے
جاتا بھی ویسے ہی ہے جیسے شباب آتا ہے
یوں تری طرح قیامت نہیں ڈھاتا کوئی
سب ہی پر عالم ہستی میں شباب آتا ہے
شعلہ رویوں کی محبت میں پھنکا جاتا ہوں
دل جلانے کے لئے عہد شباب آتا ہے
ہر ادا بن کے قضا جان لئے لیتی ہے
ان کا اٹھکھیلیاں کرتا جو شباب آتا ہے
پیش خیمہ ہے جوانی کا کسی کی محرم
جوبن اٹھ اٹھ کے یہ کہتا ہے شباب آتا ہے
چھینے جائیں گے جگر لوٹ دلوں کی ہوگی
لشکر ناز لئے ان کا شباب آتا ہے
تم پہ مرتے تو ہیں اور اس سے سوا کیا ہوگا
کیوں ڈراتے ہو یہ کہہ کہہ کے شباب آتا ہے
خاک ہو مجھ کو خوشی ان کے جواں ہونے کی
میری ہستی کے مٹانے کو شباب آتا ہے
دیکھیے ہوتی ہے اب کون سی آفت برپا
جس کا بچپن ہے غضب اس پہ شباب آتا ہے
اس قدر کیوں دل عشاق ہیں گھبرائے ہوئے
کس ستم کیش پہ عالم میں شباب آتا ہے
دیکھیے گرتی ہے کتنوں کے دلوں پر بجلی
سنتے ہیں دھوم سے اس بت کا شباب آتا ہے
یہ جوانی ہی تو ہے گلشن ہستی کا ابھار
اور ہو جاتی ہے صورت جو شباب آتا ہے
شوخیوں نے تری بے چین کیا کچھ ایسا
دیکھنے عالم طفلی کو شباب آتا ہے
جس طرح دھوپ سے آ جائے کوئی سایہ میں
اتنی سی دیر کو انساں پہ شباب آتا ہے
پردہ پردہ میں جتاتا ہے یہ سینے کا ابھار
لے کے کچھ مٹھیوں میں ان کا شباب آتا ہے
اپنی بربادی کا پہلے ہی سے ماتم کر لیں
کہتی ہیں ان کی ادائیں کہ شباب آتا ہے
سیکڑوں منتیں اس دن کے لئے مانی تھیں
شکر کرتا ہوں کہ اب اس پہ شباب آتا ہے
رہتے ہیں خلق میں افسانے ستم کے برسوں
اور دو دن کو حسینوں پہ شباب آتا ہے
ملنے والا ہے قیامت کا ستم کو رتبہ
حسن اس بت کا بڑھانے کو شباب آتا ہے
قہر کی اس کے بیاں ہو نہیں سکتی حالت
اس سے ہی پوچھئے جس پر کہ شباب آتا ہے
اور اے بزمؔ کسی کا نہیں کچھ بگڑے گا
میری ہی ریڑھ لگانے کو شباب آتا ہے

دوستوں کی بزم میں ساغر اٹھائے جائیں گے
چاندنی راتوں کے قصے پھر سنائے جائیں گے
آج مقتل میں لگا ہے سرپھروں کا اک ہجوم
پھر کسی قاتل کے جوہر آزمائے جائیں گے
ذکر پھر گزرے زمانوں کا وہاں چھڑ جائے گا
وقت کے چہرے سے پھر پردے اٹھائے جائیں گے
چل پڑے گا پھر بیاں اک چاند سے رخسار کا
یاد پھر زلفوں کے پیچ و خم دلائے جائیں گے
بات چل نکلے گی پھر اقرار کی انکار کی
پھر وہی بچپن کے بھولے گیت گائے جائیں گے
یاد آئیں گے فسانے یوں تو سب کو بزم میں
کچھ کہیں گے اور کچھ بس مسکرائے جائیں گے
جو اندھیرے ڈھونڈھتے ہیں منہ چھپانے کے لئے
روشنی کے روبرو اک دن وہ لائے جائیں گے
موت نے ہر بزم کی صورت بدل ڈالی یہاں
رہ گئے کچھ یار سو وہ بھی اٹھائے جائیں گے
آ چلیں عازمؔ پرانے دوستوں کے درمیاں
یاد کی بستی میں پھر کچھ گل کھلائے جائیں گے

سلسلے سب رک گئے دل ہاتھ سے جاتا رہا
ہجر کی دہلیز پر اک درد لہراتا رہا
قلب کا دامن جنوں میں بھی نہ چھوڑا عقل نے
دھڑکنوں کی چاپ سن کر مجھ کو خوف آتا رہا
مسئلہ اس کی انا کا تھا کہ شہرت کی طلب
اس کا ہر احسان مجھ پر نیکیاں ڈھاتا رہا
میں رہا بے خواب خوابوں کے طلسمی جال میں
وہ مری نیندیں چرا کر لوریاں گاتا رہا
صبر کی تکرار تھی جوش و جنون عشق سے
زندگی بھر دل مجھے میں دل کو سمجھاتا رہا
روز آ کر میری کھڑکی میں مرے بچپن کا چاند
رکھ کے سر اک نیم کی ٹہنی پہ سو جاتا رہا
ہجر کے بادل چھٹے جب دھوپ چمکی عشق کی
وصل کے آنگن میں بھنورا گل پہ منڈلاتا رہا
زندگی بے باک ہو کر تجھ سے آگے بڑھ گئی
اور عازمؔ تو لکیروں پر ہی اتراتا رہا

تڑپتا ہے تری فرقت میں کوئی نیم جاں ہو کر
ستم ہے پھیر لینا آنکھ تیرا مہرباں ہو کر
زباں گو سامنے ان کے نہ تھی منہ میں مرے گویا
خموشی کہہ رہی تھی حال دل میرا زباں ہو کر
میں باور کر نہیں سکتا بت کمسن کے وعدوں کو
یہ ہیں بچپن کی باتیں بھول جائے گا جواں ہو کر
نہیں دو چار تنکوں سے فلک کو دشمنی لیکن
اسے ضد ہے رہے کیوں یہ ہمارا آشیاں ہو کر
مزے سے عشق کے غافل رہے دونوں کے دونوں ہی
وہ مشغول جفا ہو کر میں مصروف فغاں ہو کر
اگر مشق سخن تیری یوں ہی جاری رہی بیخودؔ
تو رنگ افروز محفل ہوگا تو رنگیں بیاں ہوگا

بچپن کا دور عہد جوانی میں کھو گیا
یہ امر واقعہ بھی کہانی میں کھو گیا
لہروں میں کوئی نقشہ کہاں پائیدار ہے
سورج کے بعد چاند بھی پانی میں کھو گیا
آنکھوں تک آ سکی نہ کبھی آنسوؤں کی لہر
یہ قافلہ بھی نقل مکانی میں کھو گیا
اب بستیاں ہیں کس کے تعاقب میں رات دن
دریا تو آپ اپنی روانی میں کھو گیا
تابشؔ کا کیا کہیں کہ وہ زہرہ گداز شخص
آتش فشاں کا پھول تھا پانی میں کھو گیا

میں نے اپنی روح کو اپنے تن سے الگ کر رکھا ہے
یوں نہیں جیسے جسم کو پیراہن سے الگ کر رکھا ہے
میرے لفظوں سے گزرو مجھ سے درگزرو کہ میں نے
فن کے پیرائے میں خود کو فن سے الگ کر رکھا ہے
فاتحہ پڑھ کر یہیں سبک ہو لیں احباب چلو ورنہ
میں نے اپنی میت کو مدفن سے الگ کر رکھا ہے
گھر والے مجھے گھر پر دیکھ کے خوش ہیں اور وہ کیا جانیں
میں نے اپنا گھر اپنے مسکن سے الگ کر رکھا ہے
اس پہ نہ جاؤ کیسے کیا ہے میں نے مجھ کو خود سے الگ
بس یہ دیکھو کیسے انوکھے پن سے الگ کر رکھا ہے
عمر کا رستہ اور کوئی ہے وقت کے منظر اور کہیں
میں نے بھی دونوں کو بہم بچپن سے الگ کر رکھا ہے
درد کی گتھی سلجھانے پھر کیوں آئے ہو خرد والو؟
بابا! ہم نے تم کو جس الجھن سے الگ کر رکھا ہے

سائے پھیل گئے کھیتوں پر کیسا موسم ہونے لگا
دل میں جو ٹھہراؤ تھا اک دم درہم برہم ہونے لگا
پردیسی کا واپس آنا جھوٹی خبر ہی نکلی نا
بوڑھی ماں کی آنکھ کا تارہ پھر سے مدھم ہونے لگا
بچپن یاد کے رنگ محل میں کیسے کیسے پھول کھلے
ڈھول بجے اور آنسو ٹپکے کہیں محرم ہونے لگا
ڈھور ڈنگر اور پنکھ پکھیرو حضرت انساں کاٹھ کباڑ
اک سیلاب میں بہتے بہتے سب کا سنگم ہونے لگا
سب سے یقین اٹھایا ہم نے دوست پڑوسی دن تاریخ
عید ملن کو گھر سے نکلے شور ماتم ہونے لگا

پہلے پیدل پیدل جایا کرتے تھے
پھر دونوں اک بس میں بیٹھا کرتے تھے
وہ زلفوں کو پیچھے کرتی رہتی تھی
پھر بھی اس کے گیسو بکھرا کرتے تھے
وہ اول تھی پڑھنے لکھنے میں اور ہم
پیچھے سب سے پیچھے بیٹھا کرتے تھے
نام پکارا جاتا تھا جب اس کا تو
یس سر یس سر ہم بھی بولا کرتے تھے
دہرے کام کی عادت بچپن سے ہی تھی
اس کی کاپی بھی ہم لکھا کرتے تھے
اس کی نظریں رہتی تھیں بس ٹیچر پر
ہم تو کیول اس کو دیکھا کرتے تھے

انا رہی نہ مری مطلق العنانی کی
مرے وجود پہ اک دل نے حکمرانی کی
کرم کیا کہ بکھرنے دیا نہ اس نے مجھے
مرے جنوں کی حفاظت کی مہربانی کی
پہاڑ کاٹنا اک مشغلہ تھا بچپن سے
کڑے دنوں میں بھی تیشے سی نوجوانی کی
بدن کہ اڑنے کو پر تولتا پرندہ سا
کسی کمان سی چڑھتی ندی جوانی کی
کمالؔ میں نے تو در سے دیے اٹھائے نہیں
اٹھائی اس نے ہی دیوار بد گمانی کی

اشعار میں مفہوم فسانے میں کہانی
مت ڈھونڈ کہ الجھاتے ہیں الفاظ و معانی
صد شکر وہ تعبیر سے مشروط نہیں تھیں
بچپن میں سنا کرتے تھے جو خواب کہانی
وہ زندگی جو پانے اور کھونے سے سوا ہو
زیب اس کو نہیں دیتی کبھی مرثیہ خوانی
فطرت کے تقاضے پہ نہ کر راہ عمل بند
اقبال کی یہ بات کسی نے بھی نہ مانی
تکمیل جنوں اب بھی ہے اس مصرع سے مشروط
اے چاند مبارک ہو تجھے رات سہانی
خوش حالیاں دہلی کی بجا آج بھی لیکن
یاد آتی ہے کلکتے کی وہ شوخ جوانی
پردیس میں بس ذہن سے آباد ہے عاصمؔ
دل سے نہیں کر پایا کبھی نقل مکانی

رفتہ بہ رفتہ کھل گئے جتنے کمال تھے
اس کے کہے ہوئے سبھی جملے کمال تھے
اس عمر کا نشہ تھا شرابوں سے بھی سوا
دیکھے تھے ان دنوں جو وہ سپنے کمال تھے
کرتے تھے کس قدر وہ بزرگوں کا احترام
کتنے ہمارے دور کے بچے کمال تھے
گو حسن ماند کر رہے تھے شہر کا مگر
دیوار پر بنے ہوئے نقشے کمال تھے
عزت سے پیش آتے تھے ہر اجنبی کے ساتھ
اس شہر کے مکین بھی کتنے کمال تھے
عشاق ہجر زاد نے محبوب کے لیے
لکھے فصیل شہر پہ جملے کمال تھے
ہر شخص ہو چکا تھا اسیر اس کے حسن کا
اس حسن بے مثال کے جلوے کمال تھے
اک دوسرے کو مارنا پھر روٹھنا بہت
وہ بچپنے کے جھگڑے بھی کتنے کمال تھے
میرا تو کوئی شعر کسی کام کا نہیں
اس نے تھے جو سنائے وہ نغمے کمال تھے

لوگوں کے درد اپنی پشیمانیاں ملیں
ہم شاہ غم تھے ہم کو یہی رانیاں ملیں
صحراؤں میں بھی جا کے نظر آئے سیل آب
دریا سے دور بھی ہمیں طغیانیاں ملیں
آیا نہ پھر وہ دور کہ جی بھر کے کھیلئے
بچپن کے بعد پھر نہ وہ نادانیاں ملیں
رہ کر الگ بھی ساتھ رہا ہے کوئی خیال
تنہائی میں بھی خود پہ نگہبانیاں ملیں
پانی کے ساتھ عکس بھی بہہ کر چلے گئے
سوکھی ندی تو پھر وہی ویرانیاں ملیں
اپنی ہی آنکھ پر گئے لمحوں کا بوجھ تھا
اس کی نظر میں تو وہی جولانیاں ملیں
بیٹھا رہا ہمائے ستم سر پہ ہی عدیمؔ
ہر دشت کرب کی ہمیں سلطانیاں ملیں

کالج کا دالان نہیں ہے پیارے ظالم دنیا ہے
اور یہاں سچ بولنے والا سچ میں سب سے جھوٹا ہے
میں تیرے دیدار کی خاطر آ جاتا ہوں خوابوں تک
ورنہ اس لذت کے علاوہ نیندوں میں کیا رکھا ہے
چمکیلے کپڑوں سے پرکھا مت کر انسانی لہجے
گہرے کنویں میں اجلا پانی کھرا بھی ہو سکتا ہے
وعدہ کر اے دل کش لڑکی وصل سے لے کر ہجر تلک
رشتہ چاہے جیسا بھی ہو خرچہ اپنا اپنا ہے
میں تیرے شکوے بھی جاناں بالکل ایسے سنتا ہوں
جیسے بچپن میں کوئی بچہ غور سے قصے سنتا ہے
میرے خفا ہونے پر اس کا وہ الٹا فلمی جملہ
پیار سے ڈر نہیں لگتا صاحب تھپڑ سے ڈر لگتا ہے
جب لوگو نے سودائی کی لاش اتاری تب بولے
یہ تو زندہ مر ہی چکا تھا پنکھے سے کیوں لٹکا ہے
میں اس ڈر سے کافی پینے تیرے ساتھ نہیں جاتا
تجھ کو تو کافی کے بہانے مجھ سے لڑنا ہوتا ہے
مجھ کو بونے تھے دل میں اور کسی کے غم آفیؔ
لیکن دل کی سرخی زمیں پر اب تک اس کا قبضہ ہے

ایک اجلی امنگ اڑائی تھی
ہم نے تم نے پتنگ اڑائی تھی
شام بارش میں تیرے چہرے سے
ابر نے قوس رنگ اڑائی تھی
میں نے بچپن کی خوشبوئے نازک
ایک تتلی کے سنگ اڑائی تھی
اپنی ہی ازرہ تفنن طبع
دھجیٔ نام و ننگ اڑائی تھی
خواب نے کس خمار کی خاشاک
درمیان پلنگ اڑائی تھی
کوئی بیرونی آنچ تھی جس نے
اندرونی ترنگ اڑائی تھی
چھین کر ایک دوسرے کی بقا
ہم نے تضحیک جنگ اڑائی تھی
اہتمام دھمال کھو بیٹھا
کس نے خاک ملنگ اڑائی تھی
میرے چاروں طرف لبوں کی دھنک
اس نے لگتے ہی انگ اڑائی تھی
ہم نے پوچھا نہیں ہماری انا
کس سے ہو کر دبنگ اڑائی تھی
پھلجھڑی تھی کہ تیرے کوچے میں
تان گا کر تلنگ اڑائی تھی
خود سے تھا بیر پانی میں رہ کر
ہم نے موج نہنگ اڑائی تھی
ایک دن ہم نے ہاتھ پھیلا کر
چادر پائے تنگ اڑائی تھی
پرخچے چاروں اور بکھرے تھے
اک بدن نے سرنگ اڑائی تھی
پھینک کر اپنے دوستوں کی طرف
عز و جاہ خدنگ اڑائی تھی
ذائقہ جا سکا نہ منہ سے نویدؔ
دعوت شوخ و شنگ اڑائی تھی

ذرا ذرا سی کئی کشتیاں بنا لینا
وہ اب کے آئے تو بچپن رفو کرا لینا
تمازتوں میں مرے غم کے سائے میں چلنا
اندھیرا ہو تو مرا حوصلہ جلا لینا
شروع میں میں بھی اسے روشنی سمجھتا تھا
یہ زندگی ہے اسے ہاتھ مت لگا لینا
میں کوئی فرد نہیں ہوں کہ بوجھ بن جاؤں
اک اشتہار ہوں دیوار پر لگا لینا
رفاقتوں کا توازن اگر بگڑ جائے
خموشیوں کے تعاون سے گھر چلا لینا

اس اندھے قید خانے میں کہیں روزن نہیں ہوتا
بکھر جاتے طبیعت میں اگر بچپن نہیں ہوتا
تجھے کیا علم کے ہر چوٹ پہ تارے نکلتے ہیں
وہ آدم ہی نہیں جس کا کوئی دشمن نہیں ہوتا
انہیں بھی ہم نے سیاروں سے واپس آتے دیکھا ہے
جہاں بس عشق ہوتا ہے کوئی ایندھن نہیں ہوتا
ہماری نا مرادی میں وفاداری بھی شامل ہے
اگر کچھ اور ہوتے تو یہ پیراہن نہیں ہوتا
بہت ممنون ہوں پھر بھی اندھیرے کم نہیں ہوتے
اگر تم میرے گھر ہوتے تو وہ روشن نہیں ہوتا

جس سمے تیرا اثر تھا مجھ میں
بات کرنے کا ہنر تھا مجھ میں
صبح ہوتے ہی سبھی نے دیکھا
کوئی تا حد نظر تھا مجھ میں
ماں بتاتی ہے کہ بچپن کے سمے
کسی آسیب کا ڈر تھا مجھ میں
جو بھی آیا کبھی واپس نہ گیا
ایسی چاہت کا بھنور تھا مجھ میں
میں تھا صدیوں کے سفر میں احمدؔ
اور صدیوں کا سفر تھا مجھ میں

یادوں کی تجسیم پہ محنت ہوتی ہے
بیکاری بھرپور مشقت ہوتی ہے
ایسا خالی اور اتنا گنجان آباد
آئینے کو دیکھ کے حیرت ہوتی ہے
دیواروں کا اپنا صحرا ہوتا ہے
اور کمروں کی اپنی وحشت ہوتی ہے
اس کو یاد کرو شدت سے یاد کرو
اس سے تنہائی میں برکت ہوتی ہے
بچپن جوبن اور بڑھاپا اور پھر موت
سب چلتے رہنے کی عادت ہوتی ہے
جینا تو بس لفظ ہے اک بے معنی لفظ
موت سے پہلے موت کی فرصت ہوتی ہے
ایسی آزادی اب اور کہاں ہوگی
عشق میں سب کرنے کی اجازت ہوتی ہے
آنسو موتی جگنو تارہ سورج چاند
ہر قطرے کی اپنی قسمت ہوتی ہے

بجلی کڑکی تو میں ڈر سا گیا
سر سے اک آسماں گزر سا گیا
بات غیرت پہ آ گئی تھی آج
آج کچھ دیر میں تو مر سا گیا
یاد ہے ایک ایک محرومی
مجھ میں بچپن کہیں ٹھہر سا گیا
ظلم معصوم پر کیا کس نے
اک ننھا بدن ٹھٹھر سا گیا
حسن جنت سے اترا ہو جیسے
دور ہی سے مجھے وہ ترسا گیا
بات کچھ اس نے ایسی کہہ دی آج
دل میں خنجر مرے اتر سا گیا
اس کی خوشبو نے کر دیا جادو
گھر مرا سوزؔ آج بھر سا گیا

کیا کیا ان باکس میں اگلتے ہیں
یہ جو بن کر شریف بیٹھے ہیں
آپ موقعہ پرست نئیں ہیں سو
آپ کو ایک موقع دیتے ہیں
دل ترے منہ پہ مارنے کے لیے
اس کے میسج سنبھال رکھے ہیں
کھیل کھلیں گے آپ ہم سے بھی
ہم تو بچپن سے ساتھ کھیلے ہیں
سکھ کی کھڑکی یا غم کا دروازہ
آپ دل میں کہاں سے آئے ہیں
کچھ تو مجھ سے برا کیا ہوگا
آپ جو مجھ کو اپنے لگتے ہیں
خواب آتے رہیں ہمیں اس کے
پھول تکیے پہ رکھ کے سوتے ہیں
اس نے یوں کہہ دیا تو اس نے یوں
چھوٹے لوگوں کے دکھ بھی چھوٹے ہیں

تہ داماں چراغ روشن ہے
زیست میری بقا کا بچپن ہے
شکوۂ ظلم و جور کس سے کریں
آدمی آدمی کا دشمن ہے
ایک الاؤ ہے یہ دہکتا ہوا
تمہیں جس پر گمان گلشن ہے
پھنک رہا ہے چمن چمن لیکن
آپ فرما رہے ہیں ساون ہے
کون ہستی کے سلسلے کو بجھائے
ایک سے ایک دیپ روشن ہے
زندگی سے کہاں فرار سلامؔ
سینۂ مرگ میں بھی دھڑکن ہے

تم سے آتا نہیں جدا ہونا
تم مری آخری سزا ہونا
جس کو تم روز دکھ ہی جاتے ہو
اس کی قسمت ہے آئنہ ہونا
اس کے ہونے کی یہ گواہی ہے
ان درختوں کا یوں ہرا ہونا
کتنا مشکل ہے بچپنا اب تو
کتنا آسان تھا بڑا ہونا
میں تو حل ہوں کسی کی مشکل کا
مجھ کو آیا نہ مسئلہ ہونا

ترک تعلق کر تو چکے ہیں اک امکان ابھی باقی ہے
ایک محاذ سے لوٹ آئے ہیں اک میدان ابھی باقی ہے
شاید اس نے ہنسی ہنسی میں ترک وفا کا ذکر کیا ہو
یونہی سی اک خوش فہمی ہے اطمینان ابھی باقی ہے
راتیں اس کے ہجر میں اب بھی نزع کے عالم میں کٹتی ہیں
دل میں ویسی ہی وحشت ہے تن میں جان ابھی باقی ہے
بچپن کے اس گھر کے سارے کمرے ملیا میٹ ہوئے
جس میں ہم کھیلا کرتے تھے وہ دالان ابھی باقی ہے
دیئے منڈیر پہ رکھ آتے ہیں ہم ہر شام نہ جانے کیوں
شاید اس کے لوٹ آنے کا کچھ امکان ابھی باقی ہے
ایک عدالت اور ہے جس میں ہم تم اک دن حاضر ہوں گے
فیصلہ سن کر خوش مت ہونا اک میزان ابھی باقی ہے

یوں ہی ہر بات پہ ہنسنے کا بہانہ آئے
پھر وہ معصوم سا بچپن کا زمانہ آئے
کاش لوٹیں مرے پاپا بھی کھلونے لے کر
کاش پھر سے مرے ہاتھوں میں خزانہ آئے
کاش دنیا کی بھی فطرت ہو مری ماں جیسی
جب میں بن بات کے روٹھوں تو منانا آئے
ہم کو قدرت ہی سکھا دیتی ہے کتنی باتیں
کاش استادوں کو قدرت سا پڑھانا آئے
آہ سہسا کبھی اسکول سے چھٹی جو ملے
چیخ کر بچوں کا وہ شور مچانا آئے
آج بچپن کہیں بستوں میں ہی الجھا ہے سحابؔ
پھر وہ تتلی کو پکڑنا وہ اڑانا آئے

اپنا سایہ بھی نہ ہمراہ سفر میں رکھنا
پختہ سڑکیں ہی فقط راہ گزر میں رکھنا
غیر محفوظ سمجھ کر نہ غنیم آ جائے
دوستو! میں نہ سہی خود کو نظر میں رکھنا
کہیں ایسا نہ ہو میں حد خبر سے گزروں
کوئی عالم ہو مجھے اپنی خبر میں رکھنا
آئنہ ٹوٹ کے بکھرے تو کئی عکس ملے
اب ہتھوڑا ہی کف آئنہ گر میں رکھنا
مشغلے کبر سنی میں وہی بچپن والے
کبھی تصویریں کبھی آئنے گھر میں رکھنا
بہتے دریاؤں کو ساحل ہی سے تکتے رہنا
اور جلتے ہوئے گھر دیدۂ تر میں رکھنا
کوئی تو ایسا ہو جو تم کو بچائے تم سے
کوئی تو اپنا بہی خواہ سفر میں رکھنا
کوئی بھی چیز نہ رکھنا کہ تعاقب میں ہیں لوگ
اپنی مٹی ہی مگر دست ہنر میں رکھنا
جنگلوں میں بھی ہوا سے وہی رشتہ اخترؔ
شہر میں بھی یہی سودا مجھے سر میں رکھنا

طوفاں سے قریہ قریہ ایک ہوئے
پھر ریت سے چہرہ چہرہ ایک ہوئے
چاند ابھرتے ہی اجلی کرنوں سے
اوپر کا کمرہ کمرہ ایک ہوئے
الماری میں تصویریں رکھتا ہوں
اب بچپن اور بڑھاپا ایک ہوئے
اس کی گلی کے موڑ سے گزرے کیا تھے
سب راہی رستہ رستہ ایک ہوئے
دیوار گری تو اندر سامنے تھا
دروازہ اور دریچہ ایک ہوئے
جب وہ پودوں کو پانی دیتا تھا
پس منظر اور نظارہ ایک ہوئے
کل آنکھ مچولی کے کھیل میں اخترؔ
میں اور پیڑوں کا سایہ ایک ہوئے

دیکھ رہا ہے دریا بھی حیرانی سے
میں نے کیسے پار کیا آسانی سے
ندی کنارے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
کیا رشتہ ہے میرا بہتے پانی سے
ہر کمرے سے دھوپ ہوا کی یاری تھی
گھر کا نقشہ بگڑا ہے نادانی سے
اب صحرا میں چین سے سویا کرتا ہوں
ڈر لگتا تھا بچپن میں ویرانی سے
دل پاگل ہے روز پشیماں ہوتا ہے
پھر بھی باز نہیں آتا من مانی سے
کم کم خرچ کرو ورنہ یہ جذبے بھی
بے وقعت ہو جاتے ہیں ارزانی سے
اپنا فرض نبھانا ایک عبادت ہے
عالمؔ ہم نے سیکھا اک جاپانی سے

ایک عجب سی دنیا دیکھا کرتا تھا
دن میں بھی میں سپنا دیکھا کرتا تھا
ایک خیال آباد تھا میرے دل میں بھی
خود کو میں شہزادہ دیکھا کرتا تھا
سبز پری کا اڑن کھٹولا ہر لمحے
اپنی جانب آتا دیکھا کرتا تھا
اڑ جاتا تھا روپ بدل کر چڑیوں کے
جنگل صحرا دریا دیکھا کرتا تھا
ہیرے جیسا لگتا تھا اک اک پتھر
ہر مٹی میں سونا دیکھا کرتا تھا
کوئی نہیں تھا تشنہ ریگستانوں میں
ہر صحرا میں دریا دیکھا کرتا تھا
ہر جانب ہریالی تھی خوشحالی تھی
ہر چہرے کو ہنستا دیکھا کرتا تھا
بچپن کے دن کتنے اچھے ہوتے ہیں
سب کچھ ہی میں اچھا دیکھا کرتا تھا
آنکھ کھلی تو سارے منظر غائب ہیں
بند آنکھوں سے کیا کیا دیکھا کرتا تھا

تہہ بہ تہہ ہے راز کوئی آب کی تحویل میں
خامشی یوں ہی نہیں رہتی ہے گہری جھیل میں
میں نے بچپن میں ادھورا خواب دیکھا تھا کوئی
آج تک مصروف ہوں اس خواب کی تکمیل میں
ہر گھڑی احکام جاری کرتا رہتا ہے یہ دل
ہاتھ باندھے میں کھڑا ہوں حکم کی تعمیل میں
کب مری مرضی سے کوئی کام ہوتا ہے تمام
ہر گھڑی رہتا ہوں میں کیوں بے سبب تعجیل میں
مانگتی ہے اب محبت اپنے ہونے کا ثبوت
اور میں جاتا نہیں اظہار کی تفصیل میں
مدعا تیرا سمجھ لیتا ہوں تیری چال سے
تو پریشاں ہے عبث الفاظ کی تاویل میں
اپنی خاطر بھی تو عالمؔ چیز رکھنی تھی کوئی
اب کہاں کچھ بھی بچا ہے تیری اس زنبیل میں

گردش مئے کا اس پر نہ ہوگا اثر مست آنکھوں کا جادو جسے یاد ہے
وہ نسیم گلستاں سے بہلے گا کیا تیرے آنچل کی خوشبو جسے یاد ہے
تشنگی کی وہ شدت کو بھولے گا کیا دھوپ کی وہ تمازت کو بھولے گا کیا
تیری بے فیض آنکھیں جسے یاد ہیں تیرا بے سایہ گیسو جسے یاد ہے
کوئی ممتاز ہے اور نہ شاہ جہاں سوز اور ساز ہے کچھ الگ ہی یہاں
تاج محلوں کے وہ خواب دیکھے گا کیا سنگ مرمر کا زانو جسے یاد ہے
اس کو دکھ درد کوئی چھلے گا نہیں اس کی دنیا کا سورج ڈھلے گا نہیں
تیرے بچپن کی خوشیاں جسے یاد ہیں تیرے دامن کا جگنو جسے یاد ہے
اے علیمؔ آفتوں کے یہ لشکر ہیں کیا ایک محشر نہیں لاکھ محشر ہیں کیا
اس کو فتنوں کی پرواہ بالکل نہیں ترا اک ایک گھنگھرو جسے یاد ہے

اب تک جو دور ہے وہ ریاضت سفر میں ہے
منزل قریب تر ہے مگر اک بھنور میں ہے
دکھ درد عشق آس کا پرتو ہوں میں صنم
آنسو خوشی جفا کا اثر مجھ شجر میں ہے
یہ جو پنپ رہی ہے محبت دلوں میں یار
یہ جسم کی طلب ہے جو ہر اک نگر میں ہے
اس قدر بڑھ گئی ہے ہوس مرد میں کہ اب
عزت کی فکر ہے تو طوائف کہ ڈر میں ہے
یہ جھوٹ بولنا بھی نفاست کا کام ہے
اور یہ ہنر فقط مرے مولا بشر میں ہے
بچپن میں جس ضعیفہ کو دیکھا تھا چاند میں
وہ اب بھی چرخہ کات رہی ہے قمر میں ہے
ہر دور کے لٹیرے نے لوٹا ہے یہ وطن
پر اس کو کیا خبر وہ ہماری خبر میں ہے

ہنستے ہوئے چہرے میں کوئی شام چھپی تھی
خوش لہجہ تخاطب کی کھنک نیم چڑھی تھی
جلووں کی انا توڑ گئی ایک ہی پل میں
کچنار سی بجلی میرے سینے میں اڑی تھی
پیتا رہا دریا کے تموج کو شناور
ہونٹوں پہ ندی کے بھی عجب تشنہ لبی تھی
خوش رنگ معانی کے تعاقب میں رہا میں
خط لب لعلیں کی ہر اک موج خفی تھی
ہر سمت رم ہفت بلا شعلہ فشاں ہے
بچپن میں تو ہر گام پہ اک سبز پری تھی
صدیوں سے ہے جلتے ہوئے ٹاپو کی امانت
وہ وادئ گل رنگ جو خوابوں میں پلی تھی
جلتے ہوئے کہسار پہ اک شوخ گلہری
منہ موڑ کے گلشن سے بصد ناز کھڑی تھی
نیزے کی انی تھی رگ انفاس میں رقصاں
وہ تازہ ہواؤں میں تھا کھڑکی بھی کھلی تھی
ہم پی بھی گئے اور سلامت بھی ہیں عنبرؔ
پانی کی ہر اک بوند میں ہیرے کی کنی تھی

دل جن کو ڈھونڈھتا ہے نہ جانے کہاں گئے
خواب و خیال سے وہ زمانے کہاں گئے
مانوس بام و در سے نظر پوچھتی رہی
ان میں بسے وہ لوگ پرانے کہاں گئے
اس سرزمیں سے تھی جو محبت وہ کیا ہوئی
بچوں کے لب پہ تھے جو ترانے کہاں گئے
اپنی خطا پہ سر کو جھکایا ہے آج کیوں
ازبر جو آپ کو تھے بہانے کہاں گئے
پتھر سماعتوں سے زباں گنگ ہو گئی
ہم بھی گئے تو حال سنانے کہاں گئے
بے مہری حیات تجھے کچھ خبر بھی ہے
دیکھے گئے جو خواب سہانے کہاں گئے
بچپن سہیلیاں وہ ہمہ وقت کی ہنسی
عنبرؔ وہ زندگی کے خزانے کہاں گئ

ہم لوٹتے ہیں وہ سو رہے ہیں
کیا ناز و نیاز ہو رہے ہیں
کیا رنگ جہاں میں ہو رہے ہیں
دو ہنستے ہیں چار رو رہے ہیں
دنیا سے الگ جو ہو رہے ہیں
تکیوں میں مزے سے سو رہے ہیں
پہنچی ہے ہماری اب یہ حالت
جو ہنستے تھے وہ بھی رو رہے ہیں
تنہا تہ خاک بھی نہیں ہم
حسرت کے ساتھ سو رہے ہیں
سوتے ہیں لحد میں سونے والے
جو جاگتے ہیں وہ رو رہے ہیں
ارباب کمال چل بسے سب
سو میں کہیں ایک دو رہے ہیں
پلکوں کی جھپک دکھا کے یہ بت
دل میں نشتر چبھو رہے ہیں
مجھ داغ نصیب کی لحد پر
لالے کا وہ بیج بو رہے ہیں
پیری میں بھی ہم ہزار افسوس
بچپن کی نیند سو رہے ہیں
دامن سے ہم اپنے داغ ہستی
آب خنجر سے دو رہے ہیں
میں جاگ رہا ہوں اے شب غم
پر میرے نصیب سو رہے ہیں
روئیں گے ہمیں رلانے والے
ڈوبیں گے وہ جو ڈبو رہے ہیں
اے حشر مدینے میں نہ کر شور
چپ چپ سرکار سو رہے ہیں
آئینے پہ بھی کڑی نگاہیں
کس پر یہ عتاب ہو رہے ہیں
بھاری ہے جو موتیوں کا مالا
آٹھ آٹھ آنسو وہ رو رہے ہیں
دل چھین کے ہو گئے ہیں غافل
فتنے وہ جگا کے سو رہے ہیں
ہے غیر کے گھر جو ان کی دعوت
ہم جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں
صد شکر خیال ہے اسی کا
ہم جس سے لپٹ کے سو رہے ہیں
ہو جائیں نہ خشک داغ کے پھول
آنسو ان کو بھگو رہے ہیں
آئے گی نہ پھر کے عمر رفتہ
ہم مفت میں جان کھو رہے ہیں
کیا گریہ بے اثر سے حاصل
اس رونے پہ ہم تو رو رہے ہیں
فریاد کہ ناخداۓ کشتی
کشتی کو مری ڈبو رہے ہیں
کیوں کرتے ہیں غم گسار تکلیف
آنسو مرے منہ کو دھو رہے ہیں
محفل برخاست ہے پتنگے
رخصت شمعوں سے ہو رہے ہیں
ہے کوچ کا وقت آسماں پر
تارے کہیں نام کو رہے ہیں
ان کی بھی نمود ہے کوئی دم
وہ بھی نہ رہیں گے جو رہے ہیں
دنیا کا یہ رنگ اور ہم کو
کچھ ہوش نہیں ہے سو رہے ہیں
ٹھہرو دم نزع دو گھڑی اور
دو چار نفس ہی تو رہے ہیں
پھول ان کو پنہا پنہا کے اغیار
کانٹے مرے حق میں بو رہے ہیں
زانو پہ امیرؔ سر کو رکھے
پہروں گزرے کہ رو رہے ہیں

آیا ہے مجھے پھر یاد وہ ظالم گزرا زمانہ بچپن کا
ہائے اکیلے چھوڑ کے جانا اور نہ آنا بچپن کا
وہ کھیل وہ ساتھی وہ جھولے وہ دوڑ کے کہنا آ چھو لے
ہم آج تلک بھی نہ بھولے وہ خواب سہانا بچپن کا
اس کی سب کو پہچان نہیں یہ دو دن کا مہمان نہیں
مشکل ہے بہت آسان نہیں یہ پیار بھلانا بچپن کا
مل کر روئیں فریاد کریں ان بیتے دنوں کو یاد کریں
اے کاش کہیں مل جائے کوئی جو میت پرانا بچپن کا

اکیرو نہ سینہ میں بچپن سے مستقبل اور کامیابی کا ڈر دل بناؤ
کسی دھول کھاتی ہوئی کار کے کانچ پر انگلیاں پھیر کر دل بناؤ
کبھی لوٹ آؤ جو شہر تمنا میں تو مجھ پہ اتنا سا احسان کرنا
یہاں تیر پہلے سے موجود ہے جو اسے توڑنا مت اگر دل بناؤ
تخت میز کرسی چمکتے ہیں کاریگروں کے لہو اور پسینے سے گھر میں
نمائش ہی کرنی ہے وحشت کی تو چھیل کر کیوں نہ جسم شجر دل بناؤ
بزرگوں نے جو بھی کیا ہے اسے بھولنا مت کبھی امتحانوں میں بچو
کتابوں میں نقشے پہ کتنے بھی بارڈر ہوں تم کاپیوں میں مگر دل بناؤ
جو خوف نظر ہے زمانہ کے دل میں وہ بڑھتی ہوئی دوریوں کا سبب ہے
ہٹا دو سبھی اپنے اپنے گھروں سے نظر بٹو اور در بدر دل بناؤ
اگر چاہتے ہو ٹھکانے لگانا بھٹکتے ہوئے عاشقوں کو یکایک
شب ہجر میں ایک اداسین تالاب پر چاندنی سے قمر دل بناؤ
اننتؔ عجلت رائیگانی کے مارے بدلتے رہے ہیں نشہ عمر بھر سے
دواؤں کے ناموں کو چھوڑو تم عاشق کے پرچے پہ بس ڈاکٹر دل بناؤ

وہی رہتا ہے سب لیکن زمانہ چھوٹ جاتا ہے
پری سی بیٹیوں کا مسکرانا چھوٹ جاتا ہے
ادھورا زندگی کا ہر فسانہ چھوٹ جاتا ہے
وہ چڑیوں سا پھدکنا چہچہانا چھوٹ جاتا ہے
جدیدی دور میں بھی ہے قدیمی بیٹی کی قسمت
جدا ہوتے ہی بچپن سے گھرانا چھوٹ جاتا ہے
جو کل تک گھر تھا بیٹی کا ہوا ہے مائکہ اب وہ
ذرا سی رسم سے ہی آشیانا چھوٹ جاتا ہے
اگر ماں ٹھنڈی روٹی دیں تو ہم ناراض ہوتے ہیں
مگر سسرال جا کر گرم کھانا چھوٹ جاتا ہے
کوئی بغیا ثمر کے بن رہے سونی نہ اس خاطر
شجر بابا کے آنگن کا پرانا چھوٹ جاتا ہے
مہیا عیش و عشرت کا اثاثہ ہے ہمیں یوں تو
مگر اس میں کھلونوں کا خزانہ چھوٹ جاتا ہے
رہیں ماں باپ جب تک پوچھی جاتی ہے ہر اک بیٹی
پھر اپنے گاؤں اس کا آنا جانا چھوٹ جاتا ہے
جہاں کی ساری ذمہ داریاں ہیں منحصر ہم پر
نہ چھوٹے کام ہم سے بس کمانا چھوٹ جاتا ہے
ذرا سے دل میں رکھنے پڑتے ہیں پروت سے غم ہم کو
ذرا سی بات پر آنسو بہانا چھوٹ جاتا ہے
یہاں اک آرزوؔ کو گل کی نکہت سا بنانے میں
ہزاروں خواب کا موسم سہانا چھوٹ جاتا ہے
Conclusion
Bachpan is not just a phase of life it is the foundation of who we become. Through these Bachpan quotes in Urdu, we can remember our roots, smile at the past, and feel connected to our loved ones and traditions. Life may move fast, but those simple childhood days always stay close to our hearts.
So, take a moment to enjoy these beautiful words. Share them with your friends, post them on your timeline, or just read them to feel better. After all, remembering childhood brings peace and happiness to the soul.
Thank You!
Thank you for visiting and reading our collection of Bachpan quotes in Urdu. We hope these quotes touched your heart and made you smile. If you liked this content, please share it with your friends and family, and bookmark our website for more heartwarming quotes in Urdu. Your support means a lot and helps us bring more meaningful content to you!
FAQs – Bachpan Quotes in Urdu
1. What are Bachpan quotes?
Bachpan quotes are short sayings or lines that talk about the memories and feelings from childhood. They are often emotional, funny, or nostalgic.
2. Why are Bachpan quotes popular in Urdu?
Urdu is a poetic and emotional language. When childhood memories are written in Urdu, they feel deeper and more touching.
3. Where can I use these quotes?
You can use these quotes on Whats App status, Instagram captions, Facebook posts, or even in speeches and school projects.
4. Can I share these quotes with friends and family?
Yes, of course! These quotes are perfect for sharing. They help start meaningful conversations and make people smile.
5. Are these quotes original?
Many Bachpan quotes are inspired by real-life memories and emotions. Some are written by famous poets, while others are created by people like you and me.