The Best Article-No.13 اللہ دیکھ رہاہے 

اللہ دیکھ رہاہے 

Sometimes we forget that Allah is always watching( اللہ دیکھ رہاہے ), even when no one else is.
This lovely story from the time of Hazrat Umar ibn al-Khattab (RA) teaches us what real faith is all about.

It shows that being honest for Allah’s sake can change a person’s life in ways they never thought possible.

What the story is about?

Madinah Munawwarah was quiet that night.
While most people were asleep, Caliph Umar (RA) was awake and walking through the streets with Hazrat Ibn Abbas (RA).

Every night he would do this to make sure his people were okay and not in any trouble.
As they walked, they saw a small tent with a light still on.

They came upon a small tent with a still-burning light as they were walking.

They could hear a mother and her young daughter speaking softly inside.

“My dear, the money you bring from selling milk is not enough,” the mother sighed. I used to add water to milk when I was your age. That gave us more money.

You ought to follow suit.
“Oh, mother, please don’t say that,” the daughter quickly retorted.

You weren’t a Muslim back then. But thank God, we are now. We cannot act dishonestly.
The mother made another attempt to persuade her.

“But what harm is there, my child? We are impoverished. The Caliph is unaware of our activities.

The girl’s tone hardened. “Mother, Allah is keeping an eye on everything, even if the Caliph is unable to see us. He is aware of our actions, even in the dark.

When Hazrat Umar (RA) heard this, he was moved. He saw that this young girl had a lot of faith in her heart.
He sent someone to buy milk from that house the following morning.

There was no water added to the milk when it was brought. The mother and daughter were summoned to Umar’s (RA) court.

“Islam needs daughters like you — truthful and God-fearing,” he said, commending the girl for her candour.
He gave her honour, which was far more valuable than gold or money.

He arranged for her to marry his aristocratic and well-educated son, Hazrat Asim (RA).
The renowned Hazrat Umar bin Abdul Aziz (RA),

regarded as one of the most upright and just rulers in Islamic history, was the grandson of this fortunate union.
All of this occurred as a result of one girl recalling the straightforward phrase, “Allah is watching.”

: اللہ دیکھ رہاہے

 امیرالمومنین حضرت عمر ابنِ خطاب فاروقِ اعظمؓ اپنی خلافت کے دنوں میں مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے تھے اور لوگوں کی ضرورتوں

اور شکایتوں کو سنتے تھے۔ ہر صوبے کے عامل (گورنر) سے ان کے علاقوں کی مکمل روداد منگواتے تھے۔ سفر میں ہوتے تو راہ چلتوں

سے حال معلوم کرتے تھے۔ رات کو مدینہ منورہ کی گلی کوچوں اور بازاروں میں گشت لگا کر وہاں کے رہنے والوں کی خبر گیری کرتے

تھے۔

ایک رات آپؓ معمول کے مطابق حضرت ابنِ عباسؓ کو ساتھ لئے مدینہ منورہ کی گلیوں کا گشت لگا رہے تھے۔ رات کافی ہوچکی تھی۔ مکانوں

اور خیموں کی روشنیاں گل ہوچکی تھیں۔ مدینہ منورہ کے باشندے گہری نیند سو رہے تھے، مگر ایک پھٹے پرانے خیمے میں ابھی تک چراغ

ٹمٹما رہا تھا اور دو عورتوں کی باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ان عورتوں میں ایک ماں تھی اور دوسری اس کی بیٹی۔

ماں، بیٹی سے کہہ رہی تھی ’’دودھ بیچ کر جو پیسے تو لاتی ہے وہ اتنے کم ہوتے ہیں کہ گھر کا خرچہ بڑی تنگی ترشی سے چلتا ہے۔ میں جب

تیری عمر کی تھی تو دودھ میں پانی ملایا کرتی تھی اور بڑے آرام اور آسائش سے گزر بسر ہوتی تھی۔ بیٹی! میری مان اور صبح سے دودھ

میں پانی ملانا شروع کردے۔ چار پیسے زیادہ آئیں گے تو گھر کی حالت تو سُدھرے گی۔

’’توبہ۔ توبہ۔ اماں کیسی باتیں کرتی ہو‘‘۔ بیٹی، ماں کو ٹوکتے ہوئے بولی۔ پھر اس نے سمجھانے کے انداز میں کہنا شروع کیا۔ ’’اماں! جب تم

دودھ میں پانی کی ملاوٹ کرتی تھیں اُس وقت تم مسلمان نہیں تھیں۔ الحمدللہ! اب ہم مسلمان ہیں، لہٰذا ہم دودھ میں پانی نہیں ملا سکتے‘‘۔

ماں بولی ’’آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ دودھ میں پانی ملانے سے اسلام پر کون سی آنچ آتی ہے‘‘۔

’’اماں کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ کیا تم بھول گئی ہو کہ ہمارے خلیفہ حضرت عمرؓ کی ہدایت ہے کہ دودھ میں پانی قطعی نہ ملایا جائے‘‘۔ بیٹی نے ذرا

سخت لہجے میں کہا۔

ماں نے جواب دیا ’’اری نیک بخت! کیا خلیفہ نہیں جانتے کہ ہم جیسے غریب اگر دودھ میں پانی ملا کر نہ بیچیں گے تو دونوں وقت کی روٹی

کیسے حاصل کریں گے‘‘۔

’’اماں میری! اس طرح حاصل کی ہوئی روٹی حلال رزق نہیں۔ میں مسلمان ہوں اور کوئی ایسا کام نہیں کروں گی جو خلیفہ کی ہدایت کے

خلاف ہو اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہو‘‘۔ بیٹی نے اپنا فیصلہ سنادیا۔

’’پگلی کہیں کی۔ یہاں کون سے خلیفہ بیٹھے ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ انہیں تو کانوں کان خبر تک نہیں ہوگی۔ اب تم سوجاؤ۔ صبح سویرے میں دودھ

میں پانی ملاؤں گی‘‘۔ ماں نے فیصلہ کن انداز میں بیٹی کو سمجھایا۔

بیٹی تڑپ کر کہنے لگی ’’نہ اماں نہ۔ خلیفہ نہیں دیکھ رہے ہیں تو کیا ہوا۔ اللہ تو دیکھ رہا ہے‘‘۔

اس کے بعد خیمے میں خاموشی چھاگئی۔ چراغ بجھا دیا گیا۔ ماں اور بیٹی بستر پر لیٹ گئیں۔ دوسرے دن صبح ہوتے ہی امیرالمومنین حضرت

عمرؓ خلیفہ دوم نے اس لڑکی کے یہاں ایک شخص کو دودھ خریدنے کے لئے بھیجا۔ دودھ کا معائنہ کیا۔ دودھ خالص تھا، اس میں پانی کی

ملاوٹ قطعی نہیں تھی۔ حضرت عمرؓ نے اپنے رات کے ساتھی حضرت ابنِ عباسؓ سے دریافت کیا کہ ایسی نیک کردار اور اللہ سے ڈرنے

والی مسلمان لڑکی کے لئے کیا انعام ہونا چاہئے؟‘‘

حضرت ابنِ عباسؓ نے رائے دی کہ اسے کم از کم ایک ہزار درہم انعام میں دیئے جائیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابنِ عباسؓ کو مخاطب کرتے

ہوئے فرمایا۔ ’’ایسی نیک خصلت اور پاک سیرت لڑکی کی ایمانداری کو سکوں میں نہیں تولا جاسکتا۔ میں تو اس لڑکی کو ایسا انعام دینا چاہتا

ہوں جو اس کے شایانِ شان ہو۔

ماں اور بیٹی کو دربارِ خلافت میں طلب کیا گیا۔ رات کا واقعہ دہرایا گیا۔ ماں کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں اور بیٹی کا چہرہ صداقت کے

نور سے جگمگا اُٹھا۔ حضرت عمرؓ نے لڑکی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’اسلام کو تم جیسی بیٹیوں کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کا خلیفہ ہونے

کی حیثیت سے میری خواہش ہے کہ میں تمہیں اپنی بیٹی بنالوں‘‘۔

حضرت عمرؓ فاروقِ اعظم کے دو بڑے فرزند حضرت عبداللہ اور حضرت عبدالرحمن کی شادی ہوچکی تھی، مگر آپ کے تیسرے فرزند

حضرت عاصم کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ حضرت عاصم قد آور اور حسین شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے وقت کے اچھے شاعر تھے، عالم

تھے اور اسلامی اخلاق اور سیرت کا نمونہ تھے، لہٰذا اس پاک باز لڑکی کا نکاح ان سے کردیا گیا۔

خلفائے راشدین یعنی حضرت ابوبکرؓ۔ حضرت عمر فاروق اعظمؓ۔ حضرت عثمانِ غنیؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد اگر کوئی خلیفہ

مذہب کی مجسم تصویر تھا تو وہ سلسلۂ بنو امیہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز تھے اور آپ اسی صاحبِ کردار، نیک سیرت اور دودھ میں

پانی نہ ملانے والی خاتون کے نور سے تھے۔

Conclusion

We learn from this story that having true faith entails acting morally even when no one else can see us.
Allah rewards us in ways we cannot fathom when we remain truthful for His sake.

Allah elevated the milk-seller’s daughter’s honour for future generations because she chose truth over money.
Therefore, keep in mind this the next time you’re by yourself and feeling tempted to do something bad: “If people don’t see me, Allah surely does.”

Message of Thank You

We appreciate you taking the time to read or watch this lovely Islamic tale.
May Allah fill our hearts with honesty, faith, and courage to always do what’s right.
Please share this story if you enjoyed it;

it might inspire someone else today.
Thank you for your time and assistance, Allah Khair!

Frequently Asked Questions, or FAQs

1:-   What does “Allah Is Watching” mean?
It serves as a reminder to maintain our integrity and loyalty even in private. Sincere Muslims are aware that Allah is constantly keeping watch.

2:-   Who was the story’s Caliph?

The second Caliph of Islam, Hazrat Umar ibn al-Khattab (RA), was renowned for his piety and justice.

3:-   Why was the girl unique?

Despite the fact that no one would notice, she refused to add water to milk. For Allah’s sake, she opted for honesty.

4:-   What was her reward?

In her honour, Hazrat Umar (RA) married her to his son, Hazrat Asim (RA). Among their descendants was one of Islam’s greatest rulers, Hazrat Umar bin Abdul Aziz (RA).

5:-   What does this story teach us?
When no one is looking, that true character comes through. Remain honest at all times and never forget that Allah sees everything and rewards the truthful.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *