Tareef Quotes in Urdu

گرتا جاتا ہے چہرے سے نقاب آہستہ آہستہ
نکل تا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

روز ایک تازہ شیر کہاں تک لکھوں تیرے لئے
تجھ میں توہ روز ہی ایک نئی بات ہوا کرتی ہے

ایسا نا ہو تجھ کو بھی دیوانا بنا ڈالے
تنہائی میں خود اپنی تصویر نہ دیکھا کر

سرک گیا جب اسکے رخ سے پردہ اچانک
فرشتے بھی کہنے لگے کاش ہم انسان ہوتے

خود نہ چھپا سکے وہ اپنا چہرہ نقاب میں
بےوجہ ہماری آنکھوں پے الزام لگ گیا

تیرے چہرے کو پردے کی ضرورت ہی کیا ہے
کون رہتا ہے ہوش میں تجھے دیکھنے کے بعد

چاند آہیں بھریگا پھول دل تھام لینگے
خوبصورتی کی بات چلی توہ سب تیرا نام لینگے

دھڑکنوں کو کچھ توہ قابو میں کر ائے دل
ابھی توہ پلکیں جھکائی ہے مسکرانا ابھی باقی ہے

اب ہم سمجھے تیرے چہرے پے تل کا مطلب
حسن کی دولت پے دربان بٹھا رکھا ہے

پگھلتا ہوا سونا ہے جیسے حسن انکا
جو کوئی دیکھ لے توہ بس دیوانا ہی ہو جائے

یے آئنے کیا دینگے تجھے تیرے حسن کی خبر
میری آنکھوں سے توہ پوچھ کر دیکھ کتنی حسین ہے تو

حسن ہے تیرا بلکل چاند کی طرح
اتنا ہی نور ہے، اتنا ہی دور ہے، اتنا ہی گرور

تمہارے ہی حسن کا نور ہے ہمارے عکس پر
ورنہ کون پسند کرتا ہم جیسے شخص کو

تمہارا حسن آرائش تمہاری سادگی زور
تمھیں کوئی ضرورت ہی نہیں بننے سنورنے کی

نہ پوچھو حسن کی تعریف ہم سے
محبّت جس سے ہو بس وہ حسین ہے

گئے تھے انکے حسن کو بے نقاب کرنے
خود انکے عشق کا نقاب پہن کر آ گئے

یے تیرا حسن اور کمبخت ادائیں تیری
کون نہ مر جائے اب دیکھ کر تمھیں

کیا لکھوں تیری صورت تعریف میں میرے ہمدم
الفاظ ختم ہو گئے ہے تیری ادائیں دیکھ دیکھ کے

تیرا حسن دیکھنا میرے لئے ایک سزا ہے
تجھے جی بھر کے دیکھ لیا توہ یے دل رکتے رکتے بچا ہے

دنیا نے یوں ہی مجھے شایر سمجھ لیا
میں توہ کسی کے حسن کی تعریف لکھتا ہوں

مدہوش نہ کر مجھکو اپنا حسن دکھا کر
محبّت اگر چہرے سے ہوتی توہ خدا دل نہ بناتا

ہم پر یوں بار بار عشق کا الزام نہ لگایا کر
کبھی خود سے بھی پوچھا ہے اتنی خوبصورت کیوں ہو

میں تمہاری سادگی کی کیا مصال دوں
اس سارے جہاں میں بے مصال ہو تم

آپکو سنورنے کی کیا ضرورت ہے
آپ توہ سادگی میں بھی قیامت کی ادا رکھتے ہو

نیند سے کیا شکوہ جو آتی نہیں رات بھر
کسور توہ انکے چہرے کا ہے جو سونے نہیں دیتا

آج اسکی معصومیت کے قائل ہو گئے
صرف اسکی ایک نظر سے ہی گھائل ہو گئے

آپ ذرا سا کم خوبصورت ہوتے
توہ بھی بہت خوبصورت ہوتے

اس ڈر سے کبھی گھور سے دیکھا نہیں تجھکو
کہتے ہے لگ جاتی ہے اپنوں کی نظر بھی

یوں توہ عادت نہیں مجھے مڑ کے دیکھنے کی
تمھیں دیکھا توہ لگا ایک بار اور دیکھ لوں

رخ سے پردہ ہٹا توہ حسن بے-نقاب ہو گیا
انسے ملی نظر توہ دل بے قرار ہو گیا

جو کاغذ پر لکھ دوں تعریف تیری
توہ سیاہی بھی تیرے حسن کی گلام ہو جائے

نہیں بھاتا اب تیرے سوا کسی اور کا چہرہ
تجھے دیکھنا اور دیکھتے رہنا دستور بن گیا ہے

کیا لکھوں تیری تعریف صورت میں یار
الفاظ کم پڑ رہے ہے تیری معصومیت دیکھ کر

اسکو سجنے ، سنورنے کی ضرورت ہی نہیں
اسپے سجتی ہے حیا بھی کسی زیور کی طرح

وہ بے نقاب پھرتی ہے گلی کوچوں میں
توہ کیسے شہر کے لوگوں میں قتل آم نہ ہو

مجھ کو معلوم نہیں حسن کی تعریف
میری نظروں میں حسین وہ ہے جو تم جیسا ہو

ہم توہ فنا ہو گئے انکی ایک جھلک دیکھ کر
نہ جانے ہر روز آئنے پر کیا گزرتی ہوگی

جو ایک بار ڈوبے توہ کوئی ابھر نہیں پاتا
اتنا گہرا انکے حسن کا سمندر ہے

بےہوش نہ ہو جائے کہیں یے دنیا ساری
اس حسن کو پردے میں چھپا ہی رہنے دو

مجھے کیا معلوم تھا حسن کیا ہوتا ہے
میری نظروں نے تجھے دیکھا اور اندازہ ہو گیا

حسن میں تیرے ہوگا شراب اور عطر کا میل
اسی لئے کبھی مہکتا ہوں کبھی بہکتا ہوں

اب کیسے اٹھےگی آنکھ ہماری کسی اور کی طرف
اسکے حسن کی ایک جھلک ہمیں پابند بنا گئی

ستاتے ہے ہمیں توہ حسن کے مالک
اوروں سے توہ ہم نظر بھی نہیں ملاتے

جب مےنے چاند کو اپنا چاند دکھایا
رات میں نکلا پر حسن پر نہیں اترایا

جھکی نظروں میں قیامت کا اثر ہوتا ہے
حسن کچھ اور نکھر جاتا ہے شرمانے سے

آنکھیں جھیلوں کی طرح ہونٹھ گلابوں جیسے
اب بھی ہوتے ہے کئی لوگ کتابوں جیسے

تیرے حسن کی تعریف میری شایری کے بس کی نہیں
تجھ جیسی کوئی اور کائنات میں بنی نہیں

ادا آئی جفا آئی غرور آیا حجاب آیا
ہزاروں آفتیں لے کر حسینوں پر شباب آیا

ہمارے دَور میں ہوتا نہیں وقوع پزیر
تمھارا پیار بھی اک معجزہ سا لگتا ہے

تعریف کےمحتاج نہیں ہوتےسچےلوگ
پھولوں کوکبھی عطر لگایانہیں جاتا

زندگی یوں بھی گزاری جا رہی ہے
جیسے کوئی جنگ ہاری جا رہی ہے
جس جگہ پہلے کے زخموں کے نشاں میں
پھر وہیں پر چوٹ ماری جا رہی ہے
وقت رخصت آب دیدہ آپ کیوں ہیں
جسم سے تو جاں ہماری جا رہی ہے

بول کر تعریف میں کچھ لفظ اس کی
شخصیت اپنی نکھاری جا رہی ہے
دھوپ کے دستانے ہاتھوں میں پہن کر
برف کی چادر اتاری جا رہی ہے

ملتے جلتے ہیں یہاں لوگ ضرورت کے لئے
ہم ترے شہر میں آئے ہیں محبت کے لئے
وہ بھی آخر تری تعریف میں ہی خرچ ہوا
میں نے جو وقت نکالا تھا شکایت کے لئے
میں ستارہ ہوں مگر تیز نہیں چمکوں گا
دیکھنے والے کی آنکھوں کی سہولت کے لئے

تم کو بتلاؤں کہ دن بھر وہ مرے ساتھ رہا
ہاں وہی شخص جو مشہور ہے عجلت کے لئے
سر جھکائے ہوئے خاموش جو تم بیٹھے ہو
اتنا کافی ہے مرے دوست ندامت کے لئے
وہ بھی دن آئے کہ دہلیز پہ آ کر اظہرؔ
پاؤں رکتے ہیں مرے تیری اجازت کے لئے

اس راستے میں جب کوئی سایہ نہ پائے گا
یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا
بچھڑے ہوؤں کی یاد تو آئے گی جیتے جی
موسم رفاقتوں کا پلٹ کر نہ آئے گا
تخلیق اور شکست کا دیکھیں گے لوگ فن
دریا حباب سطح پہ جب تک بنائے گا

ہر ہر قدم پہ آئنہ بردار ہے نظر
بے چہرگی کو کوئی کہاں تک چھپائے گا
میری صدا کا قد ہے فضا سے بھی کچھ بلند
ظالم فصیل شہر کہاں تک اٹھائے گا
تعریف کر رہا ہے ابھی تک جو آدمی
اٹھا تو میرے عیب ہزاروں گنائے گا

وہ تڑپ جائے اشارہ کوئی ایسا دینا
اس کو خط لکھنا تو میرا بھی حوالہ دینا
اپنی تصویر بناؤ گے تو ہوگا احساس
کتنا دشوار ہے خود کو کوئی چہرا دینا
اس قیامت کی جب اس شخص کو آنکھیں دی ہیں
اے خدا خواب بھی دینا تو سنہرا دینا
اپنی تعریف تو محبوب کی کمزوری ہے
اب کے ملنا تو اسے ایک قصیدہ دینا

ہے یہی رسم بڑے شہروں میں وقت رخصت
ہاتھ کافی ہے ہوا میں یہاں لہرا دینا
ان کو کیا قلعے کے اندر کی فضاؤں کا پتا
یہ نگہبان ہیں ان کو تو ہے پہرا دینا
پتے پتے پہ نئی رت کے یہ لکھ دیں اظہرؔ
دھوپ میں جلتے ہوئے جسموں کو سایا دینا

کسی بت کا یہ دل شیدا نہیں ہے
ہمارے سر میں یہ سودا نہیں ہے
خدا کیا ہے یہ بتلانا کٹھن تھا
سو بتلایا کہ وہ کیا کیا نہیں ہے
تم ایماں لاؤ وہ رستہ سرل ہے
سرل تحقیق کا رستہ نہیں ہے

خدا ہوتا یہ میں بھی چاہتا ہوں
میرا چاہا خدا کرتا نہیں ہے
خدا کیا ہے یہ موسیٰ نے بتایا
سنائی دیتا ہے دکھتا نہیں ہے
یہی تعریف ہے اس کی کہ اس کو
کسی نے آج تک دیکھا نہیں ہے

خدا کے عشق میں ہو حمد لکھو
کسی نے بھی تمہیں روکا نہیں ہے
ازل سے علم ہے ایماں کا دشمن
بہت کچھ جاننا اچھا نہیں ہے
خرد مندوں پہ اس کو چھوڑ پیارے
جنوں یہ مسئلہ تیرا نہیں ہے

تیری یادوں نے تڑپایا بہت ہے
بھلے ہی دل کو سمجھایا بہت ہے
بہت زخمی کیا ہے دل کو تم نے
تمہیں کو پھر بھی اپنایا بہت ہے
کھلے رہتے ہیں زخم دل ہمیشہ
خزاں نے ظلم تو ڈھایا بہت ہے

لب جاناں جو زمزم آتشیں تھا
حواسوں پر مرے چھایا بہت ہے
لغت میں حسن کی تعریف ڈھونڈھی
مگر ہر لفظ کم مایہ بہت ہے
دل آتش کی سازش میں زمانیؔ
شب ہجراں کو گرمایا بہت ہے

یہ کشتیٔ حیات یہ طوفان حادثات
مجھ کو تو کچھ خبر نہ رہی آر پار کی
ہے گردش زمانہ میں دو رنگیٔ حیات
امید کی سحر ہے تو شب انتظار کی
یہ دیر یہ حرم یہ کلیسا یہ سومنات
تعریف کیا ہو قدرت پروردگار کی
ہے کون جو اٹھا سکے بار غم حیات
ہم نے بھی گر قبائے خرد تار تار کی

اللہ رے تصادم حالات و حادثات
کی اختیار سنگ نے صورت شرار کی
ذروں کی آب و تاب سے تاروں نے کھائی مات
یہ خوبیاں ہیں خاک ترے انکسار کی
اے اشکؔ زندگی میں نہ پوچھی کسی نے بات
اب خاک چومتے ہیں ہمارے مزار کی

ہم تو کربل کو ہی بس دار بقا کہتے ہیں
اس کی مٹی کو سنو خاک شفا کہتے ہیں
یہ تو بس مجھ سے ہی ہو جاتی ہے غفلت اکثر
جو بھی کہتے ہیں بڑے میرے بجا کہتے ہیں
پھینکی لکڑی تو کبھی رستہ کبھی سانپ بنا
اس کو لکڑی نہیں موسیٰ کا عصا کہتے ہیں
میں سزا لفظ کی تعریف بتاتا ہوں سنو
منتظر ہونے کو بھی جان سزا کہتے ہیں

بھوک مرتے ہوئے بچوں کو جو کھانا لا دے
اس مسیحا کو ہی فرزند خدا کہتے ہیں
کتنے سادہ ہیں مکیں یار تری بستی کے
زہر کے جام کو بھی آب بقا کہتے ہیں
شمس تبریز سے اپنی ہے عقیدت اتنی
ہم قلندر کو تبھی شمس نما کہتے ہیں
جو تری یاد میں ہر رات بپا ہوتی ہے
ایسی محفل کو سحرؔ بزم عزا کہتے ہیں

نظر آئے کیا مجھ سے فانی کی صورت
کہ پنہاں ہوں درد نہانی کی صورت
بنا ہوں وہ میں ناتوانی کی صورت
غضب ہی کھچی بے نشانی کی صورت
خموشی جو ہے اقتضائے طبیعت
تو ان کو ملی بے دہانی کی صورت
نظر آئے کیا جلوۂ حسن باقی
کہ پردہ ہے دنیائے فانی کی صورت

تم اور ذکر اغیار پر چپ رہو گے
کہے دیتی ہے بے دہانی کی صورت
ہمارے گلے پر تو چلتی دکھاؤ
کہاں تیغ میں ہے روانی کی صورت
قیام اپنا اس کوچہ میں پا بگل ہے
ملے خاک میں ہم تو پانی کی صورت
گداز دل تشنہ کا ماں غضب ہے
وہ خنجر نہ بہہ جائے پانی کی صورت

برابر ہے یہاں بود و نابود اپنی
نشاں ہے مرا بے نشانی کی صورت
عرق شرم سے خاکساری میں ہوں میں
ہوا خاک بھی میں تو پانی کی صورت
جو پوچھو تو اس چشم کا دیکھنا ہے
وہ ہے گردش آسمانی کی صورت
ڈبویا مجھے آب میں شرم سے وہ
کھڑے ہیں مرے سر پہ پانی کی صورت

نمود اپنی واقع میں کچھ بھی نہیں ہے
یہاں خواب ہے زندگانی کی صورت
وہ دل رونمائی میں لیتے ہیں پہلے
دکھاتے ہیں جب جاں ستانی کی صورت
مجھے کشتہ دیکھا تو قاتل نے پوچھا
یقیں ہے یہاں بد گمانی کی صورت
پڑے مر کے مٹنے کو ہم ٹھوکروں میں
مگر کٹ گئی زندگانی کی صورت

زباں پر ہے قاصد کی اپنی رسائی
ہوا ہوں پیام زبانی کی صورت
مجسم ہی موہوم آنے میں ان کے
نظر آتی ہے زندگانی کی صورت
ترے وعدے پر زیست ہے مرگ اپنی
بہت ہی بڑھی ناتوانی کی صورت
وہ اس شکل سے میری بالیں پہ آئے
کہ اک آفت آسمانی کی صورت

نظر بن کے پھرتی ہے آنکھوں میں اپنی
کسی عالم نوجوانی کی صورت
نہ ہو رشک تو کیجیے وہاں مدح دشمن
کہ ہے یار کی راز دانی کی صورت
مجھے دیکھو اور اس کے وعدے پہ جینا
یہ ہے زندۂ جاودانی کی صورت
وہاں بد گمانی کی تعریف کیا ہو
یقیں ہو جہاں بد گمانی کی صورت
نظر سوز وہ رخ وہ انکار بے حد
مگر ہیں وہ اک لن ترانی کی صورت
دکھاتے ہیں وہ رخ سے یوں ناز پنہاں
کہ الفاظ جیسے معانی کی صورت
یہاں کیا سمائی دم تیغ قاتل
کہ نظروں میں ہے سخت جانی کی صورت
جو نقش فنا ہوں تو وہ دل پہ انورؔ
کھنچی اور اک بد گمانی کی صورت

روز اخبار میں چھپ جانے سے ملتا کیا ہے
اپنی تشہیر کے افسانے میں رکھا کیا ہے
تم نے جس کو غم ایام کہا ہے یارو
وہ مرے درد کا حصہ ہے تمہارا کیا ہے
جھن جھنے دے کے مرے ہاتھ میں کوئی مجھ کو
قید ہستی کی سزا دے یہ تماشا کیا ہے
کل تلک جو مری تعریف کیا کرتا تھا
آج وہ بھی مرا دشمن ہے یہ قصہ کیا ہے

ہم اگر ڈوب بھی جائیں تو ابھر سکتے ہیں
ہم کو معلوم ہے جینے کا سلیقہ کیا ہے
ہم نے سوغات سمجھ کر تو اسے اپنایا
اب یہ کیوں سوچیں کہ اس غم کا مداوا کیا ہے
یوں تو سب لوگ تمہیں جانتے ہوں گے انجمؔ
اور کوئی بھی نہ جانے تو بگڑتا کیا ہے

پہلے جیسا وہ ڈھونڈھتا ہے مجھے
آئنہ روز ٹوکتا ہے مجھے
ذہن جتنا بھی اختلاف کرے
مشورہ دل کا ماننا ہے مجھے
سو بھی جاؤں تو اے مری بیٹی
تیری آنکھوں میں جاگنا ہے مجھے
اس سے بیدار مجھ کو رہنا ہے
جو ابھی ٹوٹ کر ملا ہے مجھے

ہر گھڑی میں بکھرتی رہتی ہوں
ہر گھڑی وہ سنبھالتا ہے مجھے
اس کی تعریف مجھ کو کرنی ہے
اس نے کیا کیا نہیں کہا ہے مجھے
ساری دنیا حسین کر دوں گی
حضرت عشق کی دعا ہے مجھے
میرے بارے میں کوئی رائے نہ دے
تو ابھی کتنا جانتا ہے مجھے

تفکیر کو حروف کے سانچے میں ڈھال کے
الفاظ کو تو بخش عناصر جمال کے
تعریف تیری ایڑ ہو تنقید ہو لگام
صحرائے فکر میں اڑا گھوڑے خیال کے
بہر حیات میں ہیں حقیقت کے جو صدف
اشعار میں پرو تو یہ موتی نکال کے
ہے تیری جائیداد یہ حریت کلام
کر صرف اس متاع کو نہ رکھ سنبھال کے

شیرینیٔ حیات اور تلخییٔ تجربات
ہوں ذکر تیرے شعر میں ہجر و وصال کے
ظاہر تضاد زیست ہو تیرے کلام میں
چرچے غنا و فقر عطا کے وبال کے
ہو رفعت خیال تیری تا فلک انیسؔ
الفاظ اور معانی ہوں جوہر کمال کے

ابھی تو اتنا اندھیرا نظر نہیں آتا
تو ساتھ کیوں میرا سایا نظر نہیں آتا
ان آنکھوں سے یہ زمانہ تو دیکھ سکتا ہوں
بس ایک اپنا ہی چہرہ نظر نہیں آتا
جب ایک اندھا اندھیرے میں دیکھ لیتا ہے
مجھے اجالوں میں کیا کیا نظر نہیں آتا
بندھی یقین کی پٹی ہماری آنکھوں پر
سو چھل فریب یا دھوکہ نظر نہیں آتا

جو دکھ رہے ہیں وہ چابی کے سب کھلونے ہیں
یہاں تو کوئی بھی زندہ نظر نہیں آتا
تراشے بت کی تو تعریف سبھی کرتے پر
ہمارے ہاتھ کا چھالا نظر نہیں آتا
ابھی تو پھیلی یہاں دھندھ اتنی نفرت کی
کسی کو پیار کا رستہ نظر نہیں آتا
انیسؔ یوں تو ہزاروں سے روز ملتا ہوں
مگر مجھے کوئی تم سا نظر نہیں آتا

اس سے بہتر کہیں گونجتا کون ہے
دل کے جتنا یہاں کھوکھلا کون ہے
یہ شکایت نہیں تیری تعریف ہے
جیسے بھولی ہے تو بھولتا کون ہے
در پہ دستک تو ہوتی ہے آواز پر
تیری آتی نہیں دیکھنا کون ہے

تم تو خوش تھیں سگائی کی تصویر میں
پھر یہ مجھ میں تڑپتا ہوا کون ہے
جیت کے بعد ہوتا ہے یہ فیصلہ
کون دانو ہے اور دیوتا کون ہے
آج کل فکر کل کی کسی کو نہیں
کل کہ مانند اب سوچتا کون ہے

اور تو باقی نہیں کچھ بھی کھنڈر میں بس
دیکھنے کو بچا ہے جلا کون ہے
تھا گماں سوکھ لیتی ہیں اشکوں کو یہ
یوں ہی پلکیں بھلا نوچتا کون ہے
میرا ہونا ثبوت اس کے ہونے کا ہے
سوچ اننتؔ اصلیت میں خدا کون ہے

کیوں نہ ہو ذکر محبت کا مرے نام کے ساتھ
عمر کاٹی ہے اسی درد دل آرام کے ساتھ
مجھ کو دنیا سے نہیں اپنی تباہی کا گلا
میں نے خود ساز کیا گردش ایام کے ساتھ
اب وہی زیست میں ہے یہ مرے دل کا عالم
جیسے کچھ چھوٹتا جاتا ہے ہر اک گام کے ساتھ
تجھ سے شکوہ نہیں ساقی تری صہبا نے مگر
دشمنی کوئی نکالی ہے مرے جام کے ساتھ

جو کرے فکر رہائی وہی دشمن ٹھہرے
انس ہو جائے نہ طائر کو کسی دام کے ساتھ
زیست کے درد کا احساس کبھی مٹ نہ سکا
سن خوشی کے بھی کٹے اک غم بے نام کے ساتھ
منع تقصیر کہوں دعوت تقصیر کہوں
نگہ نرم بھی ہے گرمیٔ الزام کے ساتھ
اپنی اس آج کی طاقت پہ نہ یوں اتراؤ
مہر اٹھا تھا ہر اک صبح شب انجام کے ساتھ

میں تجھے بھول چکا ہوں مگر اب بھی اے دوست
آتی جاتی ہے نگاہوں میں چمک شام کے ساتھ
اب بھی کافی ہے یہ ہر شور پہ چھانے کے لئے
کوئی الفت کی اذاں دے تو ترے نام کے ساتھ
آ گیا ختم پہ صیاد ترا دور فسوں
اب تو دانہ بھی نہیں ہے قفس و دام کے ساتھ
کاخ و ایواں یہی گزرے ہوئے دوروں کے نہ ہوں
گرد سی آئی ہے کچھ دامن ایام کے ساتھ

میں ترا ہو نہ سکا پھر بھی محبت میں نے
جب بھی دنیا کو پکارا تو ترے نام کے ساتھ
خلد اجڑی ہے تو اب اپنے فرشتوں سے بسا
ہم سے کیا ہم تو نکالے گئے الزام کے ساتھ
حجرۂ خلد ہے حور شرر اندام نہیں
ساقیا آتش رنگیں بھی ذرا جام کے ساتھ
ذکر ملاؔ بھی اب آتا تو ہے محفل میں مگر
پھیکی تعریف میں لپٹے ہوئے دشنام کے ساتھ

میری کوشش ہے کہ شعروں میں سمو دوں ملاؔ
صبح کا ہوش بھی دیوانگی شام کے ساتھ
دو کناروں کے ہوں مابین میں اک پل ملاؔ
رکھتا جاتا ہوں ستوں ایک ہر اک گام کے ساتھ

صاف کہتے ہو مگر کچھ نہیں کھلتا کہنا
بات کہنا بھی تمہارا ہے معما کہنا
رو کے اس شوخ سے قاصد مرا رونا کہنا
ہنس پڑے اس پہ تو پھر حرف تمنا کہنا
مثل مکتوب نہ کہنے میں ہے کیا کیا کہنا
نہ مری طرز خموشی نہ کسی کا کہنا
اور تھوڑی سی شب وصل بڑھا دے یارب
صبح نزدیک ہمیں ان سے ہے کیا کیا کہنا

پھاڑ کھاتا ہے جو غیروں کو جھپٹ کر سگ یار
میں یہ کہتا ہوں مرے شیر ترا کیا کہنا
ہر بن موئے مژہ میں ہیں یہاں سو طوفاں
عین غفلت ہے مری آنکھ کو دریا کہنا
وصف رخ میں جو سنے شعر وہ ہنس کر بولے
شعر ہیں نور کے ہے نور کا تیرا کہنا
لا سکو گے نہ ذرا جلوۂ دیدار کی تاب
ارنی منہ سے نہ اے حضرت موسیٰ کہنا

کر لیا عہد کبھی کچھ نہ کہیں گے منہ سے
اب اگر سچ بھی کہیں تم ہمیں جھوٹا کہنا
خاک میں ضد سے ملاؤ نہ مرے آنسو کو
سچے موتی کو مناسب نہیں جھوٹا کہنا
کیسے ناداں ہیں جو اچھوں کو برا کہتے ہیں
ہو برا بھی تو اسے چاہئے اچھا کہنا
دم آخر تو بتو یاد خدا کرنے دو
زندگی بھر تو کیا میں نے تمہارا کہنا

پڑھتے ہیں دیکھ کے اس بت کو فرشتے بھی درود
مرحبا صل علیٰ صل علیٰ کیا کہنا
اے بتو تم جو ادا آ کے کرو مسجد میں
لب محراب کہے نام خدا کیا کہنا
ان حسینوں کی جو تعریف کرو چڑھتے ہیں
سچ تو یہ ہے کہ برا ہے انہیں اچھا کہنا
شوق کعبے لیے جاتا ہے ہوس جانب دیر
میرے اللہ بجا لاؤں میں کس کا کہنا

ساری محفل کو اشاروں میں لٹا دو اے جان
سیکھ لو چشم سخن گو سے لطیفہ کہنا
گھٹتے گھٹتے میں رہا عشق کمر میں آدھا
جامۂ تن کو مرے چاہئے نیما کہنا
میں تو آنکھوں سے بجا لاتا ہوں ارشاد حضور
آپ سنتے نہیں کانوں سے بھی میرا کہنا
چستیٔ طبع سے استاد کا ہے قول امیرؔ
ہو زمیں سست مگر چاہئے اچھا کہنا

سراپا ترا کیا قیامت نہیں ہے؟
ادھر حشر سی دل کی حالت نہیں ہے
محبت مری کیا عبادت نہیں ہے
وہ اک نور ہے جس کی صورت نہیں ہے
ترے ان لبوں کو میں تشبیہ کیا دوں؟
کہ پھولوں میں ایسی نزاکت نہیں ہے
ہے چاہت کہوں روپ تیرا غزل میں
مگر مجھ میں حسن خطابت نہیں ہے

بیاں ہو رہی ہے جو آنکھوں سے تیری
پڑھی میں نے ایسی حکایت نہیں ہے
وہ جب بولتا ہے مدھر بولتا ہے
کسی شے میں ایسی حلاوت نہیں ہے
میں تعریف تیری کروں بھی تو کیسے؟
زبان و بیاں پر وہ قدرت نہیں ہے
ہے آلوکؔ میری غزل جان محفل
پر اس کو جو بھائے وہ رنگت نہیں ہے

وہ حسن بے مثال کہاں جلوہ گر نہیں
اپنا قصور ہے ہمیں تاب نظر نہیں
سنتے ہیں چاند رات کو آیا تھا بام تک
پھر اس کے بعد کیا ہوا کچھ بھی خبر نہیں
اس کے سراپا حسن کی تعریف کیا کریں
سر تا قدم پری ہے فقط اس کے پر نہیں

بکھرے ہوئے ہیں بال ستاروں کی چھاؤں میں
سجدے میں گر پڑیں گے ستارے یہ در نہیں
گزری تھی رات اس کے قدم پر پڑے پڑے
دیکھی پھر اس کے بعد کبھی پھر سحر نہیں
اس کی فرازؔ ایک جھلک بھی کسے نصیب
ایک تم کے تم نے دیکھا اسے رات بھر نہیں

لمحہ لمحہ یہی سوچوں یہی دیکھا چاہوں
تیری آنکھوں میں تو بس اپنا ہی چہرہ چاہوں
یہ بھی کیا بات کہ میں تیری انا کی خاطر
تیری قامت سے زیادہ ترا سایا چاہوں
مجھ سے الفت بھی نہیں ہے تو نہ جانے پھر کیوں
تیری محفل میں فقط اپنا ہی چرچا چاہوں
وہ تو گونگا ہے مگر مجھ کو یہ ضد ہے کیسی
اپنی تعریف میں کچھ اس سے بھی سننا چاہوں

ساتھ دینے سے ہوئے جاتے ہیں قاصر الفاظ
جانے کیا کیا میں تری شان میں لکھنا چاہوں
میں تو اک ایسا مسافر ہوں جو تھکتا ہی نہیں
اپنی منزل سے بھی آگے کوئی جادہ چاہوں
دل سے بادل کبھی اٹھتے ہی نہیں ہیں اخترؔ
کس لیے آنکھوں سے بہتا ہوا دریا چاہوں

دل کے رہنے کے لیے شہر خیالات نہیں
سر بہ سر ہے نفی اس میں کہیں اثبات نہیں
رنج گر واں سے تو راحت بھی وہیں سے آوے
کون کہتا ہے یہاں وحدت آیات نہیں
مجھ سے کہتے ہیں حوائج سے سروکار نہ رکھ
میری تعریف بجز قصۂ حاجات نہیں
کوئی بتلاؤ شب و روز پہ کیا گزری ہے
رات خاموش نہیں دن میں کوئی بات نہیں

تھی فلاطوں کی جو جمہور سے رو گردانی
ہم سمجھتے تھے خرافات خرافات نہیں
دل سے گزرے کبھی دشمن کے لیے فکر ضرر
وہ وطیرہ نہیں میرا مرے جذبات نہیں
عہد بے مہر میں اک چال محبت بھی چلے
شہہ میں بازی ہے مری گرچہ ابھی مات نہیں
صاحبا دیکھنا حد سے نہ بڑھے یورش غم
ناتواں دل ہے مرا خیمۂ سادات نہیں

الگ الگ تاثیریں ان کی، اشکوں کے جو دھارے ہیں
عشق میں ٹپکیں تو ہیں موتی، نفرت میں انگارے ہیں
تم سے مل کر کھل اٹھتا تھا، تم سے چھوٹ کے پھیکا ہوں
اے رنگریز مرے چہرے کے سارے رنگ تمہارے ہیں
گرمی کی لو میں تپنے کے بعد ہی پانی کا ہے مزہ
تجھ کو جیتنا آساں تھا، ہم جان کے تجھ کو ہارے ہیں

اے پروائی میری خوشبو اس چوکھٹ کے دم سے ہے
تو بھی گزر کے دیکھ جہاں میں نے کچھ لمحے گزارے ہیں
منہ سے بتاؤ یا نہ بتاؤ تم ہم کو دل کی باتیں
جان من یہ نین تمہارے، یہ جاسوس ہمارے ہیں
ایسی بات ملن میں کب ہوگی جیسی اس پل میں ہے
سب کے بیچ میں میں ہوں، وہ ہے اور خاموش اشارے ہیں
تیرے منہ پر تیری ہم نے کبھی نہ کی تعریف ذرا
لکھنے بیٹھے تو کاغذ پر رکھ دئے چاند ستارے ہیں

کیا ضرورت بے ضرورت دیکھنا
تم نہ آئینے کی صورت دیکھنا
پھر گئیں بیمار غم کو دیکھ کر
اپنی آنکھوں کی مروت دیکھنا
ہم کہاں اے دل کہاں دیدار یار
ہو گیا تیری بدولت دیکھنا

ہے وہ جب دل میں تو کیسی جستجو
ڈھونڈنے والوں کی غفلت دیکھنا
سامنے تعریف پیچھے گالیاں
ان کی منہ دیکھی محبت دیکھنا
جن کو باقی ہی نہ ہو امید کچھ
ایسے مایوسوں کی حسرت دیکھنا

مرا خط یہ کہہ کے غیروں کو دیا
اک ذرا اس کی عبارت دیکھنا
اور کچھ تم کو نہ آئے گا نظر
دل میں رہ کر دل کی حسرت دیکھنا
صبح اٹھ کر دیکھنا احسنؔ کا منہ
ایسے ویسوں کی نہ صورت دیکھنا

اک جسم ہیں کہ سر سے جدا ہونے والے ہیں
ہم بھی زباں سے اپنی ادا ہونے والے ہیں
تعریف ہو رہی ہے ابھی تھوڑی دیر بعد
خوش ہونے والے سارے خفا ہونے والے ہیں
سنتے ہیں وہ انار کلی کھلنے والی ہے
کہئے کہ ہم بھی موج صبا ہونے والے ہیں

قربت میں اس کی اور ہی کچھ ہونے والے تھے
اس سے بچھڑ کے دیکھیے کیا ہونے والے ہیں
منتر کی طرح اس کو پڑھے جا رہے ہیں ہم
اک دن طلسم ہوش ربا ہونے والے ہیں

سر بہ زانو کوئی فن کار الگ بیٹھا ہے
میں یہاں ہوں مرا کردار الگ بیٹھا ہے
شہر میں نامۂ تقدیس لکھا جائے گا
مطمئن ہوں مرا انکار الگ بیٹھا ہے
تیری تعریف میں سب بول رہے ہیں لیکن
اس پہ حیرت ہے کہ معیار الگ بیٹھا ہے

غیر محفوظ ہیں دیوار بنانے والے
اور شہنشہ سر مینار الگ بیٹھا ہے
اب دباؤ گے تو پتھر سے نکل آئے گی
ایک آواز کا حق دار الگ بیٹھا ہے

کوشش ہے شام ہی سے کہ محفل سجاؤں میں
خوابوں کو ان کی نیند سے کیسے جگاؤں میں
تعریف میری کر کے بھی تھکتے نہ تھے جو لوگ
اب بھی وہی ہوں ان کو مگر کیا بتاؤں میں
باد صبا کے سوز سے دل بھی نہ بچ سکا
قصے بہار کے ہیں تجھے کیا سناؤں میں

اس پر ہی اعتبار کروں آنکھ موند کر
یا اس سے روز روز کے دھوکے ہی کھاؤں میں
پھیکی رہی ہے میری چمک اس کی بزم میں
اس کے قریب اور دئے کیا جلاؤں میں
ببیاکؔ داستان حوادث ہے جب حیات
کس کو کروں میں یاد کسے بھول جاؤں میں

چاہتا جو بھی ہے وہ کہہ کے گزر جاتا ہے
دل حساس اس احساس ث مر جاتا ہے
ذہن میں بات بزرگوں کی تبھی بیٹھتی ہے
جب جوانی کا نشہ سر سے اتر جاتا ہے
جب انا میری ضرورت کا گلا گھونٹتی ہے
رنگ خود داری کے چہرہ کا اتر جاتا ہے

ڈسنے لگتی ہے مری خانہ بدوشی مجھ کو
جب کوئی پنچھی کبھی شام کو گھر جاتا ہے
جھوٹی تعریف سے ہوتی ہے مسرت اس کو
آئنہ کوئی دکھا دے تو بپھر جاتا ہے
جرم کرتا ہے کوئی اور یہاں پر عالم
اور الزام کسی اور کے سر جاتا ہے

اسے تم سے محبت ہے غلط فہمی میں مت رہنا
یہ بس دل کی شرارت ہے غلط فہمی میں مت رہنا
تمہی کو دیکھ کر وہ مسکراتا ہے تو حیرت کیا
اسے ہنسنے کی عادت ہے غلط فہمی میں مت رہنا
ہوئے برباد تو اب آہ و زاری کر رہے ہو تم
کہا بھی تھا سیاست ہے غلط فہمی میں مت رہنا

میں تجھ کو چاہتا ہوں بات یہ سچ ہے مگر پھر بھی
مجھے تیری ضرورت ہے غلط فہمی میں مت رہنا ہی
جھکی نظروں سے تکنا اور خموشی سے گزر جانا
محبت کی روایت ہے غلط فہمی میں مت رہنا
کیا کرتا ہوں راہیؔ اس کی تعریفیں سبب یہ ہے
وہ مجھ سے خوب صورت ہے غلط فہمی میں مت رہنا

کسی کا آپ پر اعتبار کرنا.آپ سے
محبت کرنے سے زیادہ قابلِ تعریف ہے

محبّت
تمہیں دیکھا تو محبت بھی سمجھ آئی
ورنہ اس لفظ کی اکثر تعریف سنا کرتے تھے

لوگ ہماری تعریف اس لیے کرتے ہیں
کہ اللّٰہ نے ہمارے خفیہ گناہوں کو چُھپا رکھا ہے۔
ہم پر احسان اُن لوگوں کا نہیں ہے جو ہماری تعریف
کرتے ہیں بلکہ اُس ذات کا ہے جو ہمارے بد
اعمال کا پردہ فاش نہیں کرتا۔
بے شک
اللّہ ﷻ محبت ہے

دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی ایوارڈ نہیں
.کہ آپ کی تربیت کی وجہ سے لوگ آپکے والدین کی تعریف اور عزت کریں
الحَمدُلِلّٰہ

پیار آنکھوں سے جتایا تو برا مان گئے
حالِ دل ہم نے سنایا تو برا مان گئے
اپنے گجرے کے ہر اک پھول کی تعریف سنی
زخمِ دل ہم نے دِکھایا تو برا مان گئے

وہ تو ہر روز رلاتے ہیں گھٹاؤں کی طرح
ہم نے اک روز رلایا تو برا مان گئے
صرف اِتنی سی خطا پر ہمیں دشمن جانا
سر کو قدموں میں جُھکایا تو برا مان گئے

۔”for sale“ہم سارے لوگ ہیں
ہم نے اپنی قیمت چند لفظ یا جملے پر لگا رکھی ہے ۔
کوئی تعریف کر کے ہمیں خرید لیتا ہے
!!!تو کوئی محبت بھرے چند حرف بول کر ۔ ۔ ۔

جنون عشق سے خدا بھی بچ نہ سکا (اقبال)
تعریف عشق یار میں سارا قرآن لکھ دیا

مرشد
پھر ۔ہم نے ایک دن برا سپنا دیکھا
جس میں آپ کی تعریفوں کے
پل باندھے جا رہے تھے

میں تو تیری زلف کا عادی ہوں
تیری کاتیلانہ ادا کا عادی ہوں
ہاتھ تو بہت خوبصورت دیکھے ہیں
پر میں تو تیری کلائی کا عادی ہوں
گہرے سمندر بھی کچھ گہرے نہیں
میں تو تیری آنکھوں کا عادی ہوں

چاند بھی مجھکو داغ دار لگے
کیونکہ میں تو تیرے چہرے کا عادی ہوں
لکھنے کو تو بہت تعریف لکھدوں
یے کے میں تیری کشش کا عادی ہوں
میرے بعد یا پہلے تمھے جو ملے گا
بتانا اسے میں تیری روح کا عادی ہوں

چائے تیری تعریف ممکن کہاں؟#
!..تو آسرا ہے غم کے ماروں کا

غلطیاں بھی ہوں گی٬غلط بھی سمجھا جائے گا
یہ زندگی ہے
یہاں تعریفیں بھی ہوں اور ذلیل بھی کیا جائیگا-

برے الفاظ تکلیف دیتے ہیں۔ چاہے مذاق کے طور پر ہی
،بولے جائیں ، اور اچھے الفاظ سکون اور خوشی دیتے ہیں
چاہے وہ تعریف ہی کیوں نہ ہو۔ اپنی زبان پر اپنے نفس
سے ایک محافظ بنانے کی کوشش کریں جو ہمارے
الفاظ کا انتخاب کرے۔
خوش رہیں اور اللّٰہ رب العزت خوشیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائیں۔
آمیــن ثــمہ آمیــن یــا ربــــ العــالمیــن

مجھے نہیں پتہ انسان کی تعریف کیا ہے
بس انسان کہنے کے لاٸق وہی ہے
جو دوسروں کو دوکھ نہ دے

وہ مجھے شاعر سمجھتی ہے مگر میں تو بس
اس کی تعریف میں الفاظ کو جوڑکر لکھتا ہوں
شعر لکھنے کا ہنر کہاں میرے بس میں ہے محی~
میں تو چند الفاظ کے مجموعے کو توڑکر لکھتا ہوں

تعریفوں کے پل کے نیچے
مطلب کی ندیاں بہتی ہیں

،عورت کو تعریف کی کمی نہیں ھوتی
!!اُسے حَسین کہو گے تو حَسین تر ھو جائے گی۔۔۔

مجھے معلوم نہیں محبت کی تعریف مگر
تجھے دیکھوں تو دل کو سکوں ملتا ہے

عجیب لوگ ہیں تیری بستی کے
تعریف سے پہلے تنقید کرتے ہیں۔

جب چیزیں بہت پیچیدہ ہوجاتی ہیں اور آپ کو سمجھ
نہیں آتا کہ آپ کی زندگی میں ہو کیا رہا ہے یہی وقت ہے
بھروسے کا، اپنے پروردگار پر، اپنے اللّٰه پر مکمل اعتماد اور توکل
رکھے بے شک ہمارا رب ہر چیز سے واقف ہے اور اس کی
حکمت کو ہم نہیں جان سکتے، وقت کے ساتھ چیزیں واضح
ہو جائیں گے۔اور پھر ایک وقت آۓ گا کہ آپ اپنے
رب کی تعریف اور شکر بیان کرتے کرتے نہیں تھکینگے۔
ان شاء اللّٰه

میں تعلق میں مہنگے تحفوں، بلا وجہ تعریفوں
اور اچھی صورت کے حق میں نہیں ہوں۔
اگر ایک کہہ نہ سکے اور دوسرا اس کی پریشانی
سمجھ لے، تھکے ہوٸے حلیے میں ایک دوسرے کے
سامنے جانے میں ہچکچاہٹ نہ ہو اور عیبوں
،پر طعنے ملنے کی بجاۓ محبت سے نصیحتیں ملیں تو
میری ڈکشنری میں اسی کا نام محبت ہے یہی محبت ہے۔

جب لکھتی ہوں تمھاری تعریف میں کچھ
میری ڈائری سے تتلیاں لفظ چنتی ہیں

اس نے پوچھا آپ کی تعریف؟
میں نے کہا آپ سے نہ ہوگی.

الحمداللہ ثمہ الحمداللہ آپ مسلمان ہیــــــــں
تو تکلیفوں … غموں … اور آزمائشوں … میــــــــں
…آپ کو رونے کی … دُکھی ہونے کی … اور پریشان ہونے کی … اجازت ہے
…لیکن کسی موڑ پر … کسی بھی مقام پر … اور کسی بھی حال میــــــــں
…مایوس ہونے کی اجازت نہیــں ہے
…کیونکہ مایوسی ابلیس کا وہ تیز دھار خنجر ہے
*جو آپ کے دل کو اللہ کے راستے سے کاٹ دیتا ہے
زندگی میں شکر کو شامل کیجئے*لوگ ہماری تعریف اسی
وجہ سے کرتے ہیں کہ اللّه نے ہمارے خفیہ گناہوں کو چھپا
رکھا ہے ہم پر احسان اُن لوگوں کا نہیں ہے جو ہماری تعریف
.کرتے ہیں بلکہ اُس ذات کا ہے جو ہمارے بد اعمال کا پردہ فاش نہیں کرتا ہے

!!عزت اور تعریف۔۔
*مانگی نہیں جاتی۔۔کمائی جاتی ہے۔۔

تجھ کو چاہا تو محبت کی سمجھ آئی
ورنہ
اس لفظ کی تعریف سنا کرتے تھے

ایڈمینوں کی تعریف میں شاعری
کٹورے میں کیرا
ہمارا ایڈمن ہیرا
ویڈیوکان سیمسنگ
ہمارا ایڈمن ہنڈسم
لال پھول پیلا پھول
ایڈمن ہمارا بیوٹیفل
موں میں چنگم
ایڈمن ہمارا سنگھم

مجھے پسند ہیں وہ لوگ___
،جو جھوٹی تعریفیں نہیں کرتے

فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
،دوسروں پر مہربانی کرو، تعریف ہو گی اور صلہ بھی پاؤ گے
،لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آؤ

تم جو کرتے ہو نا میری ہر بات پہ تعریف
محترم ۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے بگاڑو گے تم

مجھے پسند ہے آپنے آپ سے خوش ہونا
مجھے ڈرلگتا ہے تعریف کرنے والوں سے

عامر جب چومے تو جیسے بارش برستی ہے پھولوں پر
اُس کی محبت ایسی ہے جیسے بادل گرجتے ہیں بے سہاروں پر
جب چلے تو بجلی گرتی ہے ہم جیسوں پر
جب پہن کر نکلتی ہے کالے کپڑے عامر اُسے کیا پتا کیا گزرتی ہے ہم جیسوں
اُس کی زلفوں کا رنگ مجھے پسند ہے
ایسی لیے ظلم کرتی ہے مجھ پر

اُس کی سالگرہ کا کیک کھیا ہے میں نے
اُس نے خود چھریاں چلائی تھی کیک پر
چھوٹی سی عمر میں شادی کر لی آپ نے
شہلا جی. بڑی جلدی کی آپ نے
کوشش جاری ہے تیرے حُسن پہ کتاب لکھنے کی
گر اجازت دے تو قلم اُٹھانے کی

حُسن تیرا ھو گا قلم میری ھو گی
دیکھنا زمانے کو جلن ھو گی
تیرے اک دیدار کے لئےتیری گلی سے گزرتا ہوں
میں بھی کتنا پاگل ھوں تجھ پہ مرتا ھوں
تیری مسکان پہ قربان جاناں
بس یہی رہا ارمان جاناں

تیری محبت میں ،،،میں کیا کر بیٹا ھوں
ان لفظوں سے دوستی کر بیٹھا ہوں
جب تک میری قلم میں سیاہی ختم نہیں ھوگی
تیرے حُسن کی تعریف ختم نہیں ھوگی
چلو اب مجھے نیند آئی ہے
باقی شاعری کل ھوگی

* …گورو _کہتے ھیں *
*کــمال وہ ھــو تا ھــے جســکی تعریف دشمــن کــر ے *

شاعروں سے کچھ لفظ لے کر ادھار
دیکھ میں نے تیرا نقش لیا ہے اتار
———-
عجیب لوگ ہیں تیری بستی کے
تعریف سے پہلے تنقید کرتے ہیں۔
———
تم کیا جانو گے دو دن کی رفاقت میں ہمیں
ہم نے نصف عمر گنوادی ہے خود کو سمجھنے میں

جب بھی کوئی تازہ غزل تصنیف کرتا ہوں
اس میں تیرے حسن کی تعریف کرتا ہوں

اے شہر بے مثال تیری فضاؤں کی کیا تعریف کروں
…تیری نسبت ہی ہے اب تو پہچان میری

خوبصورت
کیا تعریف کرو ں اسکی میں
وو تو مہکتا گلاب ہے
جھیل سی اسکی آنکھیں ہیں
زلفیں اسکی بکھری سی لگتی جیسے لاجواب ہیں
چہرہ اسکا چاند سا چاند بھی اسکے آگے چھپتا ہے

تیری تعریف کرتے ہیں
تو اس میں برائی ہی کیا ہے
آخر
تیری صورت خدا نے خود ہی بنائی ہے

خوبصورت نظر آنا ہمارا فرض ہے اور
تعریف کرنا آپ کا حق ہے

قلم سے لکھتے لکھتے قلم بھی ٹوٹ جاتا ہے
محمد کی تعریفں کرتے کرتے سورج بھی دھوب جاتا ہے

تعریف کیا کروں میں اس حسن بے مثل کی
عرشِ مکیں ہے لیکن رکھتا نظر ہے سب کی
سب کا حبیب ہے وہ سب کے قریب ہے وہ
ہمدم بھی حکمراں بھی ہر دل عزیز ہے وہ
کرتے ہیں انکو سجدہ پتھر بھی اور شجر بھی
سنتا ہے سب کے دل کی عاصی ہو یا امر بھی
پھر کیوں نہ دل لگائیں اس حسنِ لم یزل سے
جو بے وفا نہیں ہے سنتا ہے دل کی دل سے

یہ جو تم میں ہلکا ہلکا سا غرور ہے
سب میری تعریفوں کا قصور ہے

تعریف کےمحتاج نہیں ہوتےسچےلوگ
پھولوں کوکبھی عطر لگایانہیں جاتا

چائے کی تعریف کرنے کو جب بھی قافیہ جوڑا ہے
مجھے احساس یہی ہوا ہے کہ میرا علم تھوڑا ہے

سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست
لیکن خدا کرے، وہ ترا جلوہ گاہ ہو

سب ہی تعریف کرتے ہیں میری تحریروں کی
کبھی کوئی نہیں سنتامیرے لفظوں کی سسکیاں۔

میرے لفظوں میں ہے ۔تعریف ایک چہرہ کی
جس کی مسکراہٹ سے چلتی ہیں شاعری اپنی ۔

جِدھر میں آنکھ اُٹھا کر دیکھتا ہوں ہے عیاں دلبر
اِدھر دلبر اُدھر دلبر یہاں دلبر وہاں دلبر
ہمارے سامنے واعظ نہ کر تعریف حُوروں کی
جُو سُن لے گا تو ہو جائے گا ہم سے بدگُماں دلبر

میرے لفظوں کی تعریف کرتے ہو
میرا دکھ نہیں پوچھو گے ۔۔۔؟؟؟

اپنی تعریف #خود کریں#
برائی کرنے کے لیے لوگ موجود ہیں#

انسان کی تعریف سے زیادہ اس کی خامیاں اسے
ہنر مند بناتی ہیں

کیا تعریف کروں اُس ظلم کے حسن کی
پوری کتاب تو بس ہونٹوں پے ختم ہو جاتی ہے

تعریف روز لیتے ہو اپنے غرور کی
مجھ کو برہمن بت پندار کر دیا

استاد کے احسان کا کر شکر منیرؔ آج
کی اہل سخن نے تری تعریف بڑی بات