Badnaam Shayari 2 Lines

اک جل تھل تھی کل تک یہ زمیں یہ دشت بھی کل تک دریا تھے
یہ شور تھا کل اک سناٹا یہ شہر بھی کل تک صحرا تھے
آغاز اپنا وحشت بصری انجام اپنا شوریدہ سری
ہم آج بھی ہیں بدنام بہت ہم کل بھی نہایت رسوا تھے
تنہائی ذات کا سایہ ہے تنہائی اپنا ورثہ ہے
ہم آج بھی ہیں تنہا تنہا ہم کل بھی تنہا تنہا تھے

ماضی کے خرابوں میں بھی کہیں لو دیتا رہا سورج اپنا
ماضی کے خرابوں میں بھی ہم اک خواب جہاں فردا تھے
اپنا ہی تو ہے شہکار عمل تہذیب کا یہ زنداں اکبرؔ
ہم آج ہیں شہروں کے قیدی کل تک آوارۂ صحرا تھے

نہ حاصل ہوا صبر و آرام دل کا
نہ نکلا کبھی تم سے کچھ کام دل کا
محبت کا نشہ رہے کیوں نہ ہر دم
بھرا ہے مئے عشق سے جام دل کا
پھنسایا تو آنکھوں نے دام بلا میں
مگر عشق میں ہو گیا نام دل کا

ہوا خواب رسوا یہ عشق بتاں میں
خدا ہی ہے اب میرے بدنام دل کا
یہ بانکی ادائیں یہ ترچھی نگاہیں
یہی لے گئیں صبر و آرام دل کا
دھواں پہلے اٹھتا تھا آغاز تھا وہ
ہوا خاک اب یہ ہے انجام دل کا

جب آغاز الفت ہی میں جل رہا ہے
تو کیا خاک بتلاؤں انجام دل کا
خدا کے لئے پھیر دو مجھ کو صاحب
جو سرکار میں کچھ نہ ہو کام دل کا
پس مرگ ان پر کھلا حال الفت
گئی لے کے روح اپنی پیغام دل کا

تڑپتا ہوا یوں نہ پایا ہمیشہ
کہوں کیا میں آغاز و انجام دل کا
دل اس بے وفا کو جو دیتے ہو اکبرؔ
تو کچھ سوچ لو پہلے انجام دل کا

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا
جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گل تصویر کا شیدا نہیں ہوتا
اللہ بچائے مرض عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا

تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گل تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا
میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے ان کا
لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

جرأت اے دل مے و مینا ہے وہ خود کام بھی ہے
بزم اغیار سے خالی بھی ہے اور شام بھی ہے
زلف کے نیچے خط سبز تو دیکھا ہی نہ تھا
اے لو ایک اور نیا دام تہ دام بھی ہے

چارہ گر جانے دے تکلیف مداوا ہے عبث
مرض عشق سے ہوتا کہیں آرام بھی ہے
ہو گیا آج شب ہجر میں یہ قول غلط
تھا جو مشہور کہ آغاز کو انجام بھی ہے

کام جاناں میرا لب یار کے بوسے سے سوا
خوگر چاشنی لذت دشنام بھی ہے
شیخ جی آپ ہی انصاف سے فرمائیں بھلا
اور عالم میں کوئی ایسا بھی بدنام بھی ہے
زلف و رخ دیر و حرم شام و سحر عیشؔ ان میں
ظلمت کفر بھی ہے جلوۂ اسلام بھی ہے

لازمی تو نہیں ولی ہو جائے
آدمی کاش آدمی ہو جائے
کیوں نہ بدنام عاشقی ہو جائے
جب لگی دل کی دل لگی ہو جائے

روز کا ٹوٹنا بکھرنا کیوں
جو بھی ہونا ہے آج ہی ہو جائے
لمحہ لمحہ جیوں تجھے جاناں
تو اگر میری زندگی ہو جائے

میری آنکھیں چھلکنے لگتی ہیں
گر کوئی دوست اجنبی ہو جائے
گھر ہمارا دھواں دھواں سا ہے
کھول کھڑکی کہ روشنی ہو جائے
کون اعجازؔ پر کرے گا اسے
اپنے اندر اگر کمی ہو جائے

کھیل کر سلسلۂ گردش ایام کے ساتھ
زندگی ہم نے گزاری بڑے آرام کے ساتھ
سن رہا ہوں دل برباد کے افسانے میں
آپ کا نام بھی آیا ہے مرے نام کے ساتھ

شکر صد شکر کہ مدت پہ تجھے شکوہ طراز
یاد تو آیا کوئی سیکڑوں الزام کے ساتھ
کم نگاہی سے تری بزم طرب میں ساقی
دیکھ آنکھیں نہ چھلک جائیں کہیں جام کے ساتھ

تیری یادوں میں گزرتے ہوئے لمحوں کی تھکن
لطف آغاز بھی لائی غم انجام کے ساتھ
بڑھتا جاتا ہے اجالوں پہ اندھیروں کا اثر
صبح بدنام نہ ہو جائے کہیں شام کے ساتھ

اس زمانے میں گلے ملتے ہوئے دیکھا ہے
روش خاص کو ہم نے روش عام کے ساتھ
ہم بھی کھیلے ہیں لب شاہد مے سے احمرؔ
جرعہ کش ہم بھی رہے ہیں کبھی خیامؔ کے ساتھ

لفظ میں تصویر میں پتھر میں قید
سب نے اس کو کر دیا منظر میں قید
دل تو بیچارہ یوں ہی بدنام ہے
جو بھی ہے وہ سب کا سب ہے سر میں قید
صرف اچھا ہونا ہی سب کچھ نہیں
قدر ہے انسان کی اب زر میں قید

آج کا دن شر پسندوں کا ہے پھر
شہر سارا ہو گیا ہے گھر میں قید
آسماں کی وسعتیں کروا مجھے
اور کب تک میں رہوں پیکر میں قید
میرے شعروں میں بھی ہیں تہہ داریاں
جیسے خوشبو رہتی ہے عنبر میں قید

اب بھی آئے ہے وہ گلی میری
اس کو ہونا ہے آج بھی میری
جانتی ہے وہ میری اک اک بات
اس نے پڑھ لی ہے ڈایری میری

تیز رفتار ہو گیا ہوں میں
آگے چلنے لگی گھڑی میری
سونے چاندی کے ایک پنجرے میں
قید ہے آج کل پری میری

خواہشوں کا غلام ہوں میں بھی
کام آئی نہ آگہی میری
آپ تو بات میری سن لیجے
زندگی نے نہیں سنی میری
لوگ بدنام کر رہے ہیں اسے
دیکھی جاتی نہیں خوشی میری

ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو
یہ نیا کھیل ملا ہے مری تنہائی کو
تھا جو سینے میں چراغ دل پر خوں نہ رہا
چاٹیے بیٹھ کے اب صبر و شکیبائی کو
دل افسردہ کسی طرح بہلتا ہی نہیں
کیا کریں آپ کی اس حوصلہ افزائی کو

خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو
نگۂ ناز نہ ملتے ہوئے گھبرا ہم سے
ہم محبت نہیں کہنے کے شناسائی کو
دل ہے نیرنگئ ایام پہ حیراں اب تک
اتنی سی بات بھی معلوم نہیں بھائی کو

ہم سے پہلے تو کہیں پیار نہ تھا شہر بہ شہر
اپنے ہم راہ یہ سیلاب گیا شہر بہ شہر
ایسے بدنام ہوئیں اپنی مہکتی غزلیں
جیسے آوارگیٔ موج صبا شہر بہ شہر

لوگ کیا کیا نہ گئے توڑ کے پیمان وفا
دل کی دھڑکن نے مگر ساتھ دیا شہر بہ شہر
ہم کہ معصومؔ ہیں دیہات کے رہنے والے
ڈھونڈتے پھرتے ہیں کیا جانئے کیا شہر بہ شہر

جوش وحشت میں گریباں پہ نظر ہے شاید
یہی دیوانے کا سامان سفر ہے شاید
میں تو صرف آپ کی بدنامی کا کرتا ہوں خیال
آپ کو بھی مری رسوائی کا ڈر ہے شاید
ان کے دامن پہ جو ٹپکا تھا خوشی کا آنسو
میں تو سمجھا تھا درخشندہ گہر ہے شاید

روندا جاتا ہے جو پیروں سے عبث مقتل میں
یہ کسی عاشق ناکام کا سر ہے شاید
بے پیے ہوش فراموش ہیں سارے مے کش
ان کی مخمور نگاہوں کا اثر ہے شاید
زلف و رخ دیکھ کے احمدؔ یہ گماں ہوتا ہے
شام کی گود میں بیتاب سحر ہے شاید

دل شکستہ ہے مرا دوست کی قربت کے بغیر
کتنا خاموش ہوں میں ساز محبت کے بغیر
تنگیٔ رزق سبو ہو کہ فراوانی ہو
مجھ کو پینا ہی نہیں اب تری صحبت کے بغیر

قربتوں میں نہ رہے کم سخنی کا شکوہ
میرے دکھ کو وہ سمجھ جائیں شکایت کے بغیر
مجھ کو ہر نقش ترا نقش قدم لگتا ہے
دو قدم چل نہ سکوں تیری رفاقت کے بغیر

اب بہر طور ہمیں ہونا پڑے گا بدنام
چرچے ہوتے ہیں یہاں کب کسی تہمت کے بغیر
انکساری ہو نمایاں ترے کردار میں دوست
اور ہے شرط نمایاں ہو رعونت کے بغیر
یہ جو ہر گام پہ احساس زیاں ہے عادلؔ
زندگی کٹ نہ سکے گی کسی وحشت کے بغیر

عاجز ہوں ترے ہاتھ سے کیا کام کروں میں
کر چاک گریباں تجھے بدنام کروں میں
ہے دور جہاں میں مجھے سب شکوہ تجھی سے
کیوں کچھ گلہ گردش ایام کروں میں

آوے جو تصرف میں مرے مے کدہ ساقی
اک دم میں خموں کے خمیں انعام کروں میں
حیراں ہوں ترے ہجر میں کس طرح سے پیارے
شب روز کو اور صبح کے تئیں شام کروں میں

مجھ کو شہ عالم کیا اس رب نے نہ کیونکر
اللہ کا شکرانہ انعام کروں میں

محبت کا تقاضا ہے غموں سے چور ہو جانا
کبھی ہنسنا کبھی رونا کبھی مجبور ہو جانا
تمہاری کج ادائی نے بھی مجھ سے کھیل کھیلا ہے
مرا بدنام ہو جانا ترا مشہور ہو جانا

ہمارے دل کا افسانہ جہاں تک یاد آتا ہے
فقط پہلی نظر میں گر کے نامنظور ہو جانا
مری پینے کی عادت بھی عجب سے گل کھلاتی ہے
جہاں دیکھی حسیں آنکھیں وہیں مخمور ہو جانا

زمانہ بھر تو پتھر ہے فقط ہیں آبگینے ہم
ذرا سی ٹھیس کیا پہنچی کہ چکنا چور ہو جانا
کبھی جو آئنہ دیکھا وہیں شرما گئے خود سے
انہیں آتا ہے کیسے حسن سے مغرور ہو جانا

کمال ان کی طبیعت ہے کبھی بگڑے کبھی سنورے
کریں جو لب کشائی بھی وہی دستور ہو جانا
ہماری حالت دل کا بھروسہ بھی نہیں برہمؔ
جہاں منزل نظر آئے وہاں سے دور ہو جانا

دل کے زخموں سے چمن میں شور برپا کر دیا
میں نے پھولوں میں ہنسی کا تیری چرچا کر دیا
اپنی وحشت اپنی بدنامی کا مجھ کو غم نہیں
اس کا رونا ہے کہ میں نے تجھ کو رسوا کر دیا

پھر مریض غم نہ بولا دیکھ کر ظالم تجھے
آنکھوں ہی آنکھوں میں یہ کیا کہہ دیا کیا کر دیا
سامنے تم آ گئے میں دل پکڑ کر رہ گیا
میری قسمت سے دوا نے درد پیدا کر دیا

ہائے اب کوئی ٹھکانا آرزوؤں کا نہیں
دل کی بستی لوٹ لی ظالم نے یہ کیا کر دیا
چاندنی کا رات اک دریا بنایا ماہ نے
موتیوں سے میں نے پر رو رو کے دریا کر دیا

میری میت پر وہ آیا سب ہوئے محو جمال
موت کو بھی میری ظالم نے تماشا کر دیا
اب شعاع حسن پر انوار ہے نظارہ سوز
تیری اس بے پردگی نے خود ہی پردہ کر دیا

دشت گردی کی بدولت چار تنکے چن لئے
آشیاں کا میری وحشت نے سہارا کر دیا
کیا صدا تھی سننے والے دل پکڑ کر رہ گئے
تیرے نالوں نے تو افسرؔ حشر برپا کر دیا

وحشت میں کوئی کار نمایاں نہ کر سکے
دامن کو جیب جیب کو داماں نہ کر سکے
درد دروں کا وہ بھی تو درماں نہ کر سکے
دشواریٔ حیات کو آساں نہ کر سکے

تر خون دل سے ناوک جاناں نہ کر سکے
ہم اتنی بھی تو خاطر مہماں نہ کر سکے
کچھ ایسے جلد ختم ہوئے زندگی کے دن
ہم اعتبار عمر گریزاں نہ کر سکے

دریا میں غرق دیکھنے والے بھی ہو گئے
مجھ کو مگر حوالۂ طوفاں نہ کر سکے
جلووں کو دیکھتی رہی میری نگاہ شوق
کچھ بھی حریم ناز کے درباں نہ کر سکے

رہتے ہوئے قفس میں زمانہ گزر گئے
ترک خیال سیر گلستاں نہ کر سکے
سو حشر انتظار میں ہم پر گزر گئے
اور آئی ایک حشر کا ساماں نہ کر سکے

وہ سخت جان تھے کہ زمانے کے حادثات
شیرازۂ حیات پریشاں نہ کر سکے
ہم ایسے جا کے بے خود احساس ہو گئے
اندازۂ کشاکش زنداں نہ کر سکے

بدنام کر دیا مجھے افقرؔ زمانے میں
اخفائے راز دیدۂ گریاں نہ کر سکے

خوبصورت لگ رہی ہے شام تجھ کو دیکھ کر
چشم دل کو آ گیا آرام تجھ کو دیکھ کر
یوں بھی تیرے شہر میں رسوائیاں کچھ کم نہ تھیں
ہو گیا ہوں اور میں بدنام تجھ کو دیکھ کر

بھول کر بھی میں زباں پر اس کو لا سکتا نہیں
آ گیا ہے یاد جو اک کام تجھ کو دیکھ کر
سر پہ میرے ہاتھ رکھ کر کھا رہا ہے تو قسم
جھوٹ میں پیدا ہوا ابہام تجھ کو دیکھ کر

قتل تو تیری نگاہوں سے ہوئے ہیں شہر میں
لے رہے ہیں اپنے سر الزام تجھ کو دیکھ کر
کیا کروں گا دیکھ کر ببیاکؔ عالم صبح کا
جانے کیا ہو رات کا انجام تجھ کو دیکھ کر

لغزش ساقیٔ میخانہ خدا خیر کرے
پھر نہ ٹوٹے کوئی پیمانہ خدا خیر کرے
ہر گھڑی جلوۂ جانانہ خدا خیر کرے
تیرا دل ہے کہ صنم خانہ خدا خیر کرے

لوگ کر ڈالیں نہ خود اپنے جگر کے ٹکڑے
بے نقاب ان کا چلے آنا خدا خیر کرے
دل کی بات ان سے ابھی کہہ تو گئے ہو لیکن
کوئی بن جائے نہ افسانہ خدا خیر کرے

شمع بے چین ہے بدنام نہ ہو جاؤں کہیں
پر جلا بیٹھا ہے پروانہ خدا خیر کرے
کون گزرے گا ترے دار و رسن سے ہنس کر
غم ہے جانے کہاں دیوانہ خدا خیر کرے
پاؤں اٹھتے ہی نہیں شوقؔ جبیں ہے بیتاب
سامنے ہے در جانانہ خدا خیر کرے

جب امن کے آثار دیکھتے ہیں
ماحول شرر بار دیکھتے ہیں
ہے فرض یہاں کس پہ شہریاری
سب اپنی ہی دستار دیکھتے ہیں
آئنہ تو سب دیکھتے ہیں لیکن
ہم آئنہ بردار دیکھتے ہیں

میں میل کا پتھر ہوں مجھ کو رہرو
مڑ مڑ کے کئی بار دیکھتے ہیں
جو لوگ تھے بدنام شہر بھر میں
وہ لوگ بھی کردار دیکھتے ہیں

وہ ہار میں بھی شرمسار ہے کب
ہم جیت میں بھی ہار دیکھتے ہیں
ہے خوب سخنؔ عشق نیک طینت
ہم روح کو سرشار دیکھتے ہیں

یوں ہی کفر ہر صبح ہر شام ہوگا
الٰہی کبھو یاں بھی اسلام ہوگا
کہیں کام میں وہ تو خود کام ہوگا
یہاں کام آخر ہے واں کام ہوگا

یہی دل اگر ہے یہی بے قراری
تہ خاک بھی خاک آرام ہوگا
صنم تین پانچ آپ کا چار دن ہے
سدا ایک اللہ کا نام ہوگا

یہ مژگاں وہ ہیں جن کی کاوش سے اک دن
مشبک جگر مثل بادام ہوگا
بتو جب کہ آغاز الفت ہے یہ کچھ
خدا جانے کیا اس کا انجام ہوگا

دعا کے عوض گالیاں اور تو کیا
عنایات یہی مجھ کو انعام ہوگا
یہ دو اک بلا ہیں گرفتار ان کا
کوئی صبح ہوگا کوئی شام ہوگا

یہی صبح اور شام تک گر عمل ہے
عمل تیری زلفوں کا تا شام ہوگا
میں وہ ناتواں ہوں اگر ذبح کیجے
نہ اک نالہ مجھ سے سرانجام ہوگا

جو بسمل تو کرتا ہے بسم اللہ اے شوخ
ترے کام میں میرا بھی کام ہوگا
مری لگ رہیں چھت سے آنکھیں ہیں دیکھو
مشرف کب اس سے لب بام ہوگا

کبھو تو بھی ہوگا مسلمان اے بت
سدا تیرا جھوٹا ہی پیغام ہوگا
شکار اجل ہوں گے اک روز ہم سب
ہمیشہ نہ رستم نہ یاں سام ہوگا

کہاں ہے وہ صید افگنی گور میں آہ
خدا جانے کیا حال بہرام ہوگا
نہ سن میری احساںؔ مبارک تجھے عشق
مجھے کیا ترا نام بدنام ہوگا