Pyar ka Izhaar Shayari
…ہم شارٹ کٹ کے عادی لوگ ہیــــــــں
…محبتـــــــــــــــــ میــــں بھی یہی کرتے ہیــــــــں
…احترام … توجہ … اور خیال رکھنے کی
…منازل کو چھوڑ کر … سیدھے وفا … اظہار
…قربانی … تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیــــــــں
… بالکل اسی طرح … الله عزُوجَل سے محبتـــــــــــــــــــــــــ میــــــــں بھی
…بنیادی فرائض
…ادب … اور خشوع کو … skip کر کے ولی ہونے کی
!!!…… acting کرنے لگتے ہیــــــــں … انسان بہت جلد باز ہــــــــے
ہم چاہتے ہیں تجھے دل کی گہرائیوں سے
خوف اے دل اظہار کرنے نہیں دیتا
آج تو میرے ساتھ نہیں یہ میری غلطی ہے
تجھ سے اظہار نہ کر پایا یہ میری غلطی ہے
اُس غلطی کی سزا میں کاٹ رہا ہو یے زندگی
تجھ سے اظہار نہ کر پایا محبت کے بارے ،یے میری غلطی ہے
بدلتے موسم کو دیکھ کر تیری یاد آئی
تیرے بدلتے ہوئے چہرے کی یاد آئی
سوچا امتحاں کے بعد کردوں گا اظہارِعشق
امتحاں کے بعد وہ کبھی دیدار کہ بھی نہیں آئی
آج عید کے دن تیرا دیدار ہو جاۓ
بس میری بے طلب پوری ہو جاۓ
کے میں تجھ کو دیکھ لوں بس ایک نگہ
کے شاید اسی میں محبت کا اظہار ہو جاۓ
آنکھوں سے آنکھیں ملا تو کبھی
تیرے دل میں میری جگہ بنا تو کبھی
چل آج کرتا ہوں اظہار عشق تم سے
میرا یے پیغام اس تک پہنچاؤ کبھی
یہ نہیں ہوتی ، وہ نہیں ہوتی تیرے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں ہوتی
چاہے کوئی جتنا بھی حسین ہو تیرے سامنے کسی کی زلف بھی حسین نہیں ہوتی
نہ دیکھا یہ اپنی ادائےقاتلانہ
میری راتوں کی نیند پوری نہیں ہوتی
جس خواب میں تو آ جائے پھر ان خوابوں کی تابیر نہیں ہوتی
!تابیر کا مجھے کیا کرنا
جب تو ہی میرے ساتھ نہیں ہوتی
جب توساتھ ہو تو کیا بات ہو
تیری یاد آنے پر مجھ سے پھر ریاضی حل نہیں ہوتی۔
تجھ پر لکھتار ہتا ہو غزل صبح و شام ۔۔۔
تب بھی میری تجھ سے بات نہیں ہوتی
بات ہوتی ۔۔ تو کیا۔۔ ہی اچھا۔۔ ہو تا۔۔
میرے دل میں کوئی آرزو ہی نہیں ہوتی۔
اظہار عشق ۔۔ کیا۔۔ کروں۔۔ تم۔۔سے
جب میری تجھ سے ملاقات ہی نہیں ہوتی۔
ملاقات کی تجھ سے ہے درخواست میری
تو ہے کے اس کے لیے تیار نہیں ہوتی ۔۔
اگر ۔۔ تو ۔۔ راضی۔۔ ہو صرف ایک۔۔ لمحے
پھر بھی۔۔رضؔا ۔۔ کی آرزو پوری نہیں ہوتی۔
تیرے۔۔ساتھ ۔۔ چلنے۔۔کا۔۔ خواب۔۔ تھا۔۔ میرا۔۔۔
خواب پورے کیسے کروں جب راتوں کی نیند پوری نہیں ہوتی۔
تکتے رہنا بھی ہے افراطِ محبت کی دلیل
پیار کے سینکڑوں اظہار ہوا کرتے ہیں
میں نے پوچھا تھا کہ اظہار نہیں ہوسکتا
دل پکارا کہ خبردار ! نہیں ہو سکتا
اک محبت تو کئ بار بھی ہوسکتی ہے
ایک ہی شخص کئ بار نہیں ہوسکتا
!اور جس سے پوچھے تیرے بارے میں
!یہی کہتا ہے
خوبصورت ہے ! وفادار نہیں ہوسکتا
آنکھوں سے اشک بہہ گئے تو لاج رہ گئی
ورنہ تو اظہار غم کا سلیقہ مجھ کو نہ تھا
میں لڑکا سے تھا
اور عشق کرنے کی بڑی خواہیش تھی
اظہار محبت سے نفرت تھی
مہک اٹھا ہے آنگن اس خبر سے
وہ خوشبو لوٹ آئی ہے سفر سے
میں اس دیوار پر چھڑ تو گیا تھا
اتھارے کون اب دیوار پر سے
گلہ ہے ایک گلی سے شہر دل کی
میں لڑتا پھر رہا ہوں شہر بھر سے
زبان سے لگائے گئے زخم تلوار سے لگائے گئے زخم سے زیادہ گہرے ہوتے ہیں
اِس سنہری اصول کوہمیشہ یاد رکھیں۔
کہیں ایسا نہ کسی کا مذاق اڑاتے ہوئے،تحقیر کرتے ہوئے، طنز کرتے ہوئے ،
لعن طعن کرتے ہوئے ، کسی اپنے سے بحث یا جھگڑا کرتے ہوئے یا غصے یا نفرت کا اظہار کرتےہوئے
آپ اپنے اورکسی دوسرے کے درمیان تعلق میں مستقل دراڑ پیدا کرلیں۔
ڈر ہے وہ بات کرنا نہ چھوڑ دیں
دوستو اظہار محبت اتنا آساں تو نہیں
آج میرے سوال کا جواب نہ ملا مجھے
پھر یہ سوچنا کہ وہ نالاں تو نہیں
اظہارِ عشق میں جو تحریر بھیجی ٬ رَد ہوگئی
میں پھر بھی اس کی راہ تکوں؟ مطلب حَد ہوگئی
امید پہ قائم ہے یہ دنیا تو پھر اس میں
مجھ کو ترے ہونے کا سہارا بھی بہت ہے
جی چاہتا ہے تُو کرے اظہار ِ محبت
ویسے تو مجھے ایک اشارہ بھی بہت ہے
والہانہ نہیں برتاؤ تمہارا ہم سے
کیا تمہیں اور کوئی شخص ہے پیارا ہم سے
کس لئے شانہ بہ شانہ ہیں نہ جانے ہم تم
ہمیں تم سے نہ تمہیں کوئی سہارا ہم سے
دل اڑا لے گئی دزدیدہ نگاہی اس کی
چھن گیا آہ عجب مال ہمارا ہم سے
ہم نے اظہار ِتمنا کا اثر دیکھ لیا
اب وہ کرتے نہیں ملنا بھی گوارا ہم سے
شہر میں دل کے سوا کون ہمارا ہے شعور
بے تکلّف ہے یہی درد کا مارا ہم سے
میرے درد کو اظہار کا سلیقہ ہی کہاں
یہ تو میرے لفظوں نے مخبری کر دی
زباں اظہار لہجہ بھول جاؤں
مرے معبود کیا کیا بھول جاؤں
تری پرچھائیں تو لے آؤں گھر تک
کہیں اپنا ہی سایہ بھول جاؤں
میں کب تک سوچتا رہتا جہاں کو
یہی بہتر تھا جینا بھول جاؤں
کر جو دیا اس سے اظہار محبت اشارہ میں
نہ جانے کیا سوچ رہی ہوں گی ھمارے بارے میں
رشتہ ایک ایسا پودا ہے
جس کو ہر روز اظہار کا تھوڑا تھوڑا پانی دیتے رہنا چاہیے
اگر ایک ہی دن بہت سارا پانی ڈال دو گے تو چند دنوں میں پودا ختم ہوجائے گا
!تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے
تُو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا
بے نیازی سے ، مگر کانپتی آواز کے ساتھ
تُو نے گھبرا کے مِرا نام نہ پوچھا ہوتا
تیرے بَس میں تھی اگر مشعل ِ جذبات کی لَو
تیرے رُخسار میں گلزار نہ بھڑکا ہوتا
یوں تو مجھ سے ہوئیں صرف آب و ہوا کی باتیں
اپنے ٹوٹے ہوئے فقروں کو تو پَرکھا ہوتا
یُونہی بے وجہ ٹھٹکنے کی ضرورت کیا تھی
دَم ِ رخصت میں اگر یاد نہ آیا ہوتا
تیرا غماز بنا خود ترا انداز ِ خرام
دل نہ سنبھلا تھا تو قدموں کو سنبھالا ہوتا
اپنے بدلے مِری تصویر نظر آجاتی
تُو نے اُس وقت اگر آئینہ دیکھا ہوتا
حوصلہ تجھ کو نہ تھا مجھ سے جُدا ہونے کا
ورنہ کاجل تری آنکھوں میں نہ پھیلا ہوتا
تجھ کو اب اور تماشا نہ بنانے دیں گے
تو اگر چھوڑ کے جائے گا تو جانے دیں گے
اب اگر لوٹ کے آیا بھی تو یہ یاد رہے
پھر نہ ساون نہ دسمبر نہ زمانے دیں گے
زندگی تجھ کو نیا روپ مبارک لیکن
جان تجھ پر تو وہی یار پرانے دیں گے..!
موسم ہجر تجھے راس نہ آئے گا کبھی
ہم تجھے وصل کے سب خواب سہانے دیں گے
اپنی یادوں سے ترے دل کو بسائیں گے سدا
ہاتھ تجھ کو نہ کہیں اور ملانے دیں گے
سادہ الفاظ میں الفت کا کریں گے اظہار
وہ محبت کے مقالے نہ فسانے دیں گے
جس میں اپنوں کی جدائی کے دیے جلتے ہوں
ایسی دولت نہ کبھی تجھ کو کمانے دیں گے
تیری سانسوں میں سدا ہم تو رہیں گے زندہ
ہم بھلا خود کو کبھی تجھ کو بھلانے دیں گے
قوتِ دید و نظر ان پہ نچھاور ہو جائے
اس طرح دیکھ کہ پھر زحمتِ دیدار نہ ہو
ہائے، وہ آگ کہ جو دل میں سُلگتی ہی رہے
ہائے، وہ بات کہ جس کا کبھی اظہار نہ ہو
خط میں لکھی ، اظہار کی صورت ، رکھ لی تھی
بھیجی تھی جو میں نے محبت ، رکھ لی تھی
میں پگڑی کا واسطہ سن کے لوٹ آیا
میں نے اُس کے باپ کی عزت رکھ لی تھی
بچے بھوک سے ساری رات نہیں سوئے
مالک نے مزدور کی اجرت رکھ لی تھی
روز ہی میؔر کو سنتا ٹیپ ریکارڈر پر
ہمسائے نے ایک مصیبت رکھ لی تھی
میں نے بٹوے میں اُس کی تصویر کے ساتھ
سورۂ رحمٰن کی آیت رکھ لی تھی
مجهے لکهنے کی خواہش ہے
!مگر لکها نہیں جاتا۔۔
میرے الفاظ دل کی آہنی دیوار سے سر پهوڑتے ہیں
اور انہیں اظہار کا رستہ نہیں ملتا
!میری آنکهیں۔۔
جنہیں دل میں چهپے جذبات کو اشکوں کی بولی میں
بتادینے پہ قدرت تهی
وہ اب کچهہ بهی نہیں کہتی
میرے یہ لب
میرے جذبات کو الفاظ کی پوشاک دیتے تهے
وہ لب سل سے گئے ہیں
میری یہ انگلیاں
جو آڑهی ترچهی چند لکیروں سے
میرے جذبات کو اظہار کا رستہ دکهاتی تهیں
وہ اب کچهہ بهی نہیں لکهتیں
میری آنکهیں،یہ لب ،یہ انگلیاں
مجهہ سے یہ کہتے ہیں
کہ اب جذبات کو اظہار کا رستہ نہیں دیتا
کہ یہ منہ زور ہوتے ہیں
فقط رستے کے ملنے سے.
انہیں منزل تلک جانے کی حاجت ہی نہیں رہتی
نئی راہیں بناتے ہیں
نئے راستوں پہ جاتے ہیں
مگر پهر واپسی کے سب نشاں یہ بهول جاتے ہیں
انہیں رستہ نہیں دیتا
انہیں تم دل میں رہنے دو
انہیں رستہ نہیں دینا
وگرنہ خوں رلائیں گے
مجهے لکهنے کی خواہش ہے
!!!….مگر لکها نہیں جاتا
کسی کو کچھ دینا ہی ہدیہ نہیں ہوتا بلکہ کسی پر غصہ
آجائے تو اُس کا اظہار نہ کرنا اور کسی کے راز
معلوم ہوتو اُس کو چھپانا کسی کی عزت کو تار تار
کرنے سے اپنی زبان کو بچانا بھی ہدیہ ہی ہے.!!️
اتنا بزدل تو نہیں ہار سے ڈر جائے گا دنیا والوں کے کسی وار سے
ڈر جائےگا وقت ملنے دو پلٹ آئے گا میری جانب کیسے
طوفاں بھلا دیوار سے ڈر جائے گا مجھ سے پوچھے گا سبھی
میرے جنوں کے قصے اور خود جرات اظہار سے ڈر جائے
گا جھانک کر آنکھوں میں کہہ دے گا تمہارا ہوں فقط پھر
سے پوچھوں گی تو اقرار سے ڈر جائے گا ہم
نے وہ رنج اٹھائے ہیں تیری فرقت میں اب تو دل
ہجر کے آثار سے ڈر جائے گا تیرے بیمار کی پھر کون
مسیحائی کرے تو ہی گر زخمِ دل آزار سے ڈر جائے گا آج
فرصت ہے تو کہہ دو کہ تغافل نہ کرے ہم سے
بچھڑے گا تو ہر خار سے ڈر جائے گا تم سے منصف بھی
وفادار نہیں ہونگے تو پھر ہائے ہر صاحب دل پیار سے ڈر جائے گا
اک تھکن قوت اظہار میں آ جاتی ہے
وقت کے ساتھ کمی پیار میں آ جاتی ہے
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے ہونٹوں پر
خوشبوئے گل مرے اشعار میں آ جاتی ہے
جب غزل میرؔ کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی مری دیوار میں آ جاتی ہے
تڑپنے کا یہ موسم ہے نہ تڑپانے کا موسم ہے
یہ موسم تو محبت کر کے پچھتانے کا موسم ہے
نظر آتے ہیں کچھ بدلے ہوئے چہرے حسینوں کے
یقیناً یہ وفاؤں کی سزا پانے کا موسم ہے
لگاؤ مِصر کا بازار، بلواؤ زلیخا کو
یہی تو یوسفِؑ کنعاں کے بِک جانے کا موسم ہے
کسی نے کر دیا ہے منع اظہارِ انا سے بھی
یہ غیرت مند انسانوں کے مر جانے کا موسم ہے
پرانی بیڑیاں اب اس لیے توڑو کہ زنداں میں
اسیروں کو نئی زنجیر پہنانے کا موسم ہے
مقید کر دیا سانپوں کو یہ کہہ کر سپیروں نے
یہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہے
سروں کی فصل کٹتی ہے تو اگ آتی ہیں دستاریں
خدا جانے یہ کس موسم کو دہرانے کا موسم ہے
گھٹا چھائی تو آ جائیں گے پیمانے بھی گردش میں
ابھی تو صرف خالی جام کھنکانے کا موسم ہے
قتیلؔ اس بار اپنے شعر پر تکیہ نہ کر بھائی
غزل کا یہ نہیں موسم یہ افسانے کا موسم ہے
میری دھڑکن میں بسا وہ شخص
اظہار تو کرتا ہے لیکن محبّت نہیں ۔
ایک ہی زندگی ہے اسے سادہ رہنے دیجئیے
کسی کو یاد کر رہے ہیں تو فون کر لیجئیے ،
ملنا چاہتے ہیں تو مد عو کر لیجئیے ،
چاہتے ہیں کہ آپ کو سمجھا جاۓ تو وضاحت کر دیجئیے ،
کوئی سوال ہے دل میں تو پوچھ لیجئیے ،
کچھ پسند نہیں تو بتادیں ، پسند ہے تو اظہار کر دیں،
ساتھ چاہیے تو مانگ لیں،
کوئی روٹھا ہے تو منا لیں انا کو دور نچوڑ آئیں ،
اپنوں کو پاس لے آئیں
ایک ہی زندگی ہے
اسے آسان رہنے دیں اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔
مفلسی میں بھی محبت کو غنیمت جانا
ہم نے ہر طور عبادت کو غنیمت جانا
مجھکو عجلت تھی کہانی سے نکل جانے کی
خود کشی جیسی حماقت کو غنیمت جانا
عین ممکن ہے کہ اظہار پہ وہ چھوڑ ہی دے
ہم نے خاموش محبت کو غنیمت جانا
سازشی قتل سے بہتر تھا کہ لڑ کر مرتے
ہم نے لشکر سے بغاوت کو غنیمت جانا
دے بھی کیا سکتے ہیں اب لوگ سوائے اس کے
ہم نے در پردہ حقارت کو غنیمت جانا
میں ترے ہجر میں کچھ اور تو کر پایا نہیں
بس ترے ہجر میں وحشت کو غنیمت جانا
بھیک مانگی نہ گئی ہم سے محبت کی حسن
گھٹ کے مرنے کی اذیت کو غنیمت جانا
غم دو خوشی دو گلہ نہیں کرتے
بنجر زمین پر گل کھلا نہیں کرتے
محبت کرتے ہو تو آ کر اظہار کرو
پیچھا کسی کا ہم کیا نہیں کرتے
اور چاہو تو چھوڑ دو ہم کو مگر
یاد رہے ہم سے لوگ پھر ملا نہیں کرتے
جو چاہتے ہو سو کہتے ہو چپ رہنے کی لذت کیا جانو
یہ راز محبت ہے پیارے تم راز محبت کیا جانو
الفاظ کہاں سے لاؤں چھالے کی ٹپک کو سمجھاؤں
اظہار محبت کرتے ہو احساس محبت کیا جانو
کیا حسن کی بھیک بھی ہوتی ہے جب چٹکی چٹکی جڑتی ہے
ہم اہل غرض جانیں اس کو تم صاحب دولت کیا جانو
ہے فرق بڑا اے جان رضاؔ دل دینے میں دل لینے میں
الفت کا تعلق جان کے بھی رشتے کی نزاکت کیا جانو
اچھا کرتے ہیں وہ لوگ جو اظہار نہیں کرتے
مر تو جاتے ہیں پر کسی کو بدنام نہیں کرتے
اظہار عشق میں جو تحریر بھیجی رد ہو گئی
میں پھر بھی اس کی راہ تکوں مطلب حد ہو گئی
!__ہم وہ لوگ نہیں جو اظہار محبت کریں
خاموشی سے مر بھی جائیں لیکن کسی کو بدنام نہیں کرتے
یونہی ہر کسی سے اظہارِ جذبات نھیں کرتا
میں اپنے اندر کے سویروں کو رات نھیں کرتا
کہتی ھے ماں ہر شے سے اُکتا جاتا ہوں بہت جلد
اسی ڈر میں اپنی منگیتر سے بات نھیں کرتا
نہ مِلا کر خواہ مخواہ اغیار سے سمجھاؤں گا
میں اسے جذبات کے اظہار سے سمجھاؤں گا
کام دُنیا کے سبھی ہاتھوں سے ہی ہوتے نہیں
بس لبوں سے کام لے کر پیار سے سمجھاؤں گا
مسکرا کر بات کرنا بھی تو صدقہ ہے حضور
یہ اسے اخلاق ہی کی مار سے سمجھاؤں گا
کارو کاری کی کرو نہ کوششیں کشمیر میں
سربکف ہو کراسے یلغار سے سمجھاؤں گا
ہو نے دیتے ہی نہیں امن و امان افسوس ہے
لعنتی کردار ہیں عیار سے سمجھاؤں گا
باوز ن تحریر شاکر نے کیا جو فلسفہ
زاویہ پیمانہ و پرکار سے سمجھاؤں گا
دل کو سمجھاؤں گا جیسے بھی ہو ممکن لیکن
اب میں اظہار تمنّا نہیں ہونے دوں گا
لوگ کہتے ہیں کہ درد اٹھ کے بتا دیتا ہے
اب تو میں یہ بھی اشارا نہیں ہونے دوں گا
اے مرے ظرف و انا اتنے پریشاں کیوں ہو
کہہ چکا ہوں تمہیں رسوا نہیں ہونے دوں گا
کہنا چاہوں تو چند لمحوں میں کہہ دوں مجھے تم سے محبت ہے
مگر اس بول کے الفاظ میری عمر کے دنوں کے معاملے میں
کافی چھوٹے پڑ جائیں گے میں تمہیں تا عمر محبت کر پاوں گایا
نہیں یہ میں نہیں جانتا مگر شاید اب تلک
میری جذباتوں کے اظہار میں اس سوچ کا بڑھنا میرے
لیے کافی اہمیت کا حامل ہے کہ کس شدت سے میں
تمہیں محسوس کرتا ہوں تمہیں سوچتا ہوں
پل پل ہر گٹھی ہر وقت بس تم ہی سے گفتگو کرتا ہوں
لیکن کبھی کبھی وقت کی روانی سے بھی ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے
صبر سے تمہارا دل بھی لبریز نہ ہو کہیں میں بدل نہ
جاوں کہیں خود سے مکر نہ جاوں یہی احساس مجھے ہر دو پل
کروٹیں بدلتے آتی ہیں تم بھی سوچنا اس بارے میں کہ تمہیں پا کہ
مجھے کیا خوشی حاصل ہوگی گر سوچتے سوچتے مسکرائی تو سمجھ لینا
میرے بارے میں بھی تمہیں بھی یہی محسوس ہوتا ہے تمہیں
بھی مجھ سے محبت ہے تب شاید مجھے اس عمر دراز کو کاٹنے کے
لیے کچھ اوصاف میسر ہوں
زندگی اور کچھ نہیں نیلمؔ
صرف اظہار ہے محبت کا
میں بنت حوا _میں اپنے رب کی شکرگزار ہوں جس نے
مجھے عورت بنایا،میں رب کائنات کی سب سے
خوبصورت اور دلکش انمول تخلیق!! اپنے رب کی رضا سے
سب رشتوں کی بنیاد ہوں محبت ہوں، اظہار ہوں ،
فطرت ماں ہوں چھاوں ہوں بیٹی ہوں تو رحمت ہوں بیوی ہوں
،،تو محبت کی دیوی اور امانت کی نگہبان ہوں
مجھے میرے رب نے وہ تمام صلاحیتیں عطا کی ہیں کہ
میں جس رشتے میں بھی ڈھل جاوں حکم الہی سے تصویر
کائنات میں رنگ بھر دیتی ہوں
میں اپنے رب کی محتاج ہوں میرا جسم میری روح میری
سب عنائتیں میرے اللّٰہ کی شکرگزار ہیں،
میرا جسم اور میری مرضی صرف اپنے رب کی محتاج ہیں اور شکرگزار ہیں❤️
اسے چاہ کر بھی اظہار نہ کرنا آیا
عمر کٹ گئی تنہائیوں میں پیار نہ کرنا آیا
،،،اظہار کا دباؤ بڑا ہی شدید تھا
الفاظ روکتے ہی میرے لب فٹ گۓ۔
مجھے عشق ہے اظہار کرتی ہو
اور میں کل بھی تیری تھی اور آج بھی تیرا انتظار کرتی ہوں
ترک الفت کا ارادہ بھی نہیں
ان سے اظہار تمنا بھی نہیں
وقت کٹتا ہی نہ تھا جس کے بغیر
اس کو مدت ہوئی دیکھا بھی نہیں
باتیں کرتا ہے مسلسل کوثرؔ
روز ملتا ہے شناسا بھی نہیں
تو عرض کیا ہے کے
کیا خوب ا لجھارکھا ہے عشق نےاتنا ہمے
کے نہ اظہار کرتے ہے اور نہ ہی انکار
گلے شکوے خوب آتے ہیں انکو
مگر اظہار ے محبت ہوا نہیں
نگاہ یار میں ساکن ہے عشق میرا
مگر چشمہ ہوں میں کںوا نہیں
سفل ہوا آخر میرا سفر خاص پرانا
بہت متوقع تھا اس سے میرا ٹھکرایا جانا
اظہارِ وفا تو محض ایک بہانہ تھا ورنہ
کہاں باقی تھا اس میں وہ شحض یار پرانا
جو نہ کر سکوں میں خود اسکی فریاد نہیں کرتا
جو کر دوں اوروں کے لئے تو کبھی اظہار نہیں کرتا
رہتا ہوں مگن اپنی ہی دنیا میں
جو چھوڑ جائیں راہ میں انکا انتظار نہیں کرتا
لکھ دیا اپنے در پہ کسی نے اس جگہ پیار کرنا منع ہے
پیار گر ہو بھی جائے کسی کو اس کا اظہار کرنا منع ہے
ان کی محفل میں جب کوئی جائے پہلے نظریں وہ اپنی جھکائے
وہ صنم جو خدا بن گئے ہیں ان کا دیدار کرنا منع ہے
جاگ اٹھیں گے تو آہیں بھریں گےحسن والوں کو رسوا کریں گے
سو گئے ہیں جو فرقت کے مارے ان کو بیدار کرنا منع ہے
ہم نےکی عرض اے بندہ پرور کیوں ستم ڈھا رہے ہو یہ ہم پر
بات سن کر ہماری وہ بولے ہم سے تکرار کرنا منع ہے
سامنے جو کُھلا ہے جھروکا، کھا نہ جانا قتیل ان کا دھوکہ
اب بھی اپنے لیے اس گلی میں شوقِ دیدار کرنا منع ہے
مت پوچھ کہ ہم پیار نہیں کرتے
پیار تو کرتے ہیں مگر اظہار نہیں کرتے
ٹوٹ سا گیا ہے میری چاہتوں کا وجود
اب کوئی اچھا بھی لگے تو ہم اظہار نہیں کرتے
وہ مانے نہ مانےاظہار ضرور ہو سکتا ہے
جوپاس نظر آتا ہے امین وہ دور ہوسکتا ہے
خود غرض اناپرست کسی کومغرورمت کہو
انسان حالات کےہاتھوں مجبورہوسکتاہے
محبتوں کا امین
دل کر رہا ہے آج اظہار محبت کر دو
مرشد
لیکن اس کو کھو نہ دو در لگتا ہے
دیکھا جو اسکو تو دل اپنا ہاربیٹھا ہوں
ایک نظر میں اس سے پیار کر بیٹھا ہوں
اظہارے محبت سے پہلے ٹھکرا دیا اسنے مجھکو
عارف
اور میں پاگل دل اپنا ہتھیلی پر نکال بیٹھا ہوں
اظہارِ عشق میں جو خط بھیجاتھا وہ ٬ رَد ہوگیا
میں پھر قاصد،کی راہ تکوں؟ مطلب حَد ہوگیا
مجھے اس سے اظہار محبت مہنگا پڑ گیا
اتنا حسیں بھی نہیں ہے وہ جتنا دیکھنا پڑ گیا
زندگی بڑے حسیں لمہات میں جی رہے تھے
لیکن دنیا کے راہ رسم سے فرار مہنگا پڑ گیا
دل کے ارمان تو بہت تھے ہمارے بھی
جب پتا چلا تو زندہ رہنا مہنگا پڑ گیا
جب ترا حکم ملا ترک محبّت کر دی
دل مگر اس پہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
تجھ سے کس طرح میں اظہار محبّت کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی ….. مری قسمت کر دی
میں نے بھیجا تجھے ایوان حکومت میں مگر
اب تو برسوں ترا دیدار نہیں ہو سکتا
تیرگی چاہے ستاروں کی سفارش لائے
رات سے مجھ کو سروکار نہیں ہو سکتا
وہ جو شعروں میں ہے اک شے پس الفاظ ندیمؔ
اس کا الفاظ میں اظہار نہیں ہو سکتا
اظہارِ عشق میں جو تحریر بھیجی ٬ رَد ہوگئی
میں پھر بھی اسکی راہ تکوں؟ مطلب حَد ہوگئی
حال کیا دل کا ہےاظہار سے روشن ہوگا
یعنی کردار تو کردار سے روشن ہوگا
رات دن آپ چراغوں کو جلاتے کیوں ہو
گھر چراغوں سے نہیں پیار سے روشن ہوگا
اظہار حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا
دل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں
اظہارِ محبت بھی تم نے ہی کیا تھا ناں
تم نے ہی کئیے رستے دشوار محبت کے!!
بالوں میں سفیدی یوں ہی تو نہیں اتری
سو رنج اٹھائے ھیں سرکار محبت کے
ہر مرض زمانے سے ہو جائے اگر رخصت
دنیا میں رہیں گے پر بیمار محبت کے
تم ہاتھ چھڑاؤ تو وہ ہاتھ چھڑا لیں گے
کچھ لوگ تو ہوتے ہیں خوددار محبت کے
یہ درد میرے سر کا جاتا ہی نہیں مرشد
الفاظ تو دم کر دو ، دو چار محبت کے
حالتِ عشق ایسی ہے جیسے کوئی بیمار ہو
پتھروں کے گھر میں کوئی کانچ کی دیوار ہو
چہرہ اس کا کیا ہی کہنا چاند سے بڑھ کے حسیں
جیسے وہ ظُلمت کدے میں نُور کا مینار ہو
اے مِرے رَشکِ قَمر دِل نشین و دلفریب
کُچھ درد کا کُچھ عِشق کا اور پیار کا اظہار ہو
محوْ ہیں آرائشِ گیسو میں وہ کچھ اس طرح
زُلف انکی ایسے ہے جیسے کوئی شَہکار ہو
حسرتِ دیدار ہے کُچھ اس طرح شاہ میر کو
ریت کے صحراوں میں جیسے کوئی گلزار ہو
عشق کیجئیے تو نکاح بھی کیجئیے ❤
ورنہ اظہار کر کے زندگیاں تباہ نہ کیجئیے
چاہت کے صبح و شام محبت کے رات دِن
’’دِل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دِن‘‘
وہ شوقِ بے پناہ میں الفاظ کی تلاش
اظہار کی زبان میں لکنت کے رات دِن
وہ ابتدائے عشق وہ آغازِ شاعری
وہ دشتِ جاں میں پہلی مسافت کے رات دِن
تکتے رہنا بھی ہے افراطِ محبت کی دلیل
پیار کے سینکڑوں….. اظہار ہُوا کرتے ہیں
وہ تو پَربت ہیں جو گر جاتے ہیں ٹکڑے ہو کر
حوصلے بھی کہیں مِسمار ہُوا کرتے ہیں
کس محبت سے عدم! ہنس کہ وہ کہتے ہیں مجھے
چاہنے والے تو خود دار ہُوا کرتے ہیں
وہ آیا میری زندگی میں، مجھ سے پیار کا اظہار کیا
اور پھر میرے وجود کو ریزہ ریزہ کر کے چلا گیا
جینے کی آرزو میں اے یار مر گئے
تیری طلب میں تیرے بیمار مر گئے
وعدے سبھی تھے جھوٹے،جھوٹی تھی ساری قسمیں
تیرے تو سارے قول و قرار مر گئے
حاکم کی اب نظر ہے محکوم کی گرہ پر
خادم تھے قوم کے جو، سردار مر گئے
شکوہ کریں تو کیسے ظالم تیری جفا کا
لفظوں کو موت آئی اظہار مر گئے
اب وصل کی تمنا نہیں چین لینے دیتی
پہرہ ہے سوچ پر تو افکار مر گئے
اظہار محبت پر تو ہم نے آنا ہی نہیں تھا
٫میری زندگی میں جو آئے راستے ان پر تو جانا ہی نہیں تھا
٫آپ نے پڑھایا جو سبق وفاؤں کا،وہ تو کسی استاد نے پڑھا نا ہی نہیں تھا.
بجھی بجھی میری آنکھیں لٹا لٹا میرا روپ
کٹے کٹے میرے بازو پھٹے پھٹے میرے لب
اب اس پہ بھی اگر اظہار درد لازم ہے
تو کس سے جا کے کہوں اپنی خامشی کا سبب
محبت مر چکی مجھ میں۔۔
جنازہ بھی پڑھا میں نے۔۔
شامل تھے سبھی اس میں۔۔
تیرے وعدے۔۔
تیری قسمیں ۔۔
وہ اظہار کی باتیں۔۔
تیرے اقرار کی باتیں۔۔
بہت تڑپا بہت رویا۔۔
تسلی بھی ملی ان سے۔۔
کہا مت رو اے پاگل۔۔
یہاں سب دل لگی کرتے۔۔!!!
محبت کون کرتا ہے؟؟
جنازہ پڑھ چکے تھے سب پھر وقت جدائی تھا۔۔
بے وفائی سے رہائی تھا۔۔
دفنایا گیا محبت کو۔۔
مقام بھی میرا دل تھا۔۔
اب کبھی جو آتی ہے یاد محبت!!!۔۔
وہ گزری یادیں۔۔
تیرے وعدے تیرے قصے۔۔
میں خود کے گلے سے لگ کے روتا ہوں۔۔
اور کہتا ہوں خاموش ہونا اے دلبر۔۔
یہاں سب دل لگی کرتے۔۔
محبت کون کرتا ہے !!!۔۔
اظہار غم کی بھی اجازت نہیں رہی
میرے لفظوں کی اب اسے عادت نہیں رہی
میرا ہم درد ہی میرا ہم راز بھی تھا
اسکو اپنے ہی دکھوں سے فرصت نہیں رہی
غم کی ترسیل کا کوئی بہانہ نہیں رہا
لفظوں میں بھی پہلے سی بناوٹ نہیں رہی
عشق ہوجائے کسی سے تو اظہار کریں گے
انجام چاہے جو ہو،ہم تو بس پیار کریں گے
زمانوں کو ملا ہے سوز اظہار
وہ ساعت جب خموشی بول اٹھی ہے
!!-!!-اشعار کرتے ہیں اظہارِ عشق یہاں
!!-میرے معاشرے میں سرعام محبت جائز نہیں-!!
بھرے ہوں آنکھ میں آنسو خمیدہ گردن ہو
تو خامشی کو بھی اظہار مدعا کہیے
دل کو سمجھاؤں گا جیسے بھی ہو ممکن لیکن
اب میں اظہار تمنّا نہیں ہونے دوں گا
لوگ کہتے ہیں کہ درد اٹھ کے بتا دیتا ہے
اب تو میں یہ بھی اشارا نہیں ہونے دوں گا
اے مرے ظرف و انا اتنے پریشاں کیوں ہو
کہہ چکا ہوں تمہیں رسوا نہیں ہونے دوں گا
کبھی اظہار محبت کبھی شکوؤں کے لیے
تجھ سے ملنے کا کوئی روز بہانا چاہے
تجھ سے کس طرح میں اظہار محبّت کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
چلو کہ جذبۂ اظہار چیخ میں تو ڈھلا
کسی طرح اسے آخر ادا بھی ہونا تھا
،،،،،،،نکی عمر اچ عابد دل لا کے، پریشانیاں مل لئے لئیاں
–
,,,,,,,اظہار کریندیاں دیر ہو گئی، گلاں دل دیاں دل اچ رئیاں
–
,,,,,,,اوہدی نرم نفیس ہتھیلی تے، مہندی لائی چا غیر دی سئیاں
–
,,,,,اوہنوں ویکھ کے نال رقیباں دے، ہو جگر نوں موریاں گئیاں
بیان_ع_وفا کر دیا ہے اُسنے اپنی تحریروں میں#
اظہار_ع_عشق باقی ہے#
جگ سارا راضی کر کے وی اک تو ہی راضی نئیں ہوندا
ناں عمر محبتاں کر کے وی اک تو ہی حاصل نئیں ہوندا
تو کی جانیں پریت میری نا تو جانے میت میری
لوک پریئے تو رہنا ویں کیوں ساڈا فیر وی نئیں ہوندا
اک تو ہی مینوں جچدا ایں اک تو ہی مینوں سجدا ایں
تو چاہ تے میری کرنا ایں اظہار تیرے تھوں نئیں ہوندا
تو دن آکھیں تے دن مناں کہیں جے رات تے رات آکھاں
سب سن گن تے تو رکھنا ایں اعتبار تیرے تھوں نئیں ہوندا
سی لیکھ نصیباں دا لکھیا اسی تیری راہ وچ رل گئے آں
قسمت دی گل تے من لیندا پر فیر وی میرا نئیں ہوندا
سدا حیاتی نئیں رہندی اج زندہ وا کل بنئے یاد
سنگ ہس رو کے ایہنوں جی لئیے کل اج جیسا نئیں ہوندا