Top 400 + Best Mohabbat Ka Izhaar Shayari

Introduction

If you are looking for the right words to purpose your lover.Then you are in the right place,here you will get the best mohabbat quotes and shayari lines Which will surely impress your lover.

So,let’s start exploring and enjoye.

Mohabbat Ka Izhaar Shayari

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دیوار تکلف ہے تو مسمار کرو نا
گر اس سے محبت ہے تو اظہار کرو نا

ممکن ہے تمہارے لئے ہو جاؤں میں آساں
تم خود کو مرے واسطے دشوار کرو نا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

گر یاد کرو گے تو چلا آؤں گا اک دن
تم دل کی گزر گاہ کو ہموار کرو نا

باہر کے محاذوں کی تمہیں فتح مبارک
اب نفس کے شیطاں کو گرفتار کرو نا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کہنا ہے اگر کچھ تو پس و پیش کرو مت
کھل کے کبھی جذبات کا اظہار کرو نا

ہر رشتۂ جاں توڑ کے آیا ہوں یہاں تک
تم بھی مری خاطر کوئی ایثار کرو نا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اعجازؔ تمہارے لئے ساحل پہ کھڑا ہوں
دریائے وفا میرے لئے پار کرو نا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کوئی آہٹ کوئی دستک کوئی جھنکار تو ہو
اس کی جانب سے کسی بات کا اظہار تو ہو

بخل سے کام نہ لوں گا میں سراہوں گا اسے
کوئی چہرہ ترے مانند طرحدار تو ہو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

زخم سہہ لوں گا منڈیروں پہ لگے شیشوں کے
کوئی شے دید کے قابل پس دیوار تو ہو

چند لمحوں کی مسافت ہو کہ برسوں کا سفر
کیف پرور ہیں سبھی سنگ کوئی یار تو ہو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

چند لمحے میں کہیں بیٹھ کے دم لے تو سکوں
در ملے یا نہ ملے سایۂ دیوار تو ہو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہیں منفرد عمل سے یہ گفتار سے الگ
رہبر جدا ہیں قول سے کردار سے الگ

ہوں گے نہ غیر کے ستم آزار سے الگ
جب تک نہ ہوں گے ہم صف اغیار سے الگ

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

قصر خلوص ہو گیا مسمار اس طرح
بیٹھے ہیں لوگ سایۂ دیوار سے الگ

تہذیب کے زوال پہ حیرت نہ کیجئے
یہ عہد نو ہے سابقہ ادوار سے الگ

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کر لیتے ہیں یہ جنبش ابرو سے گفتگو
ہیں اہل عشق زحمت اظہار سے الگ

ترک حیا نے چھین لیا مہ وشوں کا حسن
بے قدر ہیں یہ ہو کے حیا دار سے الگ

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

سرمایۂ حیات محبت وفا خلوص
دولت ہے اپنی دولت زردار سے الگ

شان خودی بچائے ہوئے مصلحت سے دور
میں جی رہا ہوں وقت کی رفتار سے الگ

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

احسنؔ کو آرزو نہیں نام و نمود کی
رکھتا ہے خود کو کوچہ و بازار سے الگ

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جب تک جنوں جنوں ہے غم آگہی بھی ہے
یعنی اسیر نغمہ مری بے خودی بھی ہے

کھلتے ہیں پھول جن کے تبسم کے واسطے
شبنم میں ان کے عکس کی آزردگی بھی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کچھ ساعتوں کا رنگ مرے ساتھ ساتھ ہے
وہ نکہت بہار مگر اجنبی بھی ہے

زندہ ہوں میں کہ آگ جہنم کی بن سکوں
فردوس آرزو مرے دل کی کلی بھی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اس یاد کا بھنور میرے احساس میں رہا
اظہار موج موج کی ناگفتنی بھی ہے

پلکوں پہ چاندنی کے تکلم کی آنچ تھی
ہونٹوں پہ گفتگو کے لیے تشنگی بھی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کیوں تیرگی سے اس قدر مانوس ہوں ظفرؔ
اک شمع راہ گزار کہ سحر تک جلی بھی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

درد ٹھہرے تو ذرا دل سے کوئی بات کریں
منتظر ہیں کہ ہم اپنے سے ملاقات کریں

دن تو آوازوں کے صحرا میں گزارا لیکن
اب ہمیں فکر یہ ہے ختم کہاں رات کریں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

میری تصویر ادھوری ہے ابھی کیا معلوم
کیا مری شکل بگڑتے ہوئے حالات کریں

اور اک تازہ تعارف کا بہانہ ڈھونڈیں
ان سے کچھ ان کے ہی بارے میں سوالات کریں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

آؤ دو چار گھڑی بیٹھ کے اک گوشے میں
کسی موضوع پہ اظہار خیالات کریں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

امروز کی کشتی کو ڈبونے کے لیے ہوں
کل اور کسی رنگ میں ہونے کے لیے ہوں

تو بھی ہے فقط اپنی شہادت کا طلب گار
میں بھی تو اسی درد میں رونے کے لیے ہوں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جینے کا تقاضا مجھے مرنے نہیں دیتا
مر کر بھی سمجھتا ہوں کہ ہونے کے لیے ہوں

ہاتھوں میں مرے چاند بھی لگتا ہے کھلونا
خوابوں میں فلک رنگ سمونے کے لیے ہوں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہر بار یہ شیشے کا بدن ٹوٹ گیا ہے
ہر بار نئے ایک کھلونے کے لیے ہوں

پردیس کی راتوں میں بہت جاگ چکا میں
اب گھر کا سکوں اوڑھ کے سونے کے لیے ہوں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

سینے میں کوئی زخم کہ کھلنے کے لیے ہے
آنکھوں میں کوئی اشک کہ رونے کے لیے ہوں

سادہ سی کوئی بات نہیں بھوک شکم کی
ایمان بھی روٹی میں سمونے کے لیے ہوں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وہ دشت و بیابان میں اظہار کا خواہاں
میں اپنے چمن زار میں رونے کے لیے ہوں

غاروں کا سفر ہے کہ مکمل نہیں ہوتا
میں اپنی خبر آپ ہی ڈھونے کے لیے ہوں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

سورج کو نکلنے میں ذرا دیر ہے احمدؔ
پھر ذات کا ہر رنگ میں کھونے کے لیے ہوں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

یہ وقت روشنی کا مختصر ہے
ابھی سورج طلوع منتظر ہے

شہادت لفظ کی دشوار تر ہے
کتابوں میں بہت زیر و زبر ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ابھی کھلنے کو ہے در آسماں کا
ابھی اظہار کا پیاسا بشر ہے

یہ دنیا ایک لمحے کا تماشہ
نہ جانے دوسرا لمحہ کدھر ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جو دیکھا ہے وہ سب کچھ ہے ہمارا
جو ان دیکھا ہے وہ امید بھر ہے

میں خود خاشاک گرویدہ ہوں ورنہ
مرے ہاتھوں میں تنکا شاہ پر ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

پھر اس کے بعد بس حیرانیاں ہیں
خبر والا بھی خاصا بے خبر ہے

مرا نعرہ ہے جنگل آگ جیسا
مرا کلمہ شکستہ بال و پر ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

زباں میری سیاست چاٹتی ہے
کہ اس کا ذائقہ شیر و شکر ہے

یہ اندھی پیاس کا موسم ہے احمدؔ
سمندر روشنی کا بے اثر ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

شب ڈھلے گنبد اسرار میں آ جاتا ہے
ایک سایہ در و دیوار میں آ جاتا ہے

میں ابھی ایک حوالے سے اسے دیکھتا ہوں
دفعتاً وہ نئے کردار میں آ جاتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

یوں شب ہجر شب وصل میں ڈھل جاتی ہے
کوئی مجھ سا مری گفتار میں آ جاتا ہے

مجھ سا دیوانہ کوئی ہے جو ترے نام کے ساتھ
رقص کرتا ہوا بازار میں آ جاتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جب وہ کرتا ہے نئے ڈھب سے مری بات کو رد
لطف کچھ اور بھی گفتار میں آ جاتا ہے

دیکھنا اس کو بھی پڑتا ہے میاں دنیا میں
سامنے جو یونہی بے کار میں آ جاتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ایک دن قیس سے جا ملتا ہے وحشت کے طفیل
جو بھی اس دشت سخن زار میں آ جاتا ہے

میں کبھی خود کو اگر ڈھونڈھنا چاہوں احمدؔ
دوسرا معرض اظہار میں آ جاتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

زیست آزار ہوئی جاتی ہے
سانس تلوار ہوئی جاتی ہے

جسم بے کار ہوا جاتا ہے
روح بیدار ہوئی جاتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کان سے دل میں اترتی نہیں بات
اور گفتار ہوئی جاتی ہے

ڈھل کے نکلی ہے حقیقت جب سے
کچھ پر اسرار ہوئی جاتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اب تو ہر زخم کی منہ بند کلی
لب اظہار ہوئی جاتی ہے

پھول ہی پھول ہیں ہر سمت ندیمؔ
راہ دشوار ہوئی جاتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

میں کسی شخص سے بیزار نہیں ہو سکتا
ایک ذرہ بھی تو بیکار نہیں ہو سکتا

اس قدر پیار ہے انساں کی خطاؤں سے مجھے
کہ فرشتہ مرا معیار نہیں ہو سکتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اے خدا پھر یہ جہنم کا تماشا کیا ہے
تیرا شہکار تو فی النار نہیں ہو سکتا

اے حقیقت کو فقط خواب سمجھنے والے
تو کبھی صاحب اسرار نہیں ہو سکتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

تو کہ اک موجۂ نکہت سے بھی چونک اٹھتا ہے
حشر آتا ہے تو بیدار نہیں ہو سکتا

سر دیوار یہ کیوں نرخ کی تکرار ہوئی
گھر کا آنگن کبھی بازار نہیں ہو سکتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

راکھ سی مجلس اقوام کی چٹکی میں ہے کیا
کچھ بھی ہو یہ مرا پندار نہیں ہو سکتا

اس حقیقت کو سمجھنے میں لٹایا کیا کچھ
میرا دشمن مرا غم خوار نہیں ہو سکتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

میں نے بھیجا تجھے ایوان حکومت میں مگر
اب تو برسوں ترا دیدار نہیں ہو سکتا

تیرگی چاہے ستاروں کی سفارش لائے
رات سے مجھ کو سروکار نہیں ہو سکتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وہ جو شعروں میں ہے اک شے پس الفاظ ندیمؔ
اس کا الفاظ میں اظہار نہیں ہو سکتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی

تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی

تجھ کو پوجا ہے کہ اصنام پرستی کی ہے
میں نے وحدت کے مفاہیم کی کثرت کر دی

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تری الفت نے محبت مری عادت کر دی

پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ
تیرے حالات نے کیسی تری صورت کر دی

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کیا ترا جسم ترے حسن کی حدت میں جلا
راکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کس شے پہ یہاں وقت کا سایہ نہیں ہوتا
اک خواب محبت ہے کہ بوڑھا نہیں ہوتا

وہ وقت بھی آتا ہے جب آنکھوں میں ہماری
پھرتی ہیں وہ شکلیں جنہیں دیکھا نہیں ہوتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

بارش وہ برستی ہے کہ بھر جاتے ہیں جل تھل
دیکھو تو کہیں ابر کا ٹکڑا نہیں ہوتا

گھر جاتا ہے دل درد کی ہر بند گلی میں
چاہو کہ نکل جائیں تو رستہ نہیں ہوتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

یادوں پہ بھی جم جاتی ہے جب گرد زمانہ
ملتا ہے وہ پیغام کہ پہنچا نہیں ہوتا

تنہائی میں کرنی تو ہے اک بات کسی سے
لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کیا اس سے گلہ کیجیئے بربادئ دل کا
ہم سے بھی تو اظہار تمنا نہیں ہوتا

Izhar e Mohabbat Quotes

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

یہ بھی اصرار کوئی روزن در باز نہ ہو
سانس لیتے رہو پر سانس کی آواز نہ ہو

یک بیک عالم اظہار میں سناٹے کی گونج
آنے والے کسی طوفان کی غماز نہ ہو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

شعر و فن آذر حاضر کے تراشیدہ صنم
تہمت لوح و قلم توسن پرواز نہ ہو

پھر تری یاد سے روشن ہوا کاشانۂ دل
وسعت کون و مکاں جلوہ گہہ ناز نہ ہو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وقت کے جبر سے کب کار جنوں خیز رکا
کوشش سنگ زنی نقطۂ آغاز نہ ہو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کیا جانیے اس نام میں کیا بھید بھرا تھا
سنتے ہی جسے رات کوئی چونک پڑا تھا

اس شور کو سن سن کے یہ دل کانپ گیا تھا
جیسے کوئی میری ہی طرح چیخ رہا تھا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اس کو بس ادھر ایک ہی دھن تھی اور ادھر میں
بگڑی ہوئی اک بات بنانے میں لگا تھا

حیرانی یہی تھی کہ چمک کیسی ہے دل میں
پھر آج جو اک زخم کو دیکھا تو ہرا تھا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کل گریۂ پیہم نے مری جان بچائی
میں ضبط کی دیوار کے ملبے میں دبا تھا

وہ سرد سماعت میں مجھے ڈھونڈ رہی تھی
میں شعلۂ اظہار کے باطن میں چھپا تھا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

سر بسر پیکر اظہار میں لاتا ہے مجھے
اور پھر خود ہی تہ خاک چھپاتا ہے مجھے

کب سے سنتا ہوں وہی ایک صدائے خاموش
کوئی تو ہے جو بلندی سے بلاتا ہے مجھے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

رات آنکھوں میں مری گرد سیہ ڈال کے وہ
فرش بے خوابئ وحشت پہ سلاتا ہے مجھے

گم شدہ میں ہوں تو ہر سمت بھی گم ہے مجھ میں
دیکھتا ہوں وہ کدھر ڈھونڈنے جاتا ہے مجھے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دیدنی ہے یہ توجہ بھی بہ انداز ستم
عمر بھر شیشۂ خالی سے پلاتا ہے مجھے

ہمہ اندیشۂ گرداب بہ پہلوئے نشاط
موج در موج ہی ساحل نظر آتا ہے مجھے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وہ اب تجارتی پہلو نکال لیتا ہے
میں کچھ کہوں تو ترازو نکال لیتا ہے

وہ پھول توڑے ہمیں کوئی اعتراض نہیں
مگر وہ توڑ کے خوشبو نکال لیتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

میں اس لئے بھی ترے فن کی قدر کرتا ہوں
تو جھوٹ بول کے آنسو نکال لیتا ہے

اندھیرے چیر کے جگنو نکالنے کا ہنر
بہت کٹھن ہے مگر تو نکال لیتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وہ بے وفائی کا اظہار یوں بھی کرتا ہے
پرندے مار کے بازو نکال لیتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

تو زبان دہلی و لاہور کا پروردگار
میں سکوت گلگت و اسکر دو پارہ چنار

بکریاں روز ازل سے کوہ کی رستہ شناس
اے سنہری زین والے نقرئی رتھ کے سوار

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

گلشن اظہار کے دو خسرو و سرمست پھول
رنگ سے روشن زمین ہند از تا کوہسار

یار ہم دو مختلف دنیاؤں کے تشریح گر
تو کسی فرقے کا شاعر میں لسان کردگار

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

انگلیوں میں روشنی دیتے زمرد کے چراغ
مرمریں بازو کا حلقہ سرخ یاقوتی حصار

روشنی تاریک رستے سے زمیں تک آ گئی
بیج کو شوق نمو نے کر دیا ہے آشکار

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وہ میرے ساتھ چلنے پر اگر تیار ہو جائے
بھلے منزل کی جانب سے مجھے انکار ہو جائے

مرا فن اداکاری نمایاں ہو کے ابھرے گا
ذرا تیری کہانی میں مرا کردار ہو جائے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

نشاط انگیز شاموں کا تسلسل اس طرح ٹوٹا
کہ گہری نیند سے یک دم کوئی بیدار ہو جائے

اگر اپنی مدھر آواز میں نغمہ سنا دے وہ
تو راہ محفل یاراں ذرا ہموار ہو جائے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اگر وہ اک نظر دیکھے مرے جذبے کی سچائی
نصیحت چھوڑ کر ناصح مرا غم خوار ہو جائے

تری آنکھیں بتاتی ہیں تجھے مجھ سے محبت ہے
مگر دل کی تسلی کو ذرا اظہار ہو جائے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

سمجھ لو تیرگی دیرینہ ساتھی ہو گئی عادلؔ
چراغ جاں جلانا جب تمہیں دشوار ہو جائے

Izhar e Mohabbat Quotes in Urdu

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اب اگر عشق کے آثار نہیں بدلیں گے
ہم بھی پیرایۂ اظہار نہیں بدلیں گے

راستے خود ہی بدل جائیں تو بدلیں ورنہ
چلنے والے کبھی رفتار نہیں بدلیں گے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دور تک ہے وہی آسیب کا پہرہ اب بھی
کیا مرے شہر کے اطوار نہیں بدلیں گے

میں سمجھتا ہوں ستارے جو سحر سے پہلے
بجھنے والے ہیں شب تار نہیں بدلیں گے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

گل بدل جائیں گے جب موسم گل بچھڑے گا
جب خزاں جائے گی تو خار نہیں بدلیں گے

لوگ بدلیں گے مفاہیم مسلسل آغازؔ
اور یہ سچ ہے مرے اشعار نہیں بدلیں گے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

بسائے جاتے ہیں اہل جنوں سے ویرانے
رموز مملکت حسن کوئی کیا جانے

یہ کس کی بزم ہے آراستہ خدا جانے
نہیں ہے شمع تو کیوں جل رہے ہیں پروانے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہے بندہ ہونے کے اظہار پر بشر مجبور
پئے سجود بنیں مسجدیں کہ بت خانے

نہ قیس دشت میں ہے اور نہ کوہ میں فرہاد
پر ان کے نام سے گونج اٹھتے ہیں یہ ویرانے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

فزوں ہیں نغمۂ بلبل سے قہقہے گل کے
کہ انتظام چمن اب کریں گے دیوانے

دیار عشق میں برپا ہے انقلاب عظیم
یہ دور وہ ہے کہ اپنے ہوئے ہیں بیگانے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

چھپا لیا رخ انور حنائی ہاتھوں سے
ہمارے دل پہ جو گزری تری بلا جانے

ستم ہزار ہوں ظالم مگر دلوں کو نہ توڑ
ترے خیال سے آباد ہیں یہ کاشانے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وہ حال غم مرا خود مجھ سے سن کے کہتے ہیں
کہ سن چکے ہیں ہم ایسے ہزار افسانے

ہے بادہ نوشی سے مستوں کو بعد مرگ بھی ربط
کہ ان کی خاک سے یاں بن رہے ہیں پیمانے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

صنم سے حال دل زار کہہ تو دوں آغاؔ
مگر میں جاؤں کہاں وہ اگر برا مانے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اپنے ہی لہو سے کہیں مسمار نہ ہونا
دنیا کی محبت میں گرفتار نہ ہونا

گمنام ہی رہنے میں بڑا نام ہے پیارے
شہرت کے لیے داخل دربار نہ ہونا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اے میرے خدا قید ہوں میں کیسے جہاں میں
گویائی تو ہونا دم گفتار نہ ہونا

بازار ہو گر مصر کا بولی تو لگانا
یوسف کو جو چاہو تو خریدار نہ ہونا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اوروں سے گلہ کیا ہو کہ لے ڈوبا ہمیں تو
اندر کے جواں مرد کا اظہار نہ ہونا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

غم حیات کے پیش و عقب نہیں پڑھتا
یہ دور وہ ہے جو شعر و ادب نہیں پڑھتا

کوئی تو بات ہے روداد خون ناحق میں
کہیں کہیں سے وہ پڑھتا ہے سب نہیں پڑھتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کسی کا چہرۂ تاباں کہ ماہ رخشندہ
جو پڑھنے والا ہے قرآں وہ کب نہیں پڑھتا

وہ کون ہے جو تجھے رات دن نہیں لکھتا
وہ کون ہے جو تجھے روز و شب نہیں پڑھتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وہ اب تو اس قدر اظہار حق سے ڈرتا ہے
اگر لکھا ہو کہیں لب تو لب نہیں پڑھتا

نہ جانے ان دنوں کیا ہو گیا ہے ساقی کو
نگاہ رند میں حسن طلب نہیں پڑھتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اسی کا رنگ ہے افسرؔ اسی کی خوشبو ہے
مرا کلام کوئی بے سبب نہیں پڑھتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

شب کو پازیب کی جھنکار سی آ جاتی ہے
بیچ میں پھر کوئی دیوار سی آ جاتی ہے

ان کا انداز نظر دیکھ کے محفل میں کبھی
مجھ میں بھی جرأت اظہار سی آ جاتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اس ادا سے کبھی چلتی ہے نسیم سحری
خشک پتوں میں بھی رفتار سی آ جاتی ہے

ہم تو اس وقت سمجھتے ہیں کہ آتی ہے بہار
دشت سے جب کوئی جھنکار سی آ جاتی ہے

Best Quotes About Izhar in Urdu for Love in English

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اجڑے ہوئے دیار کا مطلب سمجھ گئے
تم کیسے انتظار کا مطلب سمجھ گئے

جو اجنبی تھے عشق و محبت کے لفظ سے
صد شکر ہے وہ یار کا مطلب سمجھ گئے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

پھر کھل کے اپنے عشق کا اظہار کر دیا
جب وہ بھی حال زار کا مطلب سمجھ گئے

حیرت میں ہوں میں دیکھ کے یہ آج دوستو
وہ کیسے دل فگار کا مطلب سمجھ گئے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

تھوڑی بہت ادھر بھی ہیں کچھ بے قراریاں
جو دل کے تار تار کا مطلب سمجھ گئے

اس کو بھی میری یاد نے مجبور کر دیا
جب موسم بہار کا مطلب سمجھ گئے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

نظریں جھکائے رکھنا حراؔ ان کے روبرو
وہ بھی تمہارے پیار کا مطلب سمجھ گئے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

رخت سفر یوں ہی تو نہ بے کار لے چلو
رستہ ہے دھوپ کا کوئی دیوار لے چلو
طاقت نہیں زباں میں تو لکھ ہی لو دل کی بات
کوئی تو ساتھ صورت اظہار لے چلو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دیکھوں تو وہ بدل کے بھلا کیسا ہو گیا
مجھ کو بھی اس کے سامنے اس بار لے چلو
کب تک ندی کی تہہ میں اتاروگے کشتیاں
اب کے تو ہاتھ میں کوئی پتوار لے چلو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

پڑتی ہیں دل پہ غم کی اگر سلوٹیں تو کیا
چہرے پہ تو خوشی کے کچھ آثار لے چلو
جتنے بھنور کہو گے پہن لوں گا جسم پر
اک بار تو ندی کے مجھے پار لے چلو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کچھ بھی نہیں اگر تو ہتھیلی پہ جاں سہی
تحفہ کوئی تو اس کے لئے یار لے چلو

پریشانی میں اظہار پریشانی سے کیا حاصل***
بھرے بازار میں خود اپنی ارزانی سے کیا حاصل

مجھے ہر منزل مستی سے ہنس ہنس کر گزرنا ہے
***مٹا دے جو مری ہمت اس آسانی سے کیا حاصل

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

بغیر جبر و قوت جھک نہیں سکتا جو اک سر بھی
تو پھر ایسی جہانگیری جہاں بانی سے کیا حاصل

ہجوم برق و باراں ہو نزول قہر و طوفاں ہو
فضائے عافیت میں بال جنبانی سے کیا حاصل

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دل برباد سے پیدا نیا دل ہو نہیں سکتا
اب آنسو پونچھیے بھی اب پشیمانی سے کیا حاصل

ترستے ہیں در و دیوار بھی اب ان کے جلوؤں کو
مجھے اے خانۂ دل تیری ویرانی سے کیا حاصل

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

قفس ہو یا نشیمن کوئی ہم آہنگ ہو ورنہ
ادیبؔ ایسی فغاں ایسی غزل خوانی سے کیا حاصل

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

پھول کا یا سنگ کا اظہار کر
آسماں اورنگ کا اظہار کر

جسم کے روزن سے پہلے خود نکل
پھر قبائے تنگ کا اظہار کر

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

پھول کی پتی پہ کوئی زخم ڈال
آئنے میں رنگ کا اظہار کر

آبگینوں میں سیاہی بھر کے چل
دوستی میں جنگ کا اظہار کر

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دھول سے انفاس کے پیکر تراش
خوشبوؤں میں رنگ کا اظہار کر

پڑھ رہا تھا میں قصیدہ نام کا
کوئی بولا ننگ کا اظہار کر

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کون کتنا آدمی ہے یہ بتا
آہ میں آہنگ کا اظہار کر

Izhar e Muhabat Quotes

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

بولنے کا نہیں چپ رہنے کا من چاہتا ہے
ایسے حالات میں تو لطف سخن چاہتا ہے

ایک تو روح بھی کافور صفت ہے اپنی
اور اب جسم بھی بے داغ کفن چاہتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

میں وفاؤں کا پرستار ہوں لیکن مجھ سے
میرا محبوب زمانے کا چلن چاہتا ہے

تو ادھر کیسے ارے چاندنی صورت والے
یہ وہ دھندا ہے جو آنکھوں میں جلن چاہتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وصل کے بعد بھی پوری نہیں ہوتی خواہش
اور کچھ ہے جو یہ نادیدہ بدن چاہتا ہے

سونے سونے سے ہیں لفظوں کے شوالے کاشفؔ
ایسا لگتا ہے کہ اظہار بدن چاہتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

بڑی جی دار آنکھیں ہیں
وہ جو مے خوار آنکھیں ہیں

سر دیوار میں لیکن
پس دیوار آنکھیں ہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

مرا تو عشق ہیں آنکھیں
ترا اوتار آنکھیں ہیں

نہ کوئی خواب جو دیکھیں
بڑی بے کار آنکھیں ہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

انہیں میں روز تکتا ہوں
بہت شہکار آنکھیں ہیں

وہی دل ہار جاتے ہیں
جو کرتے چار آنکھیں ہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کسی کا پیار ہیں چہرے
کسی کا پیار آنکھیں ہیں

جہاں بھر میں محبت کا
بڑا اظہار آنکھیں ہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کہیں انکار ہیں عابدؔ
کہیں اقرار آنکھیں ہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

نہ کرب‌ ہجر نہ کیفیت وصال میں ہوں
مجھے نہ چھیڑئیے اب میں عجیب حال میں ہوں

تمام رنگ عبارت میں سوز جاں سے مرے
میں حسن ذات ہوں اور منزل جمال میں ہوں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

مرا وجود ضرورت ہے ہر زمانے کی
میں روشنی کی طرح ذہن ماہ و سال میں ہوں

ابھی وسیلۂ اظہار ڈھونڈھتی ہے نگاہ
ابھی سوال کہاں حسرت سوال میں ہوں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

مجھے نہ دیکھ مری ذات سے الگ کر کے
میں جو بھی کچھ ہوں فقط اپنے خد و خال میں ہوں

میں جی رہا ہوں یہ میرا کمال ہے حشریؔ
میں اپنے عہد کی تہذیب کے زوال میں ہوں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اگر تم روک دو اظہار لاچاری کروں گا
جو کہنی ہے مگر وہ بات میں ساری کروں گا

مرا دل بھر گیا بستی کی رونق سے سو اب میں
کسی جلتے ہوئے صحرا کی تیاری کروں گا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

سر راہ تمنا خاک ڈالوں گا میں سر میں
جو آنسو بجھ گئے ان کی عزا داری کروں گا

مجھے اب آ گئے ہیں نفرتوں کے بیج بونے
سو میرا حق یہ بنتا ہے کہ سرداری کروں گا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

میں لے آؤں گا میداں میں سبھی لفظوں کے لشکر
اور ان سے لوح فکر و فن پہ پرکاری کروں گا

کئی غم آ گئے ہیں حال میرا پوچھنے کو
میں اب اس حال میں کس کس کی دل داری کروں گا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

روز وحشت کوئی نئی مرے دوست
اس کو کہتے ہیں زندگی مرے دوست

علم احساس آگہی مرے دوست
ساری باتیں ہیں کاغذی مرے دوست

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دیکھ اظہارئیے بدل گئے ہیں
یہ ہے اکیسویں صدی مرے دوست

کیا چراغوں کا تذکرہ کرنا
روشنی گھٹ کے مر گئی مرے دوست

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہاں کسی المیے سے کم کہاں ہے
مری حالت تری ہنسی مرے دوست

ساتھ دینے کی بات سارے کریں
اور نبھائے کوئی کوئی مرے دوست

Izhar Quotes in Urdu

اتنی گلیاں اگ آئیں بستی میں
بھول بیٹھا تری گلی مرے دوست

لازمی ہے خرد کی بیداری
نیند لیکن کبھی کبھی مرے دوست

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جب کبھی رسم و رہ عام صدا دیتی ہے
دل کو کیا کیا ہوس نام سدا دیتی ہے

مشعلیں اپنی سنبھالو کہ فضائیں چمکیں
اتنی جاتی ہوئی ہر شام صدا دیتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کیا زمانے میں کوئی صاحب دانش نہ رہا
زندگی ہم کو بہر گام صدا دیتی ہے

ہے یہی وقت کہ قدموں کو ہم آہنگ کرو
پھر کہاں گردش ایام صدا دیتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

زائچہ میرے خیالوں کا جدا سب سے الگ
کس کو ہم پیشگیٔ عام صدا دیتی ہے

پردۂ سنگ نہیں پردۂ اظہار جمال
روح خوابیدۂ اصنام صدا دیتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اک یقیں اور پس مرگ یقیں ابھرے گا
ہر شکست دل ناکام صدا دیتی ہے

ہر گماں زاد دھندلکے سے گزر جاؤ عروجؔ
روشنی سی وہ لب بام صدا دیتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اک حقیقت ہوں اگر اظہار ہو جاؤں گا میں
جانے کس کس جرم کا اقرار ہو جاؤں گا میں

کاٹ لو اب کے مجھے بھی خواہشوں کی فصل پر
زندگی اک خواب ہے بیدار ہو جاؤں گا میں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

رفتہ رفتہ باغ کی سب تتلیاں کھو جائیں گی
اور اک دن خود سے بھی بیزار ہو جاؤں گا میں

یا تو اک دن توڑ ڈالوں گا حصار آگہی
یا کسی قصے کا اک کردار ہو جاؤں گا میں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

عکس اندر عکس آتا ہے نظر مجھ کو کمالؔ
کیا کسی دن آئنے کے پار ہو جاؤں گا میں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

نئے اسلوب میں زندہ ہوئے ہیں
تبھی تو حرف آئندہ ہوئے ہیں

طلوع صبح کی امید کم تھی
دعائے شب سے تابندہ ہوئے ہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

نہ کام آیا جہاں عرض ہنر بھی
لب اظہار شرمندہ ہوئے ہیں

بدن میں جیتے جی جو مر گئے تھے
وہ اپنی روح میں زندہ ہوئے ہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہماری شعلگی سب سے جدا ہے
بجھے ہیں ہم تو سوزندہ ہوئے ہیں

مٹا سکتا نہیں جن کو زمانہ
کچھ ایسے نقش پایندہ ہوئے ہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہمیں سود و زیاں سے کیا سخنؔ ہم
نہ یابندہ نہ گیرندہ ہوئے ہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

راہ جینے کی بتاؤ تو کوئی بات بنے
حوصلہ دل کا بڑھاؤ تو کوئی بات بنے

صرف اظہار محبت سے نہیں کام چلے
ہاں اگر ساتھ نبھاؤ تو کوئی بات بنے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دور سے دیدۂ امید کو ترساتے ہو
جب مجھے پاس بلاؤ تو کوئی بات بنے

نہ کرو دور سے دعوائے مسیحائی تم
مجھ سے مردے کو جلاؤ تو کوئی بات بنے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

غیریت اب بھی نمایاں ہے ذرا رحم کرو
تم مجھے اپنا بناؤ تو کوئی بات بنے

معاملہ دل کا بتانے میں پس و پیش ہے کیا
پردۂ شرم اٹھاؤ تو کوئی بات بنے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کیوں سناتے ہو مجھے قصۂ درد ہجراں
پیار کے گیت سناؤ تو کوئی بات بنے

آنکھ سے آنکھ ملاتے ہو بھلا احقرؔ سے
دل کو دل سے جو ملاؤ تو کوئی بات بنے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کام بس فاتحہ خوانی سے نہیں ہوتا ہے
عشق اظہار زبانی سے نہیں ہوتا ہے

ہے یہ قرآن عمل کرنے کی دولت یارو
نفع بس لفظ معانی سے نہیں ہوتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کچھ عنایت یہاں احباب بھی کر جاتے ہیں
سب زیاں دشمن جانی سے نہیں ہوتا ہے

کام ہو جاتا ہے بس مصرع اول سے بھی کبھی
کام جو مصرع ثانی سے نہیں ہوتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

یہ تجارت نہیں اک اہم عبادت ہے میاں
عشق میں لابھ و ہانی سے نہیں ہوتا ہے

بعض اوقات ٹھہرنے کی طلب ہوتی ہے
کام ہر وقت روانی سے نہیں ہوتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جان لیوا کبھی خاموشی بھی ہو جاتی ہے
خون بس شعلہ بیانی سے نہیں ہوتا ہے

عارضی پیاس تو بجھ جاتی ہے اس سے لیکن
پیاس مٹ جائے یہ پانی سے نہیں ہوتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

پینا پڑتا ہے یہاں جام شہادت قادرؔ
نام بس قصہ کہانی سے نہیں ہوتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

مری نگاہ کو جلووں کا حوصلہ دے دو
گزر بسر کا کوئی بھی تو آسرا دے دو

تمہاری بزم سے جاتا ہے نا مراد کوئی
سفر بخیر کی جان وفا دعا دے دو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

عطا پہ حرف نہ آ جائے مانگنے سے مرے
خدا ہو میرے تو پھر حسب مدعا دے دو

مٹا دو میری نگاہوں سے تم نقوش تمام
وگرنہ دوسرا مجھ کو اک آئنہ دے دو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

فریب شرح تمنا بھی کھا لے اب یہ دل
لبوں کو جرأت اظہار مدعا دے دو

جنوں نواز و جنوں خیز و صد جنوں ساماں
تم اپنے جلووں کو ایسی کوئی ادا دے دو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

عدو کو شکوۂ لذت کوئی نہ رہ جائے
مرے لہو کو کچھ ایسا ہی ذائقہ دے دو

غزل کی آبرو تم ہو غزل مجھے محبوب
شعور فکر کو اسلوب خوش نما دے دو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

یہ دل تو دشمن جانی ہے ایک مدت سے
جو غم نواز ہو ایسا غم آشنا دے دو

لباس کہنہ غزل کا اتار کر طرزیؔ
بہ فیض طبع رسا اک نئی قبا دے دو

Mohabbat Men Izhar Quotes

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دل غم عشق کے اظہار سے کتراتا ہے
آہ غم خوار کہ غم خوار سے کتراتا ہے

یہ سمجھ کر کے جفاؤں میں مزا پاتا ہے
وہ ستم گر مرے آزار سے کتراتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہو گیا اس پہ بھی کچھ اس کی شکایت کا اثر
اب مسیحا بھی جو بیمار سے کتراتا ہے

ہو رہا ہے مجھے تکمیل محبت کا گماں
عشق اب حسن کے دیدار سے کتراتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دل پروردہ غم خوشیوں سے یوں جاتا ہے
سوزؔ اک بال جوں اغیار سے کتراتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کبھی اقرار کرتا ہے کبھی انکار کرتا ہے
محبت کا وہ مجھ سے اس طرح اظہار کرتا ہے

میرے خوابوں میں آ کر چھین لیتا ہے سکوں میرا
یہ کیسا دوست ہے جینا مرا دشوار کرتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کبھی بھی سامنے سے دو بدو ہوتا نہیں ظالم
عجب بزدل ہے ہر دم فاصلے سے وار کرتا ہے

بچھاتا ہے جو کانٹے دوسروں کی راہ میں ہر دم
حقیقت میں وہ اپنی راہ خود پر خار کرتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

نباہے گا زمانے سے وہ کیسے رسم الفت کو
جو اپنی کج ادائی سے ہمیں بیزار کرتا ہے

گناہوں میں چھپا رکھی ہے اس نے کس قدر لذت
نہیں کرنا ہے جس کو دل اسے سو بار کرتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

مجیدؔ اب دل لگانا بھی نہیں آتا ہے لوگوں کو
جسے دیکھو وہی الفت میں کاروبار کرتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کیا روش اختیار کر بیٹھے
بے وفاؤں سے پیار کر بیٹھے

جو سمجھتے نہیں ہیں دل کی زباں
ان پہ ہم دل نثار کر بیٹھے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہجر کی رات کاٹے کٹتی نہیں
ایک پل کو ہزار کر بیٹھے

تاب نظارہ کب تھی آنکھوں میں
پھر بھی ضد بار بار کر بیٹھے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ان کا وعدہ تو صرف وعدہ تھا
جس پہ ہم اعتبار کر بیٹھے

جانے والے نہ آئیں گے ہرگز
لوگ کیوں انتظار کر بیٹھے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کر کے اظہار حال ان سے مجیدؔ
خود کو ہم شرمسار کر بیٹھے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جام چھلکائیں صراحی سے نظر چار کریں
میکدہ نیند میں ہے ہم اسے بیدار کریں

کوئی آئے گا شب غم مری پرسش کے لئے
آپ آئیں گے ذرا سوچ کے اقرار کریں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ایک قاتل بھی ہے اس شہر میں منصف کی طرح
جان کی ہم جو اماں پائیں تو اظہار کریں

غنچہ و گل پہ کوئی تازہ قیامت ٹوٹے
لوگ اتنا بھی نہ فکر لب و رخسار کریں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

گھر چھوڑ کے بھی گھر ہی کے آزار میں رہنا
کھوئے ہوئے فکر در و دیوار میں رہنا

کچھ اور بڑھا دیتا ہے معنی کا تأثر
چپ رہ کے بھی پیرایۂ اظہار میں رہنا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جو مصلحت وقت کو خاطر میں نہ لائے
وہ حسن انا چاہئے فنکار میں رہنا

Muhabbat Men Izhar Quots

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وہ ربط باہمی نہیں وہ پیار بھی نہیں
پہلی سی وہ نگاہ طرحدار بھی نہیں

اب حال دل کا لایق اظہار بھی نہیں
جیتے ہیں اور جینے کے آثار بھی نہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہر ہر نفس میں زیست کے ہے آرزوئے شوق
کم دل کشی میں عشق کا آزار بھی نہیں

تھی جان اک امانت یار اس کو سونپ دی
اب زندگی کے دوش پہ یہ بار بھی نہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اس دور کی عجیب ہے تنظیم دوستو
فن کار وہ بنا ہے جو فن کار بھی نہیں

دور ہوس میں کوئی بھی پرسان غم نہیں
اپنوں سے کیا شکایت اغیار بھی نہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دنیا میں ایک تیرا سہارا ہے اے خدا
تنہا ہوں کوئی یار و مددگار بھی نہیں

حق بات دردؔ اہل خرد کو نہ ہو قبول
غالبؔ کے لوگ اتنے طرف دار بھی نہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

راز کھل جائے نہ ساقی کہیں میخانے کا
ذکر اچھا نہیں پیمانے سے پیمانے کا

کیا ٹھکانا ہے بھلا آپ کے دیوانے کا
زندگی جس کے لئے نام ہے مر جانے کا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

شہر میں تیرے میں پھرتا ہوں یوں مارا مارا
جیسے اک اجنبی بھٹکا ہوا ویرانے کا

بات تو جب ہے کہ پلکوں سے بھی اظہار نہ ہو
دل میں مستور رہے راز صنم خانے کا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جان دے دینا بھری بزم میں آسان نہیں
شمع پر مٹنا ہی مقدور ہے پروانے کا

ایک لمحے میں بدل جائے گلستاں کا نظام
ہم الٹ دیں جو ورق عشق کے افسانے کا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دردؔ کے درد کو تسکین میسر ہو جائے
خط جو مل جائے کبھی آپ کے آ جانے کا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

مرے دن کی طرح روشن مری ہر رات ہوتی ہے
دعا ماں کی ہر اک موسم میں میرے ساتھ ہوتی ہے

عجب دستور ہے اک یہ بھی اظہار محبت کا
زباں خاموش رہتی ہے نظر سے بات ہوتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

تلاش رزق میں جب بھی کبھی گھر سے نکلتا ہوں
مرے ہم راہ پیہم گردش حالات ہوتی ہے

بھلا الزام کوئی دشمنی پر کیا رکھا جائے
کہ اب تو دوستی ہی باعث صدمات ہوتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

رہوں میں کوئی عالم کوئی حالت میں مگر ساحلؔ
مرے پیش نظر تو بس خدا کی ذات ہوتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

احساس عشق دل کی پناہوں میں آ گیا
بادل سمٹ کے چاند کی باہوں میں آ گیا

اظہار عشق میں نے کسی سے نہیں کیا
اور بے سبب جہاں کی نگاہوں میں آ گیا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وہ مسکرا کے دیکھ رہے ہیں مری طرف
اتنا اثر تو اب مری آہوں میں آ گیا

کیا پوچھتے ہو عزم سفر کی کرامتیں
منزل کا نقش خود مری راہوں میں آ گیا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہیں ابتدائی مرحلے یہ عشق کے ابھی
ساحلؔ یہ سوز کیوں تری آہوں میں آ گیا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جو محبت کو اختیار کرے
حرف مطلب نہ آشکار کرے

آدمی کو بلند رہنا ہے
پستیوں کو نہ اختیار کرے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہے وہ انسان قدر کے قابل
آدمیت کو جو شعار کرے

ہم تو مر مٹ چکے ہیں جیتے جی
موت کا کون انتظار کرے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہم بھی رکھتے ہیں پاس خودداری
کون اظہار حال زار کرے

چاک ہے جس کا دامن ہستی
کیوں گریباں کو تار تار کرے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

شوق ہے جس کو خاک ہونے کا
مذہب عشق اختیار کرے

ہم ہیں مصروف دید مصحف رخ
کون نظارۂ بہار کرے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

نبض ڈوبی مریض الفت کی
چارہ گر خاک کیا شمار کرے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہوں کیوں نہ منکشف اسرار پست و بالا کے
جمے ہیں پاؤں زمیں پر سر آسماں کو چھوئے

جو سر نوشت میں ہے اس کو ہو کے رہنا ہے
تو کس بھروسے پہ انسان جد و جہد کرے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اب آسماں سے صحیفے نہیں اترتے مگر
کھلا ہوا ہے در اجتہاد سب کے لیے

زباں عطا کرے شعر ان کی بے زبانی کو
جو اپنے کرب کا اظہار کر نہیں سکتے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

بہار و بہجت و عز و وقار اس پہ نثار
زباں سے مال سے جاں سے جو ظالموں سے لڑے

ہے آنسوؤں میں شفا کیسی کیا خبر اس کو
بہائے مکر سے جو جھوٹ موٹ کے ٹسوے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہے بسکہ کام ہم ایسوں کا بھی مسیحائی
ہم آسمان پہ زندہ اٹھائے جائیں گے

Novel Izhar e Mohabbat Mushkil Hai Quotes

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اظہار غم کو شوق نے آساں بنا لیا
ضبط سخن کو بات کا عنواں بنا لیا

ہم نے بہار رفتہ کی تصویر کے لیے
شاخ مژہ کو شاخ‌ گل افشاں بنا لیا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دیکھا زمانۂ گزراں کو اسی نے خوب
آنکھوں کو جس نے روزن زنداں بنا لیا

ژولیدگی کہ میرے خیالوں کی جان تھی
تم نے اسی کو زلف کا عنواں بنا لیا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جب خود حریف رنگ گلستاں نہ ہو سکے
خود کو حریف رنگ گلستاں بنا لیا

آرائش حریم وفا کے خیال سے
ہر داغ دل کو شمع فروزاں بنا لیا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

فطرتؔ حریم شوق میں آنا جو تھا انہیں
اشکوں کو ہم نے شمع شبستاں بنا لیا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کئی بار ان کی محفل میں ہمارا ذکر خیر آیا
مگر اظہار لطف دوست داری کے بغیر آیا

سمجھتا ہوں یہ سنگ راہ کعبہ ہے سمجھتا ہوں
مگر شام آئی اور میں لوٹ کر پھر سوئے دیر آیا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جمال دوست سے پر نور ہے دنیائے دل میری
خیال دوست اس گھر میں تکلف کے بغیر آیا

نہ ڈر گرداب غم کا ہے نہ طوفان حوادث کا
دل آزاد ان موجوں میں لاکھوں بار تیر آیا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جھلکتے ہیں مژہ پر اشک دل سجدے لٹاتا ہے
زبان بے کسی پر آج کس کا ذکر خیر آیا

رہ ہستی میں سو مشکل کی اک مشکل یہ تھی فطرتؔ
دل ناداں نے سمجھا یہ حرم ہے جب بھی دیر آیا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جو کچھ بھی یہ جہاں کی زمانے کی گھر کی ہے
روداد ایک لمحۂ وحشت اثر کی ہے

پھر دھڑکنوں میں گزرے ہوؤں کے قدم کی چاپ
سانسوں میں اک عجیب ہوا پھر ادھر کی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

پھر دور منظروں سے نظر کو ہے واسطہ
پھر ان دنوں فضا میں حکایت سفر کی ہے

پہلی کرن کی دھار سے کٹ جائیں گے یہ پر
اظہار کی اڑان فقط رات بھر کی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ادراک کے یہ دکھ یہ عذاب آگہی کے دوست!
کس سے کہیں خطا نگہ خود نگر کی ہے

وہ ان کہی سی بات سخن کو جو پر کرے
سازؔ اپنی شاعری میں کمی اس کسر کی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

طبع حساس مری خار ہوئی جاتی ہے
بے حسی عشرت کردار ہوئی جاتی ہے

یہ خموشی یہ گھلاوٹ یہ بچھڑتے ہوئے رنگ
شام اک درد بھرا پیار ہوئی جاتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اور باریک کئے جاتا ہوں میں موئے قلم
تیز تر سوزن اظہار ہوئی جاتی ہے

کچھ تو سچ بول کہ دل سے یہ گراں بوجھ ہٹے
زندگی جھوٹ کا طومار ہوئی جاتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جادۂ فن سے گزرنا بھی کشاکش ہے تمام
راہ خود راہ کی دیوار ہوئی جاتی ہے

سوچ کی دھوپ میں جل اٹھنے کو جی چاہتا ہے
اپنے لفظوں سے بھی اب عار ہوئی جاتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

زیست یوں شام کے لمحوں سے گزرتی ہے کبھی
خود بہ خود شرح غم یار ہوئی جاتی ہے

کم سے کم پھونک ہی دے بجھتی ہوئی راکھ میں سازؔ
آخری سانس بھی بے کار ہوئی جاتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

بند فصیلیں شہر کی توڑیں ذات کی گرہیں کھولیں
برگد نیچے ندی کنارے بیٹھ کہانی بولیں

دھیرے دھیرے خود کو نکالیں اس بندھن جکڑن سے
سنگ کسی آوارہ منش کے ہولے ہولے ہو لیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

فکر کی کس سرشار ڈگر پر شام ڈھلے جی چاہا
جھیل میں ٹھہرے اپنے عکس کو چومیں ہونٹ بھگو لیں

ہاتھ لگا بیٹھے تو جیون بھر مقروض رہیں گے
دام نہ پوچھیں درد کے صاحب پہلے جیب ٹٹولیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

نوشادر گندھک کی زباں میں شعر کہیں اس یگ میں
سچ کے نیلے زہر کو لہجے کے تیزاب میں گھولیں

اپنی نظر کے باٹ نہ رکھیں سازؔ ہم اک پلڑے میں
بوجھل تنقیدوں سے کیوں اپنے اظہار کو تولیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہر اک لمحے کی رگ میں درد کا رشتہ دھڑکتا ہے
وہاں تارہ لرزتا ہے جو یاں پتہ کھڑکتا ہے

ڈھکے رہتے ہیں گہرے ابر میں باطن کے سب منظر
کبھی اک لحظۂ ادراک بجلی سا کڑکتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

مجھے دیوانہ کر دیتی ہے اپنی موت کی شوخی
کوئی مجھ میں رگ اظہار کی صورت پھڑکتا ہے

پھر اک دن آگ لگ جاتی ہے جنگل میں حقیقت کے
کہیں پہلے پہل اک خواب کا شعلہ بھڑکتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

مری نظریں ہی میرے عکس کو مجروح کرتی ہیں
نگاہیں مرتکز ہوتی ہیں اور شیشہ تڑکتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ازدواجی زندگی بھی اور تجارت بھی ادب بھی
کتنا کار آمد ہے سب کچھ اور کیسا بے سبب بھی

جس کے ایک اک حرف شیریں کا اثر ہے زہر آگیں
کیا حکایت لکھ گئے میرے لبوں پر اس کے لب بھی

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

عمر بھر تار نفس اک ہجر ہی کا سلسلہ ہے
وہ نہ مل پائے اگر تو اور اگر مل جائے تب بھی

لوگ اچھے زندگی پیاری ہے دنیا خوب صورت
آہ کیسی خوش کلامی کر رہی ہے روح شب بھی

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

لفظ پر مفہوم اس لمحے کچھ ایسا ملتفت ہے
جیسے از خود ہو عنایت بوسۂ لب بے طلب بھی

ناتواں کم ظرف عصیاں کار جاہل اور کیا کیا
پیار سے مجھ کو بلاتا ہے وہ میرا خوش لقب بھی

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہم بھی ہیں پابندئ اظہار سے بیزار لیکن
کچھ سلیقہ تو سخن کا ہو ہنر کا کوئی ڈھب بھی

نام نسبت ملکیت کچھ بھی نہیں باقی اگرچہ
سازؔ اس کوچے میں میرا گھر ہوا کرتا ہے اب بھی

Quotes Aurat Khud Izhar Kry Mard Ki Pakeezgi Dekh Kr

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

خود کو کیوں جسم کا زندانی کریں
فکر کو تخت سلیمانی کریں

دیر تک بیٹھ کے سوچیں خود کو
آج پھر گھر میں بیابانی کریں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اپنے کمرے میں سجائیں آفاق
جلسۂ بے سر و سامانی کریں

عمر بھر شعر کہیں خوں تھوکیں
منتخب راستہ نقصانی کریں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

خود کے سر مول لیں اظہار کا قرض
دوسروں کے لیے آسانی کریں

شعر کے لب پہ خموشی لکھیں
حرف نا گفتہ کو لا فانی کریں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کیمیا کاری ہے فن اپنا سازؔ
آگ کو بیٹھے ہوئے پانی کریں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

نظر آسودہ کام روشنی ہے
مرے آگے سراب آگہی ہے

زمانوں کو ملا ہے سوز اظہار
وہ ساعت جب خموشی بول اٹھی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہنسی سی اک لب ذوق نظر پر
شفق زار تحیر بن گئی ہے

زمانے سبز و سرخ و زرد گزرے
زمیں لیکن وہی خاکستری ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

پگھلتا جا رہا ہے سارا منظر
نظر تحلیل ہوتی جا رہی ہے

دھندلکوں کو اندھیرے چاٹ لیں گے
کہ آگے عہد مرگ روشنی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

بکھرتے کارواں یہ ارتقا کے
سراسیمہ سا ذوق زندگی ہے

میں دیکھوں تو دکھا دوں گا تمہیں سازؔ
ابھی مجھ میں بصیرت کی کمی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

یوں بھی دل احباب کے ہم نے گاہے گاہے رکھے تھے
اپنے زخم نظر پر خوش فہمی کے پھاہے رکھے تھے

ہم نے تضاد دہر کو سمجھا دوراہے ترتیب دیئے
اور برتنے نکلے تو دیکھا سہ راہے رکھے تھے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

رقص کدہ ہو بزم سخن ہو کوئی کار گہہ فن ہو
زردوزوں نے اپنی ماتحتی میں جلاہے رکھے تھے

محتسبوں کی خاطر بھی اپنے اظہار میں کچھ پہلو
رکھ تو لیے تھے ہم نے اب چاہے ان چاہے رکھے تھے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جو وجہ راحت بھی نہ تھے اور ٹوٹ گئے تو غم نہ ہوا
آہ وہ رشتے کیوں ہم نے اک عمر نباہے رکھے تھے

کاہکشاں بندی میں سخن کی رہ گئی سازؔ کسر کیسی
لفظ تو ہم نے چن کے نجومے مہرے ماہے رکھے تھے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دور سے شہر فکر سہانا لگتا ہے
داخل ہوتے ہی ہرجانہ لگتا ہے

سانس کی ہر آمد لوٹانی پڑتی ہے
جینا بھی محصول چکانا لگتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

روز پلٹ آتا ہے لہو میں ڈوبا تیر
روز فلک پر ایک نشانہ لگتا ہے

بیچ نگر دن چڑھتے وحشت بڑھتی ہے
شام تلک ہر سو ویرانہ لگتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

عمر زمانہ شہر سمندر گھر آکاش
ذہن کو ایک جھٹکا روزانہ لگتا ہے

بے حاصل چلتے رہنا بھی سہل نہیں
قدم قدم پر ایک بہانہ لگتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کیا اسلوب چنیں کس ڈھب اظہار کریں
ٹیس نئی ہے درد پرانا لگتا ہے

ہونٹ کے خم سے دل کے پیچ ملانا سازؔ
کہتے کہتے بات زمانہ لگتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

منظر شمشان ہو گیا ہے
دل قبرستان ہو گیا ہے

اک سانس کے بعد دوسری سانس
جینا بھگتان ہو گیا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

چھو آئے ہیں ہم یقیں کی سرحد
جس وقت گمان ہو گیا ہے

سرگوشیوں کی دھمک ہے ہر سو
غل کانوں کان ہو گیا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وہ لمحہ ہوں میں کہ اک زمانہ
میرے دوران ہو گیا ہے

سو نوک پلک پلک جھپک میں
عقدہ آسان ہو گیا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

منزل وہ خم سفر ہے جس پر
چوری سامان ہو گیا ہے

اک مرحلۂ کشاکش فن
وجہ امکان ہو گیا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کاغذ پہ قلم ذرا جو پھسلا
اظہار بیان ہو گیا ہے

پیدا ہوتے ہی آدمی کو
لاحق نسیان ہو گیا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

پیلی آنکھوں میں زرد سپنے
شب کو یرقان ہو گیا ہے

سودے میں غزل کے فائدہ سازؔ
کیسا نقصان ہو گیا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

نام خوشبو تھا سراپا بھی غزل جیسا تھا
چاند سے چہرے پہ پردہ بھی غزل جیسا تھا

سارے الفاظ غزل جیسے تھے گفتار کے وقت
رنگ اظہار تمنا بھی غزل جیسا تھا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

پھول ہی پھول تھے کلیاں تھیں حسیں گلیاں تھیں
آپ کے گھر کا وہ رستہ بھی غزل جیسا تھا

اس کی آنکھیں بھی حسیں آنکھ میں آنسو بھی حسیں
غم میں ڈوبا ہوا چہرہ بھی غزل جیسا تھا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وہ جوانی وہ محبت وہ شرارت کا نشہ
وہ مری عمر کا حصہ بھی غزل جیسا تھا

فاصلے تھے نہ جدائی تھی نہ تنہائی تھی
تیری قربت کا وہ لمحہ بھی غزل جیسا تھا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وہ نہ میرا نہ میں اس کا تھا مگر اے داناؔ
دھندلا دھندلا سا وہ رشتہ بھی غزل جیسا تھا

Quotes On Izhar e Mohabbat

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

چمک کیسی رخ انوار میں ہے
زمانہ سارا ہی اسرار میں ہے

لگائیں اپنے فن پاروں کی قیمت
کہ اب ہر چیز ہی بازار میں ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کئی آنکھیں گڑھی جاتی ہیں مجھ میں
کوئی روزن در و دیوار میں ہے

رہا ہوں منتظر جس کا ازل سے
وہی چہرہ مرے افکار میں ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

نہیں پہلا سا اب رنگ بہاراں
کہ ویرانی گل و گلزار میں ہے

حدیث دل بیاں کیسے ہو آصیؔ
مجھے مشکل بہت اظہار میں ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ویسے اس آب و گل میں کیا نہ ہوا
کوئی بندہ مگر خدا نہ ہوا

اف رے ان کے جمال کا عالم
مجھ سے اظہار مدعا نہ ہوا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ساقیٔ میکدہ نے جو دے دی
میں اسے پی کے بد مزہ نہ ہوا

مجھ سے عبرت جہاں کو حاصل ہے
میں برا ہو کہ بھی برا نہ ہوا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

زخم دل کا شمار کون کرے
تیر اس کا کوئی خطا نہ ہوا
قید غم سے مگر رہا نا ہوا
میں نے کوشش بھی کی دعا بھی کی
قید غم سے مگر رہا نہ ہوا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

مر گیا آسیؔٔ شکستہ دل
یہ بھی اچھا ہوا برا نہ ہوا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہجوم غم میں جینا کس قدر صبر آزما ہوتا
اگر درد محبت سے یہ دل نا آشنا ہوتا

مری لغزش نے رنگیں کر دیا ہر نقش ہستی کو
یہاں ہو کا سماں ہوتا اگر میں پارسا ہوتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

تمنا خود فریبی آرزو ہے جان کی دشمن
مسرت دل کو دینا تھی تو بس غم ہی دیا ہوتا

یہ انسان اپنی دنیا کو تباہی سے بچا لیتا
اگر فکر جزا ہوتی اگر خوف خدا ہوتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کریں کیا ہم بھی ہیں مجبور دل سے ورنہ اے ہمدم
تری ہر بات سن لیتے اگر دل دوسرا ہوتا

خوشا قسمت جنون جستجو تھا ساتھ ساتھ اپنی
وگرنہ رہنما نے تو ہمیں بھٹکا دیا ہوتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کہاں تھا حوصلہ کیسے گزرتی زندگی یا رب
اگر فیض محبت کا نہ دل کو آسرا ہوتا

بس اک ذوق تمنا نے کیا رسوا مجھے ورنہ
نہ تکلیف فنا ہوتی نہ ارمان بقا ہوتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

علاج اپنے کئے کا کچھ نہیں دنیا میں آشفتہؔ
نہ ہم اظہار غم کرتے نہ کوئی خود نما ہوتا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

روش عصر سے انکار بہت مشکل ہے
کرب احساس کا اظہار بہت مشکل ہے

وہ یہ کہتے ہیں کہ میں بولوں ہوں آواز ان کی
اف یہ مجبوریٔ گفتار بہت مشکل ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

ہم سے دیوانے کہاں تاب و تپش سے ٹھہرے
ڈھونڈھ لیں سایۂ دیوار بہت مشکل ہے

مرا دشمن مرے اندر ہی چھپا ہے اور میں
خود سے ہوں بر سر پیکار بہت مشکل ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

آہ کرنے کی اجازت نہیں اس شہر میں اب
اور اک یہ دل بیمار بہت مشکل ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کچھ نئی ہم پہ گزر جائے تو پھر شعر کہیں
بھولی بصری کوئی یاد آئے تو پھر شعر کہیں

زندگی ہم کو لگے پھر سے جو انجانی سی
اور گیا وقت پلٹ آئے تو پھر شعر کہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کوئی اڑتا ہوا آنچل کوئی بکھری ہوئی زلف
شعر کہنے کو جو اکسائے تو پھر شعر کہیں

فکر فردا غم ایام کا چھایا ہے غبار
ذہن سے دھند یہ چھٹ جائے تو پھر شعر کہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کرب احساس کا اظہار ہے مقصود غزل
درد لفظوں میں سمٹ آئے تو پھر شعر کہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جیون کو دکھ دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے
بچے لیکن سوئے ہوئے تھے کس سے کہانی کہتے

سچ کہنے کا حوصلہ تم نے چھین لیا ہے ورنہ
شہر میں پھیلی ویرانی کو سب ویرانی کہتے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وقت گزرتا جاتا اور یہ زخم ہرے رہتے تو
بڑی حفاظت سے رکھی ہے تیری نشانی کہتے

وہ تو شاید دونوں کا دکھ اک جیسا تھا ورنہ
ہم بھی پتھر مارتے تجھ کو اور دیوانی کہتے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

تبدیلی سچائی ہے اس کو مانتے لیکن کیسے
آئینے کو دیکھ کے اک تصویر پرانی کہتے

تیرا لہجہ اپنایا اب دل میں حسرت سی ہے
اپنی کوئی بات کبھی تو اپنی زبانی کہتے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

چپ رہ کر اظہار کیا ہے کہہ سکتے تو آنسؔ
ایک علاحدہ طرز سخن کا تجھ کو بانی کہتے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

پہلے اپنایا خار پھولوں کا
تب کہیں پایا پیار پھولوں کا

میں بھی گلشن سمیٹ لایا ہوں
اس نے مانگا تھا ہار پھولوں کا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

یاد آتی ہے اس کی مت چھیڑو
ذکر یوں بار بار پھولوں کا

تجھ سے ملنے کے بعد یہ جانا
کون ہے دست کار پھولوں کا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

پھیل جا بن کے خوشبو گلشن میں
چھین لے اختیار پھولوں کا

تیرے چھونے سے ہی تو چلتا ہے
آج کل روزگار پھولوں کا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دے کے اظہار عشق کرتے ہیں
اس سے سمجھو وقار پھولوں کا

جب سے عامر عطاؔ ہوا عاشق
چڑھ گیا ہے ادھار پھولوں کا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اب وہ سب کچھ کر رہے ہیں دوستی کی آڑ میں
غیر ممکن تھا جو شاید دشمنی کی آڑ میں

اس قدر نخرے نہ کر اے موت آ جا سامنے
کب تلک چھپ کر رہے گی زندگی کی آڑ میں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

آج اک محفل میں جب اس سے نظر ٹکرا گئی
ہم نے کہہ دی دل کی باتیں شاعری کی آڑ میں

اک سلیقے سے کیا ہے پھول دے کر پھول کو
عشق کا اظہار چودہ فروری کی آڑ میں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

پچھلی شب کا واقعہ اب کیا بتاؤں دوستوں
چوم آیا چاند کو میں تیرگی کی آڑ میں

Raye Ka Izhar Quotes

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

سوچ کیا اس کا ملا کیا اور کیا مطلوب تھا
خواب ہی ٹھہرا تو جتنی دیر دیکھا خوب تھا

آگ دے دے کر بحد آشیاں یہ انتقام
تنکا تنکا کیوں کسی کو اس قدر محبوب تھا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وہ نگاہوں کے پیام اور وہ پیاموں کی بہار
دیکھیے میری طرف وہ بھی زمانہ خوب تھا

اب تو سودائے محبت ہے فقط دیوانگی
ورنہ سودائے محبت کا بھی اک اسلوب تھا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کب کھلا عقدہ رضاؔ جب کر چکے اظہار شوق
مدعا جائز تھا حرف مدعا معیوب تھا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جو چاہتے ہو سو کہتے ہو چپ رہنے کی لذت کیا جانو
یہ راز محبت ہے پیارے تم راز محبت کیا جانو

الفاظ کہاں سے لاؤں چھالے کی ٹپک کو سمجھاؤں
اظہار محبت کرتے ہو احساس محبت کیا جانو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کیا حسن کی بھیک بھی ہوتی ہے جب چٹکی چٹکی جڑتی ہے
ہم اہل غرض جانیں اس کو تم صاحب دولت کیا جانو

ہے فرق بڑا اے جان رضاؔ دل دینے میں دل لینے میں
الفت کا تعلق جان کے بھی رشتے کی نزاکت کیا جانو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

!کہو نا یاد کرتے ہو

!انا کے دیوتا
اچھا چلو مرضی تمہاری
پر
میں اتنا جانتا تو ہوں
کہ جب بھی شام ڈھلتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

تو لمبی رات کی کجلائی آنکھوں میں
ستارے جھلملاتے ہیں
تمہیں میں اس گھڑی پھر چاند کو تکتے ہوئے
شدت سے اتنا یاد آتا ہوں کہ جتنی شدتوں سے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

تم خموشی کی ردا کو اوڑھ کر یہ کہہ نہیں پاتے
کہ ہاں! تم یاد آتے ہو!
چلو مانا انائیں اہم ہوتی ہیں
مگر ان سے کہیں زیادہ محبت اہم ہوتی ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

چلو مانا تمہیں عادت نہیں اظہار کی،
اقرار کی،
اور تم بھی محسن نقوی کی وہ نظم تھی نا جو
“چلو چھوڑو” ، کی بس ان چند سطروں سے متاثر ہو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کہ جو کچھ اس طرح سے تھیں
چلو چھوڑو! محبت جھوٹ ہے
عہدِ وفا اک شغل ہے بے کار لوگوں کا”
مگر اِس نظم میں پنہاں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جو ہے اک بے بسی کی اوٹ میں ٹوٹا،
تھکا ہارا بڑا ہی مضطرب اور طنزیہ لہجہ
اسے تم نے کبھی محسوس کرنے کی سعی کی
نا مرے جذباب کو سمجھا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

مجھے معلوم ہے تم کو محبت ہے مگر تم کہہ نہیں سکتے
انا کے دیوتا!
میں جانتا ہوں ان کہی باتیں
مگر چھوٹی سی یہ خواہش
مجھے تڑپائے رکھتی ہے کہ تم بھی تو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کبھی اپنی انا کا بت گراؤ
وہ سبھی باتیں ذرا شیریں سے لہجے میں سناؤ
وہ سبھی باتیں جنھیں تم کہہ نہیں پائے
جنھیں تم کہہ نہیں سکتے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

مجھے معلوم ہے کہ میں تمہیں بے چینیوں کی شدتوں میں
حد سے زیادہ یاد آتا ہوں
مگر تم لب ہلاؤ تو
مری ان رتجگوں کی مٹھیوں میں قید آنکھوں میں
!!تم اپنی ڈال کر آنکھیں ذرا اک بار دیکھو تو

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کہو کس واسطے جذبوں کا اپنے خون کرتے ہو
بھلا کیوں روندتے ہو پاؤں میں ایسے گُلِ خوابِ محبت کو
تمہیں ملتا ہی کیا ہے درد سے مجھ کو سدا منسوب رکھنے میں
انا کو اوڑھ کر تم کس لیے یہ خواہشیں اور حسرتیں برباد کرتے ہو
کہو نا یاد کرتے ہو۔۔۔

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دل کو سمجھاؤں گا جیسے بھی ہو مُمکن لیکن
اب میں اظہارِ تمنّا نہیں ہونے دوں گا

لوگ کہتے ہیں کہ درد اُٹھ کے بتا دیتا ہے
اب تو میں، یہ بھی اِشارا نہیں ہونے دوں گا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اے مِرے ظرف و اَنا اِتنے پریشاں کیوں ہو
کہہ چکا ہُوں تمہیں رُسوا نہیں ہونے دوں گا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

تکتے رہنا بھی ہے افراطِ محبت کی دلیل
پیار کے سینکڑوں….. اظہار ہُوا کرتے ہیں

وہ تو پَربت ہیں جو گر جاتے ہیں ٹکڑے ہو کر
حوصلے بھی کہیں مِسمار ہُوا کرتے ہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کس محبت سے عدم! ہنس کہ وہ کہتے ہیں مجھے
چاہنے والے تو خود دار ہُوا کرتے ہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اظہارِ عشق میں جو تحریر بھیجی ٬ رَد ہوگئی
میں پھر بھی اسکی راہ تکوں؟ مطلب حَد ہوگئی

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

محبت کا اظہار، اپنائیت کا احساس، ساتھ نبھانے

کی کوشش اور مسکرانے کی وجہ بننے کے لئے خاص

دنوں کاانتظار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ہر دن اپنے ساتھ

موجود شخص کو ان احساسات سے گھیرے رکھیں۔

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

وہ خاموشیاں بھی سن لیتا ہے۔۔””
لیکن اسے اظہار پسند ھے بندےکا۔۔
جب بندہ کہتا ھے۔۔
!اے میرے رب۔۔
تو وہ متوجہ ھوجاتا ھے۔۔

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جب بندہ کہتا ھے تو بڑا رحیم ھے
تواسکی رحمت جوش میں آجاتی ھے
جب بندہ کہتا ھے اللہ مجھے معاف کردے۔۔
““تووہ معاف کردیتا ھے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

غم کا اظہار بھی کرنے نہیں دیتی دنیا
اور مرتا ہوں تو مرنے نہیں دیتی دنیا

سب ہی مے خانۂ ہستی سے پیا کرتے ہیں
مجھ کو اک جام بھی بھرنے نہیں دیتی دنیا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

آستاں پر ترے ہم سر کو جھکا تو لیتے
سر سے یہ بوجھ اترنے نہیں دیتی دنیا

ہم کبھی دیر کے طالب ہیں کبھی کعبہ کے
ایک مرکز پہ ٹھہرنے نہیں دیتی دنیا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

بجلیوں سے جو بچاتا ہوں نشیمن اپنا
مجھ کو ایسا بھی تو کرنے نہیں دیتی دنیا

مندمل ہونے پہ آئیں تو چھڑکتی ہے نمک
زخم دل کے مرے بھرنے نہیں دیتی دنیا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

میری کوشش ہے محبت سے کنارہ کر لوں
لیکن ایسا بھی تو کرنے نہیں دیتی دنیا

دینے والوں کو ہے دنیا سے بغاوت لازم
دینے والوں کو ابھرنے نہیں دیتی دنیا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

جس نے بنیاد گلستاں کی کبھی ڈالی تھی
اس کو گلشن سے گزرنے نہیں دیتی دنیا

گھٹ کے مر جاؤں یہ خواہش ہے زمانے کی
آہ بھرتا ہوں تو بھرنے نہیں دیتی دنیا

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

میرے دل کا درد لکھوگے لفظ کہا سے لاؤگے
کوزے میں دریا ھبر لوگے لفظ کہاں سے لاؤگے
سارے عالم فاضل تھک کر چور ہوئے مجبور ہوئے
میری قسمت آپ لکھو گے لفظ کہاں سے لاؤ گے
آنکھوں کی بھی ایک زباں ہے تم بولو اور میں سمجھوں
الفت کا اظہار کروگے لفظ کہاں سے لاؤگے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

زندگی تھوڑی سی مہلت تو کبھی دی ہوتی
زندہ رہنے کی اجازت تو کبھی دی ہوتی

کوئی اظہار وفا آپ سے کیسے کرتا
بات کہہ دینے کی جرأت تو کبھی دی ہوتی

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

سخت لہجوں کے رویوں کو بدلنے کے لئے
نورؔ جذبوں کو نزاکت تو کبھی دی ہوتی

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

خاموشی میں پیار کے اظہار بھی ہیں
پس پردہ چاہت کے اثار بھی ہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

موجودہ دور میں محبت کا اظہار صرف جنازوں پر کیا جاتا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کھانا پینا، بچے پیدا کرنا اور مر جانا۔

ایسا تو جانور بھی کرتے ہیں۔ پھر انسان کیونکر جانوروں سے

افضل ہے؛ کہ وہ شعور رکھتا ہے، عقل کا استعمال کرتا ہے یا دکھ کا

اظہارکرتا ہے۔ کسی نہ کسی درجے پہ جانور بھی یہ سب

کچھ کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں انسان اس لئے مختلف ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کہ وہ آعلیٰ درجے کی محبت اور ہمدردی کا مالک ہے اور

وہ سمجھتا ہے کہ ایک بھر پور زندگی جی کر اور ہر طرح

کی عیش سے لطف اندوز ہونے کے بعد بھی سچی خوشی

خدمت اور بے لوث محبت میں پوشیدہ ہے

اور جو یہ راز پا چکے ہیں ان کی روح کو کوئی دکھ نہ ہو گا۔

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

رموزِ عشق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رموزِ عشق ہر کوئی نہیں جانتا ہے
کہاں آداب کہنا ، کہاں تسلیم کہنا ہے
کہاں زانوئے ادب تہہ کرنا ہے
کہاں پر عشق کو حافظ خدا کہنا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

رموز عشق ہر کوئی نہیں جانتی
چلتی ہے عشق کرنے
آدابِ عشق نہیں جانتی
کہاں پر اپنی لامبی پلکیں جُھکا لینی ہیں

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

نہیں سمجھتی کہاں پر حجاب کرنا ہے
کہاں پر حجاب اتار دینا ہے
کس مقام پر سولہ سنگھار کر کے استقبال کرنا ہے
کب رُوٹھ جانا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

کب رُوٹھے کو محبت سے منانا ہے
کب ہونٹوں کو تر و تازہ کرنا ہے
کب ہونٹوں کا عرق پلانا ہے
اور خود کیسے طلب کا اظہار کرنا ہے
محبت کا بے پایاں اقرار کرنا ہے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

رموز عشق ہر کوئی نہیں جانتا ہے
دلربا کو کب پھول لا کے دینے ہیں
کس وقت اُسے آسودہ کرنا ہے
یہ سمجھنے کا نام رموزِ عشق ہوتا ہے
اِس اظہار کا ذریعہ دونوں کا فرض ہوتا ہے ۔۔۔ !!!

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

 میری زباں کو سطوتِ گُفتار چاہئے✨
اس دل کو اِک ذریعہِ اظہار چاہئے
اُجرت مِرے کلام کی اِک داد ہی تو ہے
✨شاعر ہوں مجھ کو قیمتِ اشعار چاہئے

Mohabbat Ka Izhaar Shayari
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

اس نے کیا ہی نہیں ہم سے محبت کا اظہار
مرشد
ہم کیوں اس کے لیے اپنی زندگی برباد کرے


Wife Quotes Izhar Mohbat

نظر ہتھیار کرنا چاہتے ہیں
ادا سے وار کرنا چاہتے ہیں

نگاہیں چار کرنا چاہتے ہیں
تمہیں ہم پیار کرنا چاہتے ہیں

رہے ہیں صبر کی بستی میں زندہ
تو اب اظہار کرنا چاہتے ہیں

نگاہیں بند کر لی ہیں کہ جاناں
ترا دیدار کرنا چاہتے ہیں

بنا کر حوصلہ پتوار اب ہم
سمندر پار کرنا چاہتے ہیں

اداکاری دغا دینے کی کر کے
تجھے ہشیار کرنا چاہتے ہیں

سنا کر داستاں ترک تعلق
زمیں ہموار کرنا چاہتے ہیں

ردائے بے حسی اوڑھے ہیں یاں جو
انہیں بیدار کرنا چاہتے ہیں

ہلیں گے لفظوں سے ایوان سارے
قلم تلوار کرنا چاہتے ہیں

گرفتار محبت کر کے ایمنؔ
غضب سرکار کرنا چاہتے ہیں
ایمن جنید خان


کتنا ہشیار ہوا کتنا وہ فرزانہ ہوا
تیری مستی بھری آنکھوں کا جو دیوانہ ہوا

آہ یہ عالم غربت یہ شب تنہائی
اک قیامت ہوئی دھیان ایسے میں تیرا نہ ہوا

اک جہاں آج بھی ہے اس کے طلسموں میں اسیر
سب کا ہو کر بھی جو عیار کسی کا نہ ہوا

تجھ کو اپنانے کا یارا تھا نہ کھونے ہی کا ظرف
دل حیراں اسی الجھاوے میں دیوانہ ہوا

کیفیت اس کی جدائی کی نہ پوچھو یارو
دل تہی ہو کے بھی چھلکا ہوا پیمانہ ہوا

ہائے وہ لطف و کرم اس کے ستم سے پہلے
کر کے بیگانہ زمانے سے جو بیگانہ ہوا

روز محشر نہ بنایا شب غم کو ہم نے
ذکر تیرا ہی بس افسانہ در افسانہ ہوا

کرب راحت ہے کبھی اور کبھی راحت کرب
اک معما یہ مزاج دل دیوانہ ہوا

ایک محسوس قرابت کی وہ خوشبوئے بدن
جس کو چھونے کا تصور میں بھی یارانہ ہوا

کیفیت درد تمنا کی وہی ہے کہ جو تھی
تیرا اظہار وفا بھی دم عیسیٰ نہ ہوا

جانے کس جان بہاراں کی لگن ہے کہ سلامؔ
دل سا معمورۂ وحشت کبھی صحرا نہ ہوا
عین سلام


مجھی میں جیتا ہے سورج تمام ہونے تک
میں اپنے جسم میں آتا ہوں شام ہونے تک

خبر ملی ہے مجھے آج اپنے ہونے کی
کہیں یہ جھوٹ نہ ہو جائے عام ہونے تک

کہاں یہ جرأت اظہار تھی کسی شے میں
سکوت شب سے مرے ہم کلام ہونے تک

یہ پختگی تھی غموں میں نہ دھڑکنوں میں ثبات
تمہارے درد کا دل میں قیام ہونے تک

یہ چاند تارے مری دسترس سے دور نہیں
کہ فاصلے ہیں مرے تیز گام ہونے تک

گزر رہے ہیں نظر سے نظر ملائے بغیر
ٹھہر بھی جائیے ایک ایک جام ہونے تک

دیئے بجھا دئے جاتے ہیں صبح تک عازمؔ
مرا حوالہ دیا اس نے نام ہونے تک
عین الدین عازم


کہا تخلیق فن بولے بہت دشوار تو ہوگی
کہا مخلوق بولے باعث آزار تو ہوگی

کہا: ہم کیا کریں اس عہد نا پرساں میں کچھ کہیے
وہ بولے کوئی آخر صورت اظہار تو ہوگی

کہا: ہم اپنی مرضی سے سفر بھی کر نہیں سکتے
وہ بولے ہر قدم پر اک نئی دیوار تو ہوگی

کہا: آنکھیں نہیں اس غم میں بینائی بھی جاتی ہے
وہ بولے ہجر کی شب ہے ذرا دشوار تو ہوگی

کہا: جلتا ہے دل بولے اسے جلنے دیا جائے
اندھیرے میں کسی کو روشنی درکار تو ہوگی

کہا: یہ کوچہ گردی اور کتنی دیر تک آخر
وہ بولے عشق میں مٹی تمہاری خوار تو ہوگی
اعتبار ساجد


یہ کیا حالت بنا رکھی ہے یہ آثار کیسے ہیں
بہت اچھا بھلا چھوڑا تھا اب بیمار کیسے

وہ مجھ سے پوچھنے آئی ہے کچھ لکھا نہیں مجھ پر
میں اس کو کیسے سمجھاؤں مرے اشعار کیسے ہیں

مری سوچیں ہیں کیسی کون ان سوچوں کا مرکز ہے
جو میرے ذہن میں پلتے ہیں وہ افکار کیسے ہیں

مرے دل کا الاؤں آج تک دیکھا نہیں جس نے
وہ کیا جانے کہ شعلے صورت اظہار کیسے ہیں

یہ منطق کون سمجھے گا کہ یخ کمرے کی ٹھنڈک میں
مرے الفاظ کے ملبوس شعلہ بار کیسے ہیں

ذرا سی ایک فرمائش بھی پوری کر نہیں سکتے
محبت کرنے والے لوگ بھی لاچار کیسے ہیں

جدائی کس طرح برتاؤ ہم لوگوں سے کرتی ہے
مزاجاً ہم سخنور بے دل و بے زار کیسے ہیں
اعتبار ساجد


پھولوں میں وہ خوشبو وہ صباحت نہیں آئی
اب تک ترے آنے کی شہادت نہیں آئی

موسم تھا نمائش کا مگر آنکھ نہ کھولی
جاناں ترے زخموں کو سیاست نہیں آئی

جو روح سے آزار کی مانند لپٹ جائے
ہم پر وہ گھڑی اے شب وحشت نہیں آئی

اے دشت انا الحق ترے قربان ابھی تک
وہ منزل اظہار صداقت نہیں آئی

ہم لوگ کہ ہیں ماؤں سے بچھڑے ہوئے بچے
حصے میں کسی کے بھی محبت نہیں آئی

ہم نے تو بہت حرف تری مدح میں سوچے
افسوس کہ سنوائی کی نوبت نہیں آئی

لرزے بھی نہیں شہر کے حساس در و بام
دل راکھ ہوئے پھر بھی قیامت نہیں آئی

ساجدؔ وہ سحر جس کے لئے رات بھی روئی
آئی تو سہی حسب ضرورت نہیں آئی
اعتبار ساجد


درد مسلسل سے آہوں میں پیدا وہ تاثیر ہوئی
اکثر چارہ گروں کی حالت مجھ سے سوا گمبھیر ہوئی

کیا جانے کیوں مجھ سے میری برگشتہ تقدیر ہوئی
مملکت عیش آنکھ جھپکتے ہی غم کی جاگیر ہوئی

اس نے میرے شیشۂ دل کو دیکھ کے کیوں منہ موڑ لیا
شاید اس آئینے میں اس کو ظاہر کوئی لکیر ہوئی

جب بھی لکھا حال دل مضطر میں نے اس کو رات گئے
تا بہ سحر اشک افشانی سے ضائع وہ تحریر ہوئی

بڑھتی جاتی ہے دورئ منزل جب سے جنوں نے چھوڑا ساتھ
اب تو خرد ہر گام پر اپنے پیروں کی زنجیر ہوئی

مجھ کو عطا کرتے وہ یقیناً میری طلب سے سوا لیکن
خودداری میں ہاتھ نہ پھیلا شرم جو دامن گیر ہوئی

کس کو خبر ہے ان کی گلی میں کتنے دلوں کا خون ہوا
رعنائی میں ان کی گلی جب وادئ کشمیر ہوئی

ان سے کروں اظہار تمنا سوچا رکھ کر عذر جنوں
لیکن وہ بھی راس نہ آیا لا حاصل تدبیر ہوئی

ٹپ ٹپ آنکھ سے آنسو ٹپکے عاجزؔ آہ سرد کے ساتھ
میرے سامنے نذر آتش جب میری تصویر ہوئی
عاجز ماتوی


پابندئ اظہار کی لعنت ہی الگ ہے
خاموش زبانوں کی حکایت ہی الگ ہے

جو تم نے ستم ڈھائے ہیں وہ اور ہیں لیکن
اس درد جدائی کی اذیت ہی الگ ہے

تم نے تو اداؤں سے بہت قتل کئے ہیں
انداز تغافل کی قیامت ہی الگ ہے

ہونٹوں سے تو ہوتے ہیں ادا حرف محبت
آنکھوں کے اشارے کی وضاحت ہی الگ ہے

تا حد نظر دید کے قابل ہیں نظارے
لیکن ترے دیدار کی حسرت ہی الگ ہے

عشرت کدہ دہر میں کیا کیا نہیں لیکن
تیرے لب و رخسار کی جنت ہی الگ ہے

پڑھتے ہیں بڑے شوق سے ارباب ادب بھی
اجملؔ ترے اشعار کی ندرت ہی الگ ہے
اجمل ابواللیث


پابندئ اظہار کی لعنت ہی الگ ہے
خاموش زبانوں کی حکایت ہی الگ ہے

جو تم نے ستم ڈھائے ہیں وہ اور ہیں لیکن
اس درد جدائی کی اذیت ہی الگ ہے

تم نے تو اداؤں سے بہت قتل کئے ہیں
انداز تغافل کی قیامت ہی الگ ہے

ہونٹوں سے تو ہوتے ہیں ادا حرف محبت
آنکھوں کے اشارے کی وضاحت ہی الگ ہے

تا حد نظر دید کے قابل ہیں نظارے
لیکن ترے دیدار کی حسرت ہی الگ ہے

عشرت کدہ دہر میں کیا کیا نہیں لیکن
تیرے لب و رخسار کی جنت ہی الگ ہے

پڑھتے ہیں بڑے شوق سے ارباب تحفظ
اجملؔ ترے اشعار کی ندرت ہی الگ ہے
اجمل ابواللیث


آزار بہت لذت آزار بہت ہے
دل دست ستم گر کا طلب گار بہت ہے

اقرار کی منزل بھی ضرور آئے گی اک دن
اس وقت تو بس لذت انکار بہت ہے

یاران سفر کوئی دوا ڈھونڈ کے لاؤ
انسان مرے دور کا بیمار بہت ہے

ہاں دیکھیو عرفان بغاوت نہ جھلس جائے
منظر مری دنیا کا شرر بار بہت ہے

ہم گھر کی پناہوں سے جو نکلے تو یہ جانا
ہنگامہ پس سایۂ دیوار بہت ہے

قاتل کی عنایت کا مزہ اور ہے ورنہ
جاں لینے کو یہ سانس کی تلوار بہت ہے

کیا لوگ ہیں یہ سوچ کے بیٹھے ہوں گھروں میں
بس ظلم سے بے زاری کا اظہار بہت ہے

حالات زمانہ سے لرز جاتے ہیں اجملؔ
یوں ہے کہ زمانہ سے ہمیں پیار بہت ہے
اجمل اجملی


اتراتا گریباں پر تھا بہت، رہ عشق میں کب کا چاک ہوا
وہ قصۂ آزادانہ روی، اس زلف کے ہاتھوں پاک ہوا

کیا کیا نہ پڑھا اس مکتب میں، کتنے ہی ہنر سیکھے ہیں یہاں
اظہار کبھی آنکھوں سے کیا کبھی حد سے سوا بے باک ہوا

جس دن سے گیا وہ جان غزل ہر مصرعے کی صورت بگڑی
ہر لفظ پریشاں دکھتا ہے، اس درجہ ورق نمناک ہوا

خوش رہیو سن اے باد صبا کہیں اور تو اپنے ناز دکھا
تو جس کے بال اڑاتی تھی وہ شخص تو کب کا خاک ہوا
اجمل صدیقی


تمہارے دل کی طرح یہ زمین تنگ نہیں
خدا کا شکر کہ پاؤں میں اپنے لنگ نہیں

عجیب اس سے تعلق ہے کیا کہا جائے
کچھ ایسی صلح نہیں ہے کچھ ایسی جنگ نہیں

کوئی بتاؤ کہ اس آئنہ کا مول ہے کیا
جس آئنہ پہ نشان غبار و زنگ نہیں

مرا جنون ہے کوتاہ یا یہ شہر تباہ
جو زخم سر کے لیے یاں تلاش سنگ نہیں

ہیں سارے قافلہ سالار سب ہیں راہنما
یہ کیا سفر ہے جو کوئی کسی کے سنگ نہیں

جو کچھ متاع ہنر ہو تو سامنے لاؤ
کہ یہ زمانۂ‌ اظہار نسل و رنگ نہیں
اکبر علی خان عرشی زادہ


فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں

معرفت خالق کی عالم میں بہت دشوار ہے
شہر تن میں جب کہ خود اپنا پتا ملتا نہیں

غافلوں کے لطف کو کافی ہے دنیاوی خوشی
عاقلوں کو بے غم عقبیٰ مزا ملتا نہیں

کشتئ دل کی الٰہی بحر ہستی میں ہو خیر
ناخدا ملتے ہیں لیکن با خدا ملتا نہیں

غافلوں کو کیا سناؤں داستان عشق یار
سننے والے ملتے ہیں درد آشنا ملتا نہیں

زندگانی کا مزا ملتا تھا جن کی بزم میں
ان کی قبروں کا بھی اب مجھ کو پتا ملتا نہیں

صرف ظاہر ہو گیا سرمایۂ زیب و صفا
کیا تعجب ہے جو باطن با صفا ملتا نہیں

پختہ طبعوں پر حوادث کا نہیں ہوتا اثر
کوہساروں میں نشان نقش پا ملتا نہیں

شیخ صاحب برہمن سے لاکھ برتیں دوستی
بے بھجن گائے تو مندر سے ٹکا ملتا نہیں

جس پہ دل آیا ہے وہ شیریں ادا ملتا نہیں
زندگی ہے تلخ جینے کا مزا ملتا نہیں


ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہو
جان دینے کو ہوں موجود کوئی بات تو ہو

دل بھی حاضر سر تسلیم بھی خم کو موجود
کوئی مرکز ہو کوئی قبلۂ حاجات تو ہو

دل تو بے چین ہے اظہار ارادت کے لیے
کسی جانب سے کچھ اظہار کرامات تو ہو

دل کشا بادۂ صافی کا کسے ذوق نہیں
باطن افروز کوئی پیر خرابات تو ہو

گفتنی ہے دل پر درد کا قصہ لیکن
کس سے کہیے کوئی مستفسر حالات تو ہو

داستان غم دل کون کہے کون سنے
بزم میں موقع اظہار خیالات تو ہو

وعدے بھی یاد دلاتے ہیں گلے بھی ہیں بہت
وہ دکھائی بھی تو دیں ان سے ملاقات تو ہو

کوئی واعظ نہیں فطرت سے بلاغت میں سوا
مگر انسان میں کچھ فہم اشارات تو ہو
اکبر الہ آبادی


جذبۂ دل نے مرے تاثیر دکھلائی تو ہے
گھنگھروؤں کی جانب در کچھ صدا آئی تو ہے

عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے

آپ کے سر کی قسم میرے سوا کوئی نہیں
بے تکلف آئیے کمرے میں تنہائی تو ہے

جب کہا میں نے تڑپتا ہے بہت اب دل مرا
ہنس کے فرمایا تڑپتا ہوگا سودائی تو ہے

دیکھیے ہوتی ہے کب راہی سوئے ملک عدم
خانۂ تن سے ہماری روح گھبرائی تو ہے

دل دھڑکتا ہے مرا لوں بوسۂ رخ یا نہ لوں
نیند میں اس نے دلائی منہ سے سرکائی تو ہے

دیکھیے لب تک نہیں آتی گل عارض کی یاد
سیر گلشن سے طبیعت ہم نے بہلائی تو ہے

میں بلا میں کیوں پھنسوں دیوانہ بن کر اس کے ساتھ
دل کو وحشت ہو تو ہو کمبخت سودائی تو ہے

خاک میں دل کو ملایا جلوۂ رفتار سے
کیوں نہ ہو اے نوجواں اک شان رعنائی تو ہے

یوں مروت سے تمہارے سامنے چپ ہو رہیں
… کل کے جلسوں کی مگر ہم ن


موت اس بیکس کی غایت ہی سہی
عمر بھر جس نے مصیبت ہی سہی

حسن کا انجام دیکھیں اہل حسن
عشق میرا بے حقیقت ہی سہی

زندگی ہے چشم عبرت میں ابھی
کچھ نہیں تو عیش و عشرت ہی سہی

دیکھ لیتا ہوں تبسم حسن کا
غم پرستی میری فطرت ہی سہی

پردہ دار سادگی ہے ہر ادا
یہ تصنع بے ضرورت ہی سہی

درپئے آزار ہے قسمت تو ہو
اب مجھے تم سے محبت ہی سہی

حور بے جا کی تلافی کچھ تو کر
خیر اظہار ندامت ہی سہی

اے اجل کچھ زندگی کا حق بھی ہے
زندگی تیری امانت ہی سہی

کیا کروں اکبرؔ دلی جذبات کو
اس تغزل میں قدامت ہی سہی
اکبر حیدری کشمیری


گھٹن عذاب بدن کی نہ میری جان میں لا
بدل کے گھر مرا مجھ کو مرے مکان میں لا

مری اکائی کو اظہار کا وسیلہ دے
مری نظر کو مرے دل کو امتحان میں لا

سخی ہے وہ تو سخاوت کی لاج رکھ لے گا
سوال عرض طلب کا نہ درمیان میں لا

دل وجود کو جو چیر کر گزر جائے
اک ایسا تیر تو اپنی کڑی کمان میں لا

ہے وہ تو حد گرفت خیال سے بھی پرے
یہ سوچ کر ہی خیال اس کا اپنے دھیان میں لا

بدن تمام اسی کی صدا سے گونج اٹھے
تلاطم ایسا کوئی آج میری جان میں لا

چراغ راہ گزر لاکھ تابناک سہی
جلا کے اپنا دیا روشنی مکان میں لا

بہ رنگ خواب سہی ساری کائنات اکبرؔ
وجود کل کو نہ اندیشۂ گمان میں لا
اکبر حیدرآبادی


کل عالم وجود کہ اک دشت نور تھا
سارا حجاب تیرہ دلی کا قصور تھا

سمجھے تھے جہد عشق میں ہم سرخ رو ہوئے
دیکھا مگر تو شیشۂ دل چور چور تھا

پہنچے نہ یوں ہی منزل اظہار ذات تک
تحت شعور اک سفر لا شعور تھا

تھا جو قریب اس کو بصیرت نہ تھی نصیب
جو دیکھتا تھا مجھ کو بہت مجھ سے دور تھا

مبہم تھے سب نقوش نقابوں کی دھند میں
چہرہ اک اور بھی پس چہرہ ضرور تھا
اکبر حیدرآبادی


روشنی تیز ہوئی کوئی ستارا ٹوٹا
دھار میں اب کے ندی کا ہی کنارا ٹوٹا

تھرتھراتے ہوئے لب چپ تو لگا بیٹھے پر
چپ نے ہی جوڑا بھی اظہار ہمارا ٹوٹا

در بدر پھرتا کوئی خواب مرا آوارہ
رات آنکھوں میں چلا آیا تھا ہارا ٹوٹا

جانے کس موڑ پہ بچھڑی وہ صدا ماضی کی
ایک تنکے کا سہارا تھا سہارا ٹوٹا

دھوپ چڑھتے ہی پلاتا تھا جو صحرا پانی
دھوپ ڈھلتے ہی طلسمی وہ نظارا ٹوٹا

فکر و معانی کے چنے شعر اسی ملبے سے
ہم نے تنہائی کا دیکھا جو ادارہ ٹوٹا
اکھلیش تیواری


بے وفا ہے وہ کبھی پیار نہیں کر سکتا
ہاں مگر پیار سے انکار نہیں کر سکتا

اپنی ہمت کو جو پتوار نہیں کر سکتا
وہ سمندر کو کبھی پار نہیں کر سکتا

جو کسی اور کے جلووں کا تمنائی ہو
وہ کبھی بھی ترا دیدار نہیں کر سکتا

ہونٹ کچھ کہنے کو بیتاب ہیں کب سے لیکن
اس کی عادت ہے وہ اظہار نہیں کر سکتا

اس کی چاہت پہ بھروسہ ہے مجھے میرے سوا
وہ کسی اور کو حق دار نہیں کر سکتا

اس کو معلوم ہے وہ خود بھی تو رسوا ہوگا
مجھ کو رسوا سر بازار نہیں کر سکتا

وقت پڑ جائے تو وہ جان بھی دے سکتا ہے
فن کا سودا کوئی انکار نہیں کر سکتا
اختر آزاد


شوق اظہار ہے کرنا بھی نہیں چاہتے ہیں
اپنے وعدے سے مکرنا بھی نہیں چاہتے ہیں

کوئی تو ہے مجھے جینے کی دعا دیتا ہے
ہم ترے عشق میں مرنا بھی نہیں چاہتے ہیں

تجھ سے ملنے کی تمنا بھی بہت ہے دل میں
ترے کوچے سے گزرنا بھی نہیں چاہتے ہیں

دل یہ کہتا ہے سمٹ جائیں تری بانہوں میں
بوئے گل بن کے بکھرنا بھی نہیں چاہتے ہیں

جھانکتے ہیں مری آنکھوں میں بچا کر نظریں
گو بظاہر وہ سنورنا بھی نہیں چاہتے ہیں

دے کے آواز کوئی روک رہا کب سے
اور ہم ہیں کہ ٹھہرنا بھی نہیں چاہتے ہیں

لوگ ساحل پہ کھڑے ڈھونڈھ رہے ہیں موتی
بہتے پانی میں اترنا بھی نہیں چاہتے ہیں
اختر آزاد


بند ہونٹوں سے بھی اظہار تمنا کرتے
آئنہ بن کے ترے حسن کو دیکھا کرتے

اپنا سایہ بھی یہاں غیر نظر آتا ہے
اجنبی شہر میں ہم کس پہ بھروسہ کرتے

اس کی محفل میں تو اک بھیڑ تھی دیوانوں کی
پہلے دل اہل نظر اہل وفا کیا کرتے

عشق ہر حال میں پابند وفا ہوتا ہے
ہم تو بدنام تھے کیوں آپ کو رسوا کرتے

اتنی گزری ہے جہاں اور گزر جائے گی
زندگی کے لئے اتنا نہیں سوچا کرتے

جب تلک سانس چلے بس یوں ہی چلتے رہئے
چل کے دو چار قدم یوں نہیں ٹھہرا کرتے

اے خدا ہم تری وحدت پہ یقیں رکھتے ہیں
کیوں ترے در کے سوا ہم کہیں سجدہ کرتے
اختر آزاد


چاہو تو مرا دکھ مرا آزار نہ سمجھو
لیکن مرے خوابوں کو گنہ گار نہ سمجھو

آساں نہیں انصاف کی زنجیر ہلانا
دنیا کو جہانگیر کا دربار نہ سمجھو

آنگن کے سکوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی
کہتے ہو جسے گھر اسے بازار نہ سمجھو

اجڑے ہوئے طاقوں پہ جمی گرد کی تہہ میں
روپوش ہیں کس قسم کے اسرار نہ سمجھو

احساس کے سو زخم بچا سکتے ہو اخترؔ
اظہار‌ مروت کو اگر پیار نہ سمجھو
اختر بستوی


Mohabbat Ka Izhar Quotes

ہم اس سے عشق کا اظہار کر کے دیکھتے ہیں
کیا ہے جرم تو اقرار کر کے دیکھتے ہیں

ہے عشق جنگ تو پھر جیت لیں چلو ہم لوگ
ہے دریا آگ کا تو پار کر کے دیکھتے ہیں

ہے کوہسار تو نہریں نکال دیں اس سے
ہے ریگزار تو گلزار کر کے دیکھتے ہیں

ہم اس کو دیکھنا چاہیں تو کس طرح دیکھیں
سو اس کی یاد کو کردار کر کے دیکھتے ہیں

وہ ہوش مند اگر ہے تو کر دیں دیوانہ
وہ بے خبر ہے تو ہشیار کر کے دیکھتے ہیں

ہمارے سر پہ تو آتی نہیں کوئی دستار
سو اپنے سر کو ہی دستار کر کے دیکھتے ہیں
اختر ہاشمی


ذوق نظر بڑھائیے گلزار دیکھ کر
الفت کا سودا کیجئے بازار دیکھ کر

میں نے جنون عشق سے دامن بچا لیا
ہر بوالہوس کو تیرا پرستار دیکھ کر

میرے ہی در پہ تھا کوئی سائل کے روپ میں
حیرت زدہ رہا مجھے نادار دیکھ کر

نغمہ سرا نہ ہو سکا گلشن میں عندلیب
طوفان و برق و باد کے آثار دیکھ کر

بیتاب دل کو اور ترستی نگاہ کو
بہلا سکا نہ میں گل و گلزار دیکھ کر

دل گفتگو کی سمت جھکا شعر بن گئے
اظہار غم کو روح کا غم خوار دیکھ کر

ہوش و ہوس کی جنگ میں حیرت زدہ رہا
جذبوں کا شور عقل کے افکار دیکھ کر

آنکھوں سے کائنات کے آنسو ٹپک پڑے
شافی کو اس جہان میں بیمار دیکھ کر

یاد آ گئیں خرد کو وہ جنت کی لغزشیں
دل کا جنون و شوق شرر بار دیکھ کر

ہاتھوں میں دل کے پرچم افکار دے دیا
انسانیت کو برسر پیکار دیکھ کر
اختر حسین شافی


ہم درد نہاں کو محفل میں رسوائے حکایت کر نہ سکے
کہنے کو بہت کچھ تھا لیکن کچھ ان سے خطابت کر نہ سکے

اے حسن ذرا دم بھر کے لئے کچھ شوخ تجھے بھی ہونا تھا
دو دل تھے فدا آپس میں مگر اظہار محبت کر نہ سکے

گزرے ہوئے لمحوں کی یادیں اب شوق وفا سے کہتی ہیں
جو شے تھی قریب قلب و جگر اس شے سے رفاقت کر نہ سکے

ہر شوق بڑھا کر سپنے میں زحمت تو اٹھائی راہوں کی
پہنچے تو در کعبہ پہ مگر کعبے کی زیارت کر نہ سکے

سینے میں خلش ہے فرقت کی بیتاب تمنا ہے میری
جو ہم سے محبت کرتے تھے ہم ان پہ عنایت کر نہ سکے

چنچل بھی وہ تھے چالاک بھی تھے پر شرم و حیا بھی ایسی تھی
ہم من کے پرانے پاپی بھی کچھ ان سے شرارت کر نہ سکے

واعظ نے کہا تھا ضبط کرو جذبات محبت کو لیکن
ہم اس کی ہدایت پر چل کر اس دل کی حفاظت کر نہ سکے

دنیا کے غموں کا خوف نہیں بے باک مسافر کو شافیؔ
دم بھر کے لئے پلکوں کے تلے افسوس اقامت کر نہ سکے
اختر حسین شافی


شہر کا شہر جلا اور اجالا نہ ہوا
سانحہ کیا یہ مقدر کا نرالا نہ ہوا

ہے فقط نام کو آزادئ اظہار خیال
ورنہ کب کس کے لبوں پر یہاں تالا نہ ہوا

ٹوٹتے شیشے کو دیکھا ہے زمانے بھر نے
دل کے ٹکڑوں کا کوئی دیکھنے والا نہ ہوا

جس نے پرکھا انہیں وہ تھی کوئی بے جان مشین
دل کے زخموں کا بشر دیکھنے والا نہ ہوا

کس قدر یاس زدہ ہے یہ حصار ظلمت
دل جلائے بھی تو ہر سمت اجالا نہ ہوا

دشت غربت کے سفر کی یہ اذیت ناکی
خشک تلووں کا ابھی ایک بھی چھالا نہ ہوا

ضبط کا حد سے گزر جانا یہی ہے اخترؔ
دل سلگتا ہے مگر ہونٹوں پہ نالہ نہ ہوا
اختر مادھو پوری


اک بار جو بچھڑے وہ دوبارہ نہیں ملتا
مل جائے کوئی شخص تو سارا نہیں ملتا

اس کی بھی نکل آتی ہے اظہار کی صورت
جس شخص کو لفظوں کا سہارا نہیں ملتا

پھر ڈوبنا یہ بات بہت سوچ لو پہلے
ہر لاش کو دریا کا کنارا نہیں ملتا

یہ سوچ کے دل پھر سے ہے آمادۂ الفت
ہر بار محبت میں خسارہ نہیں ملتا

کیوں لوگ بلائیں گے ہمیں بزم سخن میں
اپنا تو کسی سے بھی ستارہ نہیں ملتا

وہ شہر بھلا کیسے لگے اپنا جہاں پر
اک شخص بھی ڈھونڈے سے ہمارا نہیں ملتا
اختر ملک


تم کو دیکھا ہے ابھی تک یہ گماں ہوتا ہے
نقش جو دل میں ہے آنکھوں سے نہاں ہوتا ہے

شوق کا عالم اعجاز عیاں ہوتا ہے
کھنچ کے آتا ہے یہاں حسن جہاں ہوتا ہے

قصۂ درد خموشی سے عیاں ہوتا ہے
طور اظہار نظر طرز بیاں ہوتا ہے

رات خاموش ہے ایسے میں ستارو سن لو
دل مضطر مرا مائل بہ فغاں ہوتا ہے

میری ناکام محبت نے بڑا کام کیا
مدعا عالم حسرت میں جواں ہوتا ہے

خرمن زیست میں شعلے نہ بھڑک اٹھے ہوں
دامن دل کے قریب آج دھواں ہوتا ہے

ذکر خود چھیڑ کے رویا کیا پہروں اخترؔ
نام آتے ہی ترا اشک رواں ہوتا ہے
اختر اورینوی


دل شوریدہ کی وحشت نہیں دیکھی جاتی
روز اک سر پہ قیامت نہیں دیکھی جاتی

اب ان آنکھوں میں وہ اگلی سی ندامت بھی نہیں
اب دل زار کی حالت نہیں دیکھی جاتی

بند کر دے کوئی ماضی کا دریچہ مجھ پر
اب اس آئینے میں صورت نہیں دیکھی جاتی

آپ کی رنجش بے جا ہی بہت ہے مجھ کو
دل پہ ہر تازہ مصیبت نہیں دیکھی جاتی

تو کہانی ہی کے پردے میں بھلی لگتی ہے
زندگی تیری حقیقت نہیں دیکھی جاتی

لفظ اس شوخ کا منہ دیکھ کے رہ جاتے ہیں
لب اظہار کی حسرت نہیں دیکھی جاتی

دشمن جاں ہی سہی ساتھ تو اک عمر کا ہے
دل سے اب درد کی رخصت نہیں دیکھی جاتی

دیکھا جاتا ہے یہاں حوصلۂ قطع سفر
نفس چند کی مہلت نہیں دیکھی جاتی

دیکھیے جب بھی مژہ پر ہے اک آنسو اخترؔ
دیدۂ تر کی رفاقت نہیں دیکھی جاتی
اختر سعید خان


عشق کا شور کریں کوئی طلب گار تو ہو
جنس بازار میں لے جائیں خریدار تو ہو

ہجر کے سوختہ جاں اور جلیں گے کتنے
طور پر بیٹھے ہیں کب سے ترا دیدار تو ہو

شدت درد دو پل کے لیے کم ہوتا کہ
غم کے الفاظ کے سنگار میں اظہار تو ہو

کب سے امید لگائے ہوئے بیٹھے ہیں ہم
نے سہی گر نہیں اقرار سو انکار تو ہو

کفر احرام کے پردے میں چھپا دیکھا ہے
ایک عالم ہے اگر درپئے زنار تو ہو

ہم نے مانا کہ شرافت ہے بڑی چیز مگر
کچھ زمانے کو شرافت سے سروکار تو ہو

خانۂ دل میں نہیں ایک کرن کا بھی گزر
ساری دنیا ہے اگر مطلع انوار تو ہو

رازداری ہی میں ہوتا ہے شریفوں کا حساب
تجھ کو منظور ہے گر بر سر بازار تو ہو
اختر سعید


بے چارگئ دوش ہے اور بار گراں ہے
اظہار پہ پابندی ہے اور منہ میں زباں ہے

ہوتا ہے یہاں روز مرے درد کا سودا
اے تیغ بکف روز مکافات کہاں ہے

آزاد کرو خون کو بازار میں لاؤ
صدیوں سے یہ محکوم رگوں ہی میں رواں ہے

ہاں رنگ بہاراں ہے مگر اس کے لہو سے
جو دست بہ دل مہر بہ لب درد بجاں ہے

ہر سمت ہے بازار کھلا حرص و ہوس کا
ہر شہر میں ہر کوچے میں واعظ کی دکاں ہے

کل کس کو زباں بند کرو گے ذرا سوچو
کل دیکھو گے ہم کو کہ زباں ہے نہ دہاں ہے

کس شہر خموشاں میں چلے آئے ہیں ہم لوگ
نے زور سناں ہے نہ کہیں شور فغاں ہے

ہر درد کی حد ہوتی ہے یوں لگتا ہے جیسے
اس درد کا کوئی نہ زماں ہے نہ مکاں ہے
اختر سعید


اردی و دے سے پرے سود و زیاں سے آگے
آؤ چل نکلیں کہیں قید زماں سے آگے

اس خرابے میں عبث ہیں غم و شادی دونوں
میری تسکین کا مسکن ہے مکاں سے آگے

آہ و نالہ ہی سہی اہل وفا کا مسلک
اک مقام اور بھی آتا ہے فغاں سے آگے

دار تک صاف نظر آتا ہے رشتہ دیکھیں
پھر کدھر جاتے ہیں عشاق وہاں سے آگے

خون آلودہ کفن شارح صد دفتر دل
طرز اظہار ہے اک اور زباں سے آگے

فکر مفلوج جو زندانئ افلاک رہے
تیر بیکار جو نکلے نہ کماں سے آگے

تھی بہت خانہ خرابی کو ہماری یہ عمر
اک جہاں اور بھی سنتے ہیں یہاں سے آگے

میں کہ ہوں حاضر و موجود کے وسواس میں قید
تو کہ ہے پردہ نشیں وہم و گماں سے آگے
اختر سعید


لفظ لکھنا ہے تو پھر کاغذ کی نیت سے نہ ڈر
اس قدر اظہار کی بے معنویت سے نہ ڈر

دیکھ! گلشن میں ابھی شاخ تحیر بانجھ ہے
پھول ہونا ہے تو کھلنے کی اذیت سے نہ ڈر

ہم رہ موسم سفر کی بستیوں کے درمیاں
نقش بر دیوار بارش کی وصیت سے نہ ڈر

ایک ہلکی سی صدا تو بن زباں رکھتا ہے تو
چار جانب خامشی کی اکثریت سے نہ ڈر

آسماں اک دن پتنگا ہو سر شمع زمیں
موم کر اپنے لہو کو جل اذیت سے نہ ڈر
اختر شیخ


نہ بھول کر بھی تمنائے رنگ و بو کرتے
چمن کے پھول اگر تیری آرزو کرتے

جناب شیخ پہنچ جاتے حوض کوثر تک
اگر شراب سے مے خانے میں وضو کرتے

مسرت آہ تو بستی ہے کن ستاروں میں
زمیں پہ عمر ہوئی تیری جستجو کرتے

ایاغ بادہ میں آ کر وہ خود چھلک پڑتا
گر اس کے مست ذرا اور ہاؤ ہو کرتے

انہیں مفر نہ تھا اقرار عشق سے لیکن
حیا کو ضد تھی کہ وہ پاس آبرو کرتے

پکار اٹھتا وہ آ کر دلوں کی دھڑکن میں
ہم اپنے سینے میں گر اس کی جستجو کرتے

غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ
یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے

گراں تھا ساقی دوراں پہ ایک ساغر بھی
تو کس امید پہ ہم خواہش سبو کرتے

جنون عشق کی تاثیر تو یہ تھی اخترؔ
کہ ہم نہیں وہ خود اظہار آرزو کرتے
اختر شیرانی


عرفان و آگہی کے سزا وار ہم ہوئے
سویا پڑا تھا شہر کہ بیدار ہم ہوئے

تا عمر انتظار سہی پر بروز حشر
اچھا ہوا کہ تیرے طلب گار ہم ہوئے

ہم پر وفائے عہد انا الحق بھی فرض تھا
اس واسطے کہ محرم اسرار ہم ہوئے

ٹھہرے گی ایک دن وہی معراج بندگی
جو بات کہہ کے آج گنہ گار ہم ہوئے

ہوتے گئے وہ خلق فریبی میں ہوشیار
جتنا کہ تجربے سے سمجھ دار ہم ہوئے

نادان تھے کہ مسند ارشاد چھوڑ کر
حلقہ بگوش سیرت و کردار ہم ہوئے

اس دور خود فروش میں اخترؔ بصد خلوص
خمیازہ سنج جرأت اظہار ہم ہوئے
اختر ضیائی


برش تیغ بھی ہے پھول کی مہکار بھی ہے
وہ خموشی کہ جو صد موجب اظہار بھی ہے

چھوڑیئے ان کے شب و روز کی روداد زبوں
آپ کو خاک نشینوں سے سروکار بھی ہے

مصلحت مجھ کو بھی ملحوظ ہے اے ہم سخنو
پر مرے پیش نظر وقت کی رفتار بھی ہے

موت کے خوف سے ہر سانس رکی جاتی ہے
زندگی آج کوئی تیرا خریدار بھی ہے

تلخیٔ حال کو ہے عشرت فردا کا فریب
دل جنوں کوش ہے اور عقل طرحدار بھی ہے

میرے محبوب مجھے وقف تغافل نہ سمجھ
زیست کے لاکھ تقاضے ہیں تیرا پیار بھی ہے

اہل گفتار کی تو بھیڑ لگی ہے اخترؔ
دیکھنا ان میں کوئی صاحب کردار بھی ہے
اختر ضیائی


ایک نئی زیست لئے آج اجل آئی ہے
قید سے ہم نے رہائی ہی کہاں پائی ہے

اس سے ملنے کے لئے اس قدر اے دل نہ تڑپ
میرا اظہار محبت مری رسوائی ہے

انقلابات زمانہ کو زمانہ سمجھے
ہم تو کہتے ہیں کہ وہ بھی تری انگڑائی ہے

جس کے شعلوں سے ہوئی حسن کی رنگت روشن
آگ ایسی مرے جذبات نے سلگائی ہے

ہم نے ارمانوں کی میت کو دیا ہے کاندھا
اے غم دل یہ تری حوصلہ افزائی ہے

ہے یہ ڈر نوح کا طوفاں نہ سمجھ لے دنیا
چادر اشک وفا ہم نے جو پھیلائی ہے

آئنہ خانۂ دل میں وہ ضرور آئیں گے
ان کے دل میں بھی تمنائے خود آرائی ہے

ہاتھ سے ساقی کے پینا ہی پڑے گا مجھے اب
میری توبہ شکنی بن کے گھٹا چھائی ہے

اکملؔ انسان وہ اکمل ہے بہ فیض فطرت
درد انساں سے جس انساں کی شناسائی ہے
اکمل آلدوری


بے طلب زیست اگرچہ کوئی دشوار نہیں
کون ایسا ہے جو دنیا کا طلب گار نہیں

محفل غیر میں کر حال دل ان سے نہ بیاں
موقع ضبط ہے یہ موقع اظہار نہیں

دوست احباب کا کیا ذکر برے وقتوں میں
موت بھی تو کسی بے کس کی طرف دار نہیں

وقت کے ساتھ بدلتا ہے عزائم اپنے
یعنی انسان خود اپنا ہی وفادار نہیں

حد سے زائد کبھی بڑھتا ہے کبھی ہوتا ہے کم
دل ہے خوددار مگر درد ہی خوددار نہیں

کل تو ٹوٹے ہوئے دل بیچ لئے یاروں نے
آج کا وقت تو یوسف کا خریدار نہیں

خار و گل حسب ضرورت ہیں چمن میں اکملؔ
فطرتوں سے مجھے کچھ ان کی سروکار نہیں
اکمل آلدوری


تہہ بہ تہہ ہے راز کوئی آب کی تحویل میں
خامشی یوں ہی نہیں رہتی ہے گہری جھیل میں

میں نے بچپن میں ادھورا خواب دیکھا تھا کوئی
آج تک مصروف ہوں اس خواب کی تکمیل میں

ہر گھڑی احکام جاری کرتا رہتا ہے یہ دل
ہاتھ باندھے میں کھڑا ہوں حکم کی تعمیل میں

کب مری مرضی سے کوئی کام ہوتا ہے تمام
ہر گھڑی رہتا ہوں میں کیوں بے سبب تعجیل میں

مانگتی ہے اب محبت اپنے ہونے کا ثبوت
اور میں جاتا نہیں اظہار کی تفصیل میں

مدعا تیرا سمجھ لیتا ہوں تیری چال سے
تو پریشاں ہے عبث الفاظ کی تاویل میں

اپنی خاطر بھی تو عالمؔ چیز رکھنی تھی کوئی
اب کہاں کچھ بھی بچا ہے تیری اس زنبیل میں
عالم خورشید


میرے دل کی گہرائیوں میں اتر
جگر سوز تنہائیوں میں اتر

تو اپنے بیاں کو معلق نہ چھوڑ
فلک دار سچائیوں میں اتر

مری نبض اظہار پر رکھ کے ہاتھ
تو احساس کی گھاٹیوں میں اتر

سیہ نیتوں کا افق چھوڑ کر
مہک دار اچھائیوں میں اتر

کوئی رخ تو دھارے گا دولہن کا روپ
ہر اک رخ کی انگڑائیوں میں اتر

صباؔ تو لئے حوصلوں کی برات
تجسس کی شہنائیوں میں اتر
علیم صبا نویدی


ظلمت کدوں میں کل جو شعاع سحر گئی
تاریکی حیات یکایک ابھر گئی

نظارۂ جمال کی فرصت کہاں ملی
پہلی نظر نظر کی حدوں سے گزر گئی

اظہار التفات کے بعد ان کی بے رخی
اک رنگ اور نقش تمنا میں بھر گئی

ذوق جنوں و جذبۂ بیباک کیا ملے
ویران ہو کے بھی مری دنیا سنور گئی

اب دور کارسازی وحشت نہیں رہا
اب آرزوئے لذت رقص شرر گئی

اک داغ بھی جبیں پہ میری آ گیا تو کیا
شوخی تو ان کے نقش قدم کی ابھر گئی

تارے سے جھلملاتے ہیں مژگان یار پر
شاید نگاہ یاس بھی کچھ کام کر گئی

تم نے تو اک کرم ہی کیا حال پوچھ کر
اب جو گزر گئی مرے دل پر گزر گئی

جلوے ہوئے جو عام تو تاب نظر نہ تھی
پردے پڑے ہوئے تھے جہاں تک نظر گئی

سارا قصور اس نگہ فتنہ جو کا تھا
لیکن بلا نگاہ تمنا کے سر گئی
علی جواد زیدی


رقص کرتی ہے ترے نور میں ظلمت میری
ہوں جدا تجھ سے تو ہے وہم حقیقت میری

تیرے انداز ہیں سب ساز و صدا نکہت و رنگ
میرا احساس ہی گویا ہے عبادت میری

میرے اظہار کو دے لہجۂ گل کا اعجاز
حرف لاغر سے نہ سنبھلے گی حکایت میری

حسن نادیدہ کسی عکس میں ڈھلتا ہی نہیں
روز لاتی ہے نیا آئنہ حیرت میری

چھایا جاتا ہے غبار غم دوراں دل پر
کیا نہیں اب غم جاناں کو ضرورت میری

دل ہے آئینۂ اجزائے پریشان وجود
یعنی اک صورت ادراک ہے وحشت میری

بے دلی پر تو یہ عالم ہے کہ دل رقص میں ہے
ہو غضب رنگ پہ آئے جو طبیعت میری
علی مینائی


نقش بر آب تھی جو دام و درم نے بخشی
زیست کو دولت نایاب تو غم نے بخشی

اہل دستار نہ ارباب کرم نے بخشی
عزت نفس مجھے لوح و قلم نے بخشی

آبیاری نہ ہوئی آب گہر سے اس کی
نخل عرفاں کو نمو دیدۂ نم نے بخشی

ورنہ کیا ان میں تھا اک جذبہ حیراں کے سوا
تیری آنکھوں کو یہ گویائی تو ہم نے بخشی

عمر بھر ہم کو میسر رہی بیتابیٔ دل
جو خدا نے نہیں بخشی وہ صنم نے بخشی

جس نے پامرد رکھا ہم کو ستم گر کے خلاف
وہ عزیمت ہمیں خود اس کے ستم نے بخشی

کتنی بے فیض وراثت ہے وہ تاریخ زیاں
جو ہمیں چپقلش دیر و حرم نے بخشی

حرف تازی سے بھی پایا ہے بہت فیض مگر
میرے اظہار کو لے ساز عجم نے بخشی
علی مینائی


اپنی بے موسمی سی محبت کا اظہار کر کے مجھے ایسے مائل نہ کر
یار تو جانتا ہے میں پہلے ہی تنہا ہوں سو تو مجھے اور تنہا نہ کر

دیکھ میں جانتا ہوں ترے ہجر اور وصل کے بھید کو عشق کے وید کو
تو مجھے ہجر میں رکھ یا پھر وصل میں ہاں مگر ان کے مابین رسوا نہ کر

زندگی اور وقت اپنے اپنے تئیں کتنے بے رحم ہیں سب کو معلوم ہے
ان کے ہاتھوں لگے زخم بھرنے بھی دے وقت بے وقت اب ان کو چھیڑا نہ کر
علی الحسنین


محبت کا تقاضہ کیوں کریں ہم
حقیقت کا تماشہ کیوں کریں ہم

محبت جب کہ یک طرفہ نہیں ہے
اکیلے ہی گزارہ کیوں کریں ہم

خلش دل کی بڑھاتی ہیں جو باتیں
انہی کا پھر اعادہ کیوں کریں ہم

ہو جب احساس کا اظہار لازم
پھر اس کو استعارہ کیوں کریں ہم

جو حال زار سے سب کچھ عیاں ہو
تو پھر کوئی اشارہ کیوں کریں ہم

محبت سے عبارت ہوں سبھی پل
کسی کا گوشوارہ کیوں کریں ہم

سبھی کچھ درمیاں جب مشترک ہے
تو میرا اور تمہارا کیوں کریں ہم
علیزے نجف


خود سے رہتا ہے اختلاف مجھے
میں بھی کرتا نہیں معاف مجھے

تم مرے سامنے نہیں آنا
کہہ دیا میں نے صاف صاف مجھے

یہ سراپا یہ خال و خد تیرے
کر رہے ہیں مرے خلاف مجھے

لمس بھی چاہتا ہوں حدت بھی
دیجئے جسم کا لحاف مجھے

تم فقط جسم ڈھانپ سکتے ہو
چاہئے روح کا غلاف مجھے

کیونکہ اظہار شوق کر بیٹھا
ڈس رہا ہے وہ اعتراف مجھے

ایک دنیا ہے ناف کے اوپر
ایک دنیا ہے زیر ناف مجھے
الطاف بابر


میں تو میں غیر کو مرنے سے اب انکار نہیں
اک قیامت ہے ترے ہاتھ میں تلوار نہیں

کچھ پتا منزل مقصود کا پایا ہم نے
جب یہ جانا کہ ہمیں طاقت رفتار نہیں

چشم بد دور بہت پھرتے ہیں اغیار کے ساتھ
غیرت عشق سے اب تک وہ خبردار نہیں

ہو چکا ناز اٹھانے میں ہے گو کام تمام
للہ الحمد کہ باہم کوئی تکرار نہیں

مدتوں رشک نے اغیار سے ملنے نہ دیا
دل نے آخر یہ دیا حکم کہ کچھ عار نہیں

اصل مقصود کا ہر چیز میں ملتا ہے پتا
ورنہ ہم اور کسی شے کے طلب گار نہیں

بات جو دل میں چھپاتے نہیں بنتی حالیؔ
سخت مشکل ہے کہ وہ قابل اظہار نہیں
الطاف حسین حالی


اے دل خوش فہم اس آزار سے باہر نکل
ڈھل گئی شب اب خیال یار سے باہر نکل

عشق جس رفتار سے وارد ہوا دل میں مرے
اس سے کہہ دو اب اسی رفتار سے باہر نکل

اب ضرورت عزتوں پر حملہ زن ہونے کو ہے
زندگی چل خیمۂ خوددار سے باہر نکل

تیرگی نے شام سے پہلے ہی حملہ کر دیا
روشنی اب حلقۂ پندار سے باہر نکل

دل کبھی ایک اور ساعت کی طلب ظاہر کرے
حرف بے معنی لب اظہار سے باہر نکل

ہو نہیں سکتی چراغوں سے ہوا کی دوستی
فکر نو بزم لب و رخسار سے باہر نکل

تجھ سے آشفتہ مزاجوں کو نہ راس آئے گا یہ
التمشؔ اس شہر پر اسرار سے باہر نکل
التمش عباس


ابھر کے آیا تھا شب ہوتے ہی ہنر میرا
پھر انتظار ہی کرتی رہی سحر میرا

میں روز تپتے ہوئے دشت سے گزرتا ہوں
میں روز کہتا ہوں آئے گا ہم سفر میرا

زمیں پہ ہوتے ہوئے بھی میں آسمان پہ تھا
جب اس کی گود میں رکھا ہوا تھا سر میرا

کبھی زباں سے وہ اظہار تو نہ کر پایا
خیال دل میں بسا کر جئے مگر میرا

تمہارے بعد بھی توڑے بہت سے دل میں نے
تمہارے بعد بھی جاری رہا سفر میرا

بڑے سکون سے رہتی ہے مجھ میں خاموشی
بھلے ہی چیختا رہتا ہو سارا گھر میرا
التمش عباس


غزل گوئی کے فن کا یوں کبھی اظہار ہوتا ہے
محبت دل سے ہوتی ہے نظر سے پیار ہوتا ہے

تصادم دو نگاہوں کا بھی کیا کیا گل کھلاتا ہے
صمیم قلب سے پھر عشق کا اقرار ہوتا ہے

محبت کرنے والوں کا حسین انجام کیا جانو
شگفتہ پھول کھلتے ہیں گل گلزار ہوتا ہے

وہ جس سے پیار کرتا ہے اسی کی چاہ میں ہر دم
مریض عشق بن بن کر صدا بیمار ہوتا ہے

زمانے کی جفاؤں کا کوئی شکوہ نہیں ہرگز
وہ مقتل میں سجاتا ہے جو خود دل دار ہوتا ہے

دھڑکتے دل سے اک دوجے کی بانہوں میں سما جاتا
کہو اے شادؔ یہی انجام آخر ہوتا ہے
امان اللہ شاد ثنائی


محبت کا ان سے نہ اقرار کرنا
بس آنکھوں ہی آنکھوں میں اظہار کرنا

محبت اگر جرم ہے تو چلو پھر
وہ اک بار کرنا کہ سو بار کرنا

عجب نغمگی ہے سماعت سے دل تک
مخاطب مجھے پھر سے اک بار کرنا

تڑپتے تڑپتے قرار آ گیا ہے
تمنا نہ اب کوئی بیدار کرنا

نہ قربان ہو کر دکھائیں تو کہنا
نظر پیار کی ہم پہ سرکار کرنا

وفاؔ ہے یہ اعجاز تیری وفا کا
کسی بے وفا کو وفادار کرنا
امۃ الحئی وفا


شب خواب کے جزیروں میں ہنس کر گزر گئی
آنکھوں میں وقت صبح مگر دھول بھر گئی

پچھلی رتوں میں سارے شجر بارور تو تھے
اب کے ہر ایک شاخ مگر بے ثمر گئی

ہم بھی بڑھے تھے وادئ اظہار میں مگر
لہجے کے انتشار سے آواز مر گئی

تجھ پھول کے حصار میں اک لطف ہے عجب
چھو کر جسے ہوائے طرب معتبر گئی

دل میں عجب سا تیر ترازو ہے ان دنوں
ہاں اے نگاہ ناز بتا تو کدھر گئی

مقصد صلائے عام ہے پھر احتیاط کیوں
بے رنگ روزنوں سے جو خوشبو گزر گئی

اس کے دیار میں کئی مہتاب بھیج کر
وادئ دل میں اک اماوس ٹھہر گئی

اب کے قفس سے دور رہی موسمی ہوا
آزاد طائروں کے پروں کو کتر گئی

آندھی نے صرف مجھ کو مسخر نہیں کیا
اک دشت بے دلی بھی مرے نام کر گئی

پھر چار سو کثیف دھوئیں پھیلنے لگے
پھر شہر کی نگاہ تیرے قصر پر گئی

الفاظ کے طلسم سے عنبرؔ کو ہے شغف
اس کی حیات کیسے بھلا بے ہنر گئی
عنبر بہرائچی


بہت بے زار ہوتی جا رہی ہوں
میں خود پر بار ہوتی جا رہی ہوں

تمہیں اقرار کے رستے پہ لا کر
میں خود انکار ہوتی جا رہی ہوں

کہیں میں ہوں سراپا رہ گزر اور
کہیں دیوار ہوتی جا رہی ہوں

بہت مدت سے اپنی کھوج میں تھی
سو اب اظہار ہوتی جا رہی ہوں

بھنور دل کی تہوں میں بن رہے ہیں
میں بے پتوار ہوتی جا رہی ہوں

تمہاری گفتگو کے درمیاں اب
یونہی تکرار ہوتی جا رہی ہوں

یہ کوئی خواب کروٹ لے رہا ہے
کہ میں بے دار ہوتی جا رہی ہوں

کسی لہجے کی نرمی کھل رہی ہے
بہت سرشار ہوتی جا رہی ہوں

مرا تیشہ زمیں میں گڑ گیا ہے
جنوں کی ہار ہوتی جا رہی ہوں
عنبرین صلاح الدین


اس لئے زیر فلک بے سبب آزار ہے حسن
جائے تو جائے کہاں عشق کہ سرکار ہے حسن

بلبل سوختہ ساماں سے سنا ہے میں نے
عشق اک آتش بے شعلہ ہے گلزار ہے حسن

صاف آتا ہے نظر دیدۂ بینا کو یہی
عشق اقرار حقیقت ہے اور اظہار ہے حسن

جلوہ شمع سے پروانوں کو ہوش آتا ہے
عشق کردار سہی جوہر کردار ہے حسن

عشق بیچارہ ہی آگاہ نہیں ہے ورنہ
روز میثاق سے خود اس کا طلب گار ہے حسن

صورت دائرۂ کون و مکاں ہے اس سے
عشق نقطہ ہے اور اس نقطہ کی پرکار ہے حسن

چولی دامن کا ازل سے ہے امیںؔ ساتھ ان کا
حسن کا عشق ہے اور عشق کا معیار ہے حسن
امین حزیں


تیرگی ہی تیرگی ہے بام و در میں کون ہے
کچھ دکھائی دے تو بتلائیں نظر میں کون ہے

کیوں جلاتا ہے مجھے وہ آتش احساس سے
میں کہاں ہوں یہ مرے دیوار و در میں کون ہے

ذات کے پردے سے باہر آ کے بھی تنہا رہوں
میں اگر ہوں اجنبی تو میرے گھر میں کون ہے

چاک کیوں ہوتے ہیں پیراہن گلوں کے کچھ کہو
جھک کے لہراتا ہوا شاخ ثمر میں کون ہے

جیسے کوئی پا گیا ہو اپنی منزل کا سراغ
دھوپ میں بیٹھا ہوا راہ سفر میں کون ہے

کانپتا جا دیکھ کر اظہار کی تجسیم کو
سوچتا جا آرزوئے شیشہ گر میں کون ہے

بس ذرا بپھری ہوئی موجوں کی خو مائل رہی
اہل ساحل جانتے تو تھے بھنور میں کون ہے

شور کرتا پھر رہا ہوں خشک پتوں کی طرح
کوئی تو پوچھے کہ شہر بے خبر میں کون ہے

میں تو دیوانہ ہوں اک سنگ ملامت ہی سہی
لیکن اتنا سوچ لو شیشے کے گھر میں کون ہے
امین راحت چغتائی


اظہار حقیقت کی جسارت نہیں ہوتی
باغی ہوں مگر اس سے بغاوت نہیں ہوتی

اک مرحلہ ایسا بھی تو آتا ہے جنوں میں
خلوت میں بھی جب لذت خلوت نہیں ہوتی

ہم معبد عرفاں کے پجاری ہیں ازل سے
ہم سے شب دیجور کی بیعت نہیں ہوتی

کچھ بھی اسے کہہ لیجئے انسان نہ کہئے
وہ جس کو خطاؤں پہ ندامت نہیں ہوتی

یہ کام مرے بس میں نہیں مصلحتاً بھی
مجھ سے کبھی باطل کی وکالت نہیں ہوتی

یوں قہر خداوند سے ڈرتا تو بہت ہوں
لیکن کبھی توفیق عبادت نہیں ہوتی

آنکھوں سے مرے نیند اچک لے گیا کوئی
خوابوں میں بھی اب اس کی زیارت نہیں ہوتی
امیر حمزہ اعظمی


میں رو کے آہ کروں گا جہاں رہے نہ رہے
زمیں رہے نہ رہے آسماں رہے نہ رہے

رہے وہ جان جہاں یہ جہاں رہے نہ رہے
مکیں کی خیر ہو یا رب مکاں رہے نہ رہے

ابھی مزار پر احباب فاتحہ پڑھ لیں
پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے

خدا کے واسطے کلمہ بتوں کا پڑھ زاہد
پھر اختیار میں غافل زباں رہے نہ رہے

خزاں تو خیر سے گزری چمن میں بلبل کی
بہار آئی ہے اب آشیاں رہے نہ رہے

چلا تو ہوں پئے اظہار درد دل دیکھوں
حضور یار مجال بیاں رہے نہ رہے

امیرؔ جمع ہیں احباب درد دل کہہ لے
پھر التفات دل دوستاں رہے نہ رہے
امیر مینائی


وعدۂ وصل اور وہ کچھ بات ہے
ہو نہ ہو اس میں بھی کوئی گھات ہے

خلق ناحق درپئے اثبات ہے
ہے دہن اس کا کہاں اک بات ہے

بوسۂ چاہ زنخداں غیر لیں
ڈوب مرنے کی یہ اے دل بات ہے

گھر سے نکلے ہو نہتے وقت قتل
یہ بھی بہر قتل عاشق گھات ہے

میں نے اتنا ہی کہا بنواؤ خط
یہ بگڑنے کی بھلا کیا بات ہے

بعد مدت بخت جاگے ہیں مرے
بیٹھے ہیں سونے کو ساری رات ہے

کیا کروں وصف بتان خودپسند
ان سے بڑھ کر بس خدا کی ذات ہے

باتوں باتوں میں جو میں کچھ کہہ گیا
ہنس کے فرمانے لگے کیا بات ہے

حرف مطلب صاف کہہ سکتا نہیں
ہے ادب مانع کہ پہلی رات ہے

مجھ سے ہو اظہار الفت واہ وا
آپ کے فرمانے کی یہ بات ہے

رو رہے ہیں ہم ملا دے لب سے لب
مے کشی ہو ساقیا برسات ہے

زچ ہے تیری چال سے رفتار چرخ
مہر رخ سے بازیٔ مہ مات ہے

کیسی کٹتی ہے سیہ بختی میں عمر
رات سے دن دن سے بد تر رات ہے

…چھ


پھر حسیں وادیٔ گلشن میں سجا لی آنکھیں
جب سے اس شوخ کی دیکھی ہیں غزالی آنکھیں

تو نے اے دوست یہ کیوں مجھ سے چرا لی آنکھیں
اب لئے پھرتا ہوں در در پہ سوالی آنکھیں

دل میں اٹھنے لگے طوفان و حوادث پیہم
ان کی آنکھوں سے یہ کیوں میں نے ملا لی آنکھیں

مضطرب ہو گیا دل اپنا نظاروں کے لئے
دیکھ کر مجھ کو کسی نے جو چھپا لی آنکھیں

میری آنکھوں کو میسر تھا سکوں جن کے سبب
چھپ گئیں جانے کہاں اب وہ مثالی آنکھیں

کیسے ہم کرتے تمناؤں کا اظہار امیرؔ
لب ادھر کھولے ادھر اس نے نکالی آنکھیں
امیر نہٹوری


بانہوں کے کسی ہار کی محتاج نہیں ہے
چاہت ہے یہ اقرار کی محتاج نہیں ہے

دیوار اٹھاتے ہوئے یہ سوچ تو لیتے
خوشبو کسی دیوار کی محتاج نہیں ہے

اک روز میں آئی تھی اسی آنکھ کی زد میں
وہ آنکھ جو تلوار کی محتاج نہیں ہے

تم میری محبت کو پڑھو آنکھ میں میری
یہ پیار کے اظہار کی محتاج نہیں ہے

خالص ہو تو ہو جائے کسی سے یہ محبت
اس عہد کے معیار کی محتاج نہیں ہے

محبوب کی صورت کا اگر نقش ہو دل پر
پھر آنکھ تو دیدار کی محتاج نہیں ہے

احسان نہیں چاہیے یہ سن لو رشاؔ بھی
مانگے ہوئے اس پیار کی محتاج نہیں ہے
آمنہ روشنی رشا


لرز اٹھا تھا ہونٹوں پر کوئی اقرار تقریباً
نگاہیں کر چکی تھیں عشق کا اظہار تقریباً

اسے ذہنی تلاطم سے گزر کر دل تک آنا تھا
اور اس نے کر لیا تھا آدھا دریا پار تقریباً

ہمارے درمیاں پھر آ گئے بھولے ہوئے ماضی
وگرنہ گر چکی تھی بیچ کی دیوار تقریباً

کبھی ہفتوں مہینوں میں ذرا کچھ بات ہو تو ہو
وگرنہ کھو چکی ہے لذت گفتار تقریباً

ابھی پچھلے دنوں تک مطمئن تھا دل کہ تم تو ہو
مگر اب ختم ہیں تسکین کے آثار تقریباً
امت گوسوامی


دام خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے
لفظ اظہار کی الجھن میں پڑا ہے کب سے

اے کڑی چپ کے در و بام سجانے والے
منتظر کوئی سر کوہ ندا ہے کب سے

چاند بھی میری طرح حسن شناسا نکلا
اس کی دیوار پہ حیران کھڑا ہے کب سے

بات کرتا ہوں تو لفظوں سے مہک آتی ہے
کوئی انفاس کے پردے میں چھپا ہے کب سے

شعبدہ بازی آئینۂ احساس نہ پوچھ
حیرت چشم وہی شوخ قبا ہے کب سے

دیکھیے خون کی برسات کہاں ہوتی ہے
شہر پر چھائی ہوئی سرخ گھٹا ہے کب سے

کور چشموں کے لیے آئینہ خانہ معلوم
ورنہ ہر ذرہ ترا عکس نما ہے کب سے

کھوج میں کس کی بھرا شہر لگا ہے امجدؔ
ڈھونڈتی کس کو سر دشت ہوا ہے کب سے
امجد اسلام امجد


جب دل میں ذرا بھی آس نہ ہو اظہار تمنا کون کرے
ارمان کیے دل ہی میں فنا ارمان کو رسوا کون کرے

خالی ہے مرا ساغر تو رہے ساقی کو اشارا کون کرے
خودداریٔ سائل بھی تو ہے کچھ ہر بار تقاضا کون کرے

جب اپنا دل خود لے ڈوبے اوروں پہ سہارا کون کرے
کشتی پہ بھروسا جب نہ رہا تنکوں پہ بھروسا کون کرے

آداب محبت میں بھی عجب دو دل ملنے کو راضی ہیں
لیکن یہ تکلف حائل ہے پہلا وہ اشارا کون کرے

دل تیری جفا سے ٹوٹ چکا اب چشم کرم آئی بھی تو کیا
پھر لے کے اسی ٹوٹے دل کو امید دوبارا کون کرے

جب دل تھا شگفتہ گل کی طرح ٹہنی کانٹا سی چبھتی تھی
اب ایک فسردہ دل لے کر گلشن کی تمنا کون کرے

بسنے دو نشیمن کو اپنے پھر ہم بھی کریں گے سیر چمن
جب تک کہ نشیمن اجڑا ہے پھولوں کا نظارا کون کرے

اک درد ہے اپنے دل میں بھی ہم چپ ہیں دنیا ناواقف
…اوروں کی طرح دہرا دہرا کر اس کو فسانا کون کرے


کام عشق بے سوال آ ہی گیا
خودبخود اس کو خیال آ ہی گیا

تو نے پھیری لاکھ نرمی سے نظر
دل کے آئینے میں بال آ ہی گیا

دو مری گستاخ نظروں کو سزا
پھر وہ نا گفتہ سوال آ ہی گیا

زندگی سے لڑ نہ پایا جوش دل
رفتہ رفتہ اعتدال آ ہی گیا

حسن کی خلوت میں دراتا ہوا
عشق کی دیکھو مجال آ ہی گیا

غم بھی ہے اک پردۂ اظہار شوق
چھپ کے آنسو میں سوال آ ہی گیا

وہ افق پر آ گیا مہر شباب
زندگی کا ماہ و سال آ ہی گیا

بے خودی میں کہہ چلا تھا راز دل
وہ تو کہئے کچھ خیال آ ہی گیا

ہم نہ کر پائے خطا بزدل ضمیر
لے کے تصویر مآل آ ہی گیا

ابتدائے عشق کو سمجھے تھے کھیل
مرنے جینے کا سوال آ ہی گیا

لاکھ چاہا ہم نہ لیں غم کا اثر
رخ پہ اک رنگ ملال آ ہی گیا

بچ کے جاؤ گے کہاں ملاؔ کوئی
ہاتھ میں لے کر گلال آ ہی گیا
آنند نرائن ملا


جھجک اظہار ارماں کی بہ آسانی نہیں جاتی
خود اپنے شوق کی دل سے پشیمانی نہیں جاتی

تڑپ شیشے کے ٹکڑے بھی اڑا لیتے ہیں ہیرے کی
محبت کی نظر جلدی سے پہچانی نہیں جاتی

افق پر نور رہ جاتا ہے سورج ڈوبنے پر بھی
کہ دل بجھ کر بھی نظروں کی درخشانی نہیں جاتی

سوئے دل آ کے اب چشم کرم بھی کیا بنا لے گی
شعاع مہر سے صحرا کی ویرانی نہیں جاتی

یہ بزم دیر و کعبہ ہے نہیں کچھ صحن مے خانہ
ذرا آواز گونجی اور پہچانی نہیں جاتی

کسی کے لطف بے پایاں نے کچھ یوں سوئے دل دیکھا
کہ اب ناکردہ جرموں کی پشیمانی نہیں جاتی

تغافل پر نہ جا اس کے تغافل ایک دھوکا ہے
نگاہ دوست کی تحریک پنہانی نہیں جاتی

نظر جھوٹی شباب اندھا وہ حسن اک نقش فانی ہے
حقیقت ہے تو ہو لیکن ابھی مانی نہیں جاتی

میسر ہے ہر اک ایماں میں مجھ کو ذوق کا سجدہ
کوئی مذہب بھی ہو بنیاد انسانی نہیں جاتی


… نظر جس کی طرف ک

پتا مجھ کو ہے پہلے سے اسے انکار کرنا ہے
تسلی کے لیے مجھ کو مگر اظہار کرنا ہے

کوئی تعویذ مل جائے کہ یہ اچھا کرے پوری
بہت وہ دور ہے لیکن مجھے دیدار کرنا ہے

ارادہ کیا ہے میری جاں بہت نزدیک بیٹھی ہو
قتل کرنا ہے یا ہم دو کو دو سے چار کرنا ہے

نظر ان سے یہ سنڈے کو باغیچے میں ملی ایسی
کہ اب ہفتے کے ہر دن کو مجھے اتوار کرنا ہے

ستم کرنے کو بیٹھی ہے مگر کوئی اسے کہہ دو
ابھی کچا ہے دل اس کو ذرا تیار کرنا ہے

مری کشتی کو لہریں توڑ بیٹھی ہیں تو اب مجھ کو
کنارے پر کھڑے ہو کر سمندر پار کرنا ہے
آنند ورما


جو ذوق نظر ہو تو ترکی میں آ کر
حیات عظیمہ کے آثار دیکھو

لگا کر نئی چشمک زنی ہم سروں سے
لقب جس کا تھا مرد بیمار دیکھو

مٹانے پہ جس کے تلا تھا زمانہ
ابھرتا ہے وہ ترک تاتار دیکھو

بہ اظہار جرأت یہ زور صداقت
ہوئے کس طرح زیر اغیار دیکھو

بہ صد شان جاتا ہے انطاکیہ کو
اتاترک کا خال جرار دیکھو

جو سوئے ہوئے تھے جو کھوئے ہوئے تھے
کیا ان کو یک لخت بیدار دیکھو

سنبھلتی ہیں گر کر چمکتی ہیں مٹ کر
یہ ہیں زندہ قوموں کے اطوار دیکھو
انیسہ ہارون شروانیہ


حور و غلماں کے طلب گار سے واقف میں ہوں
صاحب جبہ و دستار سے واقف میں ہوں

شہر میں آپ فرشتوں سے بھی بڑھ کر ٹھہرے
ہاں مگر آپ کے کردار سے واقف میں ہوں

حق نوائی کا سمجھتا ہوں اسے میں انعام
قید و زنداں رسن و دار سے واقف میں ہوں

وہ ہے مجبور طلب سے بھی سوا دینے پر
خوبیٔ جرأت اظہار سے واقف میں ہوں

منصفی چومتی رہتی ہے در اہل دل
اے عدالت ترے کردار سے واقف میں ہوں

سر سلامت ہے تو روزن بھی بنا لوں گا میں
حبس تیرے در و دیوار سے واقف میں ہوں

کبر و نخوت کا ہے الزام عبث انجمؔ پر
اس کے اخلاص سے افکار سے واقف میں ہوں
انجم عظیم آبادی


سوچتا رہتا ہوں تکمیل وفا کیسے ہو
آدمی بھی وہ نہیں ہے تو خدا کیسے ہو

عشق کو حوصلۂ ترک وفا کیسے ہو
لفظ معنی کی صداقت سے جدا کیسے ہو

میں تو پوچھوں گا کہ تم سب کے خدا کیسے ہو
میری آواز فرشتوں کی صدا کیسے ہو

ایک غم ہو تو بکھر جائے مرے چہرے پر
غیر محدود مصائب ہیں ضیا کیسے ہو

سوچنے والوں کی نیت کو خدا ہی جانے
بات والوں کو نہیں فکر وفا کیسے ہو

اس نے مجبور وفا جان کے منہ پھیر لیا
مجھ سے یہ بھول ہوئی پوچھ لیا کیسے ہو

اک سلگتا ہوا دل تم سے جلایا نہ گیا
جانے تم مخلص ارباب وفا کیسے ہو

کس کی صورت میں نہیں جلوۂ خون مزدور
خون مزدور کی قیمت بھی ادا کیسے ہو

عشق ناواقف آداب طلب ہے انجمؔ
حسن آمادۂ اظہار وفا کیسے ہو
انجم فوقی بدایونی


ہر شخص وفا سے ہٹ چکا ہے
شیشوں پہ غبار اٹ چکا ہے

دل تا بہ دماغ پھٹ چکا ہے
یہ شہر کا شہر الٹ چکا ہے

چہروں پہ دمک کہاں سے آئے
سورج کا وقار گھٹ چکا ہے

رشتوں میں خلوص ہی کہاں تھا
پہلے بھی یہ دودھ پھٹ چکا ہے

اظہار خلوص کرنے والا
اندر سے بہت پلٹ چکا ہے

اتنے بھی اداس کب تھے ہم لوگ
ظاہر ہے کہ دل سمٹ چکا ہے

تاریخ وفا میں کیا ملے گا
آنکھوں میں جو وقت کٹ چکا ہے

اب سامنے بھی وہ آئیں تو کیا
دل اپنی طرف پلٹ چکا ہے

دل ہے کہ اسی کی نذر انجمؔ
جس درد کا بھاؤ گھٹ چکا ہے
انجم فوقی بدایونی


کتنا ڈھونڈا اسے جب ایک غزل اور کہی
جب ملا ہی نہیں تب ایک غزل اور کہی

ایک امید ملاقات میں لکھی سر شام
اور پھر آخر شب ایک غزل اور کہی

اک غزل لکھی تو غم کوئی پرانا جاگا
پھر اسی غم کے سبب ایک غزل اور کہی

اس غزل میں کسی بے درد کا نام آتا تھا
سو پئے بزم طرب ایک غزل اور کہی

جانتے بوجھتے اک مصرعۂ تر کی قیمت
دل بیداد طلب ایک غزل اور کہی

دل کی دھڑکن کو ہی پیرایۂ اظہار کیا
سل چکے جب مرے لب ایک غزل اور کہی

دفعتاً خود سے ملاقات کا احساس ہوا
مدتوں بعد جو اب ایک غزل اور کہی

وحشت ہجر بھی تنہائی بھی میں بھی انجمؔ
جب اکٹھے ہوئے سب ایک غزل اور کہی
انجم خلیق


رہ گئے بس عشق دریا سے یہ ناطے رہ گئے
ہم صدف آنکھوں سے اب گوہر لٹاتے رہ گئے

رہ گئے ہم ساز دل کے ٹوٹ جانے پر بھی خوش
درد غزلوں میں چھپا کر گنگناتے رہ گئے

رہ گئے ہم پیار کے ہر اسم سے دے کر صدا
روٹھ کر وہ چل دئے اور ہم مناتے رہ گئے

رہ گئے خاموش وہ بھی عشق کے اظہار پر
میرے لب پر بھی اشارے آتے آتے رہ گئے

رہ گئے سارے فسانوں میں نشاں ان کے ہی اور
راز دل ہم اس زمانہ سے چھپاتے رہ گئے

رہ گئے یوں تو اندھیرے ہجر کے دل میں مگر
وصل کی اک شمع ہم پھر بھی جلاتے رہ گئے

رہ گئے ہم آرزوؔ دل کی دبا کر دل میں ہی
نقش پا ان کی تمنا کے مٹاتے رہ گئے
انجمن منصوری آرزو


پہلے لگا تھا ہجر میں جائیں گے جان سے
پر جی رہے ہیں اور وہ بھی اطمینان سے

دونوں کو جوڑے عشق کی نازک سی ڈور تھی
افسوس وہ بھی ٹوٹ گئی کھینچ تان سے

پھر درمیاں بچے گا جو وہ عشق ہی تو ہے
دنیا اگر نکال دیں ہم درمیان سے

اظہار کرتے رہتے ہیں ویسے تو کتنے لوگ
اچھا لگے گا پر مجھے تیری زبان سے

اول تو قاعدے سے وہاں ہم ہی آتے دوست
اس نے مگر نکال دیا امتحان سے

میرا ہی حق ملا مجھے احسان کی طرح
اس نے معافی مانگ لی لیکن گمان سے
انکت موریا


یہ کبھی سوچا نہیں تھا آپ بھی ایسا کریں گے
جب بچھڑ جائیں گے ہم سے تو ہمیں رسوا کریں گے

بول تو دیتے ہیں غصے میں کہ تم جاؤ یہاں سے
بعد میں پھر سوچتے ہیں یہ ہوا تو کیا کریں گے

اس کے جھگڑے پر کبھی گر ڈانٹ دوں تو بولتا ہے
آپ سے ہے پیار تو پھر کس سے ہم جھگڑا کریں گے

ایک چہرہ جو کہ ہم سے نا کبھی بھی بن سکا ہے
ایک چہرہ وہ کہ جس کو عمر بھر سوچا کریں گے

تیری جانب جب رہیں گی محفلوں کی سب نگاہیں
اپنی آنکھوں سے ترے چہرے پے ہم پردا کریں گے

ہے سمجھنا آپ کو تو شعر سے اظہار سمجھیں
بات کہنے کو بھلا ہم پھول کیوں توڑا کریں گے
انکت موریا


چاند تارے جسے ہر شب دیکھیں
ہم بھی اس شوخ کو یا رب دیکھیں

یوں ملیں ان سے کہ اپنا چہرہ
وہ بھی حیران ہوں کل جب دیکھیں

پہلے بس دل کو خبر تھی دل کی
اب وفا عام ہوئی سب دیکھیں

قرب میں کیا ہے جو دوری میں نہیں
تم جو آؤ تو کسی شب دیکھیں

جی میں ہے پھر کریں اظہار وفا
پھر ترے لرزے ہوئے لب دیکھیں

میں کہ ہوں ایک ہی آشفتہ خیال
لوگ ہر بات میں مطلب دیکھیں

جو کسی نے کبھی دیکھے نہ سنے
وہ تماشے وہ فسوں اب دیکھیں

آج تو یوں گلے لگ جاؤ کہ بس
پھر تو جانے تمہیں کب کب دیکھیں

لاکھ پتھر سہی وہ بت انجمؔ
وہ گھڑی ہم سے ملے تب دیکھیں
انوار انجم


چاند تارے جسے ہر شب دیکھیں
ہم بھی اس شوخ کو یا رب دیکھیں

یوں ملیں ان سے کہ اپنا چہرہ
وہ بھی حیران ہوں، کل جب دیکھیں

پہلے بس دل کو خبر تھی دل کی
اب وفا عام ہوئی سب دیکھیں

قرب میں کیا ہے جو دوری میں نہیں
تم جو آؤ تو کسی شب دیکھیں

جی میں ہے پھر کریں اظہار وفا
پھر ترے لرزے ہوئے لب دیکھیں

میں کہ ہوں ایک ہی آشفتہ‌ خیال
لوگ ہر بات میں مطلب دیکھیں

جو کسی نے کبھی دیکھے نہ سنے
وہ تماشے وہ فسوں اب دیکھیں

لاکھ پتھر سہی وہ بت انجمؔ
دو گھڑی ہم سے ملے تب دیکھیں
انوار انجم


اس بھول میں نہ رہ کہ یہ جھونکے ہوا کے ہیں
تیور تو ان کے دیکھ ذرا کس بلا کے ہیں

کیا ماجرا ہے اے بت توبہ شکن کہ آج
چرچے تری گلی میں کسی پارسا کے ہیں

اس چشم نیم وا کی ہے مستی شراب میں
ساغر میں سارے رنگ اسی کی حیا کے ہیں

ہستی کی قید کاٹتے رہتے ہیں رات دن
کیا جانے کتنے سال ہماری سزا کے ہیں

اے شیخ کیا ڈراتا ہے میدان حشر سے
ہم بندگان خلق بھی بندے خدا کے ہیں

ہے خوف کچھ تو موج تلاطم کا بھی مگر
ہم لوگ زخم خوردہ بت ناخدا کے ہیں

رہنا پڑا ہے دور کراچی سے ورنہ ہم
اس شہر بے مثال کے عاشق سدا کے ہیں

رائج رہیں گے شہر سخن میں ہمارے شعر
سکے ہیں یہ کھرے کہ یہ قصے وفا کے ہیں

رکھتا ہے اک سلیقۂ اظہار مختلف
سب معترف خلیلؔ کی طرز ادا کے ہیں
انور خلیل


اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے
وہ ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے

کواڑ گرچہ مقفل تھے اس حویلی کے
مگر فقیر گزرتے رہے صدا کرتے

ہمیں قرینۂ رنجش کہاں میسر ہے
ہم اپنے بس میں جو ہوتے ترا گلا کرتے

تری جفا کا فلک سے نہ تذکرہ چھیڑا
ہنر کی بات کسی کم ہنر سے کیا کرتے

تجھے نہیں ہے ابھی فرصت کرم نہ سہی
تھکے نہیں ہیں مرے ہاتھ بھی دعا کرتے

انہیں شکایت بے ربطی سخن تھی مگر
جھجک رہا تھا میں اظہار مدعا کرتے

چقیں گری تھیں دریچوں پہ چار سو انورؔ
نظر جھکا کے نہ چلتے تو اور کیا کرتے
انور مسعود


دنیا بھی عجب قافلۂ تشنہ لباں ہے
ہر شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے

تنہا تری محفل میں نہیں ہوں کہ مرے ساتھ
اک لذت پابندیٔ اظہار و بیاں ہے

حق بات پہ ہے زہر بھرے جام کی تعزیر
اے غیرت ایماں لب سقراط کہاں ہے

کھیتوں میں سماتی نہیں پھولی ہوئی سرسوں
باغوں میں ابھی تک وہی ہنگام خزاں ہے

احساس مرا ہجر گزیدہ ہے ازل سے
کیا مجھ کو اگر کوئی قریب رگ جاں ہے

جو دل کے سمندر سے ابھرتا ہے یقیں ہے
جو ذہن کے ساحل سے گزرتا ہے گماں ہے

پھولوں پہ گھٹاؤں کے تو سائے نہیں انورؔ
آوارۂ گلزار نشیمن کا دھواں ہے
انور مسعود


تجھ کو تو قوت اظہار زمانے سے ملی
مجھ کو آزادہ روی خون جلانے سے ملی

قریۂ جاں کی طرح ان پہ اداسی تھی محیط
در و دیوار کو رونق ترے آنے سے ملی

یوں تسلی کو تو اک یاد بھی کافی تھی مگر
دل کو تسکین ترے لوٹ کے آنے سے ملی

میں خزاں دیدہ شجر کی طرح گمنام سا تھا
مجھ کو وقعت تری تصویر بنانے سے ملی

شاخ احساس پہ جو پھول کھلے ہیں ان کو
زندگی حسن کا ادراک بڑھانے سے ملی

جاگتی آنکھ سے جو خواب تھا دیکھا انورؔ
اس کی تعبیر مجھے دل کے جلانے سے ملی
انور سدید


ستم گر یار کی ایسی کی تیسی
دل لاچار کی ایسی کی تیسی

بڑھائے اور بھی احساس غم جو
ہو اس غم خوار کی ایسی کی تیسی

ہنسی جو حال دل سن کر اڑائے
ہو اس دل دار کی ایسی کی تیسی

نہ جس میں کچھ خلوص و دل ربائی
ہو اس اقرار کی ایسی کی تیسی

صنم کی دید بہلائے نہ جس کو
ہو اس بیمار کی ایسی کی تیسی

نہ چشم یار جس سے ڈبڈبائے
ہو اس اظہار کی ایسی کی تیسی

رہا جو بے رخی کا ترجماں جو
ہو اس معیار کی ایسی کی تیسی

کریں گمراہ جو نام خدا پر
ہو ان اقدار کی ایسی کی تیسی

نظر آئے نہ جس کو جز شرارت
دل بیدار کی ایسی کی تیسی

اگر بچے ہوں فاقوں سے بلکتے
ہو اس تہوار کی ایسی کی تیسی

نظر آئے جو کانٹوں کا بچھونا
ہو اس گلزار کی ایسی کی تیسی

جو مشکل دور میں آنکھیں چرائے
ارے اس یار کی ایسی کی تیسی

فن تعمیر سے نا آشنا جو
ہو اس معمار کی ایسی کی تیسی

…نہ سر دشمن کا جو کاٹے


اگرچہ آئنۂ دل میں ہے قیام اس کا
نہ کوئی شکل ہے اس کی نہ کوئی نام اس کا

وہی خدا کبھی ملوائے گا ہمیں اس سے
جو انتظار کراتا ہے صبح و شام اس کا

ہمارے ساتھ نہیں جا سکا تھا وہ لیکن
رہا خیال سیاحت میں گام گام اس کا

خدا کو پیار ہے اپنے ہر ایک بندے سے
سفید فام ہے اس کا سیاہ فام اس کا

کما کے دیتے ہیں جو مال وہ امیروں کو
حساب کیوں نہیں لیتے کبھی عوام اس کا

ہمارا فرض ہے بے لاگ رائے کا اظہار
کوئی درست کہے یا غلط یہ کام اس کا

کہاں ہے شیخ کو سدھ بدھ مزید پینے کی
نشہ اتار گئے تین چار جام اس کا

زبان دل سے کوئی شاعری سناتا ہے
تو سامعین بھلاتے نہیں کلام اس کا

شعورؔ سب سے الگ بیٹھتا ہے محفل میں
اسی سے آپ سمجھ لیجئے مقام اس کا
انور شعور


جب بھی دشمن بن کے اس نے وار کیا
میں نے اپنے لہجے کو تلوار کیا

میں نے اپنے پھول سے بچوں کی خاطر
کاغذ کے پھولوں کا کاروبار کیا

میری محنت کی قیمت کیا دے گا تو
میں نے دشت و صحرا کو گلزار کیا

میں فرہادؔ یا مجنوں کیسے بن جاتا
میں شاعر تھا میں نے سب سے پیار کیا

اس کی آنکھیں خواب سے بننے لگتی ہیں
جب بھی میں نے چاہت کا اظہار کیا

اپنے پیچھے آنے والوں کی خاطر
میں نے ہر اک رستے کو ہموار کیا

اس کے گھر کے سارے لوگ مخالف تھے
پھر بھی عارفؔ اس نے مجھ سے پیار کیا
عارف شفیق


پچھلی رفاقتوں کا نہ اتنا ملال کر
اپنی شکستگی کا بھی تھوڑا خیال کر

ڈس لے کہیں تمہیں کو نہ موقع نکال کر
رکھو نہ آستیں میں کوئی سانپ پال کر

شرمندگی کا زخم نہ گہرا لگے کہیں
کچھ اس قدر دراز نہ دست سوال کر

میری طرح نہ تو بھی گھٹن کا شکار ہو
خود اپنی خواہشوں کو نہ یوں پائمال کر

جو آپ کی نگاہ میں اتنا بلند ہے
دیکھا ہے اس کا ظرف بھی میں نے کھنگال کر

لمحوں کی تند موج سے بچنا محال ہے
رکھو گے کیسے یاد کی خوشبو سنبھال کر

ارماںؔ بس ایک لذت اظہار کے سوا
ملتا ہے کیا خیال کو لفظوں میں ڈھال کر
ارمان نجمی


نہ حرف شوق نہ طرز بیاں سے آتی ہے
سپردگی کی صدا جسم و جاں سے آتی ہے

کوئی ستارہ رگ و پے میں ہے سمایا ہوا
مجھے خود اپنی خبر آسماں سے آتی ہے

کسی دکان سے ملتی نہیں ہے گرمیٔ شوق
یہ آنچ وہ ہے جو سوز نہاں سے آتی ہے

کھلا نہیں ہے وہ مجھ پر کسی بھی پہلو سے
نہیں کی گونج ابھی اس کی ہاں سے آتی ہے

عجیب شے ہے نشاط یقیں کی دولت بھی
کسی وجود کے وہم و گماں سے آتی ہے

پرندے شام ڈھلے راہ میں نہیں رکتے
کوئی نوید انہیں آشیاں سے آتی ہے

مٹھاس گھولتا ہے کون میرے لہجے میں
مرے سخن میں حلاوت کہاں سے آتی ہے

گریز بھی کہیں اظہار آرزو ہی نہ ہو
کشش یہ کیسی بدن کی کماں سے آتی ہے

کسی حجاب کی بندش کو مانتی ہی نہیں
جو موج روح کی جوئے رواں سے آتی ہے
ارمان نجمی


بیتابیٔ دل شوق کا اظہار نہ کر دے
اس شوخ کو الفت سے خبردار نہ کر دے

گر یہ ہی فراوانیاں ہیں درد و الم کی
یہ عشق کہیں جینے سے بیزار نہ کر دے

ہے ان کو شفا پرسش در پردہ سے منظور
ڈر ہے یہ مجھے اور بھی بیمار نہ کر دے

وہ پوچھتے ہیں ہے تجھے کیا مجھ سے محبت
میرا دل ناداں کہیں اقرار نہ کر دے

ارماںؔ کو ترا دیکھنا مڑ کر دم رخصت
خوابیدہ تمناؤں کو بیدار نہ کر دے
ارمان رامپوری


محبت وہ مرض ہے جس کا چارہ ہو نہیں سکتا
جگر کا ہو کہ دل کا زخم اچھا ہو نہیں سکتا

وہ نالہ کوئی نالہ ہے جو کم ہو موج طوفاں سے
وہ آنسو کوئی آنسو ہے جو دریا ہو نہیں سکتا

تماشا ہے کہ ہم اس کو مسیحا دم سمجھتے ہیں
ہمارے درد کا جس سے مداوا ہو نہیں سکتا

مجھے فریاد پر مائل نہ کر اے جوش ناکامی
زمانے بھر میں دل کا راز رسوا ہو نہیں سکتا

عجب کیا ہے جو خاموشی ہی شرح آرزو کر دے
مرے لب سے تو اظہار تمنا ہو نہیں سکتا

مبارک ہو تجھی کو یہ خیالستان اے واعظ
تری دنیا میں رندوں کا گزارہ ہو نہیں سکتا

تماشا ہو گیا ہے تیرے جلووں کا تماشائی
کوئی اس شان سے محو تماشا ہو نہیں سکتا

بدل سکتے ہو تم بگڑی ہوئی قسمت زمانے کی
تمہاری اک نگاہ ناز سے کیا ہو نہیں سکتا
عرش ملسیانی

جس غم سے دل کو راحت ہو اس غم کا مداوا کیا معنی
جب فطرت طوفانی ٹھہری ساحل کی تمنا کیا معنی

عشرت میں رنج کی آمیزش راحت میں الم کی آلائش
جب دنیا ایسی دنیا ہے پھر دنیا دنیا کیا معنی

خود شیخ و برہمن مجرم ہیں اک کام سے دونوں پی نہ سکے
ساقی کی بخل پسندی پر ساقی کا شکوا کیا معنی

جلووں کا تو یہ دستور نہیں پردوں سے کبھی باہر آئیں
اے دیدۂ بے توفیق ترا یہ ذوق تماشا کیا معنی

اخلاص و وفا کے سجدوں کی جس در پر داد نہیں ملتی
اے غیرت دل اے عزم خودی اس در پر سجدہ کیا معنی

اے صاحب نقد و نظر مانا انساں کا نظام نہیں اچھا
اس کی اصلاح کے پردے میں اللہ سے جھگڑا کیا معنی

ہر لحظہ فزوں ہو جوش عمل یہ فرض ہے فرض کی راہ پہ چل
تدبیر کا یہ رونا کیسا تقدیر کا شکوا کیا معنی

میخانے میں تو اے واعظ اب تلقین کے کچھ اسلوب بدل
اللہ کا بندہ بننے کو جنت کا سہارا کیا معنی

…اظہار

اگر تقدیر تیری باعث آزار ہو جائے
تجھے لازم ہے اس سے بر سر پیکار ہو جائے

مری کشتی ہے میں ہوں اور گرداب محبت ہے
جو تو ہو نا خدا میرا تو بیڑا پار ہو جائے

کمال ضبط غم سے یہ گوارا ہی نہیں مجھ کو
کہ حرف آرزو شرمندۂ اظہار ہو جائے

تیرے خواب گراں پر اے دل ناداں تعجب ہے
کہ تو سوتا رہے سارا جہاں بے دار ہو جائے

انہیں کیوں کوستا ہے جو تجھے کہتے ہیں کم ہمت
برا کیا ہے حقیقت کا اگر اظہار ہو جائے

تمہیں اے عرش کیوں ہے تیر غم سے اتنی بے زاری
یہی بہتر ہے یہ ناوک جگر کے پار ہو جائے
عرش ملسیانی


ان سے اظہار شکایات کروں یا نہ کروں
لب پہ لرزاں سی ہے اک بات کروں یا نہ کروں

کھینچ لائے نہ کہیں پھر یہ محبت کی کشش
جرأت‌ ترک ملاقات کروں یا نہ کروں

میری خاموشیٔ پیہم کا انہیں شکوہ ہے
ذکر بے دردیٔ حالات کروں یا نہ کروں

ہے غم حال میں انسان پریشاں خاطر
فکر فردا کی کوئی بات کروں یا نہ کروں
عرش صہبائی


یہ دیکھیں راز دل اب کون کرتا ہے عیاں پہلے
نظر کرتی ہے اظہار محبت یا زباں پہلے

اگر ہو دیکھنا مقصود بربادی کا نظارہ
جلا کر دیکھیے اک بار اپنا آشیاں پہلے

پہنچ کر منزل ہستی پہ یہ احساس ہوتا ہے
کہ گزرے ہیں یہاں سے اور بھی کچھ کارواں پہلے

کئی معصوم کلیاں جو ابھی کھلنے نہ پائی ہوں
مسل دیتے ہیں اپنے ہاتھ سے خود باغباں پہلے

ٹھہر اے گردش ایام ہم بھی ساتھ چلتے ہیں
اٹھا لینے دے فیض صحبت پیر مغاں پہلے
عرش صہبائی


حیا اخفا راز دل کی اک تدبیر ہوتی ہے
نظر جھکتی ہے وہ جس میں کوئی تحریر ہوتی ہے

رواج زحمت اظہار دی جاتی ہے ہونٹوں کو
محبت میں خموشی ورنہ خود تقریر ہوتی ہے

ہر اک دیوانہ پابند وفا رہتا ہے آخر تک
جنوں کے پاؤں میں بھی ہوش کی زنجیر ہوتی ہے

سبھی کرتے ہیں دعوے صاحب ایمان ہونے کا
مگر ہر دل کے آئینے میں اک تصویر ہوتی ہے

جہاں برق تپاں کی یورش پیہم کا امکاں ہو
عموماً آشیانے کی وہیں تعمیر ہوتی ہے

نہ جانے کون سے خوش بخت کا یہ قول ہے ارشدؔ
کہ آہ صبح گاہی میں بڑی تاثیر ہوتی ہے
ارشد بجنوری


اک لفظ آ گیا تھا جو میری زبان پر
چھایا رہا نہ جانے وہ کس کس کے دھیان پر

مجھ کو تلاش کرتے ہو اوروں کے درمیاں
حیران ہو رہا ہوں تمہارے گمان پر

محفل میں دوستوں کی وہی نغمہ بن گیا
شب خون کا جو شور تھا میرے مکان پر

بے شک زمیں ہنوز ہے اپنے مدار میں
لیکن دماغ اس کا تو ہے آسمان پر

شاید مری تلاش میں اتری ہے چرخ سے
جو دھوپ پڑ رہی ہے مرے سائبان پر

رہتا ہے بے نیاز جو آب و سراب سے
کھلتا ہے راز دشت اسی ساربان پر

احساس اس کا جامۂ اظہار مانگے ہے
افتاد آ پڑی ہے یہ ارشدؔ کی جان پر
ارشد کمال


کسی صورت اگر اظہار کی صورت نکل آئے
تو ممکن ہے کسی سے پیار کی صورت نکل آئے

مسیحائی پہ وہ کافر اگر ایمان لے آئے
شفا کی شکل میں بیمار کی صورت نکل آئے

اگر وہ بے وفا ضد چھوڑ دے اور ٹھیک ہو جائے
تو شاید پھر مرے گھر بار کی صورت نکل آئے

کوئی تو معجزہ ایسا بھی ہو اپنی محبت میں
ترے انکار سے اقرار کی صورت نکل آئے

بہت دن ہو گئے ارشدؔ وہ مکھڑا چاند سا دیکھے
دعا کرنا کوئی دیدار کی صورت نکل آئے
ارشد لطیف


کتنا بے رنگ ہوا شہر ہنر تیرے بعد
جانے کس رخ پہ ہو لفظوں کا سفر تیرے بعد

کون اب لب کے تبسم کو کہے گا ہیرا
کون برسائے گا لفظوں کے گہر تیرے بعد

جب بھی گرتا ہے بڑا پیڑ دہلتی ہے زمیں
زندگی دھوپ میں گزرے گی شجر تیرے بعد

کہکشاں لفظوں کی شعروں میں ملے گی کس کے
کون بانٹے گا خیالوں کے گہر تیرے بعد

صدیوں رکھے گی تجھے زندہ سخن کی خوشبو
تذکرے ہوں گے ترے شام و سحر تیرے بعد

سلسلہ کون سنبھالے گا نقوش پا کا
منتظر کس کی ہے اب راہ گزر تیرے بعد

اب کہاں ہوتے ہیں وہ شعر و سخن کے چرچے
بے زباں ہو گیا تہذیب کا گھر تیرے بعد

منفرد جرأت اظہار رہے گی زندہ
اب کہاں ہوگا یہ اسلوب و ہنر تیرے بعد

تیرے اشعار پہ سر دھنتی رہے گی دنیا
رنگ لایا ہے ترا خون جگر تیرے بعد

گرمیٔ فکر سخن سے نہیں انکار نظرؔ
اتنی آساں بھی نہیں راہگزر تیرے بعد
ارشد نظر


زخموں سے میرا جسم یہاں چور چور تھا
احساس میرے کرب کا اس کو ضرور تھا

پتھر اچھالتا رہا ہر ایک کی طرف
کیا جانے کس خیال کا اس کو غرور تھا

دل بھی دھڑک رہا تھا گنہ گار کی طرح
جیسے کوئی ثبوت بھی پیش حضور تھا

لگتا ہے میری بات سے وہ بھی قریب تر
حالانکہ دیکھنے میں بہت دور دور تھا

کیا جانے کس خیال سے وہ چپ رہا مگر
اظہار حال درد بھی لیکن ضرور تھا

اب اس کی ذات میں ہو کوئی بات تو نظرؔ
پہلے تو اس کے ربط میں کتنا سرور تھا
ارشد نظر


جب لب سے مرے حرف صداقت نکل آئے
کچھ لوگ لئے سنگ ملامت نکل آئے

یارب کوئی ایسی کہیں صورت نکل آئے
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت نکل آئے

اٹھے جو کہیں شعلہ لہو دے کے بجھا دے
ممکن ہے کوئی راہ محبت نکل آئے

آئینے کو اس شہر ہوس میں نہ لئے پھر
مشکل ہے یہاں سے وہ سلامت نکل آئے

جس خواب کو تعبیر کے لائق نہیں سمجھا
وہ خواب اگر اپنا حقیقت نکل آئے

کہنے پہ چلو توڑ لیں ہر شخص سے رشتہ
اس میں جو کوئی ان کی سیاست نکل آئے

خوشبو ہے کسی راز کی سینے میں ہمارے
مت چھیڑ کہ اظہار حقیقت نکل آئے

ہر سانس پہ رہتا ہے جہاں جبر کا پہرہ
مقتل سے کوئی کیسے سلامت نکل آئے

برتا ہے کچھ اس رنگ سے لفظوں کو غزل میں
ممکن ہے کہ اس میں بھی علامت نکل آئے

کر فکر کے آئینے سے ہر لمحہ نئی بات
ممکن ہے نظرؔ اس طرح قامت نکل آئے
ارشد نظر


آباد دل کے ہوتے ہی گھر نام پڑ گیا
دیوار کیا گری کہ کھنڈر نام پڑ گیا

پانی تھا سر سے اونچا کبھی شہر چشم میں
بارش رکی تو دیدۂ تر نام پڑ گیا

بخشی ثمر نے بیج کو شہرت صفات کی
کونپل جواں ہوئی تو شجر نام پڑ گیا

ذرے کو آفتاب کیا کس خیال نے
کس نقش پا سے راہ گزر نام پڑ گیا

گہرائیوں سے ان کی نہ پھر لوٹیں کشتیاں
ڈوبے تو چشم تر کا بھنور نام پڑ گیا

سورج کے قتل عام سے بکھرے مہہ‌ و نجوم
اک جبر کا طلوع سحر نام پڑ گیا

رکھا ہے قید گردش آفاق میں مجھے
ان تنگ دائروں کا سفر نام پڑ گیا

سیپوں کی کاوشوں کو سراہا نہ دہر نے
پتھر کا جانے کیسے گہر نام پڑ گیا

خون جگر سے پائی ہے لفظوں نے زندگی
احساس بول اٹھا تو ہنر نام پڑ گیا

اظہار فن میں ہم نے کئے تجربے نئے
آنکھوں کی گفتگو سے نظرؔ نام پڑ گیا
ارشد نظر


وہ کون تھا جو برسر پیکار مجھ میں تھا
اندھی انا تھی نشۂ پندار مجھ میں تھا

اک جنگ خیر و شر کی تھی برپا وجود میں
اک جذبہ تھا جو برسر پیکار مجھ میں تھا

تو دشت بے حسی میں ٹھہرتا بھی کب تلک
اے جذبۂ جنوں ترا اظہار مجھ میں تھا

کیسے نبرد آزما دشمن سے ہو گیا
وحشی ہوا سا کوئی تو فن کار مجھ میں تھا

دنیا خرید لی تھی مگر یہ خبر نہ تھی
میرے وجود کا بھی خریدار مجھ میں تھا

تھیں خواب خواب آنکھیں در یار پر لگی
کہتا میں کیسے دیدۂ بے دار مجھ میں تھا

چنتا رہا گلوں کی طرح خار خار زخم
جیسے کہ کوئی شہر دل آزار مجھ میں تھا

دشوار ہو گئی تھی تمہاری تلاش بھی
وہ کون تھا جو سایۂ دیوار مجھ میں تھا

کیوں شعر شور خیز ہے برہم تھے وہ نظرؔ
کیوں اتنا تیز تر مرا اظہار مجھ میں تھا
ارشد نظر


یہ چاہتے ہیں کہ جام الفت کا ذہن و دل سے اثر نہ جائے
پلا دو ہم کو پھر اس سے پہلے نشہ ہمارا اتر نہ جائے

ہمیں سے ہے میکدے کی رونق ہمیں سے سارا نظام رنداں
یہ کیسے ممکن ہے ساقیا اب ہمارے اوپر نظر نہ جائے

تمہاری خاطر ہی راستوں پر بچھا کے رکھی ہیں ہم نے آنکھیں
چلے بھی آؤ کہ بن تمہارے یہ موسم گل گزر نہ جائے

ورق ورق پر تمہارا چرچا تمہاری یادیں تمہاری باتیں
بڑی حفاظت سے رکھ رہا ہوں کتاب دل ہے بکھر نہ جائے

میں چاہتا ہوں کہ تم سے کہہ دوں مگر یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا
یہ دل کے اظہار کا پرندہ قفس کے اندر ہی مر نا جائے

تمہارے در سے میں اپنا سر بھی تبھی اٹھاؤں گا جان جاناں
کہ جب تلک آرزوؔ کا بگڑا ہوا مقدر سنور نہ جائے
آرزو اشرف سلطان پوری


پوچھو اگر تو کرتے ہیں انکار سب کے سب
سچ یہ کہ ہیں حیات سے بیزار سب کے سب

اپنی خبر کسی کو نہیں پھر بھی جانے کیوں
پڑھتے ہیں روز شہر میں اخبار سب کے سب

تھا ایک میں جو شرط وفا توڑتا رہا
حالانکہ با وفا تھے مرے یار سب کے سب

سوچو تو نفرتوں کا ذخیرہ ہے ایک دل
کرتے ہیں یوں تو پیار کا اظہار سب کے سب

زنداں کوئی قریب نہیں اور نہ رقص گاہ
سنتے ہیں اک عجیب سی جھنکار سب کے سب

میدان جنگ آنے سے پہلے پلٹ گئے
نکلے تھے لے کے ہاتھ میں تلوار سب کے سب

ذہنوں میں کھولتا تھا جو لاوا وہ جم گیا
مفلوج ہو کے رہ گئے فن کار سب کے سب
اسعد بدایونی


میری نفرت بھی ہے شعروں میں مرے پیار کے ساتھ
میں نے لکھی ہے غزل جرأت اظہار کے ساتھ

اقتدار ایک طرف ایک طرف درویشی
دونوں چیزیں نہیں رہ سکتی ہیں فن کار کے ساتھ

اک خلا دل میں بہت دن سے مکیں ہے اب تو
یاد گزرا ہوا موسم بھی نہیں یار کے ساتھ

بادبانوں سے الجھتی ہے ہوا روز مگر
کشتیاں سوئی ہیں کس شان سے پتوار کے ساتھ

شہر میں جہل کی ارزانی ہے لیکن اب تک
میں ہی سمجھوتہ نہیں کرتا ہوں معیار کے ساتھ

میرے اشعار ہیں ناقد کے لئے کچھ بھی نہیں
درد کو میں نہیں لکھتا کبھی دشوار کے ساتھ
اسعد بدایونی


سینوں میں اگر ہوتی کچھ پیار کی گنجائش
ہاتھوں میں نکلتی کیوں تلوار کی گنجائش

پچھڑے ہوئے گاؤں کا شاید ہے وہ باشندہ
جو شہر میں ڈھونڈے ہے ایثار کی گنجائش

نفرت کی تعصب کی یوں رکھی گئیں اینٹیں
پیدا ہوئی ذہنوں میں دیوار کی گنجائش

پاکیزگی روحوں کی نیلام ہوئی جب سے
جسموں میں نکل آئی بازار کی گنجائش

اس طرح کھلے دل سے اقرار نہیں کرتے
رکھ لیجئے تھوڑی سی انکار کی گنجائش

گر عزم مصمم ہو اور جہد مسلسل بھی
صحرا میں نکل آئے گلزار کی گنجائش

سمجھیں کہ نہ سمجھیں وہ ہم نے تو اسدؔ رکھ دی
اشعار کے ہونٹوں پہ اظہار کی گنجائش
اسد رضا


عشق کی گرمئ بازار کہاں سے لاؤں
یوسف دل کا خریدار کہاں سے لاؤں

سنتے ہی نغموں کی اک لہر رگوں میں دوڑے
میں تری شوخئ گفتار کہاں سے لاؤں

وہی شوریدہ سری ہے وہی ایذا طلبی
عشق میں جادۂ ہموار کہاں سے لاؤں

ہو گئیں آنکھوں سے وہ مست نگاہیں اوجھل
عشرت خانۂ خمار کہاں سے لاؤں

دل کی دھڑکن میں سنا کرتا تھا پیغام ترا
اب وہ ہنگامۂ بسیار کہاں سے لاؤں

اس پر آئینہ ہو کس طرح حقیقت دل کی
شوق منت کش اظہار کہاں سے لاؤں

معبد دل میں پرستار محبت ہوں اثرؔ
روش کافر و دیں دار کہاں سے لاؤں
اثر لکھنوی


مدعا کچھ بھی ہو لیکن مدعا رکھا کرو
جذبۂ تعمیر سے بھی واسطہ رکھا کرو

زندگی کے راستے میں ہیں ہزاروں ٹھوکریں
آبلہ پائی سلامت جو صلہ رکھا کرو

مل ہی جاتے ہیں یہ اکثر زندگی کی موڑ پر
اجنبی چہروں سے خود کو آشنا رکھا کرو

دیکھنا شعلہ بیانی بھی ادا بن جائے گی
تلخیٔ اظہار میں حسن ادا رکھا کرو

موم سے بھی دوستی ہو اور شعلوں سے بھی پیار
پھر بھی ان کے درمیاں کچھ فاصلہ رکھا کرو

گھپ اندھیرا ہو تو پھر ملتی نہیں راہ نجات
ذہن و دل کا روشنی سے رابطہ رکھا کرو

تم کو جینا ہے اثرؔ اس انقلابی دور میں
اپنی فطرت میں ذرا فکر رسا رکھا کرو
اثر نظامی


مایوس اندھیروں سے نہ اے دیدۂ تر ہو
آخر تو کبھی اس شب غم کی بھی سحر ہو

اب شوق کا اظہار بہ انداز دگر ہو
دل ٹوٹ بھی جائے تو کسی کو نہ خبر ہو

شاید کہ کبھی اس کو بھی ہو جائے محبت
شاید کہ کبھی اس کی بھی آنکھوں میں بسر ہو

ہو دل میں بپا حشر تو ہو لب پہ خموشی
یوں کیجئے الفت کہ انہیں بھی نہ خبر ہو

وعدہ تو ہوا ہے کہ وہ آئیں گے سر شام
اب دیکھیے کس رنگ میں اس شب کی سحر ہو

کب تک میں رہوں محو سکوت شب ہجراں
اے قلب حزیں نالہ بپا کر کہ سحر ہو

اک عمر کٹی خانہ بدوشی میں ہماری
حسرت ہے کہ دنیا میں کوئی اپنا بھی گھر ہو

تم وارث جمشید و سکندر سہی لیکن
اے کاش تمہیں اپنے وطن کی بھی خبر ہو

سیجوں پہ کٹے عمر کہ کانٹوں پہ تبسمؔ
بس ایک تمنا ہے محبت میں بسر ہو
اصغر علی تبسم


یہ زمیں چاند ستاروں کا بدل کیسے ہو
سوچتا میں بھی بہت کچھ ہوں عمل کیسے ہو

صورت حال بدل جاتی ہے اک لمحے میں
آدمی اپنے ارادوں میں اٹل کیسے ہو

کن درختوں سے لگا رکھی ہے امید ثمر
شاخ ہی جب نہ ہو سرسبز تو پھل کیسے ہو

سوچتے کچھ ہیں عمل کچھ ہے نتیجہ کچھ ہے
ایسی صورت میں کوئی مسئلہ حل کیسے ہو

درد سے کوئی علاقہ نہ تعلق غم سے
صرف لفظوں کے برتنے سے غزل کیسے ہو

ہر ملاقات ادھوری رہی اس الجھن میں
یعنی اظہار محبت میں پہل کیسے ہو

میرے محبوب کا اردو سے ہے رشتہ کم کم
مینوں آندی نئیں پنجابی تے گل کیسے ہو
اشفاق حسین


لمحۂ تلخیٔ گفتار تلک لے آیا
وہ مجھے اپنے ہی معیار تلک لے آیا

کیا رکھے اس سے کوئی سلسلۂ گفت و شنید
گھر کی باتوں کو جو بازار تلک لے آیا

میں نے جو بات بھروسے پہ کہی تھی اس سے
وہ اسے سرخیٔ اخبار تلک لے آیا

گھر میں جب کچھ نہ بچا اس کی اعانت کے لیے
میں اٹھا کر در و دیوار تلک لے آیا

اس کی آنکھوں میں عجب سحر تھا میں جس کے سبب
دل کی باتیں لب اظہار تلک لے آیا

وہ جو قائل ہی نہ تھا میری محبت کا اسے
رفتہ رفتہ حد اقرار تلک لے آیا

میرے ہر جھوٹ کو دنیا نے سراہا لیکن
ایک سچ مرحلۂ دار تلک لے آیا
اشفاق حسین


جو گزرتی ہے کہا کرتا ہوں
دل کے جذبات لکھا کرتا ہوں

چن کے جب لاتی ہے الفاظ زباں
لب اظہار کو وا کرتا ہوں

خیر سے پار لگے کشتیٔ زیست
بس یہی ایک دعا کرتا ہوں

زندگی تجھ سے وفا کی خاطر
دل کی آواز سنا کرتا ہوں

غم میں بھی رہتا ہوں میں خوش ساحلؔ
ہر نفس ایسے جیا کرتا ہوں
اشوک ساہنی ساحل


دے آیا اپنی جان بھی دربار عشق میں
پھر بھی نہ بن سکا خبر اخبار‌ عشق میں

جب مل نہ پایا اس سے مجھے اذن گفتگو
میں اک کتاب بن گیا اظہار عشق میں

قیمت لگا سکا نہ خریدار پھر بھی میں
جنس وفا بنا رہا بازار عشق میں

شاید یہی تھی اس کی محبت کی انتہا
مجھ کو بھی اس نے چن دیا دیوار عشق میں

تہہ تک میں کھوج آیا ہوا غرق بار بار
آیا نہ پھر بھی تیرنا منجھدار عشق میں
اشرف شاد


چھوڑ کر تیری مٹی کدھر جائیں گے
اے وطن تجھ میں اک دن بکھر جائیں گے

دور رہ کر جہاں سے گزر جائیں گے
گھر جو آ جاؤ تم تو ٹھہر جائیں گے

یوں نہ بکھرو ذرا حوصلہ تو رکھو
دکھ بھرے دن کبھی تو گزر جائیں گے

بھیج کر کچھ رقم بوڑھے ماں باپ کو
قرض کیا پرورش کے اتر جائیں گے

کتنی مدت سے گھر کو سجاتے ہو تم
صرف دو دن کو ہی بچے گھر جائیں گے

اس کی نظر عنایت ہے ہر شخص پر
دن ہمارے بھی شاید سنور جائیں گے
آصف اظہار علی


دعائیں مانگ کے دل کو قرار رہتا ہے
ترے کرم کا ہمیں انتظار رہتا ہے

وہ میرے درد کو پڑھتا ہے میرے چہرے سے
نمی ہو آنکھ میں تو بے قرار رہتا ہے

اگر کبھی میں جھڑک دوں کسی سوالی کو
مرا ضمیر بہت شرمسار رہتا ہے

جب ایک فرقے کے لوگوں پہ ٹوٹتے ہیں ستم
تماش بینوں میں ہی شہریار رہتا ہے

یہ سچ ہے فون پہ بات ہوئیں مگر بیٹو
گلے لگانے کو دل بے قرار رہتا ہے

ہماری جھولی میں لعل و گہر نہیں آصفؔ
خزانہ پیار کا ہاں بے شمار رہتا ہے
آصف اظہار علی


دشمنی مجھ سے آ نبھا تو سہی
میری حالت پہ مسکرا تو سہی

آگ میں گھر گیا ہے پھر مومن
معجزہ اے خدا دکھا تو سہی

اک تعلق بنا رہے تجھ سے
مت وفا کر مگر ستا تو سہی

جی تو کرتا ہے تجھ سے بات کروں
تو بھی مجھ سے نظر ملا تو سہی

تیرے میرے کی بات جانے دے
عمر کتنی بچی بتا تو سہی

کیسے خود کو سنبھال رکھا ہے
نسخہ آصفؔ مجھے لکھا تو سہی
آصف اظہار علی


خستہ دل ہیں نہ ہمیں اور ستانا لوگو
ذکر اس کا نہ زباں پر کبھی لانا لوگو

عقل تیار تو ہے ترک تعلق کو مگر
اتنا آسان نہیں دل کو منانا لوگو

جا بجا ڈھونڈھتی پھرتی ہیں نگاہیں جس کو
جانے کس شہر میں ہے اس کا ٹھکانہ لوگو

دور تک پھیل گئی بات ہماری اس کی
کل لکھا جائے گا اک اور فسانہ لوگو

جانے کس لمحہ وہ کس موڑ پہ مل جائے گی
موت کا کوئی پتہ ہے نہ ٹھکانہ لوگو

خود کو مشکل سے سنبھالے ہیں بہت ٹوٹے ہیں
ہم بکھر جائیں گے مت ٹھیس لگانا لوگو

عمر بھر کے لئے بے چین یہ کر دیتا ہے
میری مانو تو کبھی دل نہ لگانا لوگو
آصف اظہار علی


دھوپ سر سے گزرنے والی ہے
زندگی شام کرنے والی ہے

آج رشتوں کو جوڑ کر رکھیے
کل تو ہستی بکھرنے والی ہے

یہ جو بل کھا کے چل رہی ہے بہت
یہ ندی تو اترنے والی ہے

پھر بگولا اٹھا ہے بستی میں
پھر قیامت گزرنے والی ہے

یورش رنج و غم سے تو آصفؔ
بن کے کندن نکھرنے والی ہے
آصف اظہار علی


بہت سے ہم نے سمجھوتے کیے ہیں
کسی کے ساتھ اب تک یوں جئے ہیں

بہت ڈرتا ہے جو رسوائیوں سے
مرے اشعار تو اس کے لئے ہیں

ہمیں دیکھا تو اکثر چپکے چپکے
تمہارے چرچے لوگوں میں ہوئے ہیں

نہ جانے دور تک کیوں بات پہنچی
لبوں کو آج تک ہم تو سیے ہیں

اسے عادت ہے لیکن بھولنے کی
کسی نے چند وعدے تو کئے ہیں

جو دم بھرتے ہیں آصفؔ دوستی کا
وہی اب ہاتھ میں خنجر لیے ہیں
آصف اظہار علی


میرے ہونٹوں پہ عجب آہ و فغاں رہنے دیا
اس نے فرقت میں بھی خاموش کہاں رہنے دیا

تا کہ جذبات زدہ قیس نصیحت پکڑیں
دشت والوں نے مرا نام و نشاں رہنے دیا

میں نے اظہار کے سب رستے مقفل کر کے
جو بھی منظر تھا وہ دنیا پہ عیاں رہنے دیا

کار تخلیق میں کوئی تو ضرورت ہوگی
اس نے ایقان کے پردے میں گماں رہنے دیا

مجھ کو آسانی نظر آتی تھی اس میں عاصمؔ
عاشقی کر لی سبھی کار جہاں رہنے دیا
عاصم بخاری


اے وحشت جاں درد کے شہکار بہت ہیں
زندہ ہیں مگر لوگ یہ بیمار بہت ہیں

نفرت میں نہیں عیب محبت پہ ہے بندش
اس شہر میں اس طرز کے معیار بہت ہیں

یہ مشق تبسم ہے فقط رسم زمانہ
شکوے تو پس پردۂ اظہار بہت ہیں

اک مجھ کو ترا درد بھی منظور ہے جاناں
خوشیوں کے تری ورنہ طلب گار بہت ہیں

ویرانے میں ہو سکتا ہے محفوظ رہیں ہم
انسان کی نگری میں تو خونخوار بہت ہیں

جسموں کی تجارت تو ہمیشہ سے ہوئی ہے
روحوں کے بھی اس دور میں بازار بہت ہیں

معصوم گنہ صرف گناہ گار وہیں ہیں
جس شہر میں انصاف کے دربار بہت ہیں

ٹھہرے ہوئے آنسو کئی جاگی ہوئی راتیں
عاصمؔ پہ ترے درد کے آثار بہت ہیں
عاصم واسطی


زمانہ صورت دیوار کیوں ہے
یہ خاموشی سر بازار کیوں ہے

ادھر کچھ روز سے ہاتھوں میں اپنے
بجائے شاخ گل تلوار کیوں ہے

یہاں ہر راستہ ہے صاف سیدھا
مگر ہر شخص کج رفتار کیوں ہے

جو بستی چین سے سوتی تھی شب بھر
وہ بستی خوف سے دو چار کیوں ہے

بتاؤ بک گئے تم بھی نظرؔ کیا
مقفل اب لب اظہار کیوں ہے
اسجد ناظری نظر


کچھ تو غم خانۂ ہستی میں اجالا ہوتا
چاند چمکا ہے تو احساس بھی چمکا ہوتا

آئینہ خانۂ عالم میں کھڑا سوچتا ہوں
میں نہ ہوتا تو یہاں کون سا چہرہ ہوتا

خود بھی گم ہو گئے ہم اپنی صداؤں کی طرح
دشت فرقت میں تجھے یوں نہ پکارا ہوتا

حسن اظہار نے رعنائی عطا کی غم کو
گل اگر رنگ نہ ہوتا تو شرارہ ہوتا

ہم بھی احساس کی تصویر بنا سکتے تھے
کاش ہم پہ کبھی اظہار کا در وا ہوتا

فرصت شوق نہ دی کرب وفا نے رونا
کوئی اعجاز تو ہم نے بھی دکھایا ہوتا

ہم کو پہچان کہ اے بزم چمن زار وجود
ہم نہ ہوتے تو تجھے کس نے سنوارا ہوتا

ایک صورت سے ہوا نقش دو عالم کو فروغ
آئینہ ٹوٹ نہ جاتا تو تماشا ہوتا

ہم نے ہر خواب کو تعبیر عطا کی اسلمؔ
ورنہ ممکن تھا کہ ہر نقش ادھورا ہوتا
اسلم انصاری


جب حق دل و دماغ میں بھرپور رچ گیا
میرے قدم جہاں پڑے کہرام مچ گیا

ہر بار اس سے قوت اظہار چھن گیا
جب بھی میں اس کی بزم میں لے کر پہنچ گیا

میں نے تو اپنے در پہ لکھایا تھا اپنا نام
لیکن کوئی پڑوسی اسے بھی کھرچ گیا

دریا کی تہ چٹان کی زد کو بھی سہہ گئی
لیکن یہ کیا کہ سطح پہ اک شور مچ گیا

کل رات ان غریبوں کو قے کیوں نہ آ سکی
کھانا امیر شہر کا کیوں ان کو پچ گیا

اسلمؔ کرامتوں میں کروں گا شمار اگر
میرا خلوص تہمت یاراں سے بچ گیا
اسلم حنیف


کچھ آرزو کے خواب دکھانے لگی ہوا
پانی کے زندگی کو ستانے لگی ہوا

ہم بھی ہوئے شکار ہیں اظہار عشق کے
جب گیسوؤں کے خم کو دکھانے لگی ہوا

باد صبا تمہاری مہک لے کے آ گئی
روٹھے ہوئے دلوں کو منانے لگی ہوا

لیلیٰ و قیس ہم کو کہنے لگے ہیں لوگ
رسوائیوں کو نام بتانے لگی ہوا

دل کی منڈیر کا یہ دیا کیسے بجھ گیا
پوچھا تو اپنا پہلو بجانے لگی ہوا

تم جو نہیں ہو پاس تو کیسے بدل گئی
شبنم میں بھیگی رات جلانے لگی ہوا

اسلمؔ کوئی جو شب کبھی ظالم سی بن گئی
سینے سے لگ کے مجھ کو سلانے لگی ہوا
اسلم نور اسلم


تاریخ سے ملا نہ روایات سے ملا
مجھ کو مرا سراغ مری ذات سے ملا

جس شب ہوا تھا جام میں مہتاب کا نزول
احساس زندگی مجھے اس رات سے ملا

حاصل ہے جس قدر ہمیں سرمایۂ دروغ
یہ صرف اپنی کہنہ روایات سے ملا

حصہ جو رہ گیا ہے بقایا حیات کا
اس کو طبیب قلب خرابات سے ملا

اظہار میرے زور طبیعت کی دین تھی
لیکن شعور شورش حالات سے ملا
اسلم شیخ


پہلے تو نہ تھی اتنی تب و تاب غزل میں
کام آ گئی غم خوارئ‌ احباب غزل میں

دل پر سے ترے غم کا ابھی ابر چھٹا ہے
چمکا ہے تری یاد کا مہتاب غزل میں

یاروں کو کسی طور بھی نشہ نہیں ہوتا
جب تک کہ نہ شامل ہو مئے ناب غزل میں

جس سے خلش درد کا آغاز ہوا ہے
رقصاں ہے وہی پیکر سیماب غزل میں

ہر مصرعۂ تر تختۂ‌ گلزار کی صورت
رنگوں کی ہے اک وادئ شاداب غزل میں

گو درد کے اظہار کی عادت تو نہیں تھی
پینا ہی پڑا ہم کو یہ زہر آب غزل میں

اصناف سخن اور بھی اے دوست بہت ہیں
رنگیں ہے مری زیست کا ہر باب غزل میں
اسرار زیدی


پس دیوار حجت کس لئے ہے
دریچے سے یہ وحشت کس لئے ہے

نہ میں اپنا نہ میں تیرا ہوں دنیا
تو پھر جینے کی حسرت کس لئے ہے

اگر سود و زیاں کے ہم ہیں قائل
جنوں سے اپنی قربت کس لئے ہے

جفا ہی جب تری پہچان ٹھہری
وفا میں مجھ کو لذت کس لئے ہے

مری آنکھوں پہ جو پہرہ ہے تیرا
تو آئینے سے رغبت کس لئے ہے

خود اپنے گھر میں ہے جب اجنبی تو
مرے بھائی یہ شہرت کس لئے ہے

سفر میں جب نہ تیرے کام آئے
ذرا یہ سوچ دولت کس لئے ہے

ادب ہی زندگی میں جب نہ آیا
ادب میں اتنی محنت کس لئے ہے

نکل آئے ہیں دیواروں پہ چہرے
تصور کی یہ جدت کس لئے ہے

مرا آئینہ ہے جب تیرا چہرہ
تو پھر دنیا کی حیرت کس لئے ہے

خموشی ہے جواب جاہلاں جب
زباں جیسی یہ نعمت کس لئے ہے

ہے دنیا کا جواز اس امر ہی میں
جہنم کیوں ہے جنت کس لئے ہے
کھلے ہیں پھول صحرا میں ولیکن
مجھے گھر میں یہ فرحت کس لئے ہے

نہیں واقف ہے دل ایثار سے جب
عطاؔ اظہار الفت کس لئے ہے
عطا عابدی


تجھ کو خفت سے بچا لوں پانی
تشنگی اپنی چھپا لوں پانی

خاک اڑتی ہے ہر اک چہرے پر
کس کی آنکھوں سے نکالوں پانی

دھوپ دریا پہ نظر رکھتی ہے
تجھ کو کوزے میں چھپا لوں پانی

اڑتے پھرتے ہیں سروں پر بادل
خواب آنکھوں میں بسا لوں پانی

روز بچوں کو سلا دوں یونہی
روز پتھر کو ابالوں پانی

آگ سے کھیلتا ہے کل مجھ کو
آ تجھے اپنا بنا لوں پانی

خارزاروں پہ چلوں ننگے پاؤں
خشک دھرتی کی دعا لوں پانی

صبر کی حد بھی تو کچھ ہوتی ہے
کتنا پلکوں پہ سنبھالوں پانی

بھول جاؤں نہ کہیں تیراکی
کیوں نہ کشتی ہی جلا لوں پانی
اپنی وحشت کا اک اظہار سہی
کر کے سرد آگ جلا لوں پانی

زخم ہو پھول ہو یا انگارہ
ہو جو روشن تو بلا لوں پانی

شرط ہے تیری رفاقت ورنہ
وقت کی آگ میں ڈالوں پانی

آگ مطلوب لب تشنہ ہے
میں تجھے کیسے بلا لوں پانی

چشم احباب جو ہو خشک عطاؔ
خون کو اپنے بنا لوں پانی
عطا عابدی


جاگتے ہی نظر اخبار میں کھو جاتی ہے
زندگی درد کے انبار میں کھو جاتی ہے

نا خدا عقل کے پتوار اٹھاتا ہے کہ جب
کشتئ دل مری منجدھار میں کھو جاتی ہے

بے سبب سوچنے والے کبھی سوچا تو نے
آگہی کثرت افکار میں کھو جاتی ہے

اڑتے رہتے ہیں خیالات کے جگنو پھر بھی
بات کیوں پردۂ اظہار میں کھو جاتی ہے

اس کے کاموں کا ہے رنگین خوشامد پہ مدار
اور محنت مری ایثار میں کھو جاتی ہے

حرمت پردہ ضروری ہے عطاؔ جی ورنہ
چیز جیسی بھی ہو بازار میں کھو جاتی ہے
عطا عابدی


فرصت ہجر میں کچھ کار تماشہ ہی سہی
تو نہیں مجھ کو میسر تو یہ دنیا ہی سہی

میں کسی رحم و کرم پر تو نہیں تیری طرح
زیست کی راہ پہ اب چاہے میں تنہا ہی سہی

قریۂ غیر میں الفاظ کا دم گھٹتا ہے
فرط اظہار کے پل اپنا علاقہ ہی سہی

پہلے بڑھ چڑھ کے محبت میں کیا وقت بسر
اب زبوں حالیٔ جذبات میں اتنا ہی سہی

جانے والے تو کوئی اک تو بھرم رہنے دے
کچھ نہ کچھ دل کے لیے حاصل رفتہ ہی سہی

سرسری رنج پہ بنتا ہے حسن ضبط مگر
اس بہانے سے چلو ورزش گریہ ہی سہی
عطاالحسن

پارساؤں نے بڑے ظرف کا اظہار کیا
ہم سے پی اور ہمیں رسوا سر بازار کیا

درد کی دھوپ میں صحرا کی طرح ساتھ رہے
شام آئی تو لپٹ کر ہمیں دیوار کیا

رات پھولوں کی نمائش میں وہ خوش جسم سے لوگ
آپ تو خواب ہوئے اور ہمیں بیدار کیا

کچھ وہ آنکھوں کو لگے سنگ پہ سبزے کی طرح
کچھ سرابوں نے ہمیں تشنۂ دیدار کیا

تم تو ریشم تھے چٹانوں کی نگہ داری میں
کس ہوا نے تمہیں پا بستۂ یلغار کیا

ہم برے کیا تھے کہ اک صدق کو سمجھے تھے سپر
وہ بھی اچھے تھے کہ بس یار کہا وار کیا

سنگساری میں تو وہ ہاتھ بھی اٹھا تھا عطاؔ
جس نے معصوم کہا جس نے گنہ گار کیا
عطا شاد

اک تھکن قوت اظہار میں آ جاتی ہے
وقت کے ساتھ کمی پیار میں آ جاتی ہے

بس کہیں چھور سمندر کا نظر آ جائے
کوئی طاقت مری پتوار میں آ جاتی ہے

وہ گزرتا ہے تو کھلتے ہیں دریچے گھر کے
اک چمک سی در و دیوار میں آ جاتی ہے

ٹوٹے گھنگھرو کی جو آواز ہوا کرتی ہے
وہ کھنک کیوں مری گفتار میں آ جاتی ہے

جب بھی آتا ہے مرا نام ترے ہونٹوں پر
خوشبوئے گل مرے اشعار میں آ جاتی ہے

ہر گھڑی اپنی تمناؤں سے لڑتے لڑتے
اک چمک چہرۂ خوددار میں آ جاتی ہے

جب غزل میرؔ کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی مری دیوار میں آ جاتی ہے
اتل اجنبی


جب تک خراب حال کا مارا نہیں بنا
وہ آدمی کسی کا سہارا نہیں بنا

اظہار پیار کا وہ اشارے میں کر گئی
مجھ سے جواب کا بھی اشارہ نہیں بنا

اتنی پسند تھی اسے یہ سونی تیرگی
وہ مر گیا تھا پھر بھی ستارہ نہیں بنا

کس آس میں سفینوں نے چھوڑا ہے چھور یہ
اس اور تو ابھی بھی کنارا نہی بنا

اس پر لٹائیں سب نے زکاتیں بھی تب تلک
جب تک کہ اوروں پہ وہ خسارا نہیں بنا
اویناش جوشی


عاشقی جرأت اظہار تک آئے تو سہی
وہ ذرا خوف جہاں دل سے مٹائے تو سہی

کیسے اٹھتے ہیں قدم دیکھیے منزل کی طرف
دل کے ارشاد پہ سر کوئی جھکائے تو سہی

اس کے قدموں میں رفاقت کے خزانے ہوں گے
میری جانب وہ قدم اپنے بڑھائے تو سہی

جذبۂ جوش محبت تجھے سو بار سلام
میری آہٹ پہ وہ دہلیز تک آئے تو سہی

ہر غزل میری قصیدہ ہی سہی تیرا مگر
تجھ کو اشعار میں یوں کوئی سجائے تو سہی

داستاں ہوں گے خود اس اجڑے ہوئے شہر کے غم
اس اندھیرے میں کوئی شمع جلائے تو سہی

خود بخود راستہ دے گا یہ زمانہ طالبؔ
دوستی کے لئے وہ ہاتھ بڑھائے تو سہی
ایاز احمد طالب


گزر اوقات نہیں ہو پاتی
دن سے اب رات نہیں ہو پاتی

ساری دنیا میں بس اک تم سے ہی
اب ملاقات نہیں ہو پاتی

جو دھڑکتی ہے مرے دل میں کہیں
اب وہی بات نہیں ہو پاتی

جمع کرتا ہوں سر چشم بہت
پھر بھی برسات نہیں ہو پاتی

لاکھ مضموں لب اظہار پہ ہیں
اور مناجات نہیں ہو پاتی

ہاتھ میں ہاتھ لیے پھرتی ہے
ختم یہ رات نہیں ہو پاتی
ایوب خاور


اس قدر غم ہے کہ اظہار نہیں کر سکتے
یہ وہ دریا ہے جسے پار نہیں کر سکتے

آپ چاہیں تو کریں درد کو دل سے مشروط
ہم تو اس طرح کا بیوپار نہیں کر سکتے

جان جاتی ہے تو جائے مگر اے دشمن جاں
ہم کبھی تجھ پہ کوئی وار نہیں کر سکتے

جتنی رسوائی ملی آپ کی نسبت سے ملی
آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے

آپ کر سکتے ہیں خوشبو کو صبا سے محروم
اور کچھ صاحب کردار نہیں کر سکتے

ایک زنجیر سی پلکوں سے بندھی رہتی ہے
پھر بھی اک دشت کو گل زار نہیں کر سکتے

یہ گل درد ہے اس کو تو مہکنا ہے حضور
آپ خوشبو کو گرفتار نہیں کر سکتے
ایوب خاور


کون واں جبہ و دستار میں آ سکتا ہے
گھر کا گھر ہی جہاں بازار میں آ سکتا ہے

کس لیے خود کو سمجھتا ہے وہ پتھر کی لکیر
اس کا انکار بھی اقرار میں آ سکتا ہے

مجھ کو معلوم ہے دریاؤں کا کف ہے تجھ میں
تو مرے موجۂ پندار میں آ سکتا ہے

اے ہوا کی طرح اٹھکھیلیاں کرنے والے
بل کبھی وقت کی رفتار میں آ سکتا ہے

سر پہ سورج ہے تو پھر چھاؤں سے محظوظ نہ ہو
دھوپ کا رنگ بھی دیوار میں آ سکتا ہے

یہ جو میں اپنے تئیں شاعری کرتا ہوں عظیمؔ
کیا تخیل مرا اظہار میں آ سکتا ہے
عظیم حیدر سید


اضطراب دل بیمار سے ڈر لگتا ہے
نبض کی سرعت رفتار سے ڈر لگتا ہے

حسن کے عشوۂ طرار سے ڈر لگتا ہے
لغزش فطرت خوددار سے ڈر لگتا ہے

منزل حشر بہت دور سہی پر اب بھی
پرسش بخت سیہ کار سے ڈر لگتا ہے

اک المناک فسانہ ہے جنون الفت
جس کی تفسیر کے اظہار سے ڈر لگتا ہے

جادۂ ہوش سے ہٹ جائیں نہ مے کش کے قدم
جام کی گرمئ رفتار سے ڈر لگتا ہے

یا تو ناموس محبت پہ تھا مرنا برحق
یا تو ذکر رسن و دار سے ڈر لگتا ہے

رخ بدل دے نہ محبت کا یہ آشفتہ سری
اعتبار نگہ یار سے ڈر لگتا ہے

یہ عقیدت ہی کہیں درپئے آزار نہ ہو
شرف پا بوسیٔ اغیار سے ڈر لگتا ہے

توڑ ڈالیں نہ کہیں آپ مرا شیشۂ دل
آپ کی شومیٔ گفتار سے ڈر لگتا ہے

غم و آلام سے اس درجہ سراسیمہ ہوں
کہ مجھے عکس رخ یار سے ڈر لگتا ہے

بھول جاؤں نہ کہیں اپنی ہی ہستی کا مقام
آپ کی چشم فسوں بار سے ڈر لگتا ہے

بد گمانی ہوئی… ا


اب یہ کاروبار کریں
غیروں سے بھی پیار کریں

البم کھول کے دیکھیں اور
یادوں کو گلزار کریں

مر جائے گا اپنی موت
دشمن پر کیوں وار کریں
کب تک خالی بیٹھیں ہم
مل کر ذکر یار کریں

چاہت کے ہر جذبے کا
برجستہ اظہار کریں

سوچ کے اس کے بارے میں
جینا کیوں دشوار کریں

نفرت شور شرابے سے
خاموشی سے پیار کریں
عظیم ملک


جو دشمن ہے اسے ہمدم نہ سمجھو
نمک کو زخم کا مرہم نہ سمجھو

سکوں ملتا ہے دل سے دل کو لیکن
ہر اک ساغر کو جام جم نہ سمجھو

جو پی لو گے تو مٹ جانا پڑے گا
یہ ہے زہراب غم زمزم نہ سمجھو

تم اپنے دامن حرص و ہوس کو
مثال دامن مریم نہ سمجھو

نہ ہو اپنی خطاؤں پر جو نادم
اسے ہم مشرب آدم نہ سمجھو

قرینہ یہ بھی ہے اظہار غم کا
تبسم کو حریف غم نہ سمجھو

ہوں ذرے لاکھ روشن پھر بھی ان کو
جواب نیر اعظم نہ سمجھو

گھٹا غم کی ہے روئے زندگی پر
فضائے گیسوئے برہم نہ سمجھو

قیامت ہیں عزیزؔ ان کی ادائیں
کسی کو بھی کسی سے کم نہ سمجھو
عزیز مبارکپوری


تمہارا عشق جب سے کیا ہوا اے نازنیں ہم کو
پسند آتا نہیں ہے کوئی بھی اب مہ جبیں ہم کو

کیا اظہار جب ہم نے غم فرقت تو وہ بولے
تمہارے کہنے کا ہوتا نہیں ہے کچھ یقیں ہم کو

پس مردن پئے پامال گورستاں میں پھرتے ہیں
نشان تربت عشاق مل جائے کہیں ہم کو

بتان سنگ دل سے کیا ہو امید وفا اے دل
جہاں میں ڈھونڈ بیٹھے کچھ پتہ ملتا نہیں ہم کو

نہ جائیں مر کے وہ ہیں عاشق جانباز اے ہمدم
ترے کوچے میں گر مل جائے تھوڑی سی زمیں ہم کو

ترے در پر کھڑے ہیں دید کو ہم ایک مدت سے
دکھا دے شکل نورانی اب اے پردہ نشیں ہم کو

عزیزؔ زار گر عشق بتاں میں یہ رہی صورت
کسی دن مار ڈالے گا دل اندوہ گیں ہم کو
عزیز الرحمٰن عزیز پانی پتی


راس آئی مجھے خودی میری
لوگ کرتے رہے بدی میری

اس کا صدمہ شدید ہے مجھ کو
بات خالی چلی گئی میری

اس نے کچھ دیر بات مانی تو
دیر تک پر نہیں چلی میری

صاف اظہار عشق تھا اس میں
پر وہ سمجھانا شاعری میری

اب وہ کہتا ہے جان حاضر ہے
جان جس نے نکال لی میری

میرؔ و غالبؔ کا بھی زمانہ تھا
پر ہے اکیسویں صدی میری

ساتھ اس کے ہے بزم اک اظہرؔ
ہوگی محسوس کیا کمی میری
اظہر بخش اظہر


جب تک سفید آندھی کے جھونکے چلے نہ تھے
اتنے گھنے درختوں سے پتے گرے نہ تھے

اظہار پر تو پہلے بھی پابندیاں نہ تھیں
لیکن بڑوں کے سامنے ہم بولتے نہ تھے

ان کے بھی اپنے خواب تھے اپنی ضرورتیں
ہم سایے کا مگر وہ گلا کاٹتے نہ تھے

پہلے بھی لوگ ملتے تھے لیکن تعلقات
انگڑائی کی طرح تو کبھی ٹوٹتے نہ تھے

پکے گھروں نے نیند بھی آنکھوں کی چھین لی
کچے گھروں میں رات کو ہم جاگتے نہ تھے

رہتے تھے داستانوں کے ماحول میں مگر
کیا لوگ تھے کہ جھوٹ کبھی بولتے نہ تھے

اظہرؔ وہ مکتبوں کے پڑھے معتبر تھے لوگ
بیساکھیوں پہ صرف سند کی کھڑے نہ تھے
اظہر عنایتی


تو بھی وفا کے روپ میں اب ڈھل کے دیکھ لے
اس آگ میں ہماری طرح جل کے دیکھ لے

دشت طلب میں پیار کے غنچے بھی کھل اٹھیں
کچھ روز میرے ساتھ کبھی چل کے دیکھ لے

ممکن ہے کوئی صبح تمنا ہو اس کے بعد
اے حسرتوں کی رات ذرا ڈھل کے دیکھ لے

کچھ گرد باد غم کے امیدوں کے کچھ سراب
منظر ہمارے دل میں کوئی تھل کے دیکھ لے

رکھتے ہیں ہم بھی جرأت اظہار زندگی
محرومیوں کا خوف اگر ٹل کے دیکھ لے

اس دل میں ہو چکا ہے بہت ولولوں کا خون
اے جذب شوق تو بھی یہاں پل کے دیکھ لے

اظہرؔ ترا نصیب ہے یہ شبنمی بہار
چہرے پہ تو بھی رنگ خزاں مل کے دیکھ لے
اظہر جاوید


گر دوا کے لئے ڈھونڈا ہے تو بے کار کیا
چارہ گر ہی تو ہے جس نے ہمیں بیمار کیا

ہم سے کرتا نہ طلب کم سے کم اظہار خوشی
اس طرح اور بھی جینا ہمیں دشوار کیا

دار تک کھینچ کے تم لے گئے اس کو ناحق
اس نے کب بات نہ سننے پہ تھا اصرار کیا

کبھی فولاد بھی بن جاتا تھا تم کو یارو
بس لچک جانے کی عادت نے تمہیں خار کیا

کام شر دیتا ہے جب خیر سے بنتی نہیں بات
میرے بد خواہوں نے اظہار کئی بار کیا

ہم اسے دوست جو سمجھیں بھی تو کیسے اظہرؔ
چھپ کے پیچھے سے ابھی اس نے کہاں وار کیا
اظہر ندوی


کھل کر نہ سر عام ہو اظہار بھلے ہی
ہے بغض کریں ہم سے وہ انکار بھلے ہی

بچوں نے تو آپس میں نہیں کھیلنا چھوڑا
آنگن میں اٹھائی گئی دیوار بھلے ہی

پھیلایا نہ ہاتھوں کو کبھی آگے کسی کے
ہر وقت مسائل سے ہوں دو چار بھلے ہی

مسجد کی شہادت میں رہی یہ بھی ملوث
کرتی رہے انکار یہ سرکار بھلے ہی

دولت ہی جھکا پائی نہ قانون ہی اس کو
فاقوں سے مرا ہے وہ قلم کار بھلے ہی

ہے سچا پرستار وہ اردو کا اے ساحلؔ
ہے ایک رسالے کا خریدار بھلے ہی
عظیم الدین ساحل کلم نوری


سر صحرائے جاں ہم چاک دامانی بھی کرتے ہیں
ضرورت آ پڑے تو ریت کو پانی بھی کرتے ہیں

کبھی دریا اٹھا لاتے ہیں اپنی ٹوٹی کشتی میں
کبھی اک قطرۂ شبنم سے طغیانی بھی کرتے ہیں

کبھی ایسا کہ آنکھوں میں نہیں رکھتے ہیں کوئی خواب
کبھی یوں ہے کہ خوابوں کی فراوانی بھی کرتے ہیں

ہمیشہ آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پہ رکھتے ہیں
مگر یہ یاد رکھیے گا کہ من مانی بھی کرتے ہیں

میاں تم دوست بن کر جو ہمارے ساتھ کرتے ہو
وہی سب کچھ ہمارے دشمن جانی بھی کرتے ہیں

یہ کیا قاتل ہیں، پہلے قتل کرتے ہیں محبت کا
پھر اس کے بعد اظہار پشیمانی بھی کرتے ہیں

تجھے تعمیر کر لینا تو اک آسان سا فن ہے
رفاقت کے محل! ہم تیری دربانی بھی کرتے ہیں
عزیز نبیل


یادوں کا جزیرہ شب تنہائی میں
مصروف ہے یادوں کی پذیرائی میں

اب بھی وہی اظہار تغافل کا مزاج
اب بھی وہی اندیشہ شناسائی میں

اثبات نفی ہو کہ نفی ہو اثبات
کیوں جاؤں میں الفاظ کی گہرائی میں

کچھ لوگ تو منزل کی خبر بھی لے آئے
ہم مست رہے لذت خود رائی میں

چھوڑوں بھی خیال ان کا تو کیا حاصل ہو
کیا خاک کمی آئے گی رسوائی میں

آنے میں مسیحا کو تھا پہلے ہی حجاب
ناصح بھی تھا اندیشۂ رسوائی میں

تفریق کے خوگر تو سبھی ایک ہوئے
مصروف ہیں ہم لوگ صف آرائی میں

کس درجہ مسرت ہے کہ اب خون شہیدؔ
کام آیا تری انجمن آرائی میں
عزیز الرحمن شہید فتح پوری


اتنے نزدیک سے آئینے کو دیکھا نہ کرو
رخ زیبا کی لطافت کو بڑھایا نہ کرو

درد و آزار کا تم میرے مداوا نہ کرو
رہنے دو اپنی مسیحائی کا دعوا نہ کرو

حسن کے سامنے اظہار تمنا نہ کرو
عشق اک راز ہے اس راز کو افشا نہ کرو

اپنی محفل میں مجھے غور سے دیکھا نہ کرو
میں تماشا ہوں مگر تم تو تماشا نہ کرو

ساری دنیا تمہیں کہہ دے گی تمہیں ہو قاتل
دیکھو مجھ کو غلط انداز سے دیکھا نہ کرو

کیسے ممکن ہے کہ ہم دونوں بچھڑ جائیں گے
اتنی گہرائی سے ہر بات کو سوچا نہ کرو

تم پہ الزام نہ آ جائے سفر میں کوئی
راستہ کتنا ہی دشوار ہو ٹھہرا نہ کرو

وہ کوئی شاخ ہو مضراب ہو یا دل ہو عزیزؔ
ٹوٹنے والی کسی شے کا بھروسا نہ کرو
عزیز وارثی


کیا سنائیں حال دل اظہار کے قابل نہیں
لطف ہی کیا زندگی میں تم اگر شامل نہیں

اک ذرا سی ٹھیس پہونچی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی
کوئی شیشہ ہے مرے سینے میں شاید دل نہیں

مسکرا دیتا ہوں اکثر گردش حالات پر
سوچتا ہوں زیر پا اب کون سی منزل نہیں

غم دئے دنیا نے لیکن مجھ کو پہچانے بغیر
کوئی غم شایان موج اضطراب دل نہیں

جانے لے آئی ہمیں کس موڑ پر دیوانگی
ڈھونڈنے نکلے تھے جس کو ہم یہ وہ منزل نہیں

کس طرح آئے تری صورت نظر کے سامنے
دل کا آئینہ ہی جب تصویر کے قابل نہیں

اک مسلسل درد منزل ایک جہد مستقل
کوئی لمحہ زندگی میں لمحۂ حاصل نہیں

چھوڑ کر عظمتؔ کو تنہا ہم سفر کہنے لگے
ایسا دیوانہ ہمارے ساتھ کے قابل نہیں
عظمت بھوپالی


اپنے احساس شرر بار سے ڈر لگتا ہے
اپنی ہی جرأت اظہار سے ڈر لگتا ہے

اتنی راہوں کی صعوبت سے گزر جانے کے بعد
اب کسے وادیٔ پر خار سے ڈر لگتا ہے

کتنے ہی کام ادھورے ہیں ابھی دنیا میں
عمر کی تیزئ رفتار سے ڈر لگتا ہے

ساری دنیا میں تباہی کے سوا کیا ہوگا
اب تو ہر صبح کے اخبار سے ڈر لگتا ہے

خود کو منواؤں زمانے سے تو ٹکڑے ہو جاؤں
کچھ روایات کی دیوار سے ڈر لگتا ہے

شوق شوریدہ کے ہاتھوں ہوئے بدنام بہت
اب تو ہر جذبۂ بیدار سے ڈر لگتا ہے

جانتی ہوں کہ چھپے رہتے ہیں فتنے اس میں
آپ کی نرمیٔ گفتار سے ڈر لگتا ہے
عذرا نقوی


اک قصۂ پارینہ کے کردار ہیں ہم لوگ
گزری ہوئی تہذیب کے آثار ہیں ہم لوگ

گم کردہ روایات کی افسردہ سی خوشبو
کمہلائے ہوئے باغ کی مہکار ہیں ہم لوگ

ایسا بھی نہیں سارے زمانے سے خفا ہیں
جھلائے ہوئے وقت کا اظہار ہیں ہم لوگ

یہ تو نہیں کہتے کہ سنگھاسن پہ بٹھا دو
تھوڑی سی مروت کے تو حق دار ہیں ہم لوگ

جینے کے لئے اور جتن کتنے کریں گے
یہ کیسے مسائل میں گرفتار ہیں ہم لوگ
عذرا نقوی

Conclusion

I hope enjoy our collection of the Mohabbat ka Izhaar Shayari in Urdu. If you have any questions, please do not hesitate to reach out to us through the comment box. Your thought and opinions are very valuable to us and we would love to hear from you. Also, you may share your own Urdu Shayari, Ghazals below in the comment box.

Thank You very much for your valuable time to visit our website.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top