Allah Daikh Raha Hai/اللہ دیکھ رہاہے

Allah Daikh Raha Hai
Allah Daikh Raha Hai

امیرالمومنین حضرت عمر ابنِ خطاب فاروقِ اعظمؓ اپنی خلافت کے دنوں میں مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے تھے اور لوگوں کی ضرورتوں اور شکایتوں کو سنتے تھے۔ ہر صوبے کے عامل (گورنر) سے ان کے علاقوں کی مکمل روداد منگواتے تھے۔ سفر میں ہوتے تو راہ چلتوں سے حال معلوم کرتے تھے۔ رات کو مدینہ منورہ کی گلی کوچوں اور بازاروں میں گشت لگا کر وہاں کے رہنے والوں کی خبر گیری کرتے تھے۔

ایک رات آپؓ معمول کے مطابق حضرت ابنِ عباسؓ کو ساتھ لئے مدینہ منورہ کی گلیوں کا گشت لگا رہے تھے۔ رات کافی ہوچکی تھی۔ مکانوں اور خیموں کی روشنیاں گل ہوچکی تھیں۔ مدینہ منورہ کے باشندے گہری نیند سو رہے تھے، مگر ایک پھٹے پرانے خیمے میں ابھی تک چراغ ٹمٹما رہا تھا اور دو عورتوں کی باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ان عورتوں میں ایک ماں تھی اور دوسری اس کی بیٹی۔

ماں، بیٹی سے کہہ رہی تھی ’’دودھ بیچ کر جو پیسے تو لاتی ہے وہ اتنے کم ہوتے ہیں کہ گھر کا خرچہ بڑی تنگی ترشی سے چلتا ہے۔ میں جب تیری عمر کی تھی تو دودھ میں پانی ملایا کرتی تھی اور بڑے آرام اور آسائش سے گزر بسر ہوتی تھی۔ بیٹی! میری مان اور صبح سے دودھ میں پانی ملانا شروع کردے۔ چار پیسے زیادہ آئیں گے تو گھر کی حالت تو سُدھرے گی۔

’’توبہ۔ توبہ۔ اماں کیسی باتیں کرتی ہو‘‘۔ بیٹی، ماں کو ٹوکتے ہوئے بولی۔ پھر اس نے سمجھانے کے انداز میں کہنا شروع کیا۔ ’’اماں! جب تم دودھ میں پانی کی ملاوٹ کرتی تھیں اُس وقت تم مسلمان نہیں تھیں۔ الحمدللہ! اب ہم مسلمان ہیں، لہٰذا ہم دودھ میں پانی نہیں ملا سکتے‘‘۔

ماں بولی ’’آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ دودھ میں پانی ملانے سے اسلام پر کون سی آنچ آتی ہے‘‘۔
’’اماں کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ کیا تم بھول گئی ہو کہ ہمارے خلیفہ حضرت عمرؓ کی ہدایت ہے کہ دودھ میں پانی قطعی نہ ملایا جائے‘‘۔ بیٹی نے ذرا سخت لہجے میں کہا۔

ماں نے جواب دیا ’’اری نیک بخت! کیا خلیفہ نہیں جانتے کہ ہم جیسے غریب اگر دودھ میں پانی ملا کر نہ بیچیں گے تو دونوں وقت کی روٹی کیسے حاصل کریں گے‘‘۔
’’اماں میری! اس طرح حاصل کی ہوئی روٹی حلال رزق نہیں۔ میں مسلمان ہوں اور کوئی ایسا کام نہیں کروں گی جو خلیفہ کی ہدایت کے خلاف ہو اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہو‘‘۔ بیٹی نے اپنا فیصلہ سنادیا۔

’’پگلی کہیں کی۔ یہاں کون سے خلیفہ بیٹھے ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ انہیں تو کانوں کان خبر تک نہیں ہوگی۔ اب تم سوجاؤ۔ صبح سویرے میں دودھ میں پانی ملاؤں گی‘‘۔ ماں نے فیصلہ کن انداز میں بیٹی کو سمجھایا۔
بیٹی تڑپ کر کہنے لگی ’’نہ اماں نہ۔ خلیفہ نہیں دیکھ رہے ہیں تو کیا ہوا۔ اللہ تو دیکھ رہا ہے‘‘۔

اس کے بعد خیمے میں خاموشی چھاگئی۔ چراغ بجھا دیا گیا۔ ماں اور بیٹی بستر پر لیٹ گئیں۔ دوسرے دن صبح ہوتے ہی امیرالمومنین حضرت عمرؓ خلیفہ دوم نے اس لڑکی کے یہاں ایک شخص کو دودھ خریدنے کے لئے بھیجا۔ دودھ کا معائنہ کیا۔ دودھ خالص تھا، اس میں پانی کی ملاوٹ قطعی نہیں تھی۔ حضرت عمرؓ نے اپنے رات کے ساتھی حضرت ابنِ عباسؓ سے دریافت کیا کہ ایسی نیک کردار اور اللہ سے ڈرنے والی مسلمان لڑکی کے لئے کیا انعام ہونا چاہئے؟‘‘

حضرت ابنِ عباسؓ نے رائے دی کہ اسے کم از کم ایک ہزار درہم انعام میں دیئے جائیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابنِ عباسؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’ایسی نیک خصلت اور پاک سیرت لڑکی کی ایمانداری کو سکوں میں نہیں تولا جاسکتا۔ میں تو اس لڑکی کو ایسا انعام دینا چاہتا ہوں جو اس کے شایانِ شان ہو۔

ماں اور بیٹی کو دربارِ خلافت میں طلب کیا گیا۔ رات کا واقعہ دہرایا گیا۔ ماں کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں اور بیٹی کا چہرہ صداقت کے نور سے جگمگا اُٹھا۔ حضرت عمرؓ نے لڑکی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’اسلام کو تم جیسی بیٹیوں کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے میری خواہش ہے کہ میں تمہیں اپنی بیٹی بنالوں‘‘۔

حضرت عمرؓ فاروقِ اعظم کے دو بڑے فرزند حضرت عبداللہ اور حضرت عبدالرحمن کی شادی ہوچکی تھی، مگر آپ کے تیسرے فرزند حضرت عاصم کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ حضرت عاصم قد آور اور حسین شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے وقت کے اچھے شاعر تھے، عالم تھے اور اسلامی اخلاق اور سیرت کا نمونہ تھے، لہٰذا اس پاک باز لڑکی کا نکاح ان سے کردیا گیا۔

خلفائے راشدین یعنی حضرت ابوبکرؓ۔ حضرت عمر فاروق اعظمؓ۔ حضرت عثمانِ غنیؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد اگر کوئی خلیفہ مذہب کی مجسم تصویر تھا تو وہ سلسلۂ بنو امیہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز تھے اور آپ اسی صاحبِ کردار، نیک سیرت اور دودھ میں پانی نہ ملانے والی خاتون کے نور سے تھے۔


 

Allah ka Dost/اللہ کا دوست

Allah ka Dost
Allah ka Dost

گھر سے نکلتے ہوئے میرے دل میں مسرت اور خدشات کے ملے جلے جذبات تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ طمانیت کا احساس بھی تھا۔ میں اس کیفیت کو پوری طرح محسوس کررہا تھا۔ نئے اسکول میں آج میرا پہلا دن تھا۔ اس خوشی میں، میں نے ناشتہ بھی برائے نام کیا تھا۔ شکر ہے کہ پہلے ہی دن بروقت اسکول پہنچا۔ اسکول کے مین گیٹ میں قدم رکھتے ہوئے سامنے پرنسپل کے آفس پر نگاہیں جم گئیں۔

۔۔۔۔۔۔*

’’میں اسلامیات پڑھاتا نہیں، سکھانے کی کوشش کرتا ہوں‘‘۔ میں نے اپنے نئے اسکول کے پرنسپل سے کہا۔
’’میں سمجھا نہیں‘‘۔ پرنسپل صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ذرا وضاحت کردیں‘‘۔ اسی لمحے چپراسی نے چائے لاکر ٹیبل پر رکھ دی۔ میں چائے کا کپ اُٹھا کر پرنسپل صاحب کی طرف متوجہ ہوا۔

’’بات یہ ہے جناب اس مضمون کی افادیت مطالعے میں نہیں، اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے۔ اس مضمون کا مقصد طالب علم کو یہ بتانا ہے کہ معاشرہ افراد سے بنتا ہے، لہٰذا ہر فرد اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ فرد معاشرے کی عمارت میں لگی اینٹ کی طرح ہے۔

اینٹ ذرا بھی ٹیڑھی لگے گی تو عمارت میں کمی ضرور آئے گی اور بھدا پن بھی ہوگا۔ یہ مضمون بتاتا ہے کہ اچھا انسان کیا ہوتا ہے؟ اسلام کیا ہے؟ ہمیں اپنی معاشرتی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزارنی چاہئے۔ اس کا مقصد طالب علم کو سچا مسلمان اور سچا پاکستانی بنانا ہے، تاکہ وہ مسلمان ہونے کے ناتے ایک پاکستانی بھی بنے۔ اس کی پہچان صرف اسلام اور پاکستان ہونی چاہئے‘‘۔

’’بہت دلچسپ تھیوری ہے‘‘۔ پرنسپل صاحب نے چائے کا گھونٹ لے کر کہا۔
پرنسپل صاحب کے ستائشی کلمات میرے اندر نئی روح پھونک رہے تھے۔ ’’مگر آپ نے ایک چیز پر بہت زیادہ زور دینا ہے، وہ ہے محنت۔ جس کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم ترقی سے محروم ہیں۔ اسی محنت کے بل بوتے پر مغربی اقوام ہم سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔ ہمارے دوست ملک چین کی مثال لیں۔

ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا۔ لیکن میدان ترقی میں وہ ہم سے دو سو سال آگے ہے۔ پاکستان کی تمام مارکیٹس میں ’’میڈ اِن چائنا‘‘ چھا چکا ہے۔ یہ سب ان کی محنت کا صلہ ہے‘‘۔
میں نے پرنسپل صاحب کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے اُٹھ کر مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔
’’آپ کو ہر مرحلے پر، ہر معاملے میں میرا مکمل تعاون حاصل رہے گا‘‘۔ پرنسپل صاحب مسکرائے۔ ’’گڈلک‘‘۔
’’تھینک یو سر‘‘۔

۔۔۔۔۔۔*

کلاس روم میں خوب شور شرابا تھا۔ بچوں کی چیخ و پکار عروج پر تھی۔ سب اپنی فطرت و عادت کے مطابق گپیں ہانک رہے تھے۔ میں نے کمرے میں قدم رکھا تو سب کو سانپ سونگھ گیا۔ سب کے سب خاموشی سے سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔ پھر اچانک کلاس روم کے دائیں کونے سے ’’کلاس اسٹینڈ‘‘ کی آواز گونجی۔ یقیناً یہ کلاس مانیٹر تھا۔ آواز کے ساتھ ساری کلاس باادب کھڑی ہوگئی۔

’’سٹ ڈاؤن پلیز‘‘۔ سب بیٹھ گئے۔
’’شاید آپ جانتے ہوں میں آپ کا اسلامیات کا نیا ٹیچر ہوں‘‘۔
’’یس سر‘‘۔ چند بچوں کی آواز آئی۔

’’آج میں پہلی بار آپ کی کلاس لے رہا ہوں اور آج کچھ پڑھاؤں گا نہیں۔ میرا اصول ہے کہ پہلے میں اپنے شاگردوں سے تعارف حاصل کرتا ہوں۔ میرا نام شہاب حیدر ہے۔ صحافت میں گریجویشن کیا، مگر عملی طور پر تدریسی میدان میں آگیا۔ پڑھانا میرا پروفیشن ہی نہیں، بلکہ اس سے مجھے دلی طمانیت ملتی ہے۔ میں نے اسلامیات کا مضمون اس لئے منتخب کیا ہے کہ آپ کو اس پرفتن دور میں حقیقی اسلام سے آگاہ کروں اور آپ کو محب وطن شہری بناؤں، اب آپ لوگوں کی باری ہے۔ اپنا تعارف کرادیں‘‘۔ میں نے پہلیے قطار میں داہنی جانب بیٹھے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔

’’سر! میرا نام عمر احمد ہے۔ میرے ابو کا نام احمد حیات ہے۔ وہ ایک بینک منیجر ہیں‘‘۔ اس کے والد کا سن کر پوری کلاس پر رعب طاری ہوگیا۔ دوسرا لڑکا کھڑا ہوا۔
’’سر! میرا نام حمزہ بشیر ہے۔ میرے ابو ایک پرائیویٹ فرم میں جنرل منیجر ہیں‘‘۔ اس کے بعد تیسرا لڑکا کھڑا ہوا۔ وہ بھی پہلے دونوں سے کم نظر نہیں آرہا تھا۔

’’مجھے ارشد نذیر کہتے ہیں۔ میرے ابو ایک تاجر ہیں۔ ان کا کپڑے کا بزنس ہے‘‘۔
ان کے تعارف میں حیران کن بات ان کے بیک گراؤنڈ کی تھی، جسے وہ بڑھ چڑھ کر بیان کررہے تھے۔ یہ بات مجھے ہضم نہیں ہورہی تھی۔ اسی طرح تعارف کا سلسلہ چلتا گیا۔ سب لڑکے اعلیٰ اور کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے،

کیونکہ یہ ایک مہنگا اسکول تھا۔ غریب آدمی اس اسکول کے بارے میں صرف سوچ سکتا تھا۔ میں ابھی انہی خیالوں میں مگن تھا کہ ایک لڑکا ذرا جھجکتے ہوئے کھڑا ہوا۔ اس کا چہرہ اعتماد سے عاری نظر آرہا تھا۔ میں نے اسے تعارف کا کہا تو وہ قدرے جھجکتے ہوئے بولا۔

’’سر! میرا نام محمد علی ہے۔ میرا تعلق ایک عام سے گھرانے سے ہے‘‘۔ کلاس کے تمام لڑکے اس کا منہ تکنے لگے۔ وہ نروس ہونے لگا۔
’’آپ کے ابو کیا کام کرتے ہیں؟‘‘ میں نے تجسس سے پوچھا۔
’’جی۔۔۔ جی وہ۔۔۔ اللہ کے دوست ہیں‘‘۔

اس کا جواب سن کر کلاس میں قہقہے گونجنے لگے۔ مگر میری سنجیدگی دیکھ کر وہ خاموش ہوگئے۔
’’اللہ کے دوست۔۔۔ وہ کیسے؟ کیا آپ اس کی وضاحت کرنا چاہیں گے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی وہ محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ہاتھ سے کمانے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے‘‘۔

تو میرے ابو اللہ کے دوست ہوئے نا۔ کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے کماتے ہیں۔ وہ سارا دن محنت کرتے ہیں تاکہ میرے اسکول کی فیس ادا کرسکیں‘‘۔
اس کا جواب سن کر مجھے حیرت ہوئی۔ اس قدر پختہ یقین کے لوگ دیکھ کر دل کو سرور ملا۔ میں نے اسے شاباش دے کر بٹھادیا اور پوری کلاس سے مخاطب ہوا۔

’’اس بچے نے مجھے خوش کردی ہے۔ واقعی ہاتھ سے کمانے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ محنت کی عظمت و برکت سے کون واقف نہیں ہے۔ آپ کے ابو کا مقام بہت بلند ہے۔ آپ کو احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے فخر محسوس کرنا چاہئے۔ ہمارے نبی حضرت داؤد علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا کرتے تھے۔ آپ کے ابو بھی اپنے ہاتھ سے کماتے ہیں، وہ اللہ کے دوست ہیں‘‘۔

میرے جواب پر پوری کلاس محمد علی کو رشک کی نگاہ سے دیکھنے لگی۔ محمد علی بھی پرسکون نظر آرہا تھا۔ مجھے خوشی تھی کہ میں نے پہلے ہی دن کلاس کو ایک اچھا سبق دیا۔

For More Click

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here