Bachpan Quotes in Urdu
کیا آپ بچپن سے سے روحانی طور پر طاقتور تھے؟
یا آپ بہت مذہبی گھرانے میں پیدا ہوتے ہیں یا آپ تھوڑا تھوڑا دنیا داری والے گھرانے میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس چیز کا بہت اثر ہوتا ہے۔ آپ کو ابھی سے پلان کرنا ہے کہ آپ اپنے بچوں کو کیسا ماحول دینے والے ہیں۔ وہ بچے جو بچپن سے اپنے ماں باپ کو قرآن پڑھتا ہوا اور نماز پڑھتے ہوئے اور صدقات دیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ایسے بچوں کی عام بچوں سے روحانیت تھوڑی زیادہ ہوتی ہے۔ بچوں کی زندگی پر اس کا بہت اثر پڑتا ہے اور ان کی روح بہت مضبوط .ہوتی ہے

میں نے بچپن میں بزرگوں سے سنا تھا ساجد
دل کی ہر بات عزیزوں سے نہیں کی جاتی

ہم بھی کیا لوگ ہیں کردار بچانے کے لئے
سیدھا بچپن سے بڑھاپے میں قدم رکھتے ہیں

ہم نے بچپن بچپن کی طرح گزرا نہیں
جوانی میں تیرے دل سے خاک کھیلتے

اس شدتِ فراق سے آتے ہو یاد تم!
جیسے کِسی ضعیف کو بچپن کے چار دِن

بچپن گزرا آئی جوانی
ہاے
پھر شروع ہوئی کمبخت یہ عشق کہانی

کاش کہ میں پلٹ جاؤں، اسی بچپن کی وادی میں
جہاں نہ کوئی ضرورت تھی، نہ کوئی ضروری تھا

میں ہوں کہ جوانی پہ لکھوں شاعری
وہ ہے کہ بچپن کی یاد منا رہی ہے

تھجے بچپن کی یاد آرہی ہے
اورمجھے جوانی کھاۓ جا رہی ہے

اسے بچپن یاد آرہا ہے آج
جسے جوانی کا شدت سے انتظار تھا

بچپن میں کھلونوں سے کھیلنا پسند ہوتا ہے
اور بڑے ہو کر زندگی ہی کھلونا بن جاتی ہے۔

پھر اس کے بعد میں بچپن سے نکل آیا
محبت میری آخری شرارت تھی

یہ وقت گزرتا ہے کہ ہم خود ہیں مسافر
تصویر ہے بچپن کی مگر بوڑھی بہت ہے

رنگوں میں بکھرتی ہوئی بچپن
عمر کے سنجوکوں سے آگے نکل گئ

خواہش تھی جلد جوان ہونے کی
معلوم نہ تھا
خوشیاں صرف بچپن کی مہمان ہوتی ہیں ..

“جانے میری جانے من بچپن کا پیار میرا بھول نہیں جان رے”
..✨سچا میرا پیار ہے
جان تجھے دیا ہے۔
بچپن کا پیار میرا۔۔
بھول نہیں جانا رے۔۔

میرا بچپن بھی ساتھ لے آیا
گاؤں سے جب بھی آ گیا کوئی

میں گیا تھا سوچ کے کہ باتیں بچپن کی ہونگی
دوست مجھے اپنی ترقی کے قصے سنانے لگے

بچپن کی خوش مزاجیاں سب چھین کر میری
اے زندگی کیوں تو نے جواں کر دیا مجھے

میں جوانی میں یوں خوار نہ ہوتا
تم جو بچپن میں___مر گئی ہوتی

عید تو بچپن میں منائی جاتی تھی اب تو گزاری جاتی ہے

افلاس کی بستی میں ذرا جاکر تو دیکھو
وہاں بچے ہوتے ہیں مگر بچپن نہیں ہوتا

آج تک کبھی کسی کھانے میں پھر وہ زائقہ نا پایا
بچپن میں جو کھانا میرے باپ نے مجھے اپنے ہاتھوں سے کِھلایا

پرانی یادیں پھر سے یاد آگئی بہت یاد آتے ہیں یہ دن کیا دن تھے کیا دوستی تھی
کیا خوشی کا زمانہ تھا کیا مستی کے دن تھے کیا بچپن کے دن تھے

سکون کی بات مت کر اے دوست
کہ بچپن والا وہ اتوار اب نہیں آتا

بچپن سے میرا سپنا تھا زندگی میں کہ کوئی ایسا ملے
جیسے پاکر میں سب کچھ بھول جاؤں اور پھر اک دن
مجھے موبائل مل گیا

..بچپن کــی محبت کو دل سے جدا نہ کرنا
..جب میری یاد آۓ ملنے کی دعا کرنا

بچپن کی باتیں کبھی مت بھولو
دعا کرتی ہوں نمازیں مت چھوڈو

“””بچپن کی سب سے بڑی غلط فہمی یہی تھی “”
✨✨کہ بڑے ہوتے ہی زندگی بڑی مزے دار ہو جاۓ گی..

کاش میں پلٹ جاؤں بچپن کی اس وادی میں،
جہاں نہ کوئ ضرورت تھی نہ کوئ ضروری تھا۔۔۔۔

بچپن میں شوق سے جو گھروندے بنائے تھے
اک ہوک سی اٹھی انہیں مسمار دیکھ کر

بچپن میں آکاش کو چھوتا سا لگتا تھا
اس پیپل کی شاخیں اب کتنی نیچی ہیں

مرے بچے ترا بچپن تو میں نے بیچ ڈالا
بزرگی اوڑھ کر کاندھے ترے خم ہو گئے ہیں

ابھی دکھاؤ نہ تصویر زندگی اس کو
یہ بچپنا ہے ابھی مسکرانا چاہتا ہے

بڑی حسرت سے انساں بچپنے کو یاد کرتا ہے
یہ پھل پک کر دوبارہ چاہتا ہے خام ہو جائے

کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے مری عمر رواں
مرا بچپن مرے جگنو مری گڑیا لا دے

اب تک ہماری عمر کا بچپن نہیں گیا
گھر سے چلے تھے جیب کے پیسے گرا دیے

میں اپنے بچپنے میں چھو نہ پایا جن کھلونوں کو
انہی کے واسطے اب میرا بیٹا بھی مچلتا ہے

زخم ہی تیرا مقدر ہیں دل تجھ کو کون سنبھالے گا
اے میرے بچپن کے ساتھی میرے ساتھ ہی مر جانا

بنے ہیں کام سب الجھن سے میرے
یہی اطوار ہیں بچپن سے میرے

کاغذ کی ناؤ بھی ہے کھلونے بھی ہیں بہت
بچپن سے پھر بھی ہاتھ ملانا محال ہے

بڑی حسرت سے انساں بچپنے کو یاد کرتا ہے
یہ پھل پک کر دوبارہ چاہتا ہے خام ہو جائے

اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے

بگڑی ہوئی زندگی کی اتنی سی کہانی ہے
کچھ بچپن سے نکمے تھے کچھ فیسبُک کی مہربانی ہے

یہ زندگی کچھ بھی ہو مگر اپنے لئے تو
کچھ بھی نہیں بچوں کی شرارت کے علاوہ

بچپن میں ہم ہی تھے یا تھا اور کوئی
وحشت سی ہونے لگتی ہے یادوں سے

جمالؔ ہر شہر سے ہے پیارا وہ شہر مجھ کو
جہاں سے دیکھا تھا پہلی بار آسمان میں نے

اس کو جب کوئی، بچھڑنے کا بہانہ نہ ملا
اس نے بچپن کی لڑائی کو دوبارہ چھیڑا. .

اپنے بچوں کو میں باتوں میں لگا لیتا ہوں
جب بھی آواز لگاتا ہے کھلونے والا

محلے والے میرے کار بے مصرف پہ ہنستے ہیں
میں بچوں کے لیے گلیوں میں غبارے بناتا ہوں

کون کہے معصوم ہمارا بچپن تھا
کھیل میں بھی تو آدھا آدھا آنگن تھا

چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں کچھ بولتے نہیں
بچے بگڑ گئے ہیں بہت دیکھ بھال سے

ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے
صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے

ایک ہاتھی ایک راجہ ایک رانی کے بغیر
نیند بچوں کو نہیں آتی کہانی کے بغیر

اک کھلونا جوگی سے کھو گیا تھا بچپن میں
ڈھونڈھتا پھرا اس کو وہ نگر نگر تنہا

ساتوں عالم سر کرنے کے بعد اک دن کی چھٹی لے کر
گھر میں چڑیوں کے گانے پر بچوں کی حیرانی دیکھو

بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے

میرا بچپن بھی ساتھ لے آیا
گاؤں سے جب بھی آ گیا کوئی

میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا
مرے انجام کی وہ ابتدا تھی

دعائیں یاد کرا دی گئی تھیں بچپن میں
سو زخم کھاتے رہے اور دعا دئیے گئے ہم

اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے

میرے رونے کا جس میں قصہ ہے
عمر کا بہترین حصہ ہے

جس کے لئے بچہ رویا تھا اور پونچھے تھے آنسو بابا نے
وہ بچہ اب بھی زندہ ہے وہ مہنگا کھلونا ٹوٹ گیا

اب تک ہماری عمر کا بچپن نہیں گیا
گھر سے چلے تھے جیب کے پیسے گرا دیے

فقط مال و زر دیوار و در اچھا نہیں لگتا
جہاں بچے نہیں ہوتے وہ گھر اچھا نہیں لگتا

اب گزری ہوئی عمر کو آواز نہ دینا
اب دُھول میں لپٹا ہوا بچپن نہ ملے گا