Izhar-E-Mohabbat Poetry in Urdu

اگر لفظ و بیاں ساکت کھڑے تھے دوسری سمت
ہمیں کو رنج کا اظہار کرنا چاہیئے تھا

اظہار محبت مرے آنسو ہی کریں گے
اظہار بہ انداز دگر ہو نہیں سکتا

نمائش کرنے سے چاہت بڑھ نہیں جاتی
محبت وہ بھی کرتے ہیں جو اظہار نہیں کرت

نہیں تھی ہوس تیرے جسم کی ہم کو
اسی لیے اظہارے محبت نہ کر سکے . ہم

کب تک یوں خاموش محبت کرو گی میری جان
کر بھی دو اظہار اب یہ دل تمہارا ہونا چاہتا ہے

محبت ہم نے کی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں
وہ آئیں اور آکر اظہار کریں

آپ جاتے تو ہیں اس بزم میں شبلیؔ لیکن
حال دل دیکھیے اظہار نہ ہونے پائے

کبھی میں جرأت اظہار مدعا تو کروں
کوئی جواز تو ہو لطف بے سبب کے لئے

وہ لمحہ زیست کا لعنت ہے آدمی کے لیے
جھکے جو سر کہیں اظہار بندگی کے لیے

دل کی باتیں دوسروں سے مت کہو لٹ جاؤ گے
آج کل اظہار کے دھندھے میں ہے گھاٹا بہت

ہزار رنگ میں ممکن ہے درد کا اظہار
ترے فراق میں مرنا ہی کیا ضروری ہے

اظہار عشق اس سے نہ کرنا تھا شیفتہؔ
یہ کیا کیا کہ دوست کو دشمن بنا دیا

خامشی ہی میں سہی پر کبھی اظہار تو کر
اس قدر ضبط سے سینہ ترا پھٹ جائے گا

بھرے ہوں آنکھ میں آنسو خمیدہ گردن ہو
تو خامشی کو بھی اظہار مدعا کہیے

اظہار مدعا کا ارادہ تھا آج کچھ
تیور تمہارے دیکھ کے خاموش ہو گیا

میرے اندر اسے کھونے کی تمنا کیوں ہے
جس کے ملنے سے مری ذات کو اظہار ملے

اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں

عشق ہے تو عشق کا اظہار ہونا چاہئے
آپ کو چہرے سے بھی بیمار ہونا چاہئے

بوس و کنار کے لئے یہ سب فریب ہیں
اظہار پاک بازی و ذوق نظر غلط

کوئی زاری سنی نہیں جاتی کوئی جرم معاف نہیں ہوتا
اس دھرتی پر اس چھت کے تلے کوئی تیرے خلاف نہیں ہوتا

ترا پاؤں شام پہ آ گیا تھا کہ چاند تھا
ترا ہجر صبح کو جل اٹھا تھا کہ پھول تھا

اندھیری شام تھی بادل برس نہ پائے تھے
وہ میرے پاس نہ تھا اور میں کھل کے رویا تھا

گھرا ہوا ہوں جنم دن سے اس تعاقب میں
زمین آگے ہے اور آسماں مرے پیچھے

حرف کو لفظ نہ کر لفظ کو اظہار نہ دے
کوئی تصویر مکمل نہ بنا اس کے لیے

اظہار خموشی میں ہے سو طرح کی فریاد
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

یوں تو اشکوں سے بھی ہوتا ہے الم کا اظہار
ہائے وہ غم جو تبسم سے عیاں ہوتا ہے

ہیں سو طریقے اور بھی اے بے قرار دل
اظہار شکوہ شکوے کے انداز میں نہ ہو

چلو کہ جذبۂ اظہار چیخ میں تو ڈھلا
کسی طرح اسے آخر ادا بھی ہونا تھا

مسئلہ یہ نہیں کہ عشق ہوا ہے ہم کو
مسئلہ یہ ہے کہ اظہار کیا جانا ہے

کیجے اظہار محبت چاہے جو انجام ہو
زندگی میں زندگی جیسا کوئی تو کام ہو

کوئی اظہار کر سکتا ہے کیسے
یہ لفظوں سے زباں کا فاصلہ ہے

زباں خاموش مگر نظروں میں اجالا دیکھا
اس کا اظہار محبت بھی نرالا دیکھا

کیوں نہ تنویرؔ پھر اظہار کی جرأت کیجے
خامشی بھی تو یہاں باعث رسوائی ہے

غضب تو یہ ہے وہ ایسا کہہ کے خوشی کا اظہار کر رہے تھے
کہ ہم نے دستاریں بیچ دی ہیں سروں کو لیکن بچا لیا ہے

اظہار نارسا سہی وہ صورت جمال
آئینۂ خیال میں بھی ہو بہو نہ تھی

یہ آنسو یہ پشیمانی کا اظہار
مجھے اک بار پھر بہکا گئی ہو

ہائے اظہار کر کے پچھتائے
اس کو اک دوست کی ضرورت تھی

فن کا دعویٰ ہے تو کچھ جرأت اظہار بھی ہو
زیب دیتا نہیں فن کار کو بزدل ہونا

طبع کہہ اور غزل، ہے یہ نظیریؔ کا جواب
ریختہ یہ جو پڑھا قابل اظہار نہ تھا

کس سے اظہار مدعا کیجے
آپ ملتے نہیں ہیں کیا کیجے

ان سے اظہار محبت جو کوئی کرتا ہے
دور سے اس کو دکھا دیتے ہیں تربت میری

دل پہ کچھ اور گزرتی ہے مگر کیا کیجے
لفظ کچھ اور ہی اظہار کئے جاتے ہیں

ابھی تکمیل الفت پر نہ دل مغرور ہو جائے
یہ منزل وہ ہے جتنی طے ہو اتنی دور ہو جائے

سونے سونے سے دریچوں سے اداسی جھانکے
کیا عجب خوف ہے چہرے بھی کسی در میں نہیں

تو بھی تو ہٹا جسم کے سورج سے اندھیرے
یہ مہکی ہوئی رات بھی مہتاب بکف ہے

ان سے ملنے کا منظر بھی دل چسپ تھا اے اثرؔ
اس طرف سے بہاریں چلیں اور ادھر سے خزائیں چلیں

تاریکیوں کے پار چمکتی ہے کوئی شے
شاید مرے جنون سفر کی امنگ ہے

تمام مظہر فطرت ترے غزل خواں ہیں
یہ چاندنی بھی ترے جسم کا قصیدہ ہے

ایک ہی شے تھی بہ انداز دگر مانگی تھی
میں نے بینائی نہیں تجھ سے نظر مانگی تھی

جلو میں حضرت جبریل سر جھکائے ہوئے
بلند عرش کے تاروں سے عظمت آدم

نہ پوچھ شعر ہے کیا چیز مجھ سے اے ہمدم
مزاج آتش سوزاں لطافت شبنم

زباں سے شعر کی تعریف ہو نہیں سکتی
کہ ایک ذرے سے اب تک ہے عقل نامحرم

ہزار جام چھلکتے ہوئے نفس بہ نفس
ہزار باغ مہکتے ہوئے قدم بہ قدم

نگار خانۂ حکمت کلید باب جنوں
امین صبح مسرت رئیس شام الم

حریم دل میں جب آتا ہے ناز فرماتا
طرب کے پھول کھلاتا ہے یہ مصور غم

خمار دیدۂ انجم شراب لیل و نہار
حکایت نشنیدہ نگار نا محرم

شراب حسن و محبت فشردۂ انجم
انیس شام و سحر ہمدم وجود و عدام

خروش صرصر و طوفاں جمود دشت و سراب
سرود فصل بہاراں خرام گردش یم

زمیں سے اہل فلک کو پیام نظارہ
نقاب عارض فطرت کی جنبش پیہم

جہاں ہے شعر چراغ جنوں جلائے ہوئے
وہاں کھڑی ہے خرد اپنا سر جھکائے ہوئے

سبوئے فلسفۂ عشق و کہکشان حیات
شعاع قہر تبسم, چراغ دیدۂ نم

اظہار حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا
دل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں

اظہار کی یہ بھی صورت تھی
خاموشی کو فریاد کیا

مجھ سے نفرت ہے اگر اس کو تو اظہار کرے
کب میں کہتا ہوں مجھے پیار ہی کرتا جائے

پرسش حال پہ ہے خاطر جاناں مائل
جرأت کوشش اظہار کہاں سے لاؤں

کیا بلا تھی ادائے پرسش یار
مجھ سے اظہار مدعا نہ ہوا

حسن بے پروا کو خودبین و خود آرا کر دیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا

واقف ہیں خوب آپ کے طرز جفا سے ہم
اظہار التفات کی زحمت نہ کیجیے

کٹ گئی احتیاط عشق میں عمر
ہم سے اظہار مدعا نہ ہوا

فقدان عروج رسن و دار نہیں ہے
منصور بہت ہیں لب اظہار نہیں ہے

اظہار پہ بھاری ہے خموشی کا تکلم
حرفوں کی زباں اور ہے آنکھوں کی زباں اور

اظہار غم کیا تھا بہ امید التفات
کیا پوچھتے ہو کتنی ندامت ہے آج تک

نشاط اظہار پر اگرچہ روا نہیں اعتبار کرنا
مگر یہ سچ ہے کہ آدمی کا سراغ ملتا ہے گفتگو سے

چھوڑ کر تیری مٹی کدھر جائیں گے
اے وطن تجھ میں اک دن بکھر جائیں گے
دور رہ کر جہاں سے گزر جائیں گے
گھر جو آ جاؤ تم تو ٹھہر جائیں گے

یوں نہ بکھرو ذرا حوصلہ تو رکھو
دکھ بھرے دن کبھی تو گزر جائیں گے
بھیج کر کچھ رقم بوڑھے ماں باپ کو
قرض کیا پرورش کے اتر جائیں گے

کتنی مدت سے گھر کو سجاتے ہو تم
صرف دو دن کو ہی بچے گھر جائیں گے
اس کی نظر عنایت ہے ہر شخص پر
دن ہمارے بھی شاید سنور جائیں گے

دے آیا اپنی جان بھی دربار عشق میں
پھر بھی نہ بن سکا خبر اخبار عشق میں
جب مل نہ پایا اس سے مجھے اذن گفتگو
میں اک کتاب بن گیا اظہار عشق میں

قیمت لگا سکا نہ خریدار پھر بھی میں
جنس وفا بنا رہا بازار عشق میں
شاید یہی تھی اس کی محبت کی انتہا
مجھ کو بھی اس نے چن دیا دیوار عشق میں

تہہ تک میں کھوج آیا ہوا غرق بار بار
آیا نہ پھر بھی تیرنا منجھدار عشق میں

جو گزرتی ہے کہا کرتا ہوں
دل کے جذبات لکھا کرتا ہوں
چن کے جب لاتی ہے الفاظ زباں
لب اظہار کو وا کرتا ہوں

خیر سے پار لگے کشتیٔ زیست
بس یہی ایک دعا کرتا ہوں
زندگی تجھ سے وفا کی خاطر
دل کی آواز سنا کرتا ہوں

غم میں بھی رہتا ہوں میں خوش ساحلؔ
ہر نفس ایسے جیا کرتا ہوں

لمحۂ تلخیٔ گفتار تلک لے آیا
وہ مجھے اپنے ہی معیار تلک لے آیا
کیا رکھے اس سے کوئی سلسلۂ گفت و شنید
گھر کی باتوں کو جو بازار تلک لے آیا

میں نے جو بات بھروسے پہ کہی تھی اس سے
وہ اسے سرخیٔ اخبار تلک لے آیا
گھر میں جب کچھ نہ بچا اس کی اعانت کے لیے
میں اٹھا کر در و دیوار تلک لے آیا

اس کی آنکھوں میں عجب سحر تھا میں جس کے سبب
دل کی باتیں لب اظہار تلک لے آیا
وہ جو قائل ہی نہ تھا میری محبت کا اسے
رفتہ رفتہ حد اقرار تلک لے آیا

میرے ہر جھوٹ کو دنیا نے سراہا لیکن
ایک سچ مرحلۂ دار تلک لے آیا

یہ زمیں چاند ستاروں کا بدل کیسے ہو
سوچتا میں بھی بہت کچھ ہوں عمل کیسے ہو
صورت حال بدل جاتی ہے اک لمحے میں
آدمی اپنے ارادوں میں اٹل کیسے ہو

کن درختوں سے لگا رکھی ہے امید ثمر
شاخ ہی جب نہ ہو سرسبز تو پھل کیسے ہو
سوچتے کچھ ہیں عمل کچھ ہے نتیجہ کچھ ہے
ایسی صورت میں کوئی مسئلہ حل کیسے ہو

درد سے کوئی علاقہ نہ تعلق غم سے
صرف لفظوں کے برتنے سے غزل کیسے ہو
ہر ملاقات ادھوری رہی اس الجھن میں
یعنی اظہار محبت میں پہل کیسے ہو

میرے محبوب کا اردو سے ہے رشتہ کم کم
مینوں آندی نئیں پنجابی تے گل کیسے ہو

مایوس اندھیروں سے نہ اے دیدۂ تر ہو
آخر تو کبھی اس شب غم کی بھی سحر ہو
اب شوق کا اظہار بہ انداز دگر ہو
دل ٹوٹ بھی جائے تو کسی کو نہ خبر ہو

شاید کہ کبھی اس کو بھی ہو جائے محبت
شاید کہ کبھی اس کی بھی آنکھوں میں بسر ہو
ہو دل میں بپا حشر تو ہو لب پہ خموشی
یوں کیجئے الفت کہ انہیں بھی نہ خبر ہو

وعدہ تو ہوا ہے کہ وہ آئیں گے سر شام
اب دیکھیے کس رنگ میں اس شب کی سحر ہو
کب تک میں رہوں محو سکوت شب ہجراں
اے قلب حزیں نالہ بپا کر کہ سحر ہو

اک عمر کٹی خانہ بدوشی میں ہماری
حسرت ہے کہ دنیا میں کوئی اپنا بھی گھر ہو
تم وارث جمشید و سکندر سہی لیکن
اے کاش تمہیں اپنے وطن کی بھی خبر ہو

سیجوں پہ کٹے عمر کہ کانٹوں پہ تبسمؔ
بس ایک تمنا ہے محبت میں بسر ہو

مدعا کچھ بھی ہو لیکن مدعا رکھا کرو
جذبۂ تعمیر سے بھی واسطہ رکھا کرو
زندگی کے راستے میں ہیں ہزاروں ٹھوکریں
آبلہ پائی سلامت جو صلہ رکھا کرو

مل ہی جاتے ہیں یہ اکثر زندگی کی موڑ پر
اجنبی چہروں سے خود کو آشنا رکھا کرو
دیکھنا شعلہ بیانی بھی ادا بن جائے گی
تلخیٔ اظہار میں حسن ادا رکھا کرو

موم سے بھی دوستی ہو اور شعلوں سے بھی پیار
پھر بھی ان کے درمیاں کچھ فاصلہ رکھا کرو
گھپ اندھیرا ہو تو پھر ملتی نہیں راہ نجات
ذہن و دل کا روشنی سے رابطہ رکھا کرو

تم کو جینا ہے اثرؔ اس انقلابی دور میں
اپنی فطرت میں ذرا فکر رسا رکھا کرو

عشق کی گرمئ بازار کہاں سے لاؤں
یوسف دل کا خریدار کہاں سے لاؤں
سنتے ہی نغموں کی اک لہر رگوں میں دوڑے
میں تری شوخئ گفتار کہاں سے لاؤں

وہی شوریدہ سری ہے وہی ایذا طلبی
عشق میں جادۂ ہموار کہاں سے لاؤں
ہو گئیں آنکھوں سے وہ مست نگاہیں اوجھل
عشرت خانۂ خمار کہاں سے لاؤں

دل کی دھڑکن میں سنا کرتا تھا پیغام ترا
اب وہ ہنگامۂ بسیار کہاں سے لاؤں
اس پر آئینہ ہو کس طرح حقیقت دل کی
شوق منت کش اظہار کہاں سے لاؤں

معبد دل میں پرستار محبت ہوں اثرؔ
روش کافر و دیں دار کہاں سے لاؤں

سینوں میں اگر ہوتی کچھ پیار کی گنجائش
ہاتھوں میں نکلتی کیوں تلوار کی گنجائش
پچھڑے ہوئے گاؤں کا شاید ہے وہ باشندہ
جو شہر میں ڈھونڈے ہے ایثار کی گنجائش

نفرت کی تعصب کی یوں رکھی گئیں اینٹیں
پیدا ہوئی ذہنوں میں دیوار کی گنجائش
پاکیزگی روحوں کی نیلام ہوئی جب سے
جسموں میں نکل آئی بازار کی گنجائش

اس طرح کھلے دل سے اقرار نہیں کرتے
رکھ لیجئے تھوڑی سی انکار کی گنجائش
گر عزم مصمم ہو اور جہد مسلسل بھی
صحرا میں نکل آئے گلزار کی گنجائش

سمجھیں کہ نہ سمجھیں وہ ہم نے تو اسدؔ رکھ دی
اشعار کے ہونٹوں پہ اظہار کی گنجائش

میری نفرت بھی ہے شعروں میں مرے پیار کے ساتھ
میں نے لکھی ہے غزل جرأت اظہار کے ساتھ
اقتدار ایک طرف ایک طرف درویشی
دونوں چیزیں نہیں رہ سکتی ہیں فن کار کے ساتھ

اک خلا دل میں بہت دن سے مکیں ہے اب تو
یاد گزرا ہوا موسم بھی نہیں یار کے ساتھ
بادبانوں سے الجھتی ہے ہوا روز مگر
کشتیاں سوئی ہیں کس شان سے پتوار کے ساتھ

شہر میں جہل کی ارزانی ہے لیکن اب تک
میں ہی سمجھوتہ نہیں کرتا ہوں معیار کے ساتھ
میرے اشعار ہیں ناقد کے لئے کچھ بھی نہیں
درد کو میں نہیں لکھتا کبھی دشوار کے ساتھ

پوچھو اگر تو کرتے ہیں انکار سب کے سب
سچ یہ کہ ہیں حیات سے بیزار سب کے سب
اپنی خبر کسی کو نہیں پھر بھی جانے کیوں
پڑھتے ہیں روز شہر میں اخبار سب کے سب

تھا ایک میں جو شرط وفا توڑتا رہا
حالانکہ با وفا تھے مرے یار سب کے سب
سوچو تو نفرتوں کا ذخیرہ ہے ایک دل
کرتے ہیں یوں تو پیار کا اظہار سب کے سب

زنداں کوئی قریب نہیں اور نہ رقص گاہ
سنتے ہیں اک عجیب سی جھنکار سب کے سب
میدان جنگ آنے سے پہلے پلٹ گئے
نکلے تھے لے کے ہاتھ میں تلوار سب کے سب

ذہنوں میں کھولتا تھا جو لاوا وہ جم گیا
مفلوج ہو کے رہ گئے فن کار سب کے سب

یہ چاہتے ہیں کہ جام الفت کا ذہن و دل سے اثر نہ جائے
پلا دو ہم کو پھر اس سے پہلے نشہ ہمارا اتر نہ جائے
ہمیں سے ہے میکدے کی رونق ہمیں سے سارا نظام رنداں
یہ کیسے ممکن ہے ساقیا اب ہمارے اوپر نظر نہ جائے

تمہاری خاطر ہی راستوں پر بچھا کے رکھی ہیں ہم نے آنکھیں
چلے بھی آؤ کہ بن تمہارے یہ موسم گل گزر نہ جائے
ورق ورق پر تمہارا چرچا تمہاری یادیں تمہاری باتیں
بڑی حفاظت سے رکھ رہا ہوں کتاب دل ہے بکھر نہ جائے

میں چاہتا ہوں کہ تم سے کہہ دوں مگر یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا
یہ دل کے اظہار کا پرندہ قفس کے اندر ہی مر نا جائے
تمہارے در سے میں اپنا سر بھی تبھی اٹھاؤں گا جان جاناں
کہ جب تلک آرزوؔ کا بگڑا ہوا مقدر سنور نہ جائے

وہ کون تھا جو برسر پیکار مجھ میں تھا
اندھی انا تھی نشۂ پندار مجھ میں تھا
اک جنگ خیر و شر کی تھی برپا وجود میں
اک جذبہ تھا جو برسر پیکار مجھ میں تھا

تو دشت بے حسی میں ٹھہرتا بھی کب تلک
اے جذبۂ جنوں ترا اظہار مجھ میں تھا
کیسے نبرد آزما دشمن سے ہو گیا
وحشی ہوا سا کوئی تو فن کار مجھ میں تھا

دنیا خرید لی تھی مگر یہ خبر نہ تھی
میرے وجود کا بھی خریدار مجھ میں تھا
تھیں خواب خواب آنکھیں در یار پر لگی
کہتا میں کیسے دیدۂ بے دار مجھ میں تھا

چنتا رہا گلوں کی طرح خار خار زخم
جیسے کہ کوئی شہر دل آزار مجھ میں تھا
دشوار ہو گئی تھی تمہاری تلاش بھی
وہ کون تھا جو سایۂ دیوار مجھ میں تھا

کیوں شعر شور خیز ہے برہم تھے وہ نظرؔ
کیوں اتنا تیز تر مرا اظہار مجھ میں تھا

آباد دل کے ہوتے ہی گھر نام پڑ گیا
دیوار کیا گری کہ کھنڈر نام پڑ گیا
پانی تھا سر سے اونچا کبھی شہر چشم میں
بارش رکی تو دیدۂ تر نام پڑ گیا

بخشی ثمر نے بیج کو شہرت صفات کی
کونپل جواں ہوئی تو شجر نام پڑ گیا
ذرے کو آفتاب کیا کس خیال نے
کس نقش پا سے راہ گزر نام پڑ گیا

گہرائیوں سے ان کی نہ پھر لوٹیں کشتیاں
ڈوبے تو چشم تر کا بھنور نام پڑ گیا
سورج کے قتل عام سے بکھرے مہہ و نجوم
اک جبر کا طلوع سحر نام پڑ گیا

رکھا ہے قید گردش آفاق میں مجھے
ان تنگ دائروں کا سفر نام پڑ گیا
سیپوں کی کاوشوں کو سراہا نہ دہر نے
پتھر کا جانے کیسے گہر نام پڑ گیا

خون جگر سے پائی ہے لفظوں نے زندگی
احساس بول اٹھا تو ہنر نام پڑ گیا
اظہار فن میں ہم نے کئے تجربے نئے
آنکھوں کی گفتگو سے نظرؔ نام پڑ گیا

جب لب سے مرے حرف صداقت نکل آئے
کچھ لوگ لئے سنگ ملامت نکل آئے
یارب کوئی ایسی کہیں صورت نکل آئے
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت نکل آئے

اٹھے جو کہیں شعلہ لہو دے کے بجھا دے
ممکن ہے کوئی راہ محبت نکل آئے
آئینے کو اس شہر ہوس میں نہ لئے پھر
مشکل ہے یہاں سے وہ سلامت نکل آئے

جس خواب کو تعبیر کے لائق نہیں سمجھا
وہ خواب اگر اپنا حقیقت نکل آئے
کہنے پہ چلو توڑ لیں ہر شخص سے رشتہ
اس میں جو کوئی ان کی سیاست نکل آئے

خوشبو ہے کسی راز کی سینے میں ہمارے
مت چھیڑ کہ اظہار حقیقت نکل آئے
ہر سانس پہ رہتا ہے جہاں جبر کا پہرہ
مقتل سے کوئی کیسے سلامت نکل آئے

برتا ہے کچھ اس رنگ سے لفظوں کو غزل میں
ممکن ہے کہ اس میں بھی علامت نکل آئے
کر فکر کے آئینے سے ہر لمحہ نئی بات
ممکن ہے نظرؔ اس طرح قامت نکل آئے

زخموں سے میرا جسم یہاں چور چور تھا
احساس میرے کرب کا اس کو ضرور تھا
پتھر اچھالتا رہا ہر ایک کی طرف
کیا جانے کس خیال کا اس کو غرور تھا

دل بھی دھڑک رہا تھا گنہ گار کی طرح
جیسے کوئی ثبوت بھی پیش حضور تھا
لگتا ہے میری بات سے وہ بھی قریب تر
حالانکہ دیکھنے میں بہت دور دور تھا

کیا جانے کس خیال سے وہ چپ رہا مگر
اظہار حال درد بھی لیکن ضرور تھا
اب اس کی ذات میں ہو کوئی بات تو نظرؔ
پہلے تو اس کے ربط میں کتنا سرور تھا

کتنا بے رنگ ہوا شہر ہنر تیرے بعد
جانے کس رخ پہ ہو لفظوں کا سفر تیرے بعد
کون اب لب کے تبسم کو کہے گا ہیرا
کون برسائے گا لفظوں کے گہر تیرے بعد

جب بھی گرتا ہے بڑا پیڑ دہلتی ہے زمیں
زندگی دھوپ میں گزرے گی شجر تیرے بعد
کہکشاں لفظوں کی شعروں میں ملے گی کس کے
کون بانٹے گا خیالوں کے گہر تیرے بعد

صدیوں رکھے گی تجھے زندہ سخن کی خوشبو
تذکرے ہوں گے ترے شام و سحر تیرے بعد
سلسلہ کون سنبھالے گا نقوش پا کا
منتظر کس کی ہے اب راہ گزر تیرے بعد

اب کہاں ہوتے ہیں وہ شعر و سخن کے چرچے
بے زباں ہو گیا تہذیب کا گھر تیرے بعد
منفرد جرأت اظہار رہے گی زندہ
اب کہاں ہوگا یہ اسلوب و ہنر تیرے بعد

تیرے اشعار پہ سر دھنتی رہے گی دنیا
رنگ لایا ہے ترا خون جگر تیرے بعد
گرمیٔ فکر سخن سے نہیں انکار نظرؔ
اتنی آساں بھی نہیں راہگزر تیرے بعد

کسی صورت اگر اظہار کی صورت نکل آئے
تو ممکن ہے کسی سے پیار کی صورت نکل آئے
مسیحائی پہ وہ کافر اگر ایمان لے آئے
شفا کی شکل میں بیمار کی صورت نکل آئے

اگر وہ بے وفا ضد چھوڑ دے اور ٹھیک ہو جائے
تو شاید پھر مرے گھر بار کی صورت نکل آئے
کوئی تو معجزہ ایسا بھی ہو اپنی محبت میں
ترے انکار سے اقرار کی صورت نکل آئے

بہت دن ہو گئے ارشدؔ وہ مکھڑا چاند سا دیکھے
دعا کرنا کوئی دیدار کی صورت نکل آئے

اک لفظ آ گیا تھا جو میری زبان پر
چھایا رہا نہ جانے وہ کس کس کے دھیان پر
مجھ کو تلاش کرتے ہو اوروں کے درمیاں
حیران ہو رہا ہوں تمہارے گمان پر

محفل میں دوستوں کی وہی نغمہ بن گیا
شب خون کا جو شور تھا میرے مکان پر
بے شک زمیں ہنوز ہے اپنے مدار میں
لیکن دماغ اس کا تو ہے آسمان پر

شاید مری تلاش میں اتری ہے چرخ سے
جو دھوپ پڑ رہی ہے مرے سائبان پر
رہتا ہے بے نیاز جو آب و سراب سے
کھلتا ہے راز دشت اسی ساربان پر

احساس اس کا جامۂ اظہار مانگے ہے
افتاد آ پڑی ہے یہ ارشدؔ کی جان پر

حیا اخفا راز دل کی اک تدبیر ہوتی ہے
نظر جھکتی ہے وہ جس میں کوئی تحریر ہوتی ہے
رواج زحمت اظہار دی جاتی ہے ہونٹوں کو
محبت میں خموشی ورنہ خود تقریر ہوتی ہے

ہر اک دیوانہ پابند وفا رہتا ہے آخر تک
جنوں کے پاؤں میں بھی ہوش کی زنجیر ہوتی ہے
سبھی کرتے ہیں دعوے صاحب ایمان ہونے کا
مگر ہر دل کے آئینے میں اک تصویر ہوتی ہے

جہاں برق تپاں کی یورش پیہم کا امکاں ہو
عموماً آشیانے کی وہیں تعمیر ہوتی ہے
نہ جانے کون سے خوش بخت کا یہ قول ہے ارشدؔ
کہ آہ صبح گاہی میں بڑی تاثیر ہوتی ہے
Visit For :More Romantic Quotes