Introduction
If you are looking for the right words to purpose your lover.Then you are in the right place,here you will get the best mohabbat quotes and shayari lines Which will surely impress your lover.
So,let’s start exploring and enjoye.
Mohabbat Ka Izhaar Shayari

دیوار تکلف ہے تو مسمار کرو نا
گر اس سے محبت ہے تو اظہار کرو نا
ممکن ہے تمہارے لئے ہو جاؤں میں آساں
تم خود کو مرے واسطے دشوار کرو نا

گر یاد کرو گے تو چلا آؤں گا اک دن
تم دل کی گزر گاہ کو ہموار کرو نا
باہر کے محاذوں کی تمہیں فتح مبارک
اب نفس کے شیطاں کو گرفتار کرو نا

کہنا ہے اگر کچھ تو پس و پیش کرو مت
کھل کے کبھی جذبات کا اظہار کرو نا
ہر رشتۂ جاں توڑ کے آیا ہوں یہاں تک
تم بھی مری خاطر کوئی ایثار کرو نا

اعجازؔ تمہارے لئے ساحل پہ کھڑا ہوں
دریائے وفا میرے لئے پار کرو نا

کوئی آہٹ کوئی دستک کوئی جھنکار تو ہو
اس کی جانب سے کسی بات کا اظہار تو ہو
بخل سے کام نہ لوں گا میں سراہوں گا اسے
کوئی چہرہ ترے مانند طرحدار تو ہو

زخم سہہ لوں گا منڈیروں پہ لگے شیشوں کے
کوئی شے دید کے قابل پس دیوار تو ہو
چند لمحوں کی مسافت ہو کہ برسوں کا سفر
کیف پرور ہیں سبھی سنگ کوئی یار تو ہو

چند لمحے میں کہیں بیٹھ کے دم لے تو سکوں
در ملے یا نہ ملے سایۂ دیوار تو ہو

ہیں منفرد عمل سے یہ گفتار سے الگ
رہبر جدا ہیں قول سے کردار سے الگ
ہوں گے نہ غیر کے ستم آزار سے الگ
جب تک نہ ہوں گے ہم صف اغیار سے الگ

قصر خلوص ہو گیا مسمار اس طرح
بیٹھے ہیں لوگ سایۂ دیوار سے الگ
تہذیب کے زوال پہ حیرت نہ کیجئے
یہ عہد نو ہے سابقہ ادوار سے الگ

کر لیتے ہیں یہ جنبش ابرو سے گفتگو
ہیں اہل عشق زحمت اظہار سے الگ
ترک حیا نے چھین لیا مہ وشوں کا حسن
بے قدر ہیں یہ ہو کے حیا دار سے الگ

سرمایۂ حیات محبت وفا خلوص
دولت ہے اپنی دولت زردار سے الگ
شان خودی بچائے ہوئے مصلحت سے دور
میں جی رہا ہوں وقت کی رفتار سے الگ

احسنؔ کو آرزو نہیں نام و نمود کی
رکھتا ہے خود کو کوچہ و بازار سے الگ

جب تک جنوں جنوں ہے غم آگہی بھی ہے
یعنی اسیر نغمہ مری بے خودی بھی ہے
کھلتے ہیں پھول جن کے تبسم کے واسطے
شبنم میں ان کے عکس کی آزردگی بھی ہے

کچھ ساعتوں کا رنگ مرے ساتھ ساتھ ہے
وہ نکہت بہار مگر اجنبی بھی ہے
زندہ ہوں میں کہ آگ جہنم کی بن سکوں
فردوس آرزو مرے دل کی کلی بھی ہے

اس یاد کا بھنور میرے احساس میں رہا
اظہار موج موج کی ناگفتنی بھی ہے
پلکوں پہ چاندنی کے تکلم کی آنچ تھی
ہونٹوں پہ گفتگو کے لیے تشنگی بھی ہے

کیوں تیرگی سے اس قدر مانوس ہوں ظفرؔ
اک شمع راہ گزار کہ سحر تک جلی بھی ہے

درد ٹھہرے تو ذرا دل سے کوئی بات کریں
منتظر ہیں کہ ہم اپنے سے ملاقات کریں
دن تو آوازوں کے صحرا میں گزارا لیکن
اب ہمیں فکر یہ ہے ختم کہاں رات کریں

میری تصویر ادھوری ہے ابھی کیا معلوم
کیا مری شکل بگڑتے ہوئے حالات کریں
اور اک تازہ تعارف کا بہانہ ڈھونڈیں
ان سے کچھ ان کے ہی بارے میں سوالات کریں

آؤ دو چار گھڑی بیٹھ کے اک گوشے میں
کسی موضوع پہ اظہار خیالات کریں

امروز کی کشتی کو ڈبونے کے لیے ہوں
کل اور کسی رنگ میں ہونے کے لیے ہوں
تو بھی ہے فقط اپنی شہادت کا طلب گار
میں بھی تو اسی درد میں رونے کے لیے ہوں

جینے کا تقاضا مجھے مرنے نہیں دیتا
مر کر بھی سمجھتا ہوں کہ ہونے کے لیے ہوں
ہاتھوں میں مرے چاند بھی لگتا ہے کھلونا
خوابوں میں فلک رنگ سمونے کے لیے ہوں

ہر بار یہ شیشے کا بدن ٹوٹ گیا ہے
ہر بار نئے ایک کھلونے کے لیے ہوں
پردیس کی راتوں میں بہت جاگ چکا میں
اب گھر کا سکوں اوڑھ کے سونے کے لیے ہوں

سینے میں کوئی زخم کہ کھلنے کے لیے ہے
آنکھوں میں کوئی اشک کہ رونے کے لیے ہوں
سادہ سی کوئی بات نہیں بھوک شکم کی
ایمان بھی روٹی میں سمونے کے لیے ہوں

وہ دشت و بیابان میں اظہار کا خواہاں
میں اپنے چمن زار میں رونے کے لیے ہوں
غاروں کا سفر ہے کہ مکمل نہیں ہوتا
میں اپنی خبر آپ ہی ڈھونے کے لیے ہوں

سورج کو نکلنے میں ذرا دیر ہے احمدؔ
پھر ذات کا ہر رنگ میں کھونے کے لیے ہوں

یہ وقت روشنی کا مختصر ہے
ابھی سورج طلوع منتظر ہے
شہادت لفظ کی دشوار تر ہے
کتابوں میں بہت زیر و زبر ہے

ابھی کھلنے کو ہے در آسماں کا
ابھی اظہار کا پیاسا بشر ہے
یہ دنیا ایک لمحے کا تماشہ
نہ جانے دوسرا لمحہ کدھر ہے

جو دیکھا ہے وہ سب کچھ ہے ہمارا
جو ان دیکھا ہے وہ امید بھر ہے
میں خود خاشاک گرویدہ ہوں ورنہ
مرے ہاتھوں میں تنکا شاہ پر ہے

پھر اس کے بعد بس حیرانیاں ہیں
خبر والا بھی خاصا بے خبر ہے
مرا نعرہ ہے جنگل آگ جیسا
مرا کلمہ شکستہ بال و پر ہے

زباں میری سیاست چاٹتی ہے
کہ اس کا ذائقہ شیر و شکر ہے
یہ اندھی پیاس کا موسم ہے احمدؔ
سمندر روشنی کا بے اثر ہے

شب ڈھلے گنبد اسرار میں آ جاتا ہے
ایک سایہ در و دیوار میں آ جاتا ہے
میں ابھی ایک حوالے سے اسے دیکھتا ہوں
دفعتاً وہ نئے کردار میں آ جاتا ہے

یوں شب ہجر شب وصل میں ڈھل جاتی ہے
کوئی مجھ سا مری گفتار میں آ جاتا ہے
مجھ سا دیوانہ کوئی ہے جو ترے نام کے ساتھ
رقص کرتا ہوا بازار میں آ جاتا ہے

جب وہ کرتا ہے نئے ڈھب سے مری بات کو رد
لطف کچھ اور بھی گفتار میں آ جاتا ہے
دیکھنا اس کو بھی پڑتا ہے میاں دنیا میں
سامنے جو یونہی بے کار میں آ جاتا ہے

ایک دن قیس سے جا ملتا ہے وحشت کے طفیل
جو بھی اس دشت سخن زار میں آ جاتا ہے
میں کبھی خود کو اگر ڈھونڈھنا چاہوں احمدؔ
دوسرا معرض اظہار میں آ جاتا ہے

زیست آزار ہوئی جاتی ہے
سانس تلوار ہوئی جاتی ہے
جسم بے کار ہوا جاتا ہے
روح بیدار ہوئی جاتی ہے

کان سے دل میں اترتی نہیں بات
اور گفتار ہوئی جاتی ہے
ڈھل کے نکلی ہے حقیقت جب سے
کچھ پر اسرار ہوئی جاتی ہے

اب تو ہر زخم کی منہ بند کلی
لب اظہار ہوئی جاتی ہے
پھول ہی پھول ہیں ہر سمت ندیمؔ
راہ دشوار ہوئی جاتی ہے

میں کسی شخص سے بیزار نہیں ہو سکتا
ایک ذرہ بھی تو بیکار نہیں ہو سکتا
اس قدر پیار ہے انساں کی خطاؤں سے مجھے
کہ فرشتہ مرا معیار نہیں ہو سکتا

اے خدا پھر یہ جہنم کا تماشا کیا ہے
تیرا شہکار تو فی النار نہیں ہو سکتا
اے حقیقت کو فقط خواب سمجھنے والے
تو کبھی صاحب اسرار نہیں ہو سکتا

تو کہ اک موجۂ نکہت سے بھی چونک اٹھتا ہے
حشر آتا ہے تو بیدار نہیں ہو سکتا
سر دیوار یہ کیوں نرخ کی تکرار ہوئی
گھر کا آنگن کبھی بازار نہیں ہو سکتا

راکھ سی مجلس اقوام کی چٹکی میں ہے کیا
کچھ بھی ہو یہ مرا پندار نہیں ہو سکتا
اس حقیقت کو سمجھنے میں لٹایا کیا کچھ
میرا دشمن مرا غم خوار نہیں ہو سکتا

میں نے بھیجا تجھے ایوان حکومت میں مگر
اب تو برسوں ترا دیدار نہیں ہو سکتا
تیرگی چاہے ستاروں کی سفارش لائے
رات سے مجھ کو سروکار نہیں ہو سکتا

وہ جو شعروں میں ہے اک شے پس الفاظ ندیمؔ
اس کا الفاظ میں اظہار نہیں ہو سکتا

جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی

میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
تجھ کو پوجا ہے کہ اصنام پرستی کی ہے
میں نے وحدت کے مفاہیم کی کثرت کر دی

مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تری الفت نے محبت مری عادت کر دی
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ
تیرے حالات نے کیسی تری صورت کر دی

کیا ترا جسم ترے حسن کی حدت میں جلا
راکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی

کس شے پہ یہاں وقت کا سایہ نہیں ہوتا
اک خواب محبت ہے کہ بوڑھا نہیں ہوتا
وہ وقت بھی آتا ہے جب آنکھوں میں ہماری
پھرتی ہیں وہ شکلیں جنہیں دیکھا نہیں ہوتا

بارش وہ برستی ہے کہ بھر جاتے ہیں جل تھل
دیکھو تو کہیں ابر کا ٹکڑا نہیں ہوتا
گھر جاتا ہے دل درد کی ہر بند گلی میں
چاہو کہ نکل جائیں تو رستہ نہیں ہوتا

یادوں پہ بھی جم جاتی ہے جب گرد زمانہ
ملتا ہے وہ پیغام کہ پہنچا نہیں ہوتا
تنہائی میں کرنی تو ہے اک بات کسی سے
لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا

کیا اس سے گلہ کیجیئے بربادئ دل کا
ہم سے بھی تو اظہار تمنا نہیں ہوتا
Izhar e Mohabbat Quotes

یہ بھی اصرار کوئی روزن در باز نہ ہو
سانس لیتے رہو پر سانس کی آواز نہ ہو
یک بیک عالم اظہار میں سناٹے کی گونج
آنے والے کسی طوفان کی غماز نہ ہو

شعر و فن آذر حاضر کے تراشیدہ صنم
تہمت لوح و قلم توسن پرواز نہ ہو
پھر تری یاد سے روشن ہوا کاشانۂ دل
وسعت کون و مکاں جلوہ گہہ ناز نہ ہو

وقت کے جبر سے کب کار جنوں خیز رکا
کوشش سنگ زنی نقطۂ آغاز نہ ہو

کیا جانیے اس نام میں کیا بھید بھرا تھا
سنتے ہی جسے رات کوئی چونک پڑا تھا
اس شور کو سن سن کے یہ دل کانپ گیا تھا
جیسے کوئی میری ہی طرح چیخ رہا تھا

اس کو بس ادھر ایک ہی دھن تھی اور ادھر میں
بگڑی ہوئی اک بات بنانے میں لگا تھا
حیرانی یہی تھی کہ چمک کیسی ہے دل میں
پھر آج جو اک زخم کو دیکھا تو ہرا تھا

کل گریۂ پیہم نے مری جان بچائی
میں ضبط کی دیوار کے ملبے میں دبا تھا
وہ سرد سماعت میں مجھے ڈھونڈ رہی تھی
میں شعلۂ اظہار کے باطن میں چھپا تھا

سر بسر پیکر اظہار میں لاتا ہے مجھے
اور پھر خود ہی تہ خاک چھپاتا ہے مجھے
کب سے سنتا ہوں وہی ایک صدائے خاموش
کوئی تو ہے جو بلندی سے بلاتا ہے مجھے

رات آنکھوں میں مری گرد سیہ ڈال کے وہ
فرش بے خوابئ وحشت پہ سلاتا ہے مجھے
گم شدہ میں ہوں تو ہر سمت بھی گم ہے مجھ میں
دیکھتا ہوں وہ کدھر ڈھونڈنے جاتا ہے مجھے

دیدنی ہے یہ توجہ بھی بہ انداز ستم
عمر بھر شیشۂ خالی سے پلاتا ہے مجھے
ہمہ اندیشۂ گرداب بہ پہلوئے نشاط
موج در موج ہی ساحل نظر آتا ہے مجھے

وہ اب تجارتی پہلو نکال لیتا ہے
میں کچھ کہوں تو ترازو نکال لیتا ہے
وہ پھول توڑے ہمیں کوئی اعتراض نہیں
مگر وہ توڑ کے خوشبو نکال لیتا ہے

میں اس لئے بھی ترے فن کی قدر کرتا ہوں
تو جھوٹ بول کے آنسو نکال لیتا ہے
اندھیرے چیر کے جگنو نکالنے کا ہنر
بہت کٹھن ہے مگر تو نکال لیتا ہے

وہ بے وفائی کا اظہار یوں بھی کرتا ہے
پرندے مار کے بازو نکال لیتا ہے

تو زبان دہلی و لاہور کا پروردگار
میں سکوت گلگت و اسکر دو پارہ چنار
بکریاں روز ازل سے کوہ کی رستہ شناس
اے سنہری زین والے نقرئی رتھ کے سوار

گلشن اظہار کے دو خسرو و سرمست پھول
رنگ سے روشن زمین ہند از تا کوہسار
یار ہم دو مختلف دنیاؤں کے تشریح گر
تو کسی فرقے کا شاعر میں لسان کردگار

انگلیوں میں روشنی دیتے زمرد کے چراغ
مرمریں بازو کا حلقہ سرخ یاقوتی حصار
روشنی تاریک رستے سے زمیں تک آ گئی
بیج کو شوق نمو نے کر دیا ہے آشکار

وہ میرے ساتھ چلنے پر اگر تیار ہو جائے
بھلے منزل کی جانب سے مجھے انکار ہو جائے
مرا فن اداکاری نمایاں ہو کے ابھرے گا
ذرا تیری کہانی میں مرا کردار ہو جائے

نشاط انگیز شاموں کا تسلسل اس طرح ٹوٹا
کہ گہری نیند سے یک دم کوئی بیدار ہو جائے
اگر اپنی مدھر آواز میں نغمہ سنا دے وہ
تو راہ محفل یاراں ذرا ہموار ہو جائے

اگر وہ اک نظر دیکھے مرے جذبے کی سچائی
نصیحت چھوڑ کر ناصح مرا غم خوار ہو جائے
تری آنکھیں بتاتی ہیں تجھے مجھ سے محبت ہے
مگر دل کی تسلی کو ذرا اظہار ہو جائے

سمجھ لو تیرگی دیرینہ ساتھی ہو گئی عادلؔ
چراغ جاں جلانا جب تمہیں دشوار ہو جائے
Izhar e Mohabbat Quotes in Urdu

اب اگر عشق کے آثار نہیں بدلیں گے
ہم بھی پیرایۂ اظہار نہیں بدلیں گے
راستے خود ہی بدل جائیں تو بدلیں ورنہ
چلنے والے کبھی رفتار نہیں بدلیں گے

دور تک ہے وہی آسیب کا پہرہ اب بھی
کیا مرے شہر کے اطوار نہیں بدلیں گے
میں سمجھتا ہوں ستارے جو سحر سے پہلے
بجھنے والے ہیں شب تار نہیں بدلیں گے

گل بدل جائیں گے جب موسم گل بچھڑے گا
جب خزاں جائے گی تو خار نہیں بدلیں گے
لوگ بدلیں گے مفاہیم مسلسل آغازؔ
اور یہ سچ ہے مرے اشعار نہیں بدلیں گے

بسائے جاتے ہیں اہل جنوں سے ویرانے
رموز مملکت حسن کوئی کیا جانے
یہ کس کی بزم ہے آراستہ خدا جانے
نہیں ہے شمع تو کیوں جل رہے ہیں پروانے

ہے بندہ ہونے کے اظہار پر بشر مجبور
پئے سجود بنیں مسجدیں کہ بت خانے
نہ قیس دشت میں ہے اور نہ کوہ میں فرہاد
پر ان کے نام سے گونج اٹھتے ہیں یہ ویرانے

فزوں ہیں نغمۂ بلبل سے قہقہے گل کے
کہ انتظام چمن اب کریں گے دیوانے
دیار عشق میں برپا ہے انقلاب عظیم
یہ دور وہ ہے کہ اپنے ہوئے ہیں بیگانے

چھپا لیا رخ انور حنائی ہاتھوں سے
ہمارے دل پہ جو گزری تری بلا جانے
ستم ہزار ہوں ظالم مگر دلوں کو نہ توڑ
ترے خیال سے آباد ہیں یہ کاشانے

وہ حال غم مرا خود مجھ سے سن کے کہتے ہیں
کہ سن چکے ہیں ہم ایسے ہزار افسانے
ہے بادہ نوشی سے مستوں کو بعد مرگ بھی ربط
کہ ان کی خاک سے یاں بن رہے ہیں پیمانے

صنم سے حال دل زار کہہ تو دوں آغاؔ
مگر میں جاؤں کہاں وہ اگر برا مانے

اپنے ہی لہو سے کہیں مسمار نہ ہونا
دنیا کی محبت میں گرفتار نہ ہونا
گمنام ہی رہنے میں بڑا نام ہے پیارے
شہرت کے لیے داخل دربار نہ ہونا

اے میرے خدا قید ہوں میں کیسے جہاں میں
گویائی تو ہونا دم گفتار نہ ہونا
بازار ہو گر مصر کا بولی تو لگانا
یوسف کو جو چاہو تو خریدار نہ ہونا

اوروں سے گلہ کیا ہو کہ لے ڈوبا ہمیں تو
اندر کے جواں مرد کا اظہار نہ ہونا

غم حیات کے پیش و عقب نہیں پڑھتا
یہ دور وہ ہے جو شعر و ادب نہیں پڑھتا
کوئی تو بات ہے روداد خون ناحق میں
کہیں کہیں سے وہ پڑھتا ہے سب نہیں پڑھتا

کسی کا چہرۂ تاباں کہ ماہ رخشندہ
جو پڑھنے والا ہے قرآں وہ کب نہیں پڑھتا
وہ کون ہے جو تجھے رات دن نہیں لکھتا
وہ کون ہے جو تجھے روز و شب نہیں پڑھتا

وہ اب تو اس قدر اظہار حق سے ڈرتا ہے
اگر لکھا ہو کہیں لب تو لب نہیں پڑھتا
نہ جانے ان دنوں کیا ہو گیا ہے ساقی کو
نگاہ رند میں حسن طلب نہیں پڑھتا

اسی کا رنگ ہے افسرؔ اسی کی خوشبو ہے
مرا کلام کوئی بے سبب نہیں پڑھتا

شب کو پازیب کی جھنکار سی آ جاتی ہے
بیچ میں پھر کوئی دیوار سی آ جاتی ہے
ان کا انداز نظر دیکھ کے محفل میں کبھی
مجھ میں بھی جرأت اظہار سی آ جاتی ہے

اس ادا سے کبھی چلتی ہے نسیم سحری
خشک پتوں میں بھی رفتار سی آ جاتی ہے
ہم تو اس وقت سمجھتے ہیں کہ آتی ہے بہار
دشت سے جب کوئی جھنکار سی آ جاتی ہے
Best Quotes About Izhar in Urdu for Love in English

اجڑے ہوئے دیار کا مطلب سمجھ گئے
تم کیسے انتظار کا مطلب سمجھ گئے
جو اجنبی تھے عشق و محبت کے لفظ سے
صد شکر ہے وہ یار کا مطلب سمجھ گئے

پھر کھل کے اپنے عشق کا اظہار کر دیا
جب وہ بھی حال زار کا مطلب سمجھ گئے
حیرت میں ہوں میں دیکھ کے یہ آج دوستو
وہ کیسے دل فگار کا مطلب سمجھ گئے

تھوڑی بہت ادھر بھی ہیں کچھ بے قراریاں
جو دل کے تار تار کا مطلب سمجھ گئے
اس کو بھی میری یاد نے مجبور کر دیا
جب موسم بہار کا مطلب سمجھ گئے

نظریں جھکائے رکھنا حراؔ ان کے روبرو
وہ بھی تمہارے پیار کا مطلب سمجھ گئے

رخت سفر یوں ہی تو نہ بے کار لے چلو
رستہ ہے دھوپ کا کوئی دیوار لے چلو
طاقت نہیں زباں میں تو لکھ ہی لو دل کی بات
کوئی تو ساتھ صورت اظہار لے چلو

دیکھوں تو وہ بدل کے بھلا کیسا ہو گیا
مجھ کو بھی اس کے سامنے اس بار لے چلو
کب تک ندی کی تہہ میں اتاروگے کشتیاں
اب کے تو ہاتھ میں کوئی پتوار لے چلو

پڑتی ہیں دل پہ غم کی اگر سلوٹیں تو کیا
چہرے پہ تو خوشی کے کچھ آثار لے چلو
جتنے بھنور کہو گے پہن لوں گا جسم پر
اک بار تو ندی کے مجھے پار لے چلو

کچھ بھی نہیں اگر تو ہتھیلی پہ جاں سہی
تحفہ کوئی تو اس کے لئے یار لے چلو
پریشانی میں اظہار پریشانی سے کیا حاصل***
بھرے بازار میں خود اپنی ارزانی سے کیا حاصل
مجھے ہر منزل مستی سے ہنس ہنس کر گزرنا ہے
***مٹا دے جو مری ہمت اس آسانی سے کیا حاصل

بغیر جبر و قوت جھک نہیں سکتا جو اک سر بھی
تو پھر ایسی جہانگیری جہاں بانی سے کیا حاصل
ہجوم برق و باراں ہو نزول قہر و طوفاں ہو
فضائے عافیت میں بال جنبانی سے کیا حاصل

دل برباد سے پیدا نیا دل ہو نہیں سکتا
اب آنسو پونچھیے بھی اب پشیمانی سے کیا حاصل
ترستے ہیں در و دیوار بھی اب ان کے جلوؤں کو
مجھے اے خانۂ دل تیری ویرانی سے کیا حاصل

قفس ہو یا نشیمن کوئی ہم آہنگ ہو ورنہ
ادیبؔ ایسی فغاں ایسی غزل خوانی سے کیا حاصل

پھول کا یا سنگ کا اظہار کر
آسماں اورنگ کا اظہار کر
جسم کے روزن سے پہلے خود نکل
پھر قبائے تنگ کا اظہار کر

پھول کی پتی پہ کوئی زخم ڈال
آئنے میں رنگ کا اظہار کر
آبگینوں میں سیاہی بھر کے چل
دوستی میں جنگ کا اظہار کر

دھول سے انفاس کے پیکر تراش
خوشبوؤں میں رنگ کا اظہار کر
پڑھ رہا تھا میں قصیدہ نام کا
کوئی بولا ننگ کا اظہار کر

کون کتنا آدمی ہے یہ بتا
آہ میں آہنگ کا اظہار کر
Izhar e Muhabat Quotes

بولنے کا نہیں چپ رہنے کا من چاہتا ہے
ایسے حالات میں تو لطف سخن چاہتا ہے
ایک تو روح بھی کافور صفت ہے اپنی
اور اب جسم بھی بے داغ کفن چاہتا ہے

میں وفاؤں کا پرستار ہوں لیکن مجھ سے
میرا محبوب زمانے کا چلن چاہتا ہے
تو ادھر کیسے ارے چاندنی صورت والے
یہ وہ دھندا ہے جو آنکھوں میں جلن چاہتا ہے

وصل کے بعد بھی پوری نہیں ہوتی خواہش
اور کچھ ہے جو یہ نادیدہ بدن چاہتا ہے
سونے سونے سے ہیں لفظوں کے شوالے کاشفؔ
ایسا لگتا ہے کہ اظہار بدن چاہتا ہے

بڑی جی دار آنکھیں ہیں
وہ جو مے خوار آنکھیں ہیں
سر دیوار میں لیکن
پس دیوار آنکھیں ہیں

مرا تو عشق ہیں آنکھیں
ترا اوتار آنکھیں ہیں
نہ کوئی خواب جو دیکھیں
بڑی بے کار آنکھیں ہیں

انہیں میں روز تکتا ہوں
بہت شہکار آنکھیں ہیں
وہی دل ہار جاتے ہیں
جو کرتے چار آنکھیں ہیں

کسی کا پیار ہیں چہرے
کسی کا پیار آنکھیں ہیں
جہاں بھر میں محبت کا
بڑا اظہار آنکھیں ہیں

کہیں انکار ہیں عابدؔ
کہیں اقرار آنکھیں ہیں

نہ کرب ہجر نہ کیفیت وصال میں ہوں
مجھے نہ چھیڑئیے اب میں عجیب حال میں ہوں
تمام رنگ عبارت میں سوز جاں سے مرے
میں حسن ذات ہوں اور منزل جمال میں ہوں

مرا وجود ضرورت ہے ہر زمانے کی
میں روشنی کی طرح ذہن ماہ و سال میں ہوں
ابھی وسیلۂ اظہار ڈھونڈھتی ہے نگاہ
ابھی سوال کہاں حسرت سوال میں ہوں

مجھے نہ دیکھ مری ذات سے الگ کر کے
میں جو بھی کچھ ہوں فقط اپنے خد و خال میں ہوں
میں جی رہا ہوں یہ میرا کمال ہے حشریؔ
میں اپنے عہد کی تہذیب کے زوال میں ہوں

اگر تم روک دو اظہار لاچاری کروں گا
جو کہنی ہے مگر وہ بات میں ساری کروں گا
مرا دل بھر گیا بستی کی رونق سے سو اب میں
کسی جلتے ہوئے صحرا کی تیاری کروں گا

سر راہ تمنا خاک ڈالوں گا میں سر میں
جو آنسو بجھ گئے ان کی عزا داری کروں گا
مجھے اب آ گئے ہیں نفرتوں کے بیج بونے
سو میرا حق یہ بنتا ہے کہ سرداری کروں گا

میں لے آؤں گا میداں میں سبھی لفظوں کے لشکر
اور ان سے لوح فکر و فن پہ پرکاری کروں گا
کئی غم آ گئے ہیں حال میرا پوچھنے کو
میں اب اس حال میں کس کس کی دل داری کروں گا

روز وحشت کوئی نئی مرے دوست
اس کو کہتے ہیں زندگی مرے دوست
علم احساس آگہی مرے دوست
ساری باتیں ہیں کاغذی مرے دوست

دیکھ اظہارئیے بدل گئے ہیں
یہ ہے اکیسویں صدی مرے دوست
کیا چراغوں کا تذکرہ کرنا
روشنی گھٹ کے مر گئی مرے دوست

ہاں کسی المیے سے کم کہاں ہے
مری حالت تری ہنسی مرے دوست
ساتھ دینے کی بات سارے کریں
اور نبھائے کوئی کوئی مرے دوست
Izhar Quotes in Urdu
اتنی گلیاں اگ آئیں بستی میں
بھول بیٹھا تری گلی مرے دوست
لازمی ہے خرد کی بیداری
نیند لیکن کبھی کبھی مرے دوست

جب کبھی رسم و رہ عام صدا دیتی ہے
دل کو کیا کیا ہوس نام سدا دیتی ہے
مشعلیں اپنی سنبھالو کہ فضائیں چمکیں
اتنی جاتی ہوئی ہر شام صدا دیتی ہے

کیا زمانے میں کوئی صاحب دانش نہ رہا
زندگی ہم کو بہر گام صدا دیتی ہے
ہے یہی وقت کہ قدموں کو ہم آہنگ کرو
پھر کہاں گردش ایام صدا دیتی ہے

زائچہ میرے خیالوں کا جدا سب سے الگ
کس کو ہم پیشگیٔ عام صدا دیتی ہے
پردۂ سنگ نہیں پردۂ اظہار جمال
روح خوابیدۂ اصنام صدا دیتی ہے

اک یقیں اور پس مرگ یقیں ابھرے گا
ہر شکست دل ناکام صدا دیتی ہے
ہر گماں زاد دھندلکے سے گزر جاؤ عروجؔ
روشنی سی وہ لب بام صدا دیتی ہے

اک حقیقت ہوں اگر اظہار ہو جاؤں گا میں
جانے کس کس جرم کا اقرار ہو جاؤں گا میں
کاٹ لو اب کے مجھے بھی خواہشوں کی فصل پر
زندگی اک خواب ہے بیدار ہو جاؤں گا میں

رفتہ رفتہ باغ کی سب تتلیاں کھو جائیں گی
اور اک دن خود سے بھی بیزار ہو جاؤں گا میں
یا تو اک دن توڑ ڈالوں گا حصار آگہی
یا کسی قصے کا اک کردار ہو جاؤں گا میں

عکس اندر عکس آتا ہے نظر مجھ کو کمالؔ
کیا کسی دن آئنے کے پار ہو جاؤں گا میں

نئے اسلوب میں زندہ ہوئے ہیں
تبھی تو حرف آئندہ ہوئے ہیں
طلوع صبح کی امید کم تھی
دعائے شب سے تابندہ ہوئے ہیں

نہ کام آیا جہاں عرض ہنر بھی
لب اظہار شرمندہ ہوئے ہیں
بدن میں جیتے جی جو مر گئے تھے
وہ اپنی روح میں زندہ ہوئے ہیں

ہماری شعلگی سب سے جدا ہے
بجھے ہیں ہم تو سوزندہ ہوئے ہیں
مٹا سکتا نہیں جن کو زمانہ
کچھ ایسے نقش پایندہ ہوئے ہیں

ہمیں سود و زیاں سے کیا سخنؔ ہم
نہ یابندہ نہ گیرندہ ہوئے ہیں

راہ جینے کی بتاؤ تو کوئی بات بنے
حوصلہ دل کا بڑھاؤ تو کوئی بات بنے
صرف اظہار محبت سے نہیں کام چلے
ہاں اگر ساتھ نبھاؤ تو کوئی بات بنے

دور سے دیدۂ امید کو ترساتے ہو
جب مجھے پاس بلاؤ تو کوئی بات بنے
نہ کرو دور سے دعوائے مسیحائی تم
مجھ سے مردے کو جلاؤ تو کوئی بات بنے

غیریت اب بھی نمایاں ہے ذرا رحم کرو
تم مجھے اپنا بناؤ تو کوئی بات بنے
معاملہ دل کا بتانے میں پس و پیش ہے کیا
پردۂ شرم اٹھاؤ تو کوئی بات بنے

کیوں سناتے ہو مجھے قصۂ درد ہجراں
پیار کے گیت سناؤ تو کوئی بات بنے
آنکھ سے آنکھ ملاتے ہو بھلا احقرؔ سے
دل کو دل سے جو ملاؤ تو کوئی بات بنے

کام بس فاتحہ خوانی سے نہیں ہوتا ہے
عشق اظہار زبانی سے نہیں ہوتا ہے
ہے یہ قرآن عمل کرنے کی دولت یارو
نفع بس لفظ معانی سے نہیں ہوتا ہے

کچھ عنایت یہاں احباب بھی کر جاتے ہیں
سب زیاں دشمن جانی سے نہیں ہوتا ہے
کام ہو جاتا ہے بس مصرع اول سے بھی کبھی
کام جو مصرع ثانی سے نہیں ہوتا ہے

یہ تجارت نہیں اک اہم عبادت ہے میاں
عشق میں لابھ و ہانی سے نہیں ہوتا ہے
بعض اوقات ٹھہرنے کی طلب ہوتی ہے
کام ہر وقت روانی سے نہیں ہوتا ہے

جان لیوا کبھی خاموشی بھی ہو جاتی ہے
خون بس شعلہ بیانی سے نہیں ہوتا ہے
عارضی پیاس تو بجھ جاتی ہے اس سے لیکن
پیاس مٹ جائے یہ پانی سے نہیں ہوتا ہے

پینا پڑتا ہے یہاں جام شہادت قادرؔ
نام بس قصہ کہانی سے نہیں ہوتا ہے

مری نگاہ کو جلووں کا حوصلہ دے دو
گزر بسر کا کوئی بھی تو آسرا دے دو
تمہاری بزم سے جاتا ہے نا مراد کوئی
سفر بخیر کی جان وفا دعا دے دو

عطا پہ حرف نہ آ جائے مانگنے سے مرے
خدا ہو میرے تو پھر حسب مدعا دے دو
مٹا دو میری نگاہوں سے تم نقوش تمام
وگرنہ دوسرا مجھ کو اک آئنہ دے دو

فریب شرح تمنا بھی کھا لے اب یہ دل
لبوں کو جرأت اظہار مدعا دے دو
جنوں نواز و جنوں خیز و صد جنوں ساماں
تم اپنے جلووں کو ایسی کوئی ادا دے دو

عدو کو شکوۂ لذت کوئی نہ رہ جائے
مرے لہو کو کچھ ایسا ہی ذائقہ دے دو
غزل کی آبرو تم ہو غزل مجھے محبوب
شعور فکر کو اسلوب خوش نما دے دو

یہ دل تو دشمن جانی ہے ایک مدت سے
جو غم نواز ہو ایسا غم آشنا دے دو
لباس کہنہ غزل کا اتار کر طرزیؔ
بہ فیض طبع رسا اک نئی قبا دے دو
Mohabbat Men Izhar Quotes

دل غم عشق کے اظہار سے کتراتا ہے
آہ غم خوار کہ غم خوار سے کتراتا ہے
یہ سمجھ کر کے جفاؤں میں مزا پاتا ہے
وہ ستم گر مرے آزار سے کتراتا ہے

ہو گیا اس پہ بھی کچھ اس کی شکایت کا اثر
اب مسیحا بھی جو بیمار سے کتراتا ہے
ہو رہا ہے مجھے تکمیل محبت کا گماں
عشق اب حسن کے دیدار سے کتراتا ہے

دل پروردہ غم خوشیوں سے یوں جاتا ہے
سوزؔ اک بال جوں اغیار سے کتراتا ہے

کبھی اقرار کرتا ہے کبھی انکار کرتا ہے
محبت کا وہ مجھ سے اس طرح اظہار کرتا ہے
میرے خوابوں میں آ کر چھین لیتا ہے سکوں میرا
یہ کیسا دوست ہے جینا مرا دشوار کرتا ہے

کبھی بھی سامنے سے دو بدو ہوتا نہیں ظالم
عجب بزدل ہے ہر دم فاصلے سے وار کرتا ہے
بچھاتا ہے جو کانٹے دوسروں کی راہ میں ہر دم
حقیقت میں وہ اپنی راہ خود پر خار کرتا ہے

نباہے گا زمانے سے وہ کیسے رسم الفت کو
جو اپنی کج ادائی سے ہمیں بیزار کرتا ہے
گناہوں میں چھپا رکھی ہے اس نے کس قدر لذت
نہیں کرنا ہے جس کو دل اسے سو بار کرتا ہے

مجیدؔ اب دل لگانا بھی نہیں آتا ہے لوگوں کو
جسے دیکھو وہی الفت میں کاروبار کرتا ہے

کیا روش اختیار کر بیٹھے
بے وفاؤں سے پیار کر بیٹھے
جو سمجھتے نہیں ہیں دل کی زباں
ان پہ ہم دل نثار کر بیٹھے

ہجر کی رات کاٹے کٹتی نہیں
ایک پل کو ہزار کر بیٹھے
تاب نظارہ کب تھی آنکھوں میں
پھر بھی ضد بار بار کر بیٹھے

ان کا وعدہ تو صرف وعدہ تھا
جس پہ ہم اعتبار کر بیٹھے
جانے والے نہ آئیں گے ہرگز
لوگ کیوں انتظار کر بیٹھے

کر کے اظہار حال ان سے مجیدؔ
خود کو ہم شرمسار کر بیٹھے

جام چھلکائیں صراحی سے نظر چار کریں
میکدہ نیند میں ہے ہم اسے بیدار کریں
کوئی آئے گا شب غم مری پرسش کے لئے
آپ آئیں گے ذرا سوچ کے اقرار کریں

ایک قاتل بھی ہے اس شہر میں منصف کی طرح
جان کی ہم جو اماں پائیں تو اظہار کریں
غنچہ و گل پہ کوئی تازہ قیامت ٹوٹے
لوگ اتنا بھی نہ فکر لب و رخسار کریں

گھر چھوڑ کے بھی گھر ہی کے آزار میں رہنا
کھوئے ہوئے فکر در و دیوار میں رہنا
کچھ اور بڑھا دیتا ہے معنی کا تأثر
چپ رہ کے بھی پیرایۂ اظہار میں رہنا

جو مصلحت وقت کو خاطر میں نہ لائے
وہ حسن انا چاہئے فنکار میں رہنا
Muhabbat Men Izhar Quots

وہ ربط باہمی نہیں وہ پیار بھی نہیں
پہلی سی وہ نگاہ طرحدار بھی نہیں
اب حال دل کا لایق اظہار بھی نہیں
جیتے ہیں اور جینے کے آثار بھی نہیں

ہر ہر نفس میں زیست کے ہے آرزوئے شوق
کم دل کشی میں عشق کا آزار بھی نہیں
تھی جان اک امانت یار اس کو سونپ دی
اب زندگی کے دوش پہ یہ بار بھی نہیں

اس دور کی عجیب ہے تنظیم دوستو
فن کار وہ بنا ہے جو فن کار بھی نہیں
دور ہوس میں کوئی بھی پرسان غم نہیں
اپنوں سے کیا شکایت اغیار بھی نہیں

دنیا میں ایک تیرا سہارا ہے اے خدا
تنہا ہوں کوئی یار و مددگار بھی نہیں
حق بات دردؔ اہل خرد کو نہ ہو قبول
غالبؔ کے لوگ اتنے طرف دار بھی نہیں

راز کھل جائے نہ ساقی کہیں میخانے کا
ذکر اچھا نہیں پیمانے سے پیمانے کا
کیا ٹھکانا ہے بھلا آپ کے دیوانے کا
زندگی جس کے لئے نام ہے مر جانے کا

شہر میں تیرے میں پھرتا ہوں یوں مارا مارا
جیسے اک اجنبی بھٹکا ہوا ویرانے کا
بات تو جب ہے کہ پلکوں سے بھی اظہار نہ ہو
دل میں مستور رہے راز صنم خانے کا

جان دے دینا بھری بزم میں آسان نہیں
شمع پر مٹنا ہی مقدور ہے پروانے کا
ایک لمحے میں بدل جائے گلستاں کا نظام
ہم الٹ دیں جو ورق عشق کے افسانے کا

دردؔ کے درد کو تسکین میسر ہو جائے
خط جو مل جائے کبھی آپ کے آ جانے کا

مرے دن کی طرح روشن مری ہر رات ہوتی ہے
دعا ماں کی ہر اک موسم میں میرے ساتھ ہوتی ہے
عجب دستور ہے اک یہ بھی اظہار محبت کا
زباں خاموش رہتی ہے نظر سے بات ہوتی ہے

تلاش رزق میں جب بھی کبھی گھر سے نکلتا ہوں
مرے ہم راہ پیہم گردش حالات ہوتی ہے
بھلا الزام کوئی دشمنی پر کیا رکھا جائے
کہ اب تو دوستی ہی باعث صدمات ہوتی ہے

رہوں میں کوئی عالم کوئی حالت میں مگر ساحلؔ
مرے پیش نظر تو بس خدا کی ذات ہوتی ہے

احساس عشق دل کی پناہوں میں آ گیا
بادل سمٹ کے چاند کی باہوں میں آ گیا
اظہار عشق میں نے کسی سے نہیں کیا
اور بے سبب جہاں کی نگاہوں میں آ گیا

وہ مسکرا کے دیکھ رہے ہیں مری طرف
اتنا اثر تو اب مری آہوں میں آ گیا
کیا پوچھتے ہو عزم سفر کی کرامتیں
منزل کا نقش خود مری راہوں میں آ گیا

ہیں ابتدائی مرحلے یہ عشق کے ابھی
ساحلؔ یہ سوز کیوں تری آہوں میں آ گیا

جو محبت کو اختیار کرے
حرف مطلب نہ آشکار کرے
آدمی کو بلند رہنا ہے
پستیوں کو نہ اختیار کرے

ہے وہ انسان قدر کے قابل
آدمیت کو جو شعار کرے
ہم تو مر مٹ چکے ہیں جیتے جی
موت کا کون انتظار کرے

ہم بھی رکھتے ہیں پاس خودداری
کون اظہار حال زار کرے
چاک ہے جس کا دامن ہستی
کیوں گریباں کو تار تار کرے

شوق ہے جس کو خاک ہونے کا
مذہب عشق اختیار کرے
ہم ہیں مصروف دید مصحف رخ
کون نظارۂ بہار کرے

نبض ڈوبی مریض الفت کی
چارہ گر خاک کیا شمار کرے

ہوں کیوں نہ منکشف اسرار پست و بالا کے
جمے ہیں پاؤں زمیں پر سر آسماں کو چھوئے
جو سر نوشت میں ہے اس کو ہو کے رہنا ہے
تو کس بھروسے پہ انسان جد و جہد کرے

اب آسماں سے صحیفے نہیں اترتے مگر
کھلا ہوا ہے در اجتہاد سب کے لیے
زباں عطا کرے شعر ان کی بے زبانی کو
جو اپنے کرب کا اظہار کر نہیں سکتے

بہار و بہجت و عز و وقار اس پہ نثار
زباں سے مال سے جاں سے جو ظالموں سے لڑے
ہے آنسوؤں میں شفا کیسی کیا خبر اس کو
بہائے مکر سے جو جھوٹ موٹ کے ٹسوے

ہے بسکہ کام ہم ایسوں کا بھی مسیحائی
ہم آسمان پہ زندہ اٹھائے جائیں گے
Novel Izhar e Mohabbat Mushkil Hai Quotes

اظہار غم کو شوق نے آساں بنا لیا
ضبط سخن کو بات کا عنواں بنا لیا
ہم نے بہار رفتہ کی تصویر کے لیے
شاخ مژہ کو شاخ گل افشاں بنا لیا

دیکھا زمانۂ گزراں کو اسی نے خوب
آنکھوں کو جس نے روزن زنداں بنا لیا
ژولیدگی کہ میرے خیالوں کی جان تھی
تم نے اسی کو زلف کا عنواں بنا لیا

جب خود حریف رنگ گلستاں نہ ہو سکے
خود کو حریف رنگ گلستاں بنا لیا
آرائش حریم وفا کے خیال سے
ہر داغ دل کو شمع فروزاں بنا لیا

فطرتؔ حریم شوق میں آنا جو تھا انہیں
اشکوں کو ہم نے شمع شبستاں بنا لیا

کئی بار ان کی محفل میں ہمارا ذکر خیر آیا
مگر اظہار لطف دوست داری کے بغیر آیا
سمجھتا ہوں یہ سنگ راہ کعبہ ہے سمجھتا ہوں
مگر شام آئی اور میں لوٹ کر پھر سوئے دیر آیا

جمال دوست سے پر نور ہے دنیائے دل میری
خیال دوست اس گھر میں تکلف کے بغیر آیا
نہ ڈر گرداب غم کا ہے نہ طوفان حوادث کا
دل آزاد ان موجوں میں لاکھوں بار تیر آیا

جھلکتے ہیں مژہ پر اشک دل سجدے لٹاتا ہے
زبان بے کسی پر آج کس کا ذکر خیر آیا
رہ ہستی میں سو مشکل کی اک مشکل یہ تھی فطرتؔ
دل ناداں نے سمجھا یہ حرم ہے جب بھی دیر آیا

جو کچھ بھی یہ جہاں کی زمانے کی گھر کی ہے
روداد ایک لمحۂ وحشت اثر کی ہے
پھر دھڑکنوں میں گزرے ہوؤں کے قدم کی چاپ
سانسوں میں اک عجیب ہوا پھر ادھر کی ہے

پھر دور منظروں سے نظر کو ہے واسطہ
پھر ان دنوں فضا میں حکایت سفر کی ہے
پہلی کرن کی دھار سے کٹ جائیں گے یہ پر
اظہار کی اڑان فقط رات بھر کی ہے

ادراک کے یہ دکھ یہ عذاب آگہی کے دوست!
کس سے کہیں خطا نگہ خود نگر کی ہے
وہ ان کہی سی بات سخن کو جو پر کرے
سازؔ اپنی شاعری میں کمی اس کسر کی ہے

طبع حساس مری خار ہوئی جاتی ہے
بے حسی عشرت کردار ہوئی جاتی ہے
یہ خموشی یہ گھلاوٹ یہ بچھڑتے ہوئے رنگ
شام اک درد بھرا پیار ہوئی جاتی ہے

اور باریک کئے جاتا ہوں میں موئے قلم
تیز تر سوزن اظہار ہوئی جاتی ہے
کچھ تو سچ بول کہ دل سے یہ گراں بوجھ ہٹے
زندگی جھوٹ کا طومار ہوئی جاتی ہے

جادۂ فن سے گزرنا بھی کشاکش ہے تمام
راہ خود راہ کی دیوار ہوئی جاتی ہے
سوچ کی دھوپ میں جل اٹھنے کو جی چاہتا ہے
اپنے لفظوں سے بھی اب عار ہوئی جاتی ہے

زیست یوں شام کے لمحوں سے گزرتی ہے کبھی
خود بہ خود شرح غم یار ہوئی جاتی ہے
کم سے کم پھونک ہی دے بجھتی ہوئی راکھ میں سازؔ
آخری سانس بھی بے کار ہوئی جاتی ہے

بند فصیلیں شہر کی توڑیں ذات کی گرہیں کھولیں
برگد نیچے ندی کنارے بیٹھ کہانی بولیں
دھیرے دھیرے خود کو نکالیں اس بندھن جکڑن سے
سنگ کسی آوارہ منش کے ہولے ہولے ہو لیں

فکر کی کس سرشار ڈگر پر شام ڈھلے جی چاہا
جھیل میں ٹھہرے اپنے عکس کو چومیں ہونٹ بھگو لیں
ہاتھ لگا بیٹھے تو جیون بھر مقروض رہیں گے
دام نہ پوچھیں درد کے صاحب پہلے جیب ٹٹولیں

نوشادر گندھک کی زباں میں شعر کہیں اس یگ میں
سچ کے نیلے زہر کو لہجے کے تیزاب میں گھولیں
اپنی نظر کے باٹ نہ رکھیں سازؔ ہم اک پلڑے میں
بوجھل تنقیدوں سے کیوں اپنے اظہار کو تولیں

ہر اک لمحے کی رگ میں درد کا رشتہ دھڑکتا ہے
وہاں تارہ لرزتا ہے جو یاں پتہ کھڑکتا ہے
ڈھکے رہتے ہیں گہرے ابر میں باطن کے سب منظر
کبھی اک لحظۂ ادراک بجلی سا کڑکتا ہے

مجھے دیوانہ کر دیتی ہے اپنی موت کی شوخی
کوئی مجھ میں رگ اظہار کی صورت پھڑکتا ہے
پھر اک دن آگ لگ جاتی ہے جنگل میں حقیقت کے
کہیں پہلے پہل اک خواب کا شعلہ بھڑکتا ہے

مری نظریں ہی میرے عکس کو مجروح کرتی ہیں
نگاہیں مرتکز ہوتی ہیں اور شیشہ تڑکتا ہے

ازدواجی زندگی بھی اور تجارت بھی ادب بھی
کتنا کار آمد ہے سب کچھ اور کیسا بے سبب بھی
جس کے ایک اک حرف شیریں کا اثر ہے زہر آگیں
کیا حکایت لکھ گئے میرے لبوں پر اس کے لب بھی

عمر بھر تار نفس اک ہجر ہی کا سلسلہ ہے
وہ نہ مل پائے اگر تو اور اگر مل جائے تب بھی
لوگ اچھے زندگی پیاری ہے دنیا خوب صورت
آہ کیسی خوش کلامی کر رہی ہے روح شب بھی

لفظ پر مفہوم اس لمحے کچھ ایسا ملتفت ہے
جیسے از خود ہو عنایت بوسۂ لب بے طلب بھی
ناتواں کم ظرف عصیاں کار جاہل اور کیا کیا
پیار سے مجھ کو بلاتا ہے وہ میرا خوش لقب بھی

ہم بھی ہیں پابندئ اظہار سے بیزار لیکن
کچھ سلیقہ تو سخن کا ہو ہنر کا کوئی ڈھب بھی
نام نسبت ملکیت کچھ بھی نہیں باقی اگرچہ
سازؔ اس کوچے میں میرا گھر ہوا کرتا ہے اب بھی
Quotes Aurat Khud Izhar Kry Mard Ki Pakeezgi Dekh Kr

خود کو کیوں جسم کا زندانی کریں
فکر کو تخت سلیمانی کریں
دیر تک بیٹھ کے سوچیں خود کو
آج پھر گھر میں بیابانی کریں

اپنے کمرے میں سجائیں آفاق
جلسۂ بے سر و سامانی کریں
عمر بھر شعر کہیں خوں تھوکیں
منتخب راستہ نقصانی کریں

خود کے سر مول لیں اظہار کا قرض
دوسروں کے لیے آسانی کریں
شعر کے لب پہ خموشی لکھیں
حرف نا گفتہ کو لا فانی کریں

کیمیا کاری ہے فن اپنا سازؔ
آگ کو بیٹھے ہوئے پانی کریں

نظر آسودہ کام روشنی ہے
مرے آگے سراب آگہی ہے
زمانوں کو ملا ہے سوز اظہار
وہ ساعت جب خموشی بول اٹھی ہے

ہنسی سی اک لب ذوق نظر پر
شفق زار تحیر بن گئی ہے
زمانے سبز و سرخ و زرد گزرے
زمیں لیکن وہی خاکستری ہے

پگھلتا جا رہا ہے سارا منظر
نظر تحلیل ہوتی جا رہی ہے
دھندلکوں کو اندھیرے چاٹ لیں گے
کہ آگے عہد مرگ روشنی ہے

بکھرتے کارواں یہ ارتقا کے
سراسیمہ سا ذوق زندگی ہے
میں دیکھوں تو دکھا دوں گا تمہیں سازؔ
ابھی مجھ میں بصیرت کی کمی ہے

یوں بھی دل احباب کے ہم نے گاہے گاہے رکھے تھے
اپنے زخم نظر پر خوش فہمی کے پھاہے رکھے تھے
ہم نے تضاد دہر کو سمجھا دوراہے ترتیب دیئے
اور برتنے نکلے تو دیکھا سہ راہے رکھے تھے

رقص کدہ ہو بزم سخن ہو کوئی کار گہہ فن ہو
زردوزوں نے اپنی ماتحتی میں جلاہے رکھے تھے
محتسبوں کی خاطر بھی اپنے اظہار میں کچھ پہلو
رکھ تو لیے تھے ہم نے اب چاہے ان چاہے رکھے تھے

جو وجہ راحت بھی نہ تھے اور ٹوٹ گئے تو غم نہ ہوا
آہ وہ رشتے کیوں ہم نے اک عمر نباہے رکھے تھے
کاہکشاں بندی میں سخن کی رہ گئی سازؔ کسر کیسی
لفظ تو ہم نے چن کے نجومے مہرے ماہے رکھے تھے

دور سے شہر فکر سہانا لگتا ہے
داخل ہوتے ہی ہرجانہ لگتا ہے
سانس کی ہر آمد لوٹانی پڑتی ہے
جینا بھی محصول چکانا لگتا ہے

روز پلٹ آتا ہے لہو میں ڈوبا تیر
روز فلک پر ایک نشانہ لگتا ہے
بیچ نگر دن چڑھتے وحشت بڑھتی ہے
شام تلک ہر سو ویرانہ لگتا ہے

عمر زمانہ شہر سمندر گھر آکاش
ذہن کو ایک جھٹکا روزانہ لگتا ہے
بے حاصل چلتے رہنا بھی سہل نہیں
قدم قدم پر ایک بہانہ لگتا ہے

کیا اسلوب چنیں کس ڈھب اظہار کریں
ٹیس نئی ہے درد پرانا لگتا ہے
ہونٹ کے خم سے دل کے پیچ ملانا سازؔ
کہتے کہتے بات زمانہ لگتا ہے

منظر شمشان ہو گیا ہے
دل قبرستان ہو گیا ہے
اک سانس کے بعد دوسری سانس
جینا بھگتان ہو گیا ہے

چھو آئے ہیں ہم یقیں کی سرحد
جس وقت گمان ہو گیا ہے
سرگوشیوں کی دھمک ہے ہر سو
غل کانوں کان ہو گیا ہے

وہ لمحہ ہوں میں کہ اک زمانہ
میرے دوران ہو گیا ہے
سو نوک پلک پلک جھپک میں
عقدہ آسان ہو گیا ہے

منزل وہ خم سفر ہے جس پر
چوری سامان ہو گیا ہے
اک مرحلۂ کشاکش فن
وجہ امکان ہو گیا ہے

کاغذ پہ قلم ذرا جو پھسلا
اظہار بیان ہو گیا ہے
پیدا ہوتے ہی آدمی کو
لاحق نسیان ہو گیا ہے

پیلی آنکھوں میں زرد سپنے
شب کو یرقان ہو گیا ہے
سودے میں غزل کے فائدہ سازؔ
کیسا نقصان ہو گیا ہے

نام خوشبو تھا سراپا بھی غزل جیسا تھا
چاند سے چہرے پہ پردہ بھی غزل جیسا تھا
سارے الفاظ غزل جیسے تھے گفتار کے وقت
رنگ اظہار تمنا بھی غزل جیسا تھا

پھول ہی پھول تھے کلیاں تھیں حسیں گلیاں تھیں
آپ کے گھر کا وہ رستہ بھی غزل جیسا تھا
اس کی آنکھیں بھی حسیں آنکھ میں آنسو بھی حسیں
غم میں ڈوبا ہوا چہرہ بھی غزل جیسا تھا

وہ جوانی وہ محبت وہ شرارت کا نشہ
وہ مری عمر کا حصہ بھی غزل جیسا تھا
فاصلے تھے نہ جدائی تھی نہ تنہائی تھی
تیری قربت کا وہ لمحہ بھی غزل جیسا تھا

وہ نہ میرا نہ میں اس کا تھا مگر اے داناؔ
دھندلا دھندلا سا وہ رشتہ بھی غزل جیسا تھا
Quotes On Izhar e Mohabbat

چمک کیسی رخ انوار میں ہے
زمانہ سارا ہی اسرار میں ہے
لگائیں اپنے فن پاروں کی قیمت
کہ اب ہر چیز ہی بازار میں ہے

کئی آنکھیں گڑھی جاتی ہیں مجھ میں
کوئی روزن در و دیوار میں ہے
رہا ہوں منتظر جس کا ازل سے
وہی چہرہ مرے افکار میں ہے

نہیں پہلا سا اب رنگ بہاراں
کہ ویرانی گل و گلزار میں ہے
حدیث دل بیاں کیسے ہو آصیؔ
مجھے مشکل بہت اظہار میں ہے

ویسے اس آب و گل میں کیا نہ ہوا
کوئی بندہ مگر خدا نہ ہوا
اف رے ان کے جمال کا عالم
مجھ سے اظہار مدعا نہ ہوا

ساقیٔ میکدہ نے جو دے دی
میں اسے پی کے بد مزہ نہ ہوا
مجھ سے عبرت جہاں کو حاصل ہے
میں برا ہو کہ بھی برا نہ ہوا

زخم دل کا شمار کون کرے
تیر اس کا کوئی خطا نہ ہوا
قید غم سے مگر رہا نا ہوا
میں نے کوشش بھی کی دعا بھی کی
قید غم سے مگر رہا نہ ہوا

مر گیا آسیؔٔ شکستہ دل
یہ بھی اچھا ہوا برا نہ ہوا

ہجوم غم میں جینا کس قدر صبر آزما ہوتا
اگر درد محبت سے یہ دل نا آشنا ہوتا
مری لغزش نے رنگیں کر دیا ہر نقش ہستی کو
یہاں ہو کا سماں ہوتا اگر میں پارسا ہوتا

تمنا خود فریبی آرزو ہے جان کی دشمن
مسرت دل کو دینا تھی تو بس غم ہی دیا ہوتا
یہ انسان اپنی دنیا کو تباہی سے بچا لیتا
اگر فکر جزا ہوتی اگر خوف خدا ہوتا

کریں کیا ہم بھی ہیں مجبور دل سے ورنہ اے ہمدم
تری ہر بات سن لیتے اگر دل دوسرا ہوتا
خوشا قسمت جنون جستجو تھا ساتھ ساتھ اپنی
وگرنہ رہنما نے تو ہمیں بھٹکا دیا ہوتا

کہاں تھا حوصلہ کیسے گزرتی زندگی یا رب
اگر فیض محبت کا نہ دل کو آسرا ہوتا
بس اک ذوق تمنا نے کیا رسوا مجھے ورنہ
نہ تکلیف فنا ہوتی نہ ارمان بقا ہوتا

علاج اپنے کئے کا کچھ نہیں دنیا میں آشفتہؔ
نہ ہم اظہار غم کرتے نہ کوئی خود نما ہوتا

روش عصر سے انکار بہت مشکل ہے
کرب احساس کا اظہار بہت مشکل ہے
وہ یہ کہتے ہیں کہ میں بولوں ہوں آواز ان کی
اف یہ مجبوریٔ گفتار بہت مشکل ہے

ہم سے دیوانے کہاں تاب و تپش سے ٹھہرے
ڈھونڈھ لیں سایۂ دیوار بہت مشکل ہے
مرا دشمن مرے اندر ہی چھپا ہے اور میں
خود سے ہوں بر سر پیکار بہت مشکل ہے

آہ کرنے کی اجازت نہیں اس شہر میں اب
اور اک یہ دل بیمار بہت مشکل ہے

کچھ نئی ہم پہ گزر جائے تو پھر شعر کہیں
بھولی بصری کوئی یاد آئے تو پھر شعر کہیں
زندگی ہم کو لگے پھر سے جو انجانی سی
اور گیا وقت پلٹ آئے تو پھر شعر کہیں

کوئی اڑتا ہوا آنچل کوئی بکھری ہوئی زلف
شعر کہنے کو جو اکسائے تو پھر شعر کہیں
فکر فردا غم ایام کا چھایا ہے غبار
ذہن سے دھند یہ چھٹ جائے تو پھر شعر کہیں

کرب احساس کا اظہار ہے مقصود غزل
درد لفظوں میں سمٹ آئے تو پھر شعر کہیں

جیون کو دکھ دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے
بچے لیکن سوئے ہوئے تھے کس سے کہانی کہتے
سچ کہنے کا حوصلہ تم نے چھین لیا ہے ورنہ
شہر میں پھیلی ویرانی کو سب ویرانی کہتے

وقت گزرتا جاتا اور یہ زخم ہرے رہتے تو
بڑی حفاظت سے رکھی ہے تیری نشانی کہتے
وہ تو شاید دونوں کا دکھ اک جیسا تھا ورنہ
ہم بھی پتھر مارتے تجھ کو اور دیوانی کہتے

تبدیلی سچائی ہے اس کو مانتے لیکن کیسے
آئینے کو دیکھ کے اک تصویر پرانی کہتے
تیرا لہجہ اپنایا اب دل میں حسرت سی ہے
اپنی کوئی بات کبھی تو اپنی زبانی کہتے

چپ رہ کر اظہار کیا ہے کہہ سکتے تو آنسؔ
ایک علاحدہ طرز سخن کا تجھ کو بانی کہتے

پہلے اپنایا خار پھولوں کا
تب کہیں پایا پیار پھولوں کا
میں بھی گلشن سمیٹ لایا ہوں
اس نے مانگا تھا ہار پھولوں کا

یاد آتی ہے اس کی مت چھیڑو
ذکر یوں بار بار پھولوں کا
تجھ سے ملنے کے بعد یہ جانا
کون ہے دست کار پھولوں کا

پھیل جا بن کے خوشبو گلشن میں
چھین لے اختیار پھولوں کا
تیرے چھونے سے ہی تو چلتا ہے
آج کل روزگار پھولوں کا

دے کے اظہار عشق کرتے ہیں
اس سے سمجھو وقار پھولوں کا
جب سے عامر عطاؔ ہوا عاشق
چڑھ گیا ہے ادھار پھولوں کا

اب وہ سب کچھ کر رہے ہیں دوستی کی آڑ میں
غیر ممکن تھا جو شاید دشمنی کی آڑ میں
اس قدر نخرے نہ کر اے موت آ جا سامنے
کب تلک چھپ کر رہے گی زندگی کی آڑ میں

آج اک محفل میں جب اس سے نظر ٹکرا گئی
ہم نے کہہ دی دل کی باتیں شاعری کی آڑ میں
اک سلیقے سے کیا ہے پھول دے کر پھول کو
عشق کا اظہار چودہ فروری کی آڑ میں

پچھلی شب کا واقعہ اب کیا بتاؤں دوستوں
چوم آیا چاند کو میں تیرگی کی آڑ میں
Raye Ka Izhar Quotes

سوچ کیا اس کا ملا کیا اور کیا مطلوب تھا
خواب ہی ٹھہرا تو جتنی دیر دیکھا خوب تھا
آگ دے دے کر بحد آشیاں یہ انتقام
تنکا تنکا کیوں کسی کو اس قدر محبوب تھا

وہ نگاہوں کے پیام اور وہ پیاموں کی بہار
دیکھیے میری طرف وہ بھی زمانہ خوب تھا
اب تو سودائے محبت ہے فقط دیوانگی
ورنہ سودائے محبت کا بھی اک اسلوب تھا

کب کھلا عقدہ رضاؔ جب کر چکے اظہار شوق
مدعا جائز تھا حرف مدعا معیوب تھا

جو چاہتے ہو سو کہتے ہو چپ رہنے کی لذت کیا جانو
یہ راز محبت ہے پیارے تم راز محبت کیا جانو
الفاظ کہاں سے لاؤں چھالے کی ٹپک کو سمجھاؤں
اظہار محبت کرتے ہو احساس محبت کیا جانو

کیا حسن کی بھیک بھی ہوتی ہے جب چٹکی چٹکی جڑتی ہے
ہم اہل غرض جانیں اس کو تم صاحب دولت کیا جانو
ہے فرق بڑا اے جان رضاؔ دل دینے میں دل لینے میں
الفت کا تعلق جان کے بھی رشتے کی نزاکت کیا جانو

!کہو نا یاد کرتے ہو
!انا کے دیوتا
اچھا چلو مرضی تمہاری
پر
میں اتنا جانتا تو ہوں
کہ جب بھی شام ڈھلتی ہے

تو لمبی رات کی کجلائی آنکھوں میں
ستارے جھلملاتے ہیں
تمہیں میں اس گھڑی پھر چاند کو تکتے ہوئے
شدت سے اتنا یاد آتا ہوں کہ جتنی شدتوں سے

تم خموشی کی ردا کو اوڑھ کر یہ کہہ نہیں پاتے
کہ ہاں! تم یاد آتے ہو!
چلو مانا انائیں اہم ہوتی ہیں
مگر ان سے کہیں زیادہ محبت اہم ہوتی ہے

چلو مانا تمہیں عادت نہیں اظہار کی،
اقرار کی،
اور تم بھی محسن نقوی کی وہ نظم تھی نا جو
“چلو چھوڑو” ، کی بس ان چند سطروں سے متاثر ہو

کہ جو کچھ اس طرح سے تھیں
چلو چھوڑو! محبت جھوٹ ہے
عہدِ وفا اک شغل ہے بے کار لوگوں کا”
مگر اِس نظم میں پنہاں

جو ہے اک بے بسی کی اوٹ میں ٹوٹا،
تھکا ہارا بڑا ہی مضطرب اور طنزیہ لہجہ
اسے تم نے کبھی محسوس کرنے کی سعی کی
نا مرے جذباب کو سمجھا

مجھے معلوم ہے تم کو محبت ہے مگر تم کہہ نہیں سکتے
انا کے دیوتا!
میں جانتا ہوں ان کہی باتیں
مگر چھوٹی سی یہ خواہش
مجھے تڑپائے رکھتی ہے کہ تم بھی تو

کبھی اپنی انا کا بت گراؤ
وہ سبھی باتیں ذرا شیریں سے لہجے میں سناؤ
وہ سبھی باتیں جنھیں تم کہہ نہیں پائے
جنھیں تم کہہ نہیں سکتے

مجھے معلوم ہے کہ میں تمہیں بے چینیوں کی شدتوں میں
حد سے زیادہ یاد آتا ہوں
مگر تم لب ہلاؤ تو
مری ان رتجگوں کی مٹھیوں میں قید آنکھوں میں
!!تم اپنی ڈال کر آنکھیں ذرا اک بار دیکھو تو

کہو کس واسطے جذبوں کا اپنے خون کرتے ہو
بھلا کیوں روندتے ہو پاؤں میں ایسے گُلِ خوابِ محبت کو
تمہیں ملتا ہی کیا ہے درد سے مجھ کو سدا منسوب رکھنے میں
انا کو اوڑھ کر تم کس لیے یہ خواہشیں اور حسرتیں برباد کرتے ہو
کہو نا یاد کرتے ہو۔۔۔

دل کو سمجھاؤں گا جیسے بھی ہو مُمکن لیکن
اب میں اظہارِ تمنّا نہیں ہونے دوں گا
لوگ کہتے ہیں کہ درد اُٹھ کے بتا دیتا ہے
اب تو میں، یہ بھی اِشارا نہیں ہونے دوں گا

اے مِرے ظرف و اَنا اِتنے پریشاں کیوں ہو
کہہ چکا ہُوں تمہیں رُسوا نہیں ہونے دوں گا

تکتے رہنا بھی ہے افراطِ محبت کی دلیل
پیار کے سینکڑوں….. اظہار ہُوا کرتے ہیں
وہ تو پَربت ہیں جو گر جاتے ہیں ٹکڑے ہو کر
حوصلے بھی کہیں مِسمار ہُوا کرتے ہیں

کس محبت سے عدم! ہنس کہ وہ کہتے ہیں مجھے
چاہنے والے تو خود دار ہُوا کرتے ہیں

اظہارِ عشق میں جو تحریر بھیجی ٬ رَد ہوگئی
میں پھر بھی اسکی راہ تکوں؟ مطلب حَد ہوگئی

محبت کا اظہار، اپنائیت کا احساس، ساتھ نبھانے
کی کوشش اور مسکرانے کی وجہ بننے کے لئے خاص
دنوں کاانتظار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ہر دن اپنے ساتھ
موجود شخص کو ان احساسات سے گھیرے رکھیں۔

وہ خاموشیاں بھی سن لیتا ہے۔۔””
لیکن اسے اظہار پسند ھے بندےکا۔۔
جب بندہ کہتا ھے۔۔
!اے میرے رب۔۔
تو وہ متوجہ ھوجاتا ھے۔۔

جب بندہ کہتا ھے تو بڑا رحیم ھے
تواسکی رحمت جوش میں آجاتی ھے
جب بندہ کہتا ھے اللہ مجھے معاف کردے۔۔
““تووہ معاف کردیتا ھے

غم کا اظہار بھی کرنے نہیں دیتی دنیا
اور مرتا ہوں تو مرنے نہیں دیتی دنیا
سب ہی مے خانۂ ہستی سے پیا کرتے ہیں
مجھ کو اک جام بھی بھرنے نہیں دیتی دنیا

آستاں پر ترے ہم سر کو جھکا تو لیتے
سر سے یہ بوجھ اترنے نہیں دیتی دنیا
ہم کبھی دیر کے طالب ہیں کبھی کعبہ کے
ایک مرکز پہ ٹھہرنے نہیں دیتی دنیا

بجلیوں سے جو بچاتا ہوں نشیمن اپنا
مجھ کو ایسا بھی تو کرنے نہیں دیتی دنیا
مندمل ہونے پہ آئیں تو چھڑکتی ہے نمک
زخم دل کے مرے بھرنے نہیں دیتی دنیا

میری کوشش ہے محبت سے کنارہ کر لوں
لیکن ایسا بھی تو کرنے نہیں دیتی دنیا
دینے والوں کو ہے دنیا سے بغاوت لازم
دینے والوں کو ابھرنے نہیں دیتی دنیا

جس نے بنیاد گلستاں کی کبھی ڈالی تھی
اس کو گلشن سے گزرنے نہیں دیتی دنیا
گھٹ کے مر جاؤں یہ خواہش ہے زمانے کی
آہ بھرتا ہوں تو بھرنے نہیں دیتی دنیا

میرے دل کا درد لکھوگے لفظ کہا سے لاؤگے
کوزے میں دریا ھبر لوگے لفظ کہاں سے لاؤگے
سارے عالم فاضل تھک کر چور ہوئے مجبور ہوئے
میری قسمت آپ لکھو گے لفظ کہاں سے لاؤ گے
آنکھوں کی بھی ایک زباں ہے تم بولو اور میں سمجھوں
الفت کا اظہار کروگے لفظ کہاں سے لاؤگے

زندگی تھوڑی سی مہلت تو کبھی دی ہوتی
زندہ رہنے کی اجازت تو کبھی دی ہوتی
کوئی اظہار وفا آپ سے کیسے کرتا
بات کہہ دینے کی جرأت تو کبھی دی ہوتی

سخت لہجوں کے رویوں کو بدلنے کے لئے
نورؔ جذبوں کو نزاکت تو کبھی دی ہوتی

خاموشی میں پیار کے اظہار بھی ہیں
پس پردہ چاہت کے اثار بھی ہیں

موجودہ دور میں محبت کا اظہار صرف جنازوں پر کیا جاتا ہے

زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کھانا پینا، بچے پیدا کرنا اور مر جانا۔
ایسا تو جانور بھی کرتے ہیں۔ پھر انسان کیونکر جانوروں سے
افضل ہے؛ کہ وہ شعور رکھتا ہے، عقل کا استعمال کرتا ہے یا دکھ کا
اظہارکرتا ہے۔ کسی نہ کسی درجے پہ جانور بھی یہ سب
کچھ کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں انسان اس لئے مختلف ہے

کہ وہ آعلیٰ درجے کی محبت اور ہمدردی کا مالک ہے اور
وہ سمجھتا ہے کہ ایک بھر پور زندگی جی کر اور ہر طرح
کی عیش سے لطف اندوز ہونے کے بعد بھی سچی خوشی
خدمت اور بے لوث محبت میں پوشیدہ ہے
اور جو یہ راز پا چکے ہیں ان کی روح کو کوئی دکھ نہ ہو گا۔

رموزِ عشق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رموزِ عشق ہر کوئی نہیں جانتا ہے
کہاں آداب کہنا ، کہاں تسلیم کہنا ہے
کہاں زانوئے ادب تہہ کرنا ہے
کہاں پر عشق کو حافظ خدا کہنا ہے

رموز عشق ہر کوئی نہیں جانتی
چلتی ہے عشق کرنے
آدابِ عشق نہیں جانتی
کہاں پر اپنی لامبی پلکیں جُھکا لینی ہیں

نہیں سمجھتی کہاں پر حجاب کرنا ہے
کہاں پر حجاب اتار دینا ہے
کس مقام پر سولہ سنگھار کر کے استقبال کرنا ہے
کب رُوٹھ جانا ہے

کب رُوٹھے کو محبت سے منانا ہے
کب ہونٹوں کو تر و تازہ کرنا ہے
کب ہونٹوں کا عرق پلانا ہے
اور خود کیسے طلب کا اظہار کرنا ہے
محبت کا بے پایاں اقرار کرنا ہے

رموز عشق ہر کوئی نہیں جانتا ہے
دلربا کو کب پھول لا کے دینے ہیں
کس وقت اُسے آسودہ کرنا ہے
یہ سمجھنے کا نام رموزِ عشق ہوتا ہے
اِس اظہار کا ذریعہ دونوں کا فرض ہوتا ہے ۔۔۔ !!!

میری زباں کو سطوتِ گُفتار چاہئے✨
اس دل کو اِک ذریعہِ اظہار چاہئے
اُجرت مِرے کلام کی اِک داد ہی تو ہے
✨شاعر ہوں مجھ کو قیمتِ اشعار چاہئے

اس نے کیا ہی نہیں ہم سے محبت کا اظہار
مرشد
ہم کیوں اس کے لیے اپنی زندگی برباد کرے
Wife Quotes Izhar Mohbat
نظر ہتھیار کرنا چاہتے ہیں
ادا سے وار کرنا چاہتے ہیں
نگاہیں چار کرنا چاہتے ہیں
تمہیں ہم پیار کرنا چاہتے ہیں
رہے ہیں صبر کی بستی میں زندہ
تو اب اظہار کرنا چاہتے ہیں
نگاہیں بند کر لی ہیں کہ جاناں
ترا دیدار کرنا چاہتے ہیں
بنا کر حوصلہ پتوار اب ہم
سمندر پار کرنا چاہتے ہیں
اداکاری دغا دینے کی کر کے
تجھے ہشیار کرنا چاہتے ہیں
سنا کر داستاں ترک تعلق
زمیں ہموار کرنا چاہتے ہیں
ردائے بے حسی اوڑھے ہیں یاں جو
انہیں بیدار کرنا چاہتے ہیں
ہلیں گے لفظوں سے ایوان سارے
قلم تلوار کرنا چاہتے ہیں
گرفتار محبت کر کے ایمنؔ
غضب سرکار کرنا چاہتے ہیں
ایمن جنید خان
کتنا ہشیار ہوا کتنا وہ فرزانہ ہوا
تیری مستی بھری آنکھوں کا جو دیوانہ ہوا
آہ یہ عالم غربت یہ شب تنہائی
اک قیامت ہوئی دھیان ایسے میں تیرا نہ ہوا
اک جہاں آج بھی ہے اس کے طلسموں میں اسیر
سب کا ہو کر بھی جو عیار کسی کا نہ ہوا
تجھ کو اپنانے کا یارا تھا نہ کھونے ہی کا ظرف
دل حیراں اسی الجھاوے میں دیوانہ ہوا
کیفیت اس کی جدائی کی نہ پوچھو یارو
دل تہی ہو کے بھی چھلکا ہوا پیمانہ ہوا
ہائے وہ لطف و کرم اس کے ستم سے پہلے
کر کے بیگانہ زمانے سے جو بیگانہ ہوا
روز محشر نہ بنایا شب غم کو ہم نے
ذکر تیرا ہی بس افسانہ در افسانہ ہوا
کرب راحت ہے کبھی اور کبھی راحت کرب
اک معما یہ مزاج دل دیوانہ ہوا
ایک محسوس قرابت کی وہ خوشبوئے بدن
جس کو چھونے کا تصور میں بھی یارانہ ہوا
کیفیت درد تمنا کی وہی ہے کہ جو تھی
تیرا اظہار وفا بھی دم عیسیٰ نہ ہوا
جانے کس جان بہاراں کی لگن ہے کہ سلامؔ
دل سا معمورۂ وحشت کبھی صحرا نہ ہوا
عین سلام
مجھی میں جیتا ہے سورج تمام ہونے تک
میں اپنے جسم میں آتا ہوں شام ہونے تک
خبر ملی ہے مجھے آج اپنے ہونے کی
کہیں یہ جھوٹ نہ ہو جائے عام ہونے تک
کہاں یہ جرأت اظہار تھی کسی شے میں
سکوت شب سے مرے ہم کلام ہونے تک
یہ پختگی تھی غموں میں نہ دھڑکنوں میں ثبات
تمہارے درد کا دل میں قیام ہونے تک
یہ چاند تارے مری دسترس سے دور نہیں
کہ فاصلے ہیں مرے تیز گام ہونے تک
گزر رہے ہیں نظر سے نظر ملائے بغیر
ٹھہر بھی جائیے ایک ایک جام ہونے تک
دیئے بجھا دئے جاتے ہیں صبح تک عازمؔ
مرا حوالہ دیا اس نے نام ہونے تک
عین الدین عازم
کہا تخلیق فن بولے بہت دشوار تو ہوگی
کہا مخلوق بولے باعث آزار تو ہوگی
کہا: ہم کیا کریں اس عہد نا پرساں میں کچھ کہیے
وہ بولے کوئی آخر صورت اظہار تو ہوگی
کہا: ہم اپنی مرضی سے سفر بھی کر نہیں سکتے
وہ بولے ہر قدم پر اک نئی دیوار تو ہوگی
کہا: آنکھیں نہیں اس غم میں بینائی بھی جاتی ہے
وہ بولے ہجر کی شب ہے ذرا دشوار تو ہوگی
کہا: جلتا ہے دل بولے اسے جلنے دیا جائے
اندھیرے میں کسی کو روشنی درکار تو ہوگی
کہا: یہ کوچہ گردی اور کتنی دیر تک آخر
وہ بولے عشق میں مٹی تمہاری خوار تو ہوگی
اعتبار ساجد
یہ کیا حالت بنا رکھی ہے یہ آثار کیسے ہیں
بہت اچھا بھلا چھوڑا تھا اب بیمار کیسے
وہ مجھ سے پوچھنے آئی ہے کچھ لکھا نہیں مجھ پر
میں اس کو کیسے سمجھاؤں مرے اشعار کیسے ہیں
مری سوچیں ہیں کیسی کون ان سوچوں کا مرکز ہے
جو میرے ذہن میں پلتے ہیں وہ افکار کیسے ہیں
مرے دل کا الاؤں آج تک دیکھا نہیں جس نے
وہ کیا جانے کہ شعلے صورت اظہار کیسے ہیں
یہ منطق کون سمجھے گا کہ یخ کمرے کی ٹھنڈک میں
مرے الفاظ کے ملبوس شعلہ بار کیسے ہیں
ذرا سی ایک فرمائش بھی پوری کر نہیں سکتے
محبت کرنے والے لوگ بھی لاچار کیسے ہیں
جدائی کس طرح برتاؤ ہم لوگوں سے کرتی ہے
مزاجاً ہم سخنور بے دل و بے زار کیسے ہیں
اعتبار ساجد
پھولوں میں وہ خوشبو وہ صباحت نہیں آئی
اب تک ترے آنے کی شہادت نہیں آئی
موسم تھا نمائش کا مگر آنکھ نہ کھولی
جاناں ترے زخموں کو سیاست نہیں آئی
جو روح سے آزار کی مانند لپٹ جائے
ہم پر وہ گھڑی اے شب وحشت نہیں آئی
اے دشت انا الحق ترے قربان ابھی تک
وہ منزل اظہار صداقت نہیں آئی
ہم لوگ کہ ہیں ماؤں سے بچھڑے ہوئے بچے
حصے میں کسی کے بھی محبت نہیں آئی
ہم نے تو بہت حرف تری مدح میں سوچے
افسوس کہ سنوائی کی نوبت نہیں آئی
لرزے بھی نہیں شہر کے حساس در و بام
دل راکھ ہوئے پھر بھی قیامت نہیں آئی
ساجدؔ وہ سحر جس کے لئے رات بھی روئی
آئی تو سہی حسب ضرورت نہیں آئی
اعتبار ساجد
درد مسلسل سے آہوں میں پیدا وہ تاثیر ہوئی
اکثر چارہ گروں کی حالت مجھ سے سوا گمبھیر ہوئی
کیا جانے کیوں مجھ سے میری برگشتہ تقدیر ہوئی
مملکت عیش آنکھ جھپکتے ہی غم کی جاگیر ہوئی
اس نے میرے شیشۂ دل کو دیکھ کے کیوں منہ موڑ لیا
شاید اس آئینے میں اس کو ظاہر کوئی لکیر ہوئی
جب بھی لکھا حال دل مضطر میں نے اس کو رات گئے
تا بہ سحر اشک افشانی سے ضائع وہ تحریر ہوئی
بڑھتی جاتی ہے دورئ منزل جب سے جنوں نے چھوڑا ساتھ
اب تو خرد ہر گام پر اپنے پیروں کی زنجیر ہوئی
مجھ کو عطا کرتے وہ یقیناً میری طلب سے سوا لیکن
خودداری میں ہاتھ نہ پھیلا شرم جو دامن گیر ہوئی
کس کو خبر ہے ان کی گلی میں کتنے دلوں کا خون ہوا
رعنائی میں ان کی گلی جب وادئ کشمیر ہوئی
ان سے کروں اظہار تمنا سوچا رکھ کر عذر جنوں
لیکن وہ بھی راس نہ آیا لا حاصل تدبیر ہوئی
ٹپ ٹپ آنکھ سے آنسو ٹپکے عاجزؔ آہ سرد کے ساتھ
میرے سامنے نذر آتش جب میری تصویر ہوئی
عاجز ماتوی
پابندئ اظہار کی لعنت ہی الگ ہے
خاموش زبانوں کی حکایت ہی الگ ہے
جو تم نے ستم ڈھائے ہیں وہ اور ہیں لیکن
اس درد جدائی کی اذیت ہی الگ ہے
تم نے تو اداؤں سے بہت قتل کئے ہیں
انداز تغافل کی قیامت ہی الگ ہے
ہونٹوں سے تو ہوتے ہیں ادا حرف محبت
آنکھوں کے اشارے کی وضاحت ہی الگ ہے
تا حد نظر دید کے قابل ہیں نظارے
لیکن ترے دیدار کی حسرت ہی الگ ہے
عشرت کدہ دہر میں کیا کیا نہیں لیکن
تیرے لب و رخسار کی جنت ہی الگ ہے
پڑھتے ہیں بڑے شوق سے ارباب ادب بھی
اجملؔ ترے اشعار کی ندرت ہی الگ ہے
اجمل ابواللیث
پابندئ اظہار کی لعنت ہی الگ ہے
خاموش زبانوں کی حکایت ہی الگ ہے
جو تم نے ستم ڈھائے ہیں وہ اور ہیں لیکن
اس درد جدائی کی اذیت ہی الگ ہے
تم نے تو اداؤں سے بہت قتل کئے ہیں
انداز تغافل کی قیامت ہی الگ ہے
ہونٹوں سے تو ہوتے ہیں ادا حرف محبت
آنکھوں کے اشارے کی وضاحت ہی الگ ہے
تا حد نظر دید کے قابل ہیں نظارے
لیکن ترے دیدار کی حسرت ہی الگ ہے
عشرت کدہ دہر میں کیا کیا نہیں لیکن
تیرے لب و رخسار کی جنت ہی الگ ہے
پڑھتے ہیں بڑے شوق سے ارباب تحفظ
اجملؔ ترے اشعار کی ندرت ہی الگ ہے
اجمل ابواللیث
آزار بہت لذت آزار بہت ہے
دل دست ستم گر کا طلب گار بہت ہے
اقرار کی منزل بھی ضرور آئے گی اک دن
اس وقت تو بس لذت انکار بہت ہے
یاران سفر کوئی دوا ڈھونڈ کے لاؤ
انسان مرے دور کا بیمار بہت ہے
ہاں دیکھیو عرفان بغاوت نہ جھلس جائے
منظر مری دنیا کا شرر بار بہت ہے
ہم گھر کی پناہوں سے جو نکلے تو یہ جانا
ہنگامہ پس سایۂ دیوار بہت ہے
قاتل کی عنایت کا مزہ اور ہے ورنہ
جاں لینے کو یہ سانس کی تلوار بہت ہے
کیا لوگ ہیں یہ سوچ کے بیٹھے ہوں گھروں میں
بس ظلم سے بے زاری کا اظہار بہت ہے
حالات زمانہ سے لرز جاتے ہیں اجملؔ
یوں ہے کہ زمانہ سے ہمیں پیار بہت ہے
اجمل اجملی
اتراتا گریباں پر تھا بہت، رہ عشق میں کب کا چاک ہوا
وہ قصۂ آزادانہ روی، اس زلف کے ہاتھوں پاک ہوا
کیا کیا نہ پڑھا اس مکتب میں، کتنے ہی ہنر سیکھے ہیں یہاں
اظہار کبھی آنکھوں سے کیا کبھی حد سے سوا بے باک ہوا
جس دن سے گیا وہ جان غزل ہر مصرعے کی صورت بگڑی
ہر لفظ پریشاں دکھتا ہے، اس درجہ ورق نمناک ہوا
خوش رہیو سن اے باد صبا کہیں اور تو اپنے ناز دکھا
تو جس کے بال اڑاتی تھی وہ شخص تو کب کا خاک ہوا
اجمل صدیقی
تمہارے دل کی طرح یہ زمین تنگ نہیں
خدا کا شکر کہ پاؤں میں اپنے لنگ نہیں
عجیب اس سے تعلق ہے کیا کہا جائے
کچھ ایسی صلح نہیں ہے کچھ ایسی جنگ نہیں
کوئی بتاؤ کہ اس آئنہ کا مول ہے کیا
جس آئنہ پہ نشان غبار و زنگ نہیں
مرا جنون ہے کوتاہ یا یہ شہر تباہ
جو زخم سر کے لیے یاں تلاش سنگ نہیں
ہیں سارے قافلہ سالار سب ہیں راہنما
یہ کیا سفر ہے جو کوئی کسی کے سنگ نہیں
جو کچھ متاع ہنر ہو تو سامنے لاؤ
کہ یہ زمانۂ اظہار نسل و رنگ نہیں
اکبر علی خان عرشی زادہ
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
معرفت خالق کی عالم میں بہت دشوار ہے
شہر تن میں جب کہ خود اپنا پتا ملتا نہیں
غافلوں کے لطف کو کافی ہے دنیاوی خوشی
عاقلوں کو بے غم عقبیٰ مزا ملتا نہیں
کشتئ دل کی الٰہی بحر ہستی میں ہو خیر
ناخدا ملتے ہیں لیکن با خدا ملتا نہیں
غافلوں کو کیا سناؤں داستان عشق یار
سننے والے ملتے ہیں درد آشنا ملتا نہیں
زندگانی کا مزا ملتا تھا جن کی بزم میں
ان کی قبروں کا بھی اب مجھ کو پتا ملتا نہیں
صرف ظاہر ہو گیا سرمایۂ زیب و صفا
کیا تعجب ہے جو باطن با صفا ملتا نہیں
پختہ طبعوں پر حوادث کا نہیں ہوتا اثر
کوہساروں میں نشان نقش پا ملتا نہیں
شیخ صاحب برہمن سے لاکھ برتیں دوستی
بے بھجن گائے تو مندر سے ٹکا ملتا نہیں
جس پہ دل آیا ہے وہ شیریں ادا ملتا نہیں
زندگی ہے تلخ جینے کا مزا ملتا نہیں
ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہو
جان دینے کو ہوں موجود کوئی بات تو ہو
دل بھی حاضر سر تسلیم بھی خم کو موجود
کوئی مرکز ہو کوئی قبلۂ حاجات تو ہو
دل تو بے چین ہے اظہار ارادت کے لیے
کسی جانب سے کچھ اظہار کرامات تو ہو
دل کشا بادۂ صافی کا کسے ذوق نہیں
باطن افروز کوئی پیر خرابات تو ہو
گفتنی ہے دل پر درد کا قصہ لیکن
کس سے کہیے کوئی مستفسر حالات تو ہو
داستان غم دل کون کہے کون سنے
بزم میں موقع اظہار خیالات تو ہو
وعدے بھی یاد دلاتے ہیں گلے بھی ہیں بہت
وہ دکھائی بھی تو دیں ان سے ملاقات تو ہو
کوئی واعظ نہیں فطرت سے بلاغت میں سوا
مگر انسان میں کچھ فہم اشارات تو ہو
اکبر الہ آبادی
جذبۂ دل نے مرے تاثیر دکھلائی تو ہے
گھنگھروؤں کی جانب در کچھ صدا آئی تو ہے
عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے
آپ کے سر کی قسم میرے سوا کوئی نہیں
بے تکلف آئیے کمرے میں تنہائی تو ہے
جب کہا میں نے تڑپتا ہے بہت اب دل مرا
ہنس کے فرمایا تڑپتا ہوگا سودائی تو ہے
دیکھیے ہوتی ہے کب راہی سوئے ملک عدم
خانۂ تن سے ہماری روح گھبرائی تو ہے
دل دھڑکتا ہے مرا لوں بوسۂ رخ یا نہ لوں
نیند میں اس نے دلائی منہ سے سرکائی تو ہے
دیکھیے لب تک نہیں آتی گل عارض کی یاد
سیر گلشن سے طبیعت ہم نے بہلائی تو ہے
میں بلا میں کیوں پھنسوں دیوانہ بن کر اس کے ساتھ
دل کو وحشت ہو تو ہو کمبخت سودائی تو ہے
خاک میں دل کو ملایا جلوۂ رفتار سے
کیوں نہ ہو اے نوجواں اک شان رعنائی تو ہے
یوں مروت سے تمہارے سامنے چپ ہو رہیں
… کل کے جلسوں کی مگر ہم ن
موت اس بیکس کی غایت ہی سہی
عمر بھر جس نے مصیبت ہی سہی
حسن کا انجام دیکھیں اہل حسن
عشق میرا بے حقیقت ہی سہی
زندگی ہے چشم عبرت میں ابھی
کچھ نہیں تو عیش و عشرت ہی سہی
دیکھ لیتا ہوں تبسم حسن کا
غم پرستی میری فطرت ہی سہی
پردہ دار سادگی ہے ہر ادا
یہ تصنع بے ضرورت ہی سہی
درپئے آزار ہے قسمت تو ہو
اب مجھے تم سے محبت ہی سہی
حور بے جا کی تلافی کچھ تو کر
خیر اظہار ندامت ہی سہی
اے اجل کچھ زندگی کا حق بھی ہے
زندگی تیری امانت ہی سہی
کیا کروں اکبرؔ دلی جذبات کو
اس تغزل میں قدامت ہی سہی
اکبر حیدری کشمیری
گھٹن عذاب بدن کی نہ میری جان میں لا
بدل کے گھر مرا مجھ کو مرے مکان میں لا
مری اکائی کو اظہار کا وسیلہ دے
مری نظر کو مرے دل کو امتحان میں لا
سخی ہے وہ تو سخاوت کی لاج رکھ لے گا
سوال عرض طلب کا نہ درمیان میں لا
دل وجود کو جو چیر کر گزر جائے
اک ایسا تیر تو اپنی کڑی کمان میں لا
ہے وہ تو حد گرفت خیال سے بھی پرے
یہ سوچ کر ہی خیال اس کا اپنے دھیان میں لا
بدن تمام اسی کی صدا سے گونج اٹھے
تلاطم ایسا کوئی آج میری جان میں لا
چراغ راہ گزر لاکھ تابناک سہی
جلا کے اپنا دیا روشنی مکان میں لا
بہ رنگ خواب سہی ساری کائنات اکبرؔ
وجود کل کو نہ اندیشۂ گمان میں لا
اکبر حیدرآبادی
کل عالم وجود کہ اک دشت نور تھا
سارا حجاب تیرہ دلی کا قصور تھا
سمجھے تھے جہد عشق میں ہم سرخ رو ہوئے
دیکھا مگر تو شیشۂ دل چور چور تھا
پہنچے نہ یوں ہی منزل اظہار ذات تک
تحت شعور اک سفر لا شعور تھا
تھا جو قریب اس کو بصیرت نہ تھی نصیب
جو دیکھتا تھا مجھ کو بہت مجھ سے دور تھا
مبہم تھے سب نقوش نقابوں کی دھند میں
چہرہ اک اور بھی پس چہرہ ضرور تھا
اکبر حیدرآبادی
روشنی تیز ہوئی کوئی ستارا ٹوٹا
دھار میں اب کے ندی کا ہی کنارا ٹوٹا
تھرتھراتے ہوئے لب چپ تو لگا بیٹھے پر
چپ نے ہی جوڑا بھی اظہار ہمارا ٹوٹا
در بدر پھرتا کوئی خواب مرا آوارہ
رات آنکھوں میں چلا آیا تھا ہارا ٹوٹا
جانے کس موڑ پہ بچھڑی وہ صدا ماضی کی
ایک تنکے کا سہارا تھا سہارا ٹوٹا
دھوپ چڑھتے ہی پلاتا تھا جو صحرا پانی
دھوپ ڈھلتے ہی طلسمی وہ نظارا ٹوٹا
فکر و معانی کے چنے شعر اسی ملبے سے
ہم نے تنہائی کا دیکھا جو ادارہ ٹوٹا
اکھلیش تیواری
بے وفا ہے وہ کبھی پیار نہیں کر سکتا
ہاں مگر پیار سے انکار نہیں کر سکتا
اپنی ہمت کو جو پتوار نہیں کر سکتا
وہ سمندر کو کبھی پار نہیں کر سکتا
جو کسی اور کے جلووں کا تمنائی ہو
وہ کبھی بھی ترا دیدار نہیں کر سکتا
ہونٹ کچھ کہنے کو بیتاب ہیں کب سے لیکن
اس کی عادت ہے وہ اظہار نہیں کر سکتا
اس کی چاہت پہ بھروسہ ہے مجھے میرے سوا
وہ کسی اور کو حق دار نہیں کر سکتا
اس کو معلوم ہے وہ خود بھی تو رسوا ہوگا
مجھ کو رسوا سر بازار نہیں کر سکتا
وقت پڑ جائے تو وہ جان بھی دے سکتا ہے
فن کا سودا کوئی انکار نہیں کر سکتا
اختر آزاد
شوق اظہار ہے کرنا بھی نہیں چاہتے ہیں
اپنے وعدے سے مکرنا بھی نہیں چاہتے ہیں
کوئی تو ہے مجھے جینے کی دعا دیتا ہے
ہم ترے عشق میں مرنا بھی نہیں چاہتے ہیں
تجھ سے ملنے کی تمنا بھی بہت ہے دل میں
ترے کوچے سے گزرنا بھی نہیں چاہتے ہیں
دل یہ کہتا ہے سمٹ جائیں تری بانہوں میں
بوئے گل بن کے بکھرنا بھی نہیں چاہتے ہیں
جھانکتے ہیں مری آنکھوں میں بچا کر نظریں
گو بظاہر وہ سنورنا بھی نہیں چاہتے ہیں
دے کے آواز کوئی روک رہا کب سے
اور ہم ہیں کہ ٹھہرنا بھی نہیں چاہتے ہیں
لوگ ساحل پہ کھڑے ڈھونڈھ رہے ہیں موتی
بہتے پانی میں اترنا بھی نہیں چاہتے ہیں
اختر آزاد
بند ہونٹوں سے بھی اظہار تمنا کرتے
آئنہ بن کے ترے حسن کو دیکھا کرتے
اپنا سایہ بھی یہاں غیر نظر آتا ہے
اجنبی شہر میں ہم کس پہ بھروسہ کرتے
اس کی محفل میں تو اک بھیڑ تھی دیوانوں کی
پہلے دل اہل نظر اہل وفا کیا کرتے
عشق ہر حال میں پابند وفا ہوتا ہے
ہم تو بدنام تھے کیوں آپ کو رسوا کرتے
اتنی گزری ہے جہاں اور گزر جائے گی
زندگی کے لئے اتنا نہیں سوچا کرتے
جب تلک سانس چلے بس یوں ہی چلتے رہئے
چل کے دو چار قدم یوں نہیں ٹھہرا کرتے
اے خدا ہم تری وحدت پہ یقیں رکھتے ہیں
کیوں ترے در کے سوا ہم کہیں سجدہ کرتے
اختر آزاد
چاہو تو مرا دکھ مرا آزار نہ سمجھو
لیکن مرے خوابوں کو گنہ گار نہ سمجھو
آساں نہیں انصاف کی زنجیر ہلانا
دنیا کو جہانگیر کا دربار نہ سمجھو
آنگن کے سکوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی
کہتے ہو جسے گھر اسے بازار نہ سمجھو
اجڑے ہوئے طاقوں پہ جمی گرد کی تہہ میں
روپوش ہیں کس قسم کے اسرار نہ سمجھو
احساس کے سو زخم بچا سکتے ہو اخترؔ
اظہار مروت کو اگر پیار نہ سمجھو
اختر بستوی
Mohabbat Ka Izhar Quotes
ہم اس سے عشق کا اظہار کر کے دیکھتے ہیں
کیا ہے جرم تو اقرار کر کے دیکھتے ہیں
ہے عشق جنگ تو پھر جیت لیں چلو ہم لوگ
ہے دریا آگ کا تو پار کر کے دیکھتے ہیں
ہے کوہسار تو نہریں نکال دیں اس سے
ہے ریگزار تو گلزار کر کے دیکھتے ہیں
ہم اس کو دیکھنا چاہیں تو کس طرح دیکھیں
سو اس کی یاد کو کردار کر کے دیکھتے ہیں
وہ ہوش مند اگر ہے تو کر دیں دیوانہ
وہ بے خبر ہے تو ہشیار کر کے دیکھتے ہیں
ہمارے سر پہ تو آتی نہیں کوئی دستار
سو اپنے سر کو ہی دستار کر کے دیکھتے ہیں
اختر ہاشمی
ذوق نظر بڑھائیے گلزار دیکھ کر
الفت کا سودا کیجئے بازار دیکھ کر
میں نے جنون عشق سے دامن بچا لیا
ہر بوالہوس کو تیرا پرستار دیکھ کر
میرے ہی در پہ تھا کوئی سائل کے روپ میں
حیرت زدہ رہا مجھے نادار دیکھ کر
نغمہ سرا نہ ہو سکا گلشن میں عندلیب
طوفان و برق و باد کے آثار دیکھ کر
بیتاب دل کو اور ترستی نگاہ کو
بہلا سکا نہ میں گل و گلزار دیکھ کر
دل گفتگو کی سمت جھکا شعر بن گئے
اظہار غم کو روح کا غم خوار دیکھ کر
ہوش و ہوس کی جنگ میں حیرت زدہ رہا
جذبوں کا شور عقل کے افکار دیکھ کر
آنکھوں سے کائنات کے آنسو ٹپک پڑے
شافی کو اس جہان میں بیمار دیکھ کر
یاد آ گئیں خرد کو وہ جنت کی لغزشیں
دل کا جنون و شوق شرر بار دیکھ کر
ہاتھوں میں دل کے پرچم افکار دے دیا
انسانیت کو برسر پیکار دیکھ کر
اختر حسین شافی
ہم درد نہاں کو محفل میں رسوائے حکایت کر نہ سکے
کہنے کو بہت کچھ تھا لیکن کچھ ان سے خطابت کر نہ سکے
اے حسن ذرا دم بھر کے لئے کچھ شوخ تجھے بھی ہونا تھا
دو دل تھے فدا آپس میں مگر اظہار محبت کر نہ سکے
گزرے ہوئے لمحوں کی یادیں اب شوق وفا سے کہتی ہیں
جو شے تھی قریب قلب و جگر اس شے سے رفاقت کر نہ سکے
ہر شوق بڑھا کر سپنے میں زحمت تو اٹھائی راہوں کی
پہنچے تو در کعبہ پہ مگر کعبے کی زیارت کر نہ سکے
سینے میں خلش ہے فرقت کی بیتاب تمنا ہے میری
جو ہم سے محبت کرتے تھے ہم ان پہ عنایت کر نہ سکے
چنچل بھی وہ تھے چالاک بھی تھے پر شرم و حیا بھی ایسی تھی
ہم من کے پرانے پاپی بھی کچھ ان سے شرارت کر نہ سکے
واعظ نے کہا تھا ضبط کرو جذبات محبت کو لیکن
ہم اس کی ہدایت پر چل کر اس دل کی حفاظت کر نہ سکے
دنیا کے غموں کا خوف نہیں بے باک مسافر کو شافیؔ
دم بھر کے لئے پلکوں کے تلے افسوس اقامت کر نہ سکے
اختر حسین شافی
شہر کا شہر جلا اور اجالا نہ ہوا
سانحہ کیا یہ مقدر کا نرالا نہ ہوا
ہے فقط نام کو آزادئ اظہار خیال
ورنہ کب کس کے لبوں پر یہاں تالا نہ ہوا
ٹوٹتے شیشے کو دیکھا ہے زمانے بھر نے
دل کے ٹکڑوں کا کوئی دیکھنے والا نہ ہوا
جس نے پرکھا انہیں وہ تھی کوئی بے جان مشین
دل کے زخموں کا بشر دیکھنے والا نہ ہوا
کس قدر یاس زدہ ہے یہ حصار ظلمت
دل جلائے بھی تو ہر سمت اجالا نہ ہوا
دشت غربت کے سفر کی یہ اذیت ناکی
خشک تلووں کا ابھی ایک بھی چھالا نہ ہوا
ضبط کا حد سے گزر جانا یہی ہے اخترؔ
دل سلگتا ہے مگر ہونٹوں پہ نالہ نہ ہوا
اختر مادھو پوری
اک بار جو بچھڑے وہ دوبارہ نہیں ملتا
مل جائے کوئی شخص تو سارا نہیں ملتا
اس کی بھی نکل آتی ہے اظہار کی صورت
جس شخص کو لفظوں کا سہارا نہیں ملتا
پھر ڈوبنا یہ بات بہت سوچ لو پہلے
ہر لاش کو دریا کا کنارا نہیں ملتا
یہ سوچ کے دل پھر سے ہے آمادۂ الفت
ہر بار محبت میں خسارہ نہیں ملتا
کیوں لوگ بلائیں گے ہمیں بزم سخن میں
اپنا تو کسی سے بھی ستارہ نہیں ملتا
وہ شہر بھلا کیسے لگے اپنا جہاں پر
اک شخص بھی ڈھونڈے سے ہمارا نہیں ملتا
اختر ملک
تم کو دیکھا ہے ابھی تک یہ گماں ہوتا ہے
نقش جو دل میں ہے آنکھوں سے نہاں ہوتا ہے
شوق کا عالم اعجاز عیاں ہوتا ہے
کھنچ کے آتا ہے یہاں حسن جہاں ہوتا ہے
قصۂ درد خموشی سے عیاں ہوتا ہے
طور اظہار نظر طرز بیاں ہوتا ہے
رات خاموش ہے ایسے میں ستارو سن لو
دل مضطر مرا مائل بہ فغاں ہوتا ہے
میری ناکام محبت نے بڑا کام کیا
مدعا عالم حسرت میں جواں ہوتا ہے
خرمن زیست میں شعلے نہ بھڑک اٹھے ہوں
دامن دل کے قریب آج دھواں ہوتا ہے
ذکر خود چھیڑ کے رویا کیا پہروں اخترؔ
نام آتے ہی ترا اشک رواں ہوتا ہے
اختر اورینوی
دل شوریدہ کی وحشت نہیں دیکھی جاتی
روز اک سر پہ قیامت نہیں دیکھی جاتی
اب ان آنکھوں میں وہ اگلی سی ندامت بھی نہیں
اب دل زار کی حالت نہیں دیکھی جاتی
بند کر دے کوئی ماضی کا دریچہ مجھ پر
اب اس آئینے میں صورت نہیں دیکھی جاتی
آپ کی رنجش بے جا ہی بہت ہے مجھ کو
دل پہ ہر تازہ مصیبت نہیں دیکھی جاتی
تو کہانی ہی کے پردے میں بھلی لگتی ہے
زندگی تیری حقیقت نہیں دیکھی جاتی
لفظ اس شوخ کا منہ دیکھ کے رہ جاتے ہیں
لب اظہار کی حسرت نہیں دیکھی جاتی
دشمن جاں ہی سہی ساتھ تو اک عمر کا ہے
دل سے اب درد کی رخصت نہیں دیکھی جاتی
دیکھا جاتا ہے یہاں حوصلۂ قطع سفر
نفس چند کی مہلت نہیں دیکھی جاتی
دیکھیے جب بھی مژہ پر ہے اک آنسو اخترؔ
دیدۂ تر کی رفاقت نہیں دیکھی جاتی
اختر سعید خان
عشق کا شور کریں کوئی طلب گار تو ہو
جنس بازار میں لے جائیں خریدار تو ہو
ہجر کے سوختہ جاں اور جلیں گے کتنے
طور پر بیٹھے ہیں کب سے ترا دیدار تو ہو
شدت درد دو پل کے لیے کم ہوتا کہ
غم کے الفاظ کے سنگار میں اظہار تو ہو
کب سے امید لگائے ہوئے بیٹھے ہیں ہم
نے سہی گر نہیں اقرار سو انکار تو ہو
کفر احرام کے پردے میں چھپا دیکھا ہے
ایک عالم ہے اگر درپئے زنار تو ہو
ہم نے مانا کہ شرافت ہے بڑی چیز مگر
کچھ زمانے کو شرافت سے سروکار تو ہو
خانۂ دل میں نہیں ایک کرن کا بھی گزر
ساری دنیا ہے اگر مطلع انوار تو ہو
رازداری ہی میں ہوتا ہے شریفوں کا حساب
تجھ کو منظور ہے گر بر سر بازار تو ہو
اختر سعید
بے چارگئ دوش ہے اور بار گراں ہے
اظہار پہ پابندی ہے اور منہ میں زباں ہے
ہوتا ہے یہاں روز مرے درد کا سودا
اے تیغ بکف روز مکافات کہاں ہے
آزاد کرو خون کو بازار میں لاؤ
صدیوں سے یہ محکوم رگوں ہی میں رواں ہے
ہاں رنگ بہاراں ہے مگر اس کے لہو سے
جو دست بہ دل مہر بہ لب درد بجاں ہے
ہر سمت ہے بازار کھلا حرص و ہوس کا
ہر شہر میں ہر کوچے میں واعظ کی دکاں ہے
کل کس کو زباں بند کرو گے ذرا سوچو
کل دیکھو گے ہم کو کہ زباں ہے نہ دہاں ہے
کس شہر خموشاں میں چلے آئے ہیں ہم لوگ
نے زور سناں ہے نہ کہیں شور فغاں ہے
ہر درد کی حد ہوتی ہے یوں لگتا ہے جیسے
اس درد کا کوئی نہ زماں ہے نہ مکاں ہے
اختر سعید
اردی و دے سے پرے سود و زیاں سے آگے
آؤ چل نکلیں کہیں قید زماں سے آگے
اس خرابے میں عبث ہیں غم و شادی دونوں
میری تسکین کا مسکن ہے مکاں سے آگے
آہ و نالہ ہی سہی اہل وفا کا مسلک
اک مقام اور بھی آتا ہے فغاں سے آگے
دار تک صاف نظر آتا ہے رشتہ دیکھیں
پھر کدھر جاتے ہیں عشاق وہاں سے آگے
خون آلودہ کفن شارح صد دفتر دل
طرز اظہار ہے اک اور زباں سے آگے
فکر مفلوج جو زندانئ افلاک رہے
تیر بیکار جو نکلے نہ کماں سے آگے
تھی بہت خانہ خرابی کو ہماری یہ عمر
اک جہاں اور بھی سنتے ہیں یہاں سے آگے
میں کہ ہوں حاضر و موجود کے وسواس میں قید
تو کہ ہے پردہ نشیں وہم و گماں سے آگے
اختر سعید
لفظ لکھنا ہے تو پھر کاغذ کی نیت سے نہ ڈر
اس قدر اظہار کی بے معنویت سے نہ ڈر
دیکھ! گلشن میں ابھی شاخ تحیر بانجھ ہے
پھول ہونا ہے تو کھلنے کی اذیت سے نہ ڈر
ہم رہ موسم سفر کی بستیوں کے درمیاں
نقش بر دیوار بارش کی وصیت سے نہ ڈر
ایک ہلکی سی صدا تو بن زباں رکھتا ہے تو
چار جانب خامشی کی اکثریت سے نہ ڈر
آسماں اک دن پتنگا ہو سر شمع زمیں
موم کر اپنے لہو کو جل اذیت سے نہ ڈر
اختر شیخ
نہ بھول کر بھی تمنائے رنگ و بو کرتے
چمن کے پھول اگر تیری آرزو کرتے
جناب شیخ پہنچ جاتے حوض کوثر تک
اگر شراب سے مے خانے میں وضو کرتے
مسرت آہ تو بستی ہے کن ستاروں میں
زمیں پہ عمر ہوئی تیری جستجو کرتے
ایاغ بادہ میں آ کر وہ خود چھلک پڑتا
گر اس کے مست ذرا اور ہاؤ ہو کرتے
انہیں مفر نہ تھا اقرار عشق سے لیکن
حیا کو ضد تھی کہ وہ پاس آبرو کرتے
پکار اٹھتا وہ آ کر دلوں کی دھڑکن میں
ہم اپنے سینے میں گر اس کی جستجو کرتے
غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ
یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے
گراں تھا ساقی دوراں پہ ایک ساغر بھی
تو کس امید پہ ہم خواہش سبو کرتے
جنون عشق کی تاثیر تو یہ تھی اخترؔ
کہ ہم نہیں وہ خود اظہار آرزو کرتے
اختر شیرانی
عرفان و آگہی کے سزا وار ہم ہوئے
سویا پڑا تھا شہر کہ بیدار ہم ہوئے
تا عمر انتظار سہی پر بروز حشر
اچھا ہوا کہ تیرے طلب گار ہم ہوئے
ہم پر وفائے عہد انا الحق بھی فرض تھا
اس واسطے کہ محرم اسرار ہم ہوئے
ٹھہرے گی ایک دن وہی معراج بندگی
جو بات کہہ کے آج گنہ گار ہم ہوئے
ہوتے گئے وہ خلق فریبی میں ہوشیار
جتنا کہ تجربے سے سمجھ دار ہم ہوئے
نادان تھے کہ مسند ارشاد چھوڑ کر
حلقہ بگوش سیرت و کردار ہم ہوئے
اس دور خود فروش میں اخترؔ بصد خلوص
خمیازہ سنج جرأت اظہار ہم ہوئے
اختر ضیائی
برش تیغ بھی ہے پھول کی مہکار بھی ہے
وہ خموشی کہ جو صد موجب اظہار بھی ہے
چھوڑیئے ان کے شب و روز کی روداد زبوں
آپ کو خاک نشینوں سے سروکار بھی ہے
مصلحت مجھ کو بھی ملحوظ ہے اے ہم سخنو
پر مرے پیش نظر وقت کی رفتار بھی ہے
موت کے خوف سے ہر سانس رکی جاتی ہے
زندگی آج کوئی تیرا خریدار بھی ہے
تلخیٔ حال کو ہے عشرت فردا کا فریب
دل جنوں کوش ہے اور عقل طرحدار بھی ہے
میرے محبوب مجھے وقف تغافل نہ سمجھ
زیست کے لاکھ تقاضے ہیں تیرا پیار بھی ہے
اہل گفتار کی تو بھیڑ لگی ہے اخترؔ
دیکھنا ان میں کوئی صاحب کردار بھی ہے
اختر ضیائی
ایک نئی زیست لئے آج اجل آئی ہے
قید سے ہم نے رہائی ہی کہاں پائی ہے
اس سے ملنے کے لئے اس قدر اے دل نہ تڑپ
میرا اظہار محبت مری رسوائی ہے
انقلابات زمانہ کو زمانہ سمجھے
ہم تو کہتے ہیں کہ وہ بھی تری انگڑائی ہے
جس کے شعلوں سے ہوئی حسن کی رنگت روشن
آگ ایسی مرے جذبات نے سلگائی ہے
ہم نے ارمانوں کی میت کو دیا ہے کاندھا
اے غم دل یہ تری حوصلہ افزائی ہے
ہے یہ ڈر نوح کا طوفاں نہ سمجھ لے دنیا
چادر اشک وفا ہم نے جو پھیلائی ہے
آئنہ خانۂ دل میں وہ ضرور آئیں گے
ان کے دل میں بھی تمنائے خود آرائی ہے
ہاتھ سے ساقی کے پینا ہی پڑے گا مجھے اب
میری توبہ شکنی بن کے گھٹا چھائی ہے
اکملؔ انسان وہ اکمل ہے بہ فیض فطرت
درد انساں سے جس انساں کی شناسائی ہے
اکمل آلدوری
بے طلب زیست اگرچہ کوئی دشوار نہیں
کون ایسا ہے جو دنیا کا طلب گار نہیں
محفل غیر میں کر حال دل ان سے نہ بیاں
موقع ضبط ہے یہ موقع اظہار نہیں
دوست احباب کا کیا ذکر برے وقتوں میں
موت بھی تو کسی بے کس کی طرف دار نہیں
وقت کے ساتھ بدلتا ہے عزائم اپنے
یعنی انسان خود اپنا ہی وفادار نہیں
حد سے زائد کبھی بڑھتا ہے کبھی ہوتا ہے کم
دل ہے خوددار مگر درد ہی خوددار نہیں
کل تو ٹوٹے ہوئے دل بیچ لئے یاروں نے
آج کا وقت تو یوسف کا خریدار نہیں
خار و گل حسب ضرورت ہیں چمن میں اکملؔ
فطرتوں سے مجھے کچھ ان کی سروکار نہیں
اکمل آلدوری
تہہ بہ تہہ ہے راز کوئی آب کی تحویل میں
خامشی یوں ہی نہیں رہتی ہے گہری جھیل میں
میں نے بچپن میں ادھورا خواب دیکھا تھا کوئی
آج تک مصروف ہوں اس خواب کی تکمیل میں
ہر گھڑی احکام جاری کرتا رہتا ہے یہ دل
ہاتھ باندھے میں کھڑا ہوں حکم کی تعمیل میں
کب مری مرضی سے کوئی کام ہوتا ہے تمام
ہر گھڑی رہتا ہوں میں کیوں بے سبب تعجیل میں
مانگتی ہے اب محبت اپنے ہونے کا ثبوت
اور میں جاتا نہیں اظہار کی تفصیل میں
مدعا تیرا سمجھ لیتا ہوں تیری چال سے
تو پریشاں ہے عبث الفاظ کی تاویل میں
اپنی خاطر بھی تو عالمؔ چیز رکھنی تھی کوئی
اب کہاں کچھ بھی بچا ہے تیری اس زنبیل میں
عالم خورشید
میرے دل کی گہرائیوں میں اتر
جگر سوز تنہائیوں میں اتر
تو اپنے بیاں کو معلق نہ چھوڑ
فلک دار سچائیوں میں اتر
مری نبض اظہار پر رکھ کے ہاتھ
تو احساس کی گھاٹیوں میں اتر
سیہ نیتوں کا افق چھوڑ کر
مہک دار اچھائیوں میں اتر
کوئی رخ تو دھارے گا دولہن کا روپ
ہر اک رخ کی انگڑائیوں میں اتر
صباؔ تو لئے حوصلوں کی برات
تجسس کی شہنائیوں میں اتر
علیم صبا نویدی
ظلمت کدوں میں کل جو شعاع سحر گئی
تاریکی حیات یکایک ابھر گئی
نظارۂ جمال کی فرصت کہاں ملی
پہلی نظر نظر کی حدوں سے گزر گئی
اظہار التفات کے بعد ان کی بے رخی
اک رنگ اور نقش تمنا میں بھر گئی
ذوق جنوں و جذبۂ بیباک کیا ملے
ویران ہو کے بھی مری دنیا سنور گئی
اب دور کارسازی وحشت نہیں رہا
اب آرزوئے لذت رقص شرر گئی
اک داغ بھی جبیں پہ میری آ گیا تو کیا
شوخی تو ان کے نقش قدم کی ابھر گئی
تارے سے جھلملاتے ہیں مژگان یار پر
شاید نگاہ یاس بھی کچھ کام کر گئی
تم نے تو اک کرم ہی کیا حال پوچھ کر
اب جو گزر گئی مرے دل پر گزر گئی
جلوے ہوئے جو عام تو تاب نظر نہ تھی
پردے پڑے ہوئے تھے جہاں تک نظر گئی
سارا قصور اس نگہ فتنہ جو کا تھا
لیکن بلا نگاہ تمنا کے سر گئی
علی جواد زیدی
رقص کرتی ہے ترے نور میں ظلمت میری
ہوں جدا تجھ سے تو ہے وہم حقیقت میری
تیرے انداز ہیں سب ساز و صدا نکہت و رنگ
میرا احساس ہی گویا ہے عبادت میری
میرے اظہار کو دے لہجۂ گل کا اعجاز
حرف لاغر سے نہ سنبھلے گی حکایت میری
حسن نادیدہ کسی عکس میں ڈھلتا ہی نہیں
روز لاتی ہے نیا آئنہ حیرت میری
چھایا جاتا ہے غبار غم دوراں دل پر
کیا نہیں اب غم جاناں کو ضرورت میری
دل ہے آئینۂ اجزائے پریشان وجود
یعنی اک صورت ادراک ہے وحشت میری
بے دلی پر تو یہ عالم ہے کہ دل رقص میں ہے
ہو غضب رنگ پہ آئے جو طبیعت میری
علی مینائی
نقش بر آب تھی جو دام و درم نے بخشی
زیست کو دولت نایاب تو غم نے بخشی
اہل دستار نہ ارباب کرم نے بخشی
عزت نفس مجھے لوح و قلم نے بخشی
آبیاری نہ ہوئی آب گہر سے اس کی
نخل عرفاں کو نمو دیدۂ نم نے بخشی
ورنہ کیا ان میں تھا اک جذبہ حیراں کے سوا
تیری آنکھوں کو یہ گویائی تو ہم نے بخشی
عمر بھر ہم کو میسر رہی بیتابیٔ دل
جو خدا نے نہیں بخشی وہ صنم نے بخشی
جس نے پامرد رکھا ہم کو ستم گر کے خلاف
وہ عزیمت ہمیں خود اس کے ستم نے بخشی
کتنی بے فیض وراثت ہے وہ تاریخ زیاں
جو ہمیں چپقلش دیر و حرم نے بخشی
حرف تازی سے بھی پایا ہے بہت فیض مگر
میرے اظہار کو لے ساز عجم نے بخشی
علی مینائی
اپنی بے موسمی سی محبت کا اظہار کر کے مجھے ایسے مائل نہ کر
یار تو جانتا ہے میں پہلے ہی تنہا ہوں سو تو مجھے اور تنہا نہ کر
دیکھ میں جانتا ہوں ترے ہجر اور وصل کے بھید کو عشق کے وید کو
تو مجھے ہجر میں رکھ یا پھر وصل میں ہاں مگر ان کے مابین رسوا نہ کر
زندگی اور وقت اپنے اپنے تئیں کتنے بے رحم ہیں سب کو معلوم ہے
ان کے ہاتھوں لگے زخم بھرنے بھی دے وقت بے وقت اب ان کو چھیڑا نہ کر
علی الحسنین
محبت کا تقاضہ کیوں کریں ہم
حقیقت کا تماشہ کیوں کریں ہم
محبت جب کہ یک طرفہ نہیں ہے
اکیلے ہی گزارہ کیوں کریں ہم
خلش دل کی بڑھاتی ہیں جو باتیں
انہی کا پھر اعادہ کیوں کریں ہم
ہو جب احساس کا اظہار لازم
پھر اس کو استعارہ کیوں کریں ہم
جو حال زار سے سب کچھ عیاں ہو
تو پھر کوئی اشارہ کیوں کریں ہم
محبت سے عبارت ہوں سبھی پل
کسی کا گوشوارہ کیوں کریں ہم
سبھی کچھ درمیاں جب مشترک ہے
تو میرا اور تمہارا کیوں کریں ہم
علیزے نجف
خود سے رہتا ہے اختلاف مجھے
میں بھی کرتا نہیں معاف مجھے
تم مرے سامنے نہیں آنا
کہہ دیا میں نے صاف صاف مجھے
یہ سراپا یہ خال و خد تیرے
کر رہے ہیں مرے خلاف مجھے
لمس بھی چاہتا ہوں حدت بھی
دیجئے جسم کا لحاف مجھے
تم فقط جسم ڈھانپ سکتے ہو
چاہئے روح کا غلاف مجھے
کیونکہ اظہار شوق کر بیٹھا
ڈس رہا ہے وہ اعتراف مجھے
ایک دنیا ہے ناف کے اوپر
ایک دنیا ہے زیر ناف مجھے
الطاف بابر
میں تو میں غیر کو مرنے سے اب انکار نہیں
اک قیامت ہے ترے ہاتھ میں تلوار نہیں
کچھ پتا منزل مقصود کا پایا ہم نے
جب یہ جانا کہ ہمیں طاقت رفتار نہیں
چشم بد دور بہت پھرتے ہیں اغیار کے ساتھ
غیرت عشق سے اب تک وہ خبردار نہیں
ہو چکا ناز اٹھانے میں ہے گو کام تمام
للہ الحمد کہ باہم کوئی تکرار نہیں
مدتوں رشک نے اغیار سے ملنے نہ دیا
دل نے آخر یہ دیا حکم کہ کچھ عار نہیں
اصل مقصود کا ہر چیز میں ملتا ہے پتا
ورنہ ہم اور کسی شے کے طلب گار نہیں
بات جو دل میں چھپاتے نہیں بنتی حالیؔ
سخت مشکل ہے کہ وہ قابل اظہار نہیں
الطاف حسین حالی
اے دل خوش فہم اس آزار سے باہر نکل
ڈھل گئی شب اب خیال یار سے باہر نکل
عشق جس رفتار سے وارد ہوا دل میں مرے
اس سے کہہ دو اب اسی رفتار سے باہر نکل
اب ضرورت عزتوں پر حملہ زن ہونے کو ہے
زندگی چل خیمۂ خوددار سے باہر نکل
تیرگی نے شام سے پہلے ہی حملہ کر دیا
روشنی اب حلقۂ پندار سے باہر نکل
دل کبھی ایک اور ساعت کی طلب ظاہر کرے
حرف بے معنی لب اظہار سے باہر نکل
ہو نہیں سکتی چراغوں سے ہوا کی دوستی
فکر نو بزم لب و رخسار سے باہر نکل
تجھ سے آشفتہ مزاجوں کو نہ راس آئے گا یہ
التمشؔ اس شہر پر اسرار سے باہر نکل
التمش عباس
ابھر کے آیا تھا شب ہوتے ہی ہنر میرا
پھر انتظار ہی کرتی رہی سحر میرا
میں روز تپتے ہوئے دشت سے گزرتا ہوں
میں روز کہتا ہوں آئے گا ہم سفر میرا
زمیں پہ ہوتے ہوئے بھی میں آسمان پہ تھا
جب اس کی گود میں رکھا ہوا تھا سر میرا
کبھی زباں سے وہ اظہار تو نہ کر پایا
خیال دل میں بسا کر جئے مگر میرا
تمہارے بعد بھی توڑے بہت سے دل میں نے
تمہارے بعد بھی جاری رہا سفر میرا
بڑے سکون سے رہتی ہے مجھ میں خاموشی
بھلے ہی چیختا رہتا ہو سارا گھر میرا
التمش عباس
غزل گوئی کے فن کا یوں کبھی اظہار ہوتا ہے
محبت دل سے ہوتی ہے نظر سے پیار ہوتا ہے
تصادم دو نگاہوں کا بھی کیا کیا گل کھلاتا ہے
صمیم قلب سے پھر عشق کا اقرار ہوتا ہے
محبت کرنے والوں کا حسین انجام کیا جانو
شگفتہ پھول کھلتے ہیں گل گلزار ہوتا ہے
وہ جس سے پیار کرتا ہے اسی کی چاہ میں ہر دم
مریض عشق بن بن کر صدا بیمار ہوتا ہے
زمانے کی جفاؤں کا کوئی شکوہ نہیں ہرگز
وہ مقتل میں سجاتا ہے جو خود دل دار ہوتا ہے
دھڑکتے دل سے اک دوجے کی بانہوں میں سما جاتا
کہو اے شادؔ یہی انجام آخر ہوتا ہے
امان اللہ شاد ثنائی
محبت کا ان سے نہ اقرار کرنا
بس آنکھوں ہی آنکھوں میں اظہار کرنا
محبت اگر جرم ہے تو چلو پھر
وہ اک بار کرنا کہ سو بار کرنا
عجب نغمگی ہے سماعت سے دل تک
مخاطب مجھے پھر سے اک بار کرنا
تڑپتے تڑپتے قرار آ گیا ہے
تمنا نہ اب کوئی بیدار کرنا
نہ قربان ہو کر دکھائیں تو کہنا
نظر پیار کی ہم پہ سرکار کرنا
وفاؔ ہے یہ اعجاز تیری وفا کا
کسی بے وفا کو وفادار کرنا
امۃ الحئی وفا
شب خواب کے جزیروں میں ہنس کر گزر گئی
آنکھوں میں وقت صبح مگر دھول بھر گئی
پچھلی رتوں میں سارے شجر بارور تو تھے
اب کے ہر ایک شاخ مگر بے ثمر گئی
ہم بھی بڑھے تھے وادئ اظہار میں مگر
لہجے کے انتشار سے آواز مر گئی
تجھ پھول کے حصار میں اک لطف ہے عجب
چھو کر جسے ہوائے طرب معتبر گئی
دل میں عجب سا تیر ترازو ہے ان دنوں
ہاں اے نگاہ ناز بتا تو کدھر گئی
مقصد صلائے عام ہے پھر احتیاط کیوں
بے رنگ روزنوں سے جو خوشبو گزر گئی
اس کے دیار میں کئی مہتاب بھیج کر
وادئ دل میں اک اماوس ٹھہر گئی
اب کے قفس سے دور رہی موسمی ہوا
آزاد طائروں کے پروں کو کتر گئی
آندھی نے صرف مجھ کو مسخر نہیں کیا
اک دشت بے دلی بھی مرے نام کر گئی
پھر چار سو کثیف دھوئیں پھیلنے لگے
پھر شہر کی نگاہ تیرے قصر پر گئی
الفاظ کے طلسم سے عنبرؔ کو ہے شغف
اس کی حیات کیسے بھلا بے ہنر گئی
عنبر بہرائچی
بہت بے زار ہوتی جا رہی ہوں
میں خود پر بار ہوتی جا رہی ہوں
تمہیں اقرار کے رستے پہ لا کر
میں خود انکار ہوتی جا رہی ہوں
کہیں میں ہوں سراپا رہ گزر اور
کہیں دیوار ہوتی جا رہی ہوں
بہت مدت سے اپنی کھوج میں تھی
سو اب اظہار ہوتی جا رہی ہوں
بھنور دل کی تہوں میں بن رہے ہیں
میں بے پتوار ہوتی جا رہی ہوں
تمہاری گفتگو کے درمیاں اب
یونہی تکرار ہوتی جا رہی ہوں
یہ کوئی خواب کروٹ لے رہا ہے
کہ میں بے دار ہوتی جا رہی ہوں
کسی لہجے کی نرمی کھل رہی ہے
بہت سرشار ہوتی جا رہی ہوں
مرا تیشہ زمیں میں گڑ گیا ہے
جنوں کی ہار ہوتی جا رہی ہوں
عنبرین صلاح الدین
اس لئے زیر فلک بے سبب آزار ہے حسن
جائے تو جائے کہاں عشق کہ سرکار ہے حسن
بلبل سوختہ ساماں سے سنا ہے میں نے
عشق اک آتش بے شعلہ ہے گلزار ہے حسن
صاف آتا ہے نظر دیدۂ بینا کو یہی
عشق اقرار حقیقت ہے اور اظہار ہے حسن
جلوہ شمع سے پروانوں کو ہوش آتا ہے
عشق کردار سہی جوہر کردار ہے حسن
عشق بیچارہ ہی آگاہ نہیں ہے ورنہ
روز میثاق سے خود اس کا طلب گار ہے حسن
صورت دائرۂ کون و مکاں ہے اس سے
عشق نقطہ ہے اور اس نقطہ کی پرکار ہے حسن
چولی دامن کا ازل سے ہے امیںؔ ساتھ ان کا
حسن کا عشق ہے اور عشق کا معیار ہے حسن
امین حزیں
تیرگی ہی تیرگی ہے بام و در میں کون ہے
کچھ دکھائی دے تو بتلائیں نظر میں کون ہے
کیوں جلاتا ہے مجھے وہ آتش احساس سے
میں کہاں ہوں یہ مرے دیوار و در میں کون ہے
ذات کے پردے سے باہر آ کے بھی تنہا رہوں
میں اگر ہوں اجنبی تو میرے گھر میں کون ہے
چاک کیوں ہوتے ہیں پیراہن گلوں کے کچھ کہو
جھک کے لہراتا ہوا شاخ ثمر میں کون ہے
جیسے کوئی پا گیا ہو اپنی منزل کا سراغ
دھوپ میں بیٹھا ہوا راہ سفر میں کون ہے
کانپتا جا دیکھ کر اظہار کی تجسیم کو
سوچتا جا آرزوئے شیشہ گر میں کون ہے
بس ذرا بپھری ہوئی موجوں کی خو مائل رہی
اہل ساحل جانتے تو تھے بھنور میں کون ہے
شور کرتا پھر رہا ہوں خشک پتوں کی طرح
کوئی تو پوچھے کہ شہر بے خبر میں کون ہے
میں تو دیوانہ ہوں اک سنگ ملامت ہی سہی
لیکن اتنا سوچ لو شیشے کے گھر میں کون ہے
امین راحت چغتائی
اظہار حقیقت کی جسارت نہیں ہوتی
باغی ہوں مگر اس سے بغاوت نہیں ہوتی
اک مرحلہ ایسا بھی تو آتا ہے جنوں میں
خلوت میں بھی جب لذت خلوت نہیں ہوتی
ہم معبد عرفاں کے پجاری ہیں ازل سے
ہم سے شب دیجور کی بیعت نہیں ہوتی
کچھ بھی اسے کہہ لیجئے انسان نہ کہئے
وہ جس کو خطاؤں پہ ندامت نہیں ہوتی
یہ کام مرے بس میں نہیں مصلحتاً بھی
مجھ سے کبھی باطل کی وکالت نہیں ہوتی
یوں قہر خداوند سے ڈرتا تو بہت ہوں
لیکن کبھی توفیق عبادت نہیں ہوتی
آنکھوں سے مرے نیند اچک لے گیا کوئی
خوابوں میں بھی اب اس کی زیارت نہیں ہوتی
امیر حمزہ اعظمی
میں رو کے آہ کروں گا جہاں رہے نہ رہے
زمیں رہے نہ رہے آسماں رہے نہ رہے
رہے وہ جان جہاں یہ جہاں رہے نہ رہے
مکیں کی خیر ہو یا رب مکاں رہے نہ رہے
ابھی مزار پر احباب فاتحہ پڑھ لیں
پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے
خدا کے واسطے کلمہ بتوں کا پڑھ زاہد
پھر اختیار میں غافل زباں رہے نہ رہے
خزاں تو خیر سے گزری چمن میں بلبل کی
بہار آئی ہے اب آشیاں رہے نہ رہے
چلا تو ہوں پئے اظہار درد دل دیکھوں
حضور یار مجال بیاں رہے نہ رہے
امیرؔ جمع ہیں احباب درد دل کہہ لے
پھر التفات دل دوستاں رہے نہ رہے
امیر مینائی
وعدۂ وصل اور وہ کچھ بات ہے
ہو نہ ہو اس میں بھی کوئی گھات ہے
خلق ناحق درپئے اثبات ہے
ہے دہن اس کا کہاں اک بات ہے
بوسۂ چاہ زنخداں غیر لیں
ڈوب مرنے کی یہ اے دل بات ہے
گھر سے نکلے ہو نہتے وقت قتل
یہ بھی بہر قتل عاشق گھات ہے
میں نے اتنا ہی کہا بنواؤ خط
یہ بگڑنے کی بھلا کیا بات ہے
بعد مدت بخت جاگے ہیں مرے
بیٹھے ہیں سونے کو ساری رات ہے
کیا کروں وصف بتان خودپسند
ان سے بڑھ کر بس خدا کی ذات ہے
باتوں باتوں میں جو میں کچھ کہہ گیا
ہنس کے فرمانے لگے کیا بات ہے
حرف مطلب صاف کہہ سکتا نہیں
ہے ادب مانع کہ پہلی رات ہے
مجھ سے ہو اظہار الفت واہ وا
آپ کے فرمانے کی یہ بات ہے
رو رہے ہیں ہم ملا دے لب سے لب
مے کشی ہو ساقیا برسات ہے
زچ ہے تیری چال سے رفتار چرخ
مہر رخ سے بازیٔ مہ مات ہے
کیسی کٹتی ہے سیہ بختی میں عمر
رات سے دن دن سے بد تر رات ہے
…چھ
پھر حسیں وادیٔ گلشن میں سجا لی آنکھیں
جب سے اس شوخ کی دیکھی ہیں غزالی آنکھیں
تو نے اے دوست یہ کیوں مجھ سے چرا لی آنکھیں
اب لئے پھرتا ہوں در در پہ سوالی آنکھیں
دل میں اٹھنے لگے طوفان و حوادث پیہم
ان کی آنکھوں سے یہ کیوں میں نے ملا لی آنکھیں
مضطرب ہو گیا دل اپنا نظاروں کے لئے
دیکھ کر مجھ کو کسی نے جو چھپا لی آنکھیں
میری آنکھوں کو میسر تھا سکوں جن کے سبب
چھپ گئیں جانے کہاں اب وہ مثالی آنکھیں
کیسے ہم کرتے تمناؤں کا اظہار امیرؔ
لب ادھر کھولے ادھر اس نے نکالی آنکھیں
امیر نہٹوری
بانہوں کے کسی ہار کی محتاج نہیں ہے
چاہت ہے یہ اقرار کی محتاج نہیں ہے
دیوار اٹھاتے ہوئے یہ سوچ تو لیتے
خوشبو کسی دیوار کی محتاج نہیں ہے
اک روز میں آئی تھی اسی آنکھ کی زد میں
وہ آنکھ جو تلوار کی محتاج نہیں ہے
تم میری محبت کو پڑھو آنکھ میں میری
یہ پیار کے اظہار کی محتاج نہیں ہے
خالص ہو تو ہو جائے کسی سے یہ محبت
اس عہد کے معیار کی محتاج نہیں ہے
محبوب کی صورت کا اگر نقش ہو دل پر
پھر آنکھ تو دیدار کی محتاج نہیں ہے
احسان نہیں چاہیے یہ سن لو رشاؔ بھی
مانگے ہوئے اس پیار کی محتاج نہیں ہے
آمنہ روشنی رشا
لرز اٹھا تھا ہونٹوں پر کوئی اقرار تقریباً
نگاہیں کر چکی تھیں عشق کا اظہار تقریباً
اسے ذہنی تلاطم سے گزر کر دل تک آنا تھا
اور اس نے کر لیا تھا آدھا دریا پار تقریباً
ہمارے درمیاں پھر آ گئے بھولے ہوئے ماضی
وگرنہ گر چکی تھی بیچ کی دیوار تقریباً
کبھی ہفتوں مہینوں میں ذرا کچھ بات ہو تو ہو
وگرنہ کھو چکی ہے لذت گفتار تقریباً
ابھی پچھلے دنوں تک مطمئن تھا دل کہ تم تو ہو
مگر اب ختم ہیں تسکین کے آثار تقریباً
امت گوسوامی
دام خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے
لفظ اظہار کی الجھن میں پڑا ہے کب سے
اے کڑی چپ کے در و بام سجانے والے
منتظر کوئی سر کوہ ندا ہے کب سے
چاند بھی میری طرح حسن شناسا نکلا
اس کی دیوار پہ حیران کھڑا ہے کب سے
بات کرتا ہوں تو لفظوں سے مہک آتی ہے
کوئی انفاس کے پردے میں چھپا ہے کب سے
شعبدہ بازی آئینۂ احساس نہ پوچھ
حیرت چشم وہی شوخ قبا ہے کب سے
دیکھیے خون کی برسات کہاں ہوتی ہے
شہر پر چھائی ہوئی سرخ گھٹا ہے کب سے
کور چشموں کے لیے آئینہ خانہ معلوم
ورنہ ہر ذرہ ترا عکس نما ہے کب سے
کھوج میں کس کی بھرا شہر لگا ہے امجدؔ
ڈھونڈتی کس کو سر دشت ہوا ہے کب سے
امجد اسلام امجد
جب دل میں ذرا بھی آس نہ ہو اظہار تمنا کون کرے
ارمان کیے دل ہی میں فنا ارمان کو رسوا کون کرے
خالی ہے مرا ساغر تو رہے ساقی کو اشارا کون کرے
خودداریٔ سائل بھی تو ہے کچھ ہر بار تقاضا کون کرے
جب اپنا دل خود لے ڈوبے اوروں پہ سہارا کون کرے
کشتی پہ بھروسا جب نہ رہا تنکوں پہ بھروسا کون کرے
آداب محبت میں بھی عجب دو دل ملنے کو راضی ہیں
لیکن یہ تکلف حائل ہے پہلا وہ اشارا کون کرے
دل تیری جفا سے ٹوٹ چکا اب چشم کرم آئی بھی تو کیا
پھر لے کے اسی ٹوٹے دل کو امید دوبارا کون کرے
جب دل تھا شگفتہ گل کی طرح ٹہنی کانٹا سی چبھتی تھی
اب ایک فسردہ دل لے کر گلشن کی تمنا کون کرے
بسنے دو نشیمن کو اپنے پھر ہم بھی کریں گے سیر چمن
جب تک کہ نشیمن اجڑا ہے پھولوں کا نظارا کون کرے
اک درد ہے اپنے دل میں بھی ہم چپ ہیں دنیا ناواقف
…اوروں کی طرح دہرا دہرا کر اس کو فسانا کون کرے
کام عشق بے سوال آ ہی گیا
خودبخود اس کو خیال آ ہی گیا
تو نے پھیری لاکھ نرمی سے نظر
دل کے آئینے میں بال آ ہی گیا
دو مری گستاخ نظروں کو سزا
پھر وہ نا گفتہ سوال آ ہی گیا
زندگی سے لڑ نہ پایا جوش دل
رفتہ رفتہ اعتدال آ ہی گیا
حسن کی خلوت میں دراتا ہوا
عشق کی دیکھو مجال آ ہی گیا
غم بھی ہے اک پردۂ اظہار شوق
چھپ کے آنسو میں سوال آ ہی گیا
وہ افق پر آ گیا مہر شباب
زندگی کا ماہ و سال آ ہی گیا
بے خودی میں کہہ چلا تھا راز دل
وہ تو کہئے کچھ خیال آ ہی گیا
ہم نہ کر پائے خطا بزدل ضمیر
لے کے تصویر مآل آ ہی گیا
ابتدائے عشق کو سمجھے تھے کھیل
مرنے جینے کا سوال آ ہی گیا
لاکھ چاہا ہم نہ لیں غم کا اثر
رخ پہ اک رنگ ملال آ ہی گیا
بچ کے جاؤ گے کہاں ملاؔ کوئی
ہاتھ میں لے کر گلال آ ہی گیا
آنند نرائن ملا
جھجک اظہار ارماں کی بہ آسانی نہیں جاتی
خود اپنے شوق کی دل سے پشیمانی نہیں جاتی
تڑپ شیشے کے ٹکڑے بھی اڑا لیتے ہیں ہیرے کی
محبت کی نظر جلدی سے پہچانی نہیں جاتی
افق پر نور رہ جاتا ہے سورج ڈوبنے پر بھی
کہ دل بجھ کر بھی نظروں کی درخشانی نہیں جاتی
سوئے دل آ کے اب چشم کرم بھی کیا بنا لے گی
شعاع مہر سے صحرا کی ویرانی نہیں جاتی
یہ بزم دیر و کعبہ ہے نہیں کچھ صحن مے خانہ
ذرا آواز گونجی اور پہچانی نہیں جاتی
کسی کے لطف بے پایاں نے کچھ یوں سوئے دل دیکھا
کہ اب ناکردہ جرموں کی پشیمانی نہیں جاتی
تغافل پر نہ جا اس کے تغافل ایک دھوکا ہے
نگاہ دوست کی تحریک پنہانی نہیں جاتی
نظر جھوٹی شباب اندھا وہ حسن اک نقش فانی ہے
حقیقت ہے تو ہو لیکن ابھی مانی نہیں جاتی
میسر ہے ہر اک ایماں میں مجھ کو ذوق کا سجدہ
کوئی مذہب بھی ہو بنیاد انسانی نہیں جاتی
… نظر جس کی طرف ک
پتا مجھ کو ہے پہلے سے اسے انکار کرنا ہے
تسلی کے لیے مجھ کو مگر اظہار کرنا ہے
کوئی تعویذ مل جائے کہ یہ اچھا کرے پوری
بہت وہ دور ہے لیکن مجھے دیدار کرنا ہے
ارادہ کیا ہے میری جاں بہت نزدیک بیٹھی ہو
قتل کرنا ہے یا ہم دو کو دو سے چار کرنا ہے
نظر ان سے یہ سنڈے کو باغیچے میں ملی ایسی
کہ اب ہفتے کے ہر دن کو مجھے اتوار کرنا ہے
ستم کرنے کو بیٹھی ہے مگر کوئی اسے کہہ دو
ابھی کچا ہے دل اس کو ذرا تیار کرنا ہے
مری کشتی کو لہریں توڑ بیٹھی ہیں تو اب مجھ کو
کنارے پر کھڑے ہو کر سمندر پار کرنا ہے
آنند ورما
جو ذوق نظر ہو تو ترکی میں آ کر
حیات عظیمہ کے آثار دیکھو
لگا کر نئی چشمک زنی ہم سروں سے
لقب جس کا تھا مرد بیمار دیکھو
مٹانے پہ جس کے تلا تھا زمانہ
ابھرتا ہے وہ ترک تاتار دیکھو
بہ اظہار جرأت یہ زور صداقت
ہوئے کس طرح زیر اغیار دیکھو
بہ صد شان جاتا ہے انطاکیہ کو
اتاترک کا خال جرار دیکھو
جو سوئے ہوئے تھے جو کھوئے ہوئے تھے
کیا ان کو یک لخت بیدار دیکھو
سنبھلتی ہیں گر کر چمکتی ہیں مٹ کر
یہ ہیں زندہ قوموں کے اطوار دیکھو
انیسہ ہارون شروانیہ
حور و غلماں کے طلب گار سے واقف میں ہوں
صاحب جبہ و دستار سے واقف میں ہوں
شہر میں آپ فرشتوں سے بھی بڑھ کر ٹھہرے
ہاں مگر آپ کے کردار سے واقف میں ہوں
حق نوائی کا سمجھتا ہوں اسے میں انعام
قید و زنداں رسن و دار سے واقف میں ہوں
وہ ہے مجبور طلب سے بھی سوا دینے پر
خوبیٔ جرأت اظہار سے واقف میں ہوں
منصفی چومتی رہتی ہے در اہل دل
اے عدالت ترے کردار سے واقف میں ہوں
سر سلامت ہے تو روزن بھی بنا لوں گا میں
حبس تیرے در و دیوار سے واقف میں ہوں
کبر و نخوت کا ہے الزام عبث انجمؔ پر
اس کے اخلاص سے افکار سے واقف میں ہوں
انجم عظیم آبادی
سوچتا رہتا ہوں تکمیل وفا کیسے ہو
آدمی بھی وہ نہیں ہے تو خدا کیسے ہو
عشق کو حوصلۂ ترک وفا کیسے ہو
لفظ معنی کی صداقت سے جدا کیسے ہو
میں تو پوچھوں گا کہ تم سب کے خدا کیسے ہو
میری آواز فرشتوں کی صدا کیسے ہو
ایک غم ہو تو بکھر جائے مرے چہرے پر
غیر محدود مصائب ہیں ضیا کیسے ہو
سوچنے والوں کی نیت کو خدا ہی جانے
بات والوں کو نہیں فکر وفا کیسے ہو
اس نے مجبور وفا جان کے منہ پھیر لیا
مجھ سے یہ بھول ہوئی پوچھ لیا کیسے ہو
اک سلگتا ہوا دل تم سے جلایا نہ گیا
جانے تم مخلص ارباب وفا کیسے ہو
کس کی صورت میں نہیں جلوۂ خون مزدور
خون مزدور کی قیمت بھی ادا کیسے ہو
عشق ناواقف آداب طلب ہے انجمؔ
حسن آمادۂ اظہار وفا کیسے ہو
انجم فوقی بدایونی
ہر شخص وفا سے ہٹ چکا ہے
شیشوں پہ غبار اٹ چکا ہے
دل تا بہ دماغ پھٹ چکا ہے
یہ شہر کا شہر الٹ چکا ہے
چہروں پہ دمک کہاں سے آئے
سورج کا وقار گھٹ چکا ہے
رشتوں میں خلوص ہی کہاں تھا
پہلے بھی یہ دودھ پھٹ چکا ہے
اظہار خلوص کرنے والا
اندر سے بہت پلٹ چکا ہے
اتنے بھی اداس کب تھے ہم لوگ
ظاہر ہے کہ دل سمٹ چکا ہے
تاریخ وفا میں کیا ملے گا
آنکھوں میں جو وقت کٹ چکا ہے
اب سامنے بھی وہ آئیں تو کیا
دل اپنی طرف پلٹ چکا ہے
دل ہے کہ اسی کی نذر انجمؔ
جس درد کا بھاؤ گھٹ چکا ہے
انجم فوقی بدایونی
کتنا ڈھونڈا اسے جب ایک غزل اور کہی
جب ملا ہی نہیں تب ایک غزل اور کہی
ایک امید ملاقات میں لکھی سر شام
اور پھر آخر شب ایک غزل اور کہی
اک غزل لکھی تو غم کوئی پرانا جاگا
پھر اسی غم کے سبب ایک غزل اور کہی
اس غزل میں کسی بے درد کا نام آتا تھا
سو پئے بزم طرب ایک غزل اور کہی
جانتے بوجھتے اک مصرعۂ تر کی قیمت
دل بیداد طلب ایک غزل اور کہی
دل کی دھڑکن کو ہی پیرایۂ اظہار کیا
سل چکے جب مرے لب ایک غزل اور کہی
دفعتاً خود سے ملاقات کا احساس ہوا
مدتوں بعد جو اب ایک غزل اور کہی
وحشت ہجر بھی تنہائی بھی میں بھی انجمؔ
جب اکٹھے ہوئے سب ایک غزل اور کہی
انجم خلیق
رہ گئے بس عشق دریا سے یہ ناطے رہ گئے
ہم صدف آنکھوں سے اب گوہر لٹاتے رہ گئے
رہ گئے ہم ساز دل کے ٹوٹ جانے پر بھی خوش
درد غزلوں میں چھپا کر گنگناتے رہ گئے
رہ گئے ہم پیار کے ہر اسم سے دے کر صدا
روٹھ کر وہ چل دئے اور ہم مناتے رہ گئے
رہ گئے خاموش وہ بھی عشق کے اظہار پر
میرے لب پر بھی اشارے آتے آتے رہ گئے
رہ گئے سارے فسانوں میں نشاں ان کے ہی اور
راز دل ہم اس زمانہ سے چھپاتے رہ گئے
رہ گئے یوں تو اندھیرے ہجر کے دل میں مگر
وصل کی اک شمع ہم پھر بھی جلاتے رہ گئے
رہ گئے ہم آرزوؔ دل کی دبا کر دل میں ہی
نقش پا ان کی تمنا کے مٹاتے رہ گئے
انجمن منصوری آرزو
پہلے لگا تھا ہجر میں جائیں گے جان سے
پر جی رہے ہیں اور وہ بھی اطمینان سے
دونوں کو جوڑے عشق کی نازک سی ڈور تھی
افسوس وہ بھی ٹوٹ گئی کھینچ تان سے
پھر درمیاں بچے گا جو وہ عشق ہی تو ہے
دنیا اگر نکال دیں ہم درمیان سے
اظہار کرتے رہتے ہیں ویسے تو کتنے لوگ
اچھا لگے گا پر مجھے تیری زبان سے
اول تو قاعدے سے وہاں ہم ہی آتے دوست
اس نے مگر نکال دیا امتحان سے
میرا ہی حق ملا مجھے احسان کی طرح
اس نے معافی مانگ لی لیکن گمان سے
انکت موریا
یہ کبھی سوچا نہیں تھا آپ بھی ایسا کریں گے
جب بچھڑ جائیں گے ہم سے تو ہمیں رسوا کریں گے
بول تو دیتے ہیں غصے میں کہ تم جاؤ یہاں سے
بعد میں پھر سوچتے ہیں یہ ہوا تو کیا کریں گے
اس کے جھگڑے پر کبھی گر ڈانٹ دوں تو بولتا ہے
آپ سے ہے پیار تو پھر کس سے ہم جھگڑا کریں گے
ایک چہرہ جو کہ ہم سے نا کبھی بھی بن سکا ہے
ایک چہرہ وہ کہ جس کو عمر بھر سوچا کریں گے
تیری جانب جب رہیں گی محفلوں کی سب نگاہیں
اپنی آنکھوں سے ترے چہرے پے ہم پردا کریں گے
ہے سمجھنا آپ کو تو شعر سے اظہار سمجھیں
بات کہنے کو بھلا ہم پھول کیوں توڑا کریں گے
انکت موریا
چاند تارے جسے ہر شب دیکھیں
ہم بھی اس شوخ کو یا رب دیکھیں
یوں ملیں ان سے کہ اپنا چہرہ
وہ بھی حیران ہوں کل جب دیکھیں
پہلے بس دل کو خبر تھی دل کی
اب وفا عام ہوئی سب دیکھیں
قرب میں کیا ہے جو دوری میں نہیں
تم جو آؤ تو کسی شب دیکھیں
جی میں ہے پھر کریں اظہار وفا
پھر ترے لرزے ہوئے لب دیکھیں
میں کہ ہوں ایک ہی آشفتہ خیال
لوگ ہر بات میں مطلب دیکھیں
جو کسی نے کبھی دیکھے نہ سنے
وہ تماشے وہ فسوں اب دیکھیں
آج تو یوں گلے لگ جاؤ کہ بس
پھر تو جانے تمہیں کب کب دیکھیں
لاکھ پتھر سہی وہ بت انجمؔ
وہ گھڑی ہم سے ملے تب دیکھیں
انوار انجم
چاند تارے جسے ہر شب دیکھیں
ہم بھی اس شوخ کو یا رب دیکھیں
یوں ملیں ان سے کہ اپنا چہرہ
وہ بھی حیران ہوں، کل جب دیکھیں
پہلے بس دل کو خبر تھی دل کی
اب وفا عام ہوئی سب دیکھیں
قرب میں کیا ہے جو دوری میں نہیں
تم جو آؤ تو کسی شب دیکھیں
جی میں ہے پھر کریں اظہار وفا
پھر ترے لرزے ہوئے لب دیکھیں
میں کہ ہوں ایک ہی آشفتہ خیال
لوگ ہر بات میں مطلب دیکھیں
جو کسی نے کبھی دیکھے نہ سنے
وہ تماشے وہ فسوں اب دیکھیں
لاکھ پتھر سہی وہ بت انجمؔ
دو گھڑی ہم سے ملے تب دیکھیں
انوار انجم
اس بھول میں نہ رہ کہ یہ جھونکے ہوا کے ہیں
تیور تو ان کے دیکھ ذرا کس بلا کے ہیں
کیا ماجرا ہے اے بت توبہ شکن کہ آج
چرچے تری گلی میں کسی پارسا کے ہیں
اس چشم نیم وا کی ہے مستی شراب میں
ساغر میں سارے رنگ اسی کی حیا کے ہیں
ہستی کی قید کاٹتے رہتے ہیں رات دن
کیا جانے کتنے سال ہماری سزا کے ہیں
اے شیخ کیا ڈراتا ہے میدان حشر سے
ہم بندگان خلق بھی بندے خدا کے ہیں
ہے خوف کچھ تو موج تلاطم کا بھی مگر
ہم لوگ زخم خوردہ بت ناخدا کے ہیں
رہنا پڑا ہے دور کراچی سے ورنہ ہم
اس شہر بے مثال کے عاشق سدا کے ہیں
رائج رہیں گے شہر سخن میں ہمارے شعر
سکے ہیں یہ کھرے کہ یہ قصے وفا کے ہیں
رکھتا ہے اک سلیقۂ اظہار مختلف
سب معترف خلیلؔ کی طرز ادا کے ہیں
انور خلیل
اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے
وہ ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے
کواڑ گرچہ مقفل تھے اس حویلی کے
مگر فقیر گزرتے رہے صدا کرتے
ہمیں قرینۂ رنجش کہاں میسر ہے
ہم اپنے بس میں جو ہوتے ترا گلا کرتے
تری جفا کا فلک سے نہ تذکرہ چھیڑا
ہنر کی بات کسی کم ہنر سے کیا کرتے
تجھے نہیں ہے ابھی فرصت کرم نہ سہی
تھکے نہیں ہیں مرے ہاتھ بھی دعا کرتے
انہیں شکایت بے ربطی سخن تھی مگر
جھجک رہا تھا میں اظہار مدعا کرتے
چقیں گری تھیں دریچوں پہ چار سو انورؔ
نظر جھکا کے نہ چلتے تو اور کیا کرتے
انور مسعود
دنیا بھی عجب قافلۂ تشنہ لباں ہے
ہر شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے
تنہا تری محفل میں نہیں ہوں کہ مرے ساتھ
اک لذت پابندیٔ اظہار و بیاں ہے
حق بات پہ ہے زہر بھرے جام کی تعزیر
اے غیرت ایماں لب سقراط کہاں ہے
کھیتوں میں سماتی نہیں پھولی ہوئی سرسوں
باغوں میں ابھی تک وہی ہنگام خزاں ہے
احساس مرا ہجر گزیدہ ہے ازل سے
کیا مجھ کو اگر کوئی قریب رگ جاں ہے
جو دل کے سمندر سے ابھرتا ہے یقیں ہے
جو ذہن کے ساحل سے گزرتا ہے گماں ہے
پھولوں پہ گھٹاؤں کے تو سائے نہیں انورؔ
آوارۂ گلزار نشیمن کا دھواں ہے
انور مسعود
تجھ کو تو قوت اظہار زمانے سے ملی
مجھ کو آزادہ روی خون جلانے سے ملی
قریۂ جاں کی طرح ان پہ اداسی تھی محیط
در و دیوار کو رونق ترے آنے سے ملی
یوں تسلی کو تو اک یاد بھی کافی تھی مگر
دل کو تسکین ترے لوٹ کے آنے سے ملی
میں خزاں دیدہ شجر کی طرح گمنام سا تھا
مجھ کو وقعت تری تصویر بنانے سے ملی
شاخ احساس پہ جو پھول کھلے ہیں ان کو
زندگی حسن کا ادراک بڑھانے سے ملی
جاگتی آنکھ سے جو خواب تھا دیکھا انورؔ
اس کی تعبیر مجھے دل کے جلانے سے ملی
انور سدید
ستم گر یار کی ایسی کی تیسی
دل لاچار کی ایسی کی تیسی
بڑھائے اور بھی احساس غم جو
ہو اس غم خوار کی ایسی کی تیسی
ہنسی جو حال دل سن کر اڑائے
ہو اس دل دار کی ایسی کی تیسی
نہ جس میں کچھ خلوص و دل ربائی
ہو اس اقرار کی ایسی کی تیسی
صنم کی دید بہلائے نہ جس کو
ہو اس بیمار کی ایسی کی تیسی
نہ چشم یار جس سے ڈبڈبائے
ہو اس اظہار کی ایسی کی تیسی
رہا جو بے رخی کا ترجماں جو
ہو اس معیار کی ایسی کی تیسی
کریں گمراہ جو نام خدا پر
ہو ان اقدار کی ایسی کی تیسی
نظر آئے نہ جس کو جز شرارت
دل بیدار کی ایسی کی تیسی
اگر بچے ہوں فاقوں سے بلکتے
ہو اس تہوار کی ایسی کی تیسی
نظر آئے جو کانٹوں کا بچھونا
ہو اس گلزار کی ایسی کی تیسی
جو مشکل دور میں آنکھیں چرائے
ارے اس یار کی ایسی کی تیسی
فن تعمیر سے نا آشنا جو
ہو اس معمار کی ایسی کی تیسی
…نہ سر دشمن کا جو کاٹے
اگرچہ آئنۂ دل میں ہے قیام اس کا
نہ کوئی شکل ہے اس کی نہ کوئی نام اس کا
وہی خدا کبھی ملوائے گا ہمیں اس سے
جو انتظار کراتا ہے صبح و شام اس کا
ہمارے ساتھ نہیں جا سکا تھا وہ لیکن
رہا خیال سیاحت میں گام گام اس کا
خدا کو پیار ہے اپنے ہر ایک بندے سے
سفید فام ہے اس کا سیاہ فام اس کا
کما کے دیتے ہیں جو مال وہ امیروں کو
حساب کیوں نہیں لیتے کبھی عوام اس کا
ہمارا فرض ہے بے لاگ رائے کا اظہار
کوئی درست کہے یا غلط یہ کام اس کا
کہاں ہے شیخ کو سدھ بدھ مزید پینے کی
نشہ اتار گئے تین چار جام اس کا
زبان دل سے کوئی شاعری سناتا ہے
تو سامعین بھلاتے نہیں کلام اس کا
شعورؔ سب سے الگ بیٹھتا ہے محفل میں
اسی سے آپ سمجھ لیجئے مقام اس کا
انور شعور
جب بھی دشمن بن کے اس نے وار کیا
میں نے اپنے لہجے کو تلوار کیا
میں نے اپنے پھول سے بچوں کی خاطر
کاغذ کے پھولوں کا کاروبار کیا
میری محنت کی قیمت کیا دے گا تو
میں نے دشت و صحرا کو گلزار کیا
میں فرہادؔ یا مجنوں کیسے بن جاتا
میں شاعر تھا میں نے سب سے پیار کیا
اس کی آنکھیں خواب سے بننے لگتی ہیں
جب بھی میں نے چاہت کا اظہار کیا
اپنے پیچھے آنے والوں کی خاطر
میں نے ہر اک رستے کو ہموار کیا
اس کے گھر کے سارے لوگ مخالف تھے
پھر بھی عارفؔ اس نے مجھ سے پیار کیا
عارف شفیق
پچھلی رفاقتوں کا نہ اتنا ملال کر
اپنی شکستگی کا بھی تھوڑا خیال کر
ڈس لے کہیں تمہیں کو نہ موقع نکال کر
رکھو نہ آستیں میں کوئی سانپ پال کر
شرمندگی کا زخم نہ گہرا لگے کہیں
کچھ اس قدر دراز نہ دست سوال کر
میری طرح نہ تو بھی گھٹن کا شکار ہو
خود اپنی خواہشوں کو نہ یوں پائمال کر
جو آپ کی نگاہ میں اتنا بلند ہے
دیکھا ہے اس کا ظرف بھی میں نے کھنگال کر
لمحوں کی تند موج سے بچنا محال ہے
رکھو گے کیسے یاد کی خوشبو سنبھال کر
ارماںؔ بس ایک لذت اظہار کے سوا
ملتا ہے کیا خیال کو لفظوں میں ڈھال کر
ارمان نجمی
نہ حرف شوق نہ طرز بیاں سے آتی ہے
سپردگی کی صدا جسم و جاں سے آتی ہے
کوئی ستارہ رگ و پے میں ہے سمایا ہوا
مجھے خود اپنی خبر آسماں سے آتی ہے
کسی دکان سے ملتی نہیں ہے گرمیٔ شوق
یہ آنچ وہ ہے جو سوز نہاں سے آتی ہے
کھلا نہیں ہے وہ مجھ پر کسی بھی پہلو سے
نہیں کی گونج ابھی اس کی ہاں سے آتی ہے
عجیب شے ہے نشاط یقیں کی دولت بھی
کسی وجود کے وہم و گماں سے آتی ہے
پرندے شام ڈھلے راہ میں نہیں رکتے
کوئی نوید انہیں آشیاں سے آتی ہے
مٹھاس گھولتا ہے کون میرے لہجے میں
مرے سخن میں حلاوت کہاں سے آتی ہے
گریز بھی کہیں اظہار آرزو ہی نہ ہو
کشش یہ کیسی بدن کی کماں سے آتی ہے
کسی حجاب کی بندش کو مانتی ہی نہیں
جو موج روح کی جوئے رواں سے آتی ہے
ارمان نجمی
بیتابیٔ دل شوق کا اظہار نہ کر دے
اس شوخ کو الفت سے خبردار نہ کر دے
گر یہ ہی فراوانیاں ہیں درد و الم کی
یہ عشق کہیں جینے سے بیزار نہ کر دے
ہے ان کو شفا پرسش در پردہ سے منظور
ڈر ہے یہ مجھے اور بھی بیمار نہ کر دے
وہ پوچھتے ہیں ہے تجھے کیا مجھ سے محبت
میرا دل ناداں کہیں اقرار نہ کر دے
ارماںؔ کو ترا دیکھنا مڑ کر دم رخصت
خوابیدہ تمناؤں کو بیدار نہ کر دے
ارمان رامپوری
محبت وہ مرض ہے جس کا چارہ ہو نہیں سکتا
جگر کا ہو کہ دل کا زخم اچھا ہو نہیں سکتا
وہ نالہ کوئی نالہ ہے جو کم ہو موج طوفاں سے
وہ آنسو کوئی آنسو ہے جو دریا ہو نہیں سکتا
تماشا ہے کہ ہم اس کو مسیحا دم سمجھتے ہیں
ہمارے درد کا جس سے مداوا ہو نہیں سکتا
مجھے فریاد پر مائل نہ کر اے جوش ناکامی
زمانے بھر میں دل کا راز رسوا ہو نہیں سکتا
عجب کیا ہے جو خاموشی ہی شرح آرزو کر دے
مرے لب سے تو اظہار تمنا ہو نہیں سکتا
مبارک ہو تجھی کو یہ خیالستان اے واعظ
تری دنیا میں رندوں کا گزارہ ہو نہیں سکتا
تماشا ہو گیا ہے تیرے جلووں کا تماشائی
کوئی اس شان سے محو تماشا ہو نہیں سکتا
بدل سکتے ہو تم بگڑی ہوئی قسمت زمانے کی
تمہاری اک نگاہ ناز سے کیا ہو نہیں سکتا
عرش ملسیانی
جس غم سے دل کو راحت ہو اس غم کا مداوا کیا معنی
جب فطرت طوفانی ٹھہری ساحل کی تمنا کیا معنی
عشرت میں رنج کی آمیزش راحت میں الم کی آلائش
جب دنیا ایسی دنیا ہے پھر دنیا دنیا کیا معنی
خود شیخ و برہمن مجرم ہیں اک کام سے دونوں پی نہ سکے
ساقی کی بخل پسندی پر ساقی کا شکوا کیا معنی
جلووں کا تو یہ دستور نہیں پردوں سے کبھی باہر آئیں
اے دیدۂ بے توفیق ترا یہ ذوق تماشا کیا معنی
اخلاص و وفا کے سجدوں کی جس در پر داد نہیں ملتی
اے غیرت دل اے عزم خودی اس در پر سجدہ کیا معنی
اے صاحب نقد و نظر مانا انساں کا نظام نہیں اچھا
اس کی اصلاح کے پردے میں اللہ سے جھگڑا کیا معنی
ہر لحظہ فزوں ہو جوش عمل یہ فرض ہے فرض کی راہ پہ چل
تدبیر کا یہ رونا کیسا تقدیر کا شکوا کیا معنی
میخانے میں تو اے واعظ اب تلقین کے کچھ اسلوب بدل
اللہ کا بندہ بننے کو جنت کا سہارا کیا معنی
…اظہار
اگر تقدیر تیری باعث آزار ہو جائے
تجھے لازم ہے اس سے بر سر پیکار ہو جائے
مری کشتی ہے میں ہوں اور گرداب محبت ہے
جو تو ہو نا خدا میرا تو بیڑا پار ہو جائے
کمال ضبط غم سے یہ گوارا ہی نہیں مجھ کو
کہ حرف آرزو شرمندۂ اظہار ہو جائے
تیرے خواب گراں پر اے دل ناداں تعجب ہے
کہ تو سوتا رہے سارا جہاں بے دار ہو جائے
انہیں کیوں کوستا ہے جو تجھے کہتے ہیں کم ہمت
برا کیا ہے حقیقت کا اگر اظہار ہو جائے
تمہیں اے عرش کیوں ہے تیر غم سے اتنی بے زاری
یہی بہتر ہے یہ ناوک جگر کے پار ہو جائے
عرش ملسیانی
ان سے اظہار شکایات کروں یا نہ کروں
لب پہ لرزاں سی ہے اک بات کروں یا نہ کروں
کھینچ لائے نہ کہیں پھر یہ محبت کی کشش
جرأت ترک ملاقات کروں یا نہ کروں
میری خاموشیٔ پیہم کا انہیں شکوہ ہے
ذکر بے دردیٔ حالات کروں یا نہ کروں
ہے غم حال میں انسان پریشاں خاطر
فکر فردا کی کوئی بات کروں یا نہ کروں
عرش صہبائی
یہ دیکھیں راز دل اب کون کرتا ہے عیاں پہلے
نظر کرتی ہے اظہار محبت یا زباں پہلے
اگر ہو دیکھنا مقصود بربادی کا نظارہ
جلا کر دیکھیے اک بار اپنا آشیاں پہلے
پہنچ کر منزل ہستی پہ یہ احساس ہوتا ہے
کہ گزرے ہیں یہاں سے اور بھی کچھ کارواں پہلے
کئی معصوم کلیاں جو ابھی کھلنے نہ پائی ہوں
مسل دیتے ہیں اپنے ہاتھ سے خود باغباں پہلے
ٹھہر اے گردش ایام ہم بھی ساتھ چلتے ہیں
اٹھا لینے دے فیض صحبت پیر مغاں پہلے
عرش صہبائی
حیا اخفا راز دل کی اک تدبیر ہوتی ہے
نظر جھکتی ہے وہ جس میں کوئی تحریر ہوتی ہے
رواج زحمت اظہار دی جاتی ہے ہونٹوں کو
محبت میں خموشی ورنہ خود تقریر ہوتی ہے
ہر اک دیوانہ پابند وفا رہتا ہے آخر تک
جنوں کے پاؤں میں بھی ہوش کی زنجیر ہوتی ہے
سبھی کرتے ہیں دعوے صاحب ایمان ہونے کا
مگر ہر دل کے آئینے میں اک تصویر ہوتی ہے
جہاں برق تپاں کی یورش پیہم کا امکاں ہو
عموماً آشیانے کی وہیں تعمیر ہوتی ہے
نہ جانے کون سے خوش بخت کا یہ قول ہے ارشدؔ
کہ آہ صبح گاہی میں بڑی تاثیر ہوتی ہے
ارشد بجنوری
اک لفظ آ گیا تھا جو میری زبان پر
چھایا رہا نہ جانے وہ کس کس کے دھیان پر
مجھ کو تلاش کرتے ہو اوروں کے درمیاں
حیران ہو رہا ہوں تمہارے گمان پر
محفل میں دوستوں کی وہی نغمہ بن گیا
شب خون کا جو شور تھا میرے مکان پر
بے شک زمیں ہنوز ہے اپنے مدار میں
لیکن دماغ اس کا تو ہے آسمان پر
شاید مری تلاش میں اتری ہے چرخ سے
جو دھوپ پڑ رہی ہے مرے سائبان پر
رہتا ہے بے نیاز جو آب و سراب سے
کھلتا ہے راز دشت اسی ساربان پر
احساس اس کا جامۂ اظہار مانگے ہے
افتاد آ پڑی ہے یہ ارشدؔ کی جان پر
ارشد کمال
کسی صورت اگر اظہار کی صورت نکل آئے
تو ممکن ہے کسی سے پیار کی صورت نکل آئے
مسیحائی پہ وہ کافر اگر ایمان لے آئے
شفا کی شکل میں بیمار کی صورت نکل آئے
اگر وہ بے وفا ضد چھوڑ دے اور ٹھیک ہو جائے
تو شاید پھر مرے گھر بار کی صورت نکل آئے
کوئی تو معجزہ ایسا بھی ہو اپنی محبت میں
ترے انکار سے اقرار کی صورت نکل آئے
بہت دن ہو گئے ارشدؔ وہ مکھڑا چاند سا دیکھے
دعا کرنا کوئی دیدار کی صورت نکل آئے
ارشد لطیف
کتنا بے رنگ ہوا شہر ہنر تیرے بعد
جانے کس رخ پہ ہو لفظوں کا سفر تیرے بعد
کون اب لب کے تبسم کو کہے گا ہیرا
کون برسائے گا لفظوں کے گہر تیرے بعد
جب بھی گرتا ہے بڑا پیڑ دہلتی ہے زمیں
زندگی دھوپ میں گزرے گی شجر تیرے بعد
کہکشاں لفظوں کی شعروں میں ملے گی کس کے
کون بانٹے گا خیالوں کے گہر تیرے بعد
صدیوں رکھے گی تجھے زندہ سخن کی خوشبو
تذکرے ہوں گے ترے شام و سحر تیرے بعد
سلسلہ کون سنبھالے گا نقوش پا کا
منتظر کس کی ہے اب راہ گزر تیرے بعد
اب کہاں ہوتے ہیں وہ شعر و سخن کے چرچے
بے زباں ہو گیا تہذیب کا گھر تیرے بعد
منفرد جرأت اظہار رہے گی زندہ
اب کہاں ہوگا یہ اسلوب و ہنر تیرے بعد
تیرے اشعار پہ سر دھنتی رہے گی دنیا
رنگ لایا ہے ترا خون جگر تیرے بعد
گرمیٔ فکر سخن سے نہیں انکار نظرؔ
اتنی آساں بھی نہیں راہگزر تیرے بعد
ارشد نظر
زخموں سے میرا جسم یہاں چور چور تھا
احساس میرے کرب کا اس کو ضرور تھا
پتھر اچھالتا رہا ہر ایک کی طرف
کیا جانے کس خیال کا اس کو غرور تھا
دل بھی دھڑک رہا تھا گنہ گار کی طرح
جیسے کوئی ثبوت بھی پیش حضور تھا
لگتا ہے میری بات سے وہ بھی قریب تر
حالانکہ دیکھنے میں بہت دور دور تھا
کیا جانے کس خیال سے وہ چپ رہا مگر
اظہار حال درد بھی لیکن ضرور تھا
اب اس کی ذات میں ہو کوئی بات تو نظرؔ
پہلے تو اس کے ربط میں کتنا سرور تھا
ارشد نظر
جب لب سے مرے حرف صداقت نکل آئے
کچھ لوگ لئے سنگ ملامت نکل آئے
یارب کوئی ایسی کہیں صورت نکل آئے
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت نکل آئے
اٹھے جو کہیں شعلہ لہو دے کے بجھا دے
ممکن ہے کوئی راہ محبت نکل آئے
آئینے کو اس شہر ہوس میں نہ لئے پھر
مشکل ہے یہاں سے وہ سلامت نکل آئے
جس خواب کو تعبیر کے لائق نہیں سمجھا
وہ خواب اگر اپنا حقیقت نکل آئے
کہنے پہ چلو توڑ لیں ہر شخص سے رشتہ
اس میں جو کوئی ان کی سیاست نکل آئے
خوشبو ہے کسی راز کی سینے میں ہمارے
مت چھیڑ کہ اظہار حقیقت نکل آئے
ہر سانس پہ رہتا ہے جہاں جبر کا پہرہ
مقتل سے کوئی کیسے سلامت نکل آئے
برتا ہے کچھ اس رنگ سے لفظوں کو غزل میں
ممکن ہے کہ اس میں بھی علامت نکل آئے
کر فکر کے آئینے سے ہر لمحہ نئی بات
ممکن ہے نظرؔ اس طرح قامت نکل آئے
ارشد نظر
آباد دل کے ہوتے ہی گھر نام پڑ گیا
دیوار کیا گری کہ کھنڈر نام پڑ گیا
پانی تھا سر سے اونچا کبھی شہر چشم میں
بارش رکی تو دیدۂ تر نام پڑ گیا
بخشی ثمر نے بیج کو شہرت صفات کی
کونپل جواں ہوئی تو شجر نام پڑ گیا
ذرے کو آفتاب کیا کس خیال نے
کس نقش پا سے راہ گزر نام پڑ گیا
گہرائیوں سے ان کی نہ پھر لوٹیں کشتیاں
ڈوبے تو چشم تر کا بھنور نام پڑ گیا
سورج کے قتل عام سے بکھرے مہہ و نجوم
اک جبر کا طلوع سحر نام پڑ گیا
رکھا ہے قید گردش آفاق میں مجھے
ان تنگ دائروں کا سفر نام پڑ گیا
سیپوں کی کاوشوں کو سراہا نہ دہر نے
پتھر کا جانے کیسے گہر نام پڑ گیا
خون جگر سے پائی ہے لفظوں نے زندگی
احساس بول اٹھا تو ہنر نام پڑ گیا
اظہار فن میں ہم نے کئے تجربے نئے
آنکھوں کی گفتگو سے نظرؔ نام پڑ گیا
ارشد نظر
وہ کون تھا جو برسر پیکار مجھ میں تھا
اندھی انا تھی نشۂ پندار مجھ میں تھا
اک جنگ خیر و شر کی تھی برپا وجود میں
اک جذبہ تھا جو برسر پیکار مجھ میں تھا
تو دشت بے حسی میں ٹھہرتا بھی کب تلک
اے جذبۂ جنوں ترا اظہار مجھ میں تھا
کیسے نبرد آزما دشمن سے ہو گیا
وحشی ہوا سا کوئی تو فن کار مجھ میں تھا
دنیا خرید لی تھی مگر یہ خبر نہ تھی
میرے وجود کا بھی خریدار مجھ میں تھا
تھیں خواب خواب آنکھیں در یار پر لگی
کہتا میں کیسے دیدۂ بے دار مجھ میں تھا
چنتا رہا گلوں کی طرح خار خار زخم
جیسے کہ کوئی شہر دل آزار مجھ میں تھا
دشوار ہو گئی تھی تمہاری تلاش بھی
وہ کون تھا جو سایۂ دیوار مجھ میں تھا
کیوں شعر شور خیز ہے برہم تھے وہ نظرؔ
کیوں اتنا تیز تر مرا اظہار مجھ میں تھا
ارشد نظر
یہ چاہتے ہیں کہ جام الفت کا ذہن و دل سے اثر نہ جائے
پلا دو ہم کو پھر اس سے پہلے نشہ ہمارا اتر نہ جائے
ہمیں سے ہے میکدے کی رونق ہمیں سے سارا نظام رنداں
یہ کیسے ممکن ہے ساقیا اب ہمارے اوپر نظر نہ جائے
تمہاری خاطر ہی راستوں پر بچھا کے رکھی ہیں ہم نے آنکھیں
چلے بھی آؤ کہ بن تمہارے یہ موسم گل گزر نہ جائے
ورق ورق پر تمہارا چرچا تمہاری یادیں تمہاری باتیں
بڑی حفاظت سے رکھ رہا ہوں کتاب دل ہے بکھر نہ جائے
میں چاہتا ہوں کہ تم سے کہہ دوں مگر یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا
یہ دل کے اظہار کا پرندہ قفس کے اندر ہی مر نا جائے
تمہارے در سے میں اپنا سر بھی تبھی اٹھاؤں گا جان جاناں
کہ جب تلک آرزوؔ کا بگڑا ہوا مقدر سنور نہ جائے
آرزو اشرف سلطان پوری
پوچھو اگر تو کرتے ہیں انکار سب کے سب
سچ یہ کہ ہیں حیات سے بیزار سب کے سب
اپنی خبر کسی کو نہیں پھر بھی جانے کیوں
پڑھتے ہیں روز شہر میں اخبار سب کے سب
تھا ایک میں جو شرط وفا توڑتا رہا
حالانکہ با وفا تھے مرے یار سب کے سب
سوچو تو نفرتوں کا ذخیرہ ہے ایک دل
کرتے ہیں یوں تو پیار کا اظہار سب کے سب
زنداں کوئی قریب نہیں اور نہ رقص گاہ
سنتے ہیں اک عجیب سی جھنکار سب کے سب
میدان جنگ آنے سے پہلے پلٹ گئے
نکلے تھے لے کے ہاتھ میں تلوار سب کے سب
ذہنوں میں کھولتا تھا جو لاوا وہ جم گیا
مفلوج ہو کے رہ گئے فن کار سب کے سب
اسعد بدایونی
میری نفرت بھی ہے شعروں میں مرے پیار کے ساتھ
میں نے لکھی ہے غزل جرأت اظہار کے ساتھ
اقتدار ایک طرف ایک طرف درویشی
دونوں چیزیں نہیں رہ سکتی ہیں فن کار کے ساتھ
اک خلا دل میں بہت دن سے مکیں ہے اب تو
یاد گزرا ہوا موسم بھی نہیں یار کے ساتھ
بادبانوں سے الجھتی ہے ہوا روز مگر
کشتیاں سوئی ہیں کس شان سے پتوار کے ساتھ
شہر میں جہل کی ارزانی ہے لیکن اب تک
میں ہی سمجھوتہ نہیں کرتا ہوں معیار کے ساتھ
میرے اشعار ہیں ناقد کے لئے کچھ بھی نہیں
درد کو میں نہیں لکھتا کبھی دشوار کے ساتھ
اسعد بدایونی
سینوں میں اگر ہوتی کچھ پیار کی گنجائش
ہاتھوں میں نکلتی کیوں تلوار کی گنجائش
پچھڑے ہوئے گاؤں کا شاید ہے وہ باشندہ
جو شہر میں ڈھونڈے ہے ایثار کی گنجائش
نفرت کی تعصب کی یوں رکھی گئیں اینٹیں
پیدا ہوئی ذہنوں میں دیوار کی گنجائش
پاکیزگی روحوں کی نیلام ہوئی جب سے
جسموں میں نکل آئی بازار کی گنجائش
اس طرح کھلے دل سے اقرار نہیں کرتے
رکھ لیجئے تھوڑی سی انکار کی گنجائش
گر عزم مصمم ہو اور جہد مسلسل بھی
صحرا میں نکل آئے گلزار کی گنجائش
سمجھیں کہ نہ سمجھیں وہ ہم نے تو اسدؔ رکھ دی
اشعار کے ہونٹوں پہ اظہار کی گنجائش
اسد رضا
عشق کی گرمئ بازار کہاں سے لاؤں
یوسف دل کا خریدار کہاں سے لاؤں
سنتے ہی نغموں کی اک لہر رگوں میں دوڑے
میں تری شوخئ گفتار کہاں سے لاؤں
وہی شوریدہ سری ہے وہی ایذا طلبی
عشق میں جادۂ ہموار کہاں سے لاؤں
ہو گئیں آنکھوں سے وہ مست نگاہیں اوجھل
عشرت خانۂ خمار کہاں سے لاؤں
دل کی دھڑکن میں سنا کرتا تھا پیغام ترا
اب وہ ہنگامۂ بسیار کہاں سے لاؤں
اس پر آئینہ ہو کس طرح حقیقت دل کی
شوق منت کش اظہار کہاں سے لاؤں
معبد دل میں پرستار محبت ہوں اثرؔ
روش کافر و دیں دار کہاں سے لاؤں
اثر لکھنوی
مدعا کچھ بھی ہو لیکن مدعا رکھا کرو
جذبۂ تعمیر سے بھی واسطہ رکھا کرو
زندگی کے راستے میں ہیں ہزاروں ٹھوکریں
آبلہ پائی سلامت جو صلہ رکھا کرو
مل ہی جاتے ہیں یہ اکثر زندگی کی موڑ پر
اجنبی چہروں سے خود کو آشنا رکھا کرو
دیکھنا شعلہ بیانی بھی ادا بن جائے گی
تلخیٔ اظہار میں حسن ادا رکھا کرو
موم سے بھی دوستی ہو اور شعلوں سے بھی پیار
پھر بھی ان کے درمیاں کچھ فاصلہ رکھا کرو
گھپ اندھیرا ہو تو پھر ملتی نہیں راہ نجات
ذہن و دل کا روشنی سے رابطہ رکھا کرو
تم کو جینا ہے اثرؔ اس انقلابی دور میں
اپنی فطرت میں ذرا فکر رسا رکھا کرو
اثر نظامی
مایوس اندھیروں سے نہ اے دیدۂ تر ہو
آخر تو کبھی اس شب غم کی بھی سحر ہو
اب شوق کا اظہار بہ انداز دگر ہو
دل ٹوٹ بھی جائے تو کسی کو نہ خبر ہو
شاید کہ کبھی اس کو بھی ہو جائے محبت
شاید کہ کبھی اس کی بھی آنکھوں میں بسر ہو
ہو دل میں بپا حشر تو ہو لب پہ خموشی
یوں کیجئے الفت کہ انہیں بھی نہ خبر ہو
وعدہ تو ہوا ہے کہ وہ آئیں گے سر شام
اب دیکھیے کس رنگ میں اس شب کی سحر ہو
کب تک میں رہوں محو سکوت شب ہجراں
اے قلب حزیں نالہ بپا کر کہ سحر ہو
اک عمر کٹی خانہ بدوشی میں ہماری
حسرت ہے کہ دنیا میں کوئی اپنا بھی گھر ہو
تم وارث جمشید و سکندر سہی لیکن
اے کاش تمہیں اپنے وطن کی بھی خبر ہو
سیجوں پہ کٹے عمر کہ کانٹوں پہ تبسمؔ
بس ایک تمنا ہے محبت میں بسر ہو
اصغر علی تبسم
یہ زمیں چاند ستاروں کا بدل کیسے ہو
سوچتا میں بھی بہت کچھ ہوں عمل کیسے ہو
صورت حال بدل جاتی ہے اک لمحے میں
آدمی اپنے ارادوں میں اٹل کیسے ہو
کن درختوں سے لگا رکھی ہے امید ثمر
شاخ ہی جب نہ ہو سرسبز تو پھل کیسے ہو
سوچتے کچھ ہیں عمل کچھ ہے نتیجہ کچھ ہے
ایسی صورت میں کوئی مسئلہ حل کیسے ہو
درد سے کوئی علاقہ نہ تعلق غم سے
صرف لفظوں کے برتنے سے غزل کیسے ہو
ہر ملاقات ادھوری رہی اس الجھن میں
یعنی اظہار محبت میں پہل کیسے ہو
میرے محبوب کا اردو سے ہے رشتہ کم کم
مینوں آندی نئیں پنجابی تے گل کیسے ہو
اشفاق حسین
لمحۂ تلخیٔ گفتار تلک لے آیا
وہ مجھے اپنے ہی معیار تلک لے آیا
کیا رکھے اس سے کوئی سلسلۂ گفت و شنید
گھر کی باتوں کو جو بازار تلک لے آیا
میں نے جو بات بھروسے پہ کہی تھی اس سے
وہ اسے سرخیٔ اخبار تلک لے آیا
گھر میں جب کچھ نہ بچا اس کی اعانت کے لیے
میں اٹھا کر در و دیوار تلک لے آیا
اس کی آنکھوں میں عجب سحر تھا میں جس کے سبب
دل کی باتیں لب اظہار تلک لے آیا
وہ جو قائل ہی نہ تھا میری محبت کا اسے
رفتہ رفتہ حد اقرار تلک لے آیا
میرے ہر جھوٹ کو دنیا نے سراہا لیکن
ایک سچ مرحلۂ دار تلک لے آیا
اشفاق حسین
جو گزرتی ہے کہا کرتا ہوں
دل کے جذبات لکھا کرتا ہوں
چن کے جب لاتی ہے الفاظ زباں
لب اظہار کو وا کرتا ہوں
خیر سے پار لگے کشتیٔ زیست
بس یہی ایک دعا کرتا ہوں
زندگی تجھ سے وفا کی خاطر
دل کی آواز سنا کرتا ہوں
غم میں بھی رہتا ہوں میں خوش ساحلؔ
ہر نفس ایسے جیا کرتا ہوں
اشوک ساہنی ساحل
دے آیا اپنی جان بھی دربار عشق میں
پھر بھی نہ بن سکا خبر اخبار عشق میں
جب مل نہ پایا اس سے مجھے اذن گفتگو
میں اک کتاب بن گیا اظہار عشق میں
قیمت لگا سکا نہ خریدار پھر بھی میں
جنس وفا بنا رہا بازار عشق میں
شاید یہی تھی اس کی محبت کی انتہا
مجھ کو بھی اس نے چن دیا دیوار عشق میں
تہہ تک میں کھوج آیا ہوا غرق بار بار
آیا نہ پھر بھی تیرنا منجھدار عشق میں
اشرف شاد
چھوڑ کر تیری مٹی کدھر جائیں گے
اے وطن تجھ میں اک دن بکھر جائیں گے
دور رہ کر جہاں سے گزر جائیں گے
گھر جو آ جاؤ تم تو ٹھہر جائیں گے
یوں نہ بکھرو ذرا حوصلہ تو رکھو
دکھ بھرے دن کبھی تو گزر جائیں گے
بھیج کر کچھ رقم بوڑھے ماں باپ کو
قرض کیا پرورش کے اتر جائیں گے
کتنی مدت سے گھر کو سجاتے ہو تم
صرف دو دن کو ہی بچے گھر جائیں گے
اس کی نظر عنایت ہے ہر شخص پر
دن ہمارے بھی شاید سنور جائیں گے
آصف اظہار علی
دعائیں مانگ کے دل کو قرار رہتا ہے
ترے کرم کا ہمیں انتظار رہتا ہے
وہ میرے درد کو پڑھتا ہے میرے چہرے سے
نمی ہو آنکھ میں تو بے قرار رہتا ہے
اگر کبھی میں جھڑک دوں کسی سوالی کو
مرا ضمیر بہت شرمسار رہتا ہے
جب ایک فرقے کے لوگوں پہ ٹوٹتے ہیں ستم
تماش بینوں میں ہی شہریار رہتا ہے
یہ سچ ہے فون پہ بات ہوئیں مگر بیٹو
گلے لگانے کو دل بے قرار رہتا ہے
ہماری جھولی میں لعل و گہر نہیں آصفؔ
خزانہ پیار کا ہاں بے شمار رہتا ہے
آصف اظہار علی
دشمنی مجھ سے آ نبھا تو سہی
میری حالت پہ مسکرا تو سہی
آگ میں گھر گیا ہے پھر مومن
معجزہ اے خدا دکھا تو سہی
اک تعلق بنا رہے تجھ سے
مت وفا کر مگر ستا تو سہی
جی تو کرتا ہے تجھ سے بات کروں
تو بھی مجھ سے نظر ملا تو سہی
تیرے میرے کی بات جانے دے
عمر کتنی بچی بتا تو سہی
کیسے خود کو سنبھال رکھا ہے
نسخہ آصفؔ مجھے لکھا تو سہی
آصف اظہار علی
خستہ دل ہیں نہ ہمیں اور ستانا لوگو
ذکر اس کا نہ زباں پر کبھی لانا لوگو
عقل تیار تو ہے ترک تعلق کو مگر
اتنا آسان نہیں دل کو منانا لوگو
جا بجا ڈھونڈھتی پھرتی ہیں نگاہیں جس کو
جانے کس شہر میں ہے اس کا ٹھکانہ لوگو
دور تک پھیل گئی بات ہماری اس کی
کل لکھا جائے گا اک اور فسانہ لوگو
جانے کس لمحہ وہ کس موڑ پہ مل جائے گی
موت کا کوئی پتہ ہے نہ ٹھکانہ لوگو
خود کو مشکل سے سنبھالے ہیں بہت ٹوٹے ہیں
ہم بکھر جائیں گے مت ٹھیس لگانا لوگو
عمر بھر کے لئے بے چین یہ کر دیتا ہے
میری مانو تو کبھی دل نہ لگانا لوگو
آصف اظہار علی
دھوپ سر سے گزرنے والی ہے
زندگی شام کرنے والی ہے
آج رشتوں کو جوڑ کر رکھیے
کل تو ہستی بکھرنے والی ہے
یہ جو بل کھا کے چل رہی ہے بہت
یہ ندی تو اترنے والی ہے
پھر بگولا اٹھا ہے بستی میں
پھر قیامت گزرنے والی ہے
یورش رنج و غم سے تو آصفؔ
بن کے کندن نکھرنے والی ہے
آصف اظہار علی
بہت سے ہم نے سمجھوتے کیے ہیں
کسی کے ساتھ اب تک یوں جئے ہیں
بہت ڈرتا ہے جو رسوائیوں سے
مرے اشعار تو اس کے لئے ہیں
ہمیں دیکھا تو اکثر چپکے چپکے
تمہارے چرچے لوگوں میں ہوئے ہیں
نہ جانے دور تک کیوں بات پہنچی
لبوں کو آج تک ہم تو سیے ہیں
اسے عادت ہے لیکن بھولنے کی
کسی نے چند وعدے تو کئے ہیں
جو دم بھرتے ہیں آصفؔ دوستی کا
وہی اب ہاتھ میں خنجر لیے ہیں
آصف اظہار علی
میرے ہونٹوں پہ عجب آہ و فغاں رہنے دیا
اس نے فرقت میں بھی خاموش کہاں رہنے دیا
تا کہ جذبات زدہ قیس نصیحت پکڑیں
دشت والوں نے مرا نام و نشاں رہنے دیا
میں نے اظہار کے سب رستے مقفل کر کے
جو بھی منظر تھا وہ دنیا پہ عیاں رہنے دیا
کار تخلیق میں کوئی تو ضرورت ہوگی
اس نے ایقان کے پردے میں گماں رہنے دیا
مجھ کو آسانی نظر آتی تھی اس میں عاصمؔ
عاشقی کر لی سبھی کار جہاں رہنے دیا
عاصم بخاری
اے وحشت جاں درد کے شہکار بہت ہیں
زندہ ہیں مگر لوگ یہ بیمار بہت ہیں
نفرت میں نہیں عیب محبت پہ ہے بندش
اس شہر میں اس طرز کے معیار بہت ہیں
یہ مشق تبسم ہے فقط رسم زمانہ
شکوے تو پس پردۂ اظہار بہت ہیں
اک مجھ کو ترا درد بھی منظور ہے جاناں
خوشیوں کے تری ورنہ طلب گار بہت ہیں
ویرانے میں ہو سکتا ہے محفوظ رہیں ہم
انسان کی نگری میں تو خونخوار بہت ہیں
جسموں کی تجارت تو ہمیشہ سے ہوئی ہے
روحوں کے بھی اس دور میں بازار بہت ہیں
معصوم گنہ صرف گناہ گار وہیں ہیں
جس شہر میں انصاف کے دربار بہت ہیں
ٹھہرے ہوئے آنسو کئی جاگی ہوئی راتیں
عاصمؔ پہ ترے درد کے آثار بہت ہیں
عاصم واسطی
زمانہ صورت دیوار کیوں ہے
یہ خاموشی سر بازار کیوں ہے
ادھر کچھ روز سے ہاتھوں میں اپنے
بجائے شاخ گل تلوار کیوں ہے
یہاں ہر راستہ ہے صاف سیدھا
مگر ہر شخص کج رفتار کیوں ہے
جو بستی چین سے سوتی تھی شب بھر
وہ بستی خوف سے دو چار کیوں ہے
بتاؤ بک گئے تم بھی نظرؔ کیا
مقفل اب لب اظہار کیوں ہے
اسجد ناظری نظر
کچھ تو غم خانۂ ہستی میں اجالا ہوتا
چاند چمکا ہے تو احساس بھی چمکا ہوتا
آئینہ خانۂ عالم میں کھڑا سوچتا ہوں
میں نہ ہوتا تو یہاں کون سا چہرہ ہوتا
خود بھی گم ہو گئے ہم اپنی صداؤں کی طرح
دشت فرقت میں تجھے یوں نہ پکارا ہوتا
حسن اظہار نے رعنائی عطا کی غم کو
گل اگر رنگ نہ ہوتا تو شرارہ ہوتا
ہم بھی احساس کی تصویر بنا سکتے تھے
کاش ہم پہ کبھی اظہار کا در وا ہوتا
فرصت شوق نہ دی کرب وفا نے رونا
کوئی اعجاز تو ہم نے بھی دکھایا ہوتا
ہم کو پہچان کہ اے بزم چمن زار وجود
ہم نہ ہوتے تو تجھے کس نے سنوارا ہوتا
ایک صورت سے ہوا نقش دو عالم کو فروغ
آئینہ ٹوٹ نہ جاتا تو تماشا ہوتا
ہم نے ہر خواب کو تعبیر عطا کی اسلمؔ
ورنہ ممکن تھا کہ ہر نقش ادھورا ہوتا
اسلم انصاری
جب حق دل و دماغ میں بھرپور رچ گیا
میرے قدم جہاں پڑے کہرام مچ گیا
ہر بار اس سے قوت اظہار چھن گیا
جب بھی میں اس کی بزم میں لے کر پہنچ گیا
میں نے تو اپنے در پہ لکھایا تھا اپنا نام
لیکن کوئی پڑوسی اسے بھی کھرچ گیا
دریا کی تہ چٹان کی زد کو بھی سہہ گئی
لیکن یہ کیا کہ سطح پہ اک شور مچ گیا
کل رات ان غریبوں کو قے کیوں نہ آ سکی
کھانا امیر شہر کا کیوں ان کو پچ گیا
اسلمؔ کرامتوں میں کروں گا شمار اگر
میرا خلوص تہمت یاراں سے بچ گیا
اسلم حنیف
کچھ آرزو کے خواب دکھانے لگی ہوا
پانی کے زندگی کو ستانے لگی ہوا
ہم بھی ہوئے شکار ہیں اظہار عشق کے
جب گیسوؤں کے خم کو دکھانے لگی ہوا
باد صبا تمہاری مہک لے کے آ گئی
روٹھے ہوئے دلوں کو منانے لگی ہوا
لیلیٰ و قیس ہم کو کہنے لگے ہیں لوگ
رسوائیوں کو نام بتانے لگی ہوا
دل کی منڈیر کا یہ دیا کیسے بجھ گیا
پوچھا تو اپنا پہلو بجانے لگی ہوا
تم جو نہیں ہو پاس تو کیسے بدل گئی
شبنم میں بھیگی رات جلانے لگی ہوا
اسلمؔ کوئی جو شب کبھی ظالم سی بن گئی
سینے سے لگ کے مجھ کو سلانے لگی ہوا
اسلم نور اسلم
تاریخ سے ملا نہ روایات سے ملا
مجھ کو مرا سراغ مری ذات سے ملا
جس شب ہوا تھا جام میں مہتاب کا نزول
احساس زندگی مجھے اس رات سے ملا
حاصل ہے جس قدر ہمیں سرمایۂ دروغ
یہ صرف اپنی کہنہ روایات سے ملا
حصہ جو رہ گیا ہے بقایا حیات کا
اس کو طبیب قلب خرابات سے ملا
اظہار میرے زور طبیعت کی دین تھی
لیکن شعور شورش حالات سے ملا
اسلم شیخ
پہلے تو نہ تھی اتنی تب و تاب غزل میں
کام آ گئی غم خوارئ احباب غزل میں
دل پر سے ترے غم کا ابھی ابر چھٹا ہے
چمکا ہے تری یاد کا مہتاب غزل میں
یاروں کو کسی طور بھی نشہ نہیں ہوتا
جب تک کہ نہ شامل ہو مئے ناب غزل میں
جس سے خلش درد کا آغاز ہوا ہے
رقصاں ہے وہی پیکر سیماب غزل میں
ہر مصرعۂ تر تختۂ گلزار کی صورت
رنگوں کی ہے اک وادئ شاداب غزل میں
گو درد کے اظہار کی عادت تو نہیں تھی
پینا ہی پڑا ہم کو یہ زہر آب غزل میں
اصناف سخن اور بھی اے دوست بہت ہیں
رنگیں ہے مری زیست کا ہر باب غزل میں
اسرار زیدی
پس دیوار حجت کس لئے ہے
دریچے سے یہ وحشت کس لئے ہے
نہ میں اپنا نہ میں تیرا ہوں دنیا
تو پھر جینے کی حسرت کس لئے ہے
اگر سود و زیاں کے ہم ہیں قائل
جنوں سے اپنی قربت کس لئے ہے
جفا ہی جب تری پہچان ٹھہری
وفا میں مجھ کو لذت کس لئے ہے
مری آنکھوں پہ جو پہرہ ہے تیرا
تو آئینے سے رغبت کس لئے ہے
خود اپنے گھر میں ہے جب اجنبی تو
مرے بھائی یہ شہرت کس لئے ہے
سفر میں جب نہ تیرے کام آئے
ذرا یہ سوچ دولت کس لئے ہے
ادب ہی زندگی میں جب نہ آیا
ادب میں اتنی محنت کس لئے ہے
نکل آئے ہیں دیواروں پہ چہرے
تصور کی یہ جدت کس لئے ہے
مرا آئینہ ہے جب تیرا چہرہ
تو پھر دنیا کی حیرت کس لئے ہے
خموشی ہے جواب جاہلاں جب
زباں جیسی یہ نعمت کس لئے ہے
ہے دنیا کا جواز اس امر ہی میں
جہنم کیوں ہے جنت کس لئے ہے
کھلے ہیں پھول صحرا میں ولیکن
مجھے گھر میں یہ فرحت کس لئے ہے
نہیں واقف ہے دل ایثار سے جب
عطاؔ اظہار الفت کس لئے ہے
عطا عابدی
تجھ کو خفت سے بچا لوں پانی
تشنگی اپنی چھپا لوں پانی
خاک اڑتی ہے ہر اک چہرے پر
کس کی آنکھوں سے نکالوں پانی
دھوپ دریا پہ نظر رکھتی ہے
تجھ کو کوزے میں چھپا لوں پانی
اڑتے پھرتے ہیں سروں پر بادل
خواب آنکھوں میں بسا لوں پانی
روز بچوں کو سلا دوں یونہی
روز پتھر کو ابالوں پانی
آگ سے کھیلتا ہے کل مجھ کو
آ تجھے اپنا بنا لوں پانی
خارزاروں پہ چلوں ننگے پاؤں
خشک دھرتی کی دعا لوں پانی
صبر کی حد بھی تو کچھ ہوتی ہے
کتنا پلکوں پہ سنبھالوں پانی
بھول جاؤں نہ کہیں تیراکی
کیوں نہ کشتی ہی جلا لوں پانی
اپنی وحشت کا اک اظہار سہی
کر کے سرد آگ جلا لوں پانی
زخم ہو پھول ہو یا انگارہ
ہو جو روشن تو بلا لوں پانی
شرط ہے تیری رفاقت ورنہ
وقت کی آگ میں ڈالوں پانی
آگ مطلوب لب تشنہ ہے
میں تجھے کیسے بلا لوں پانی
چشم احباب جو ہو خشک عطاؔ
خون کو اپنے بنا لوں پانی
عطا عابدی
جاگتے ہی نظر اخبار میں کھو جاتی ہے
زندگی درد کے انبار میں کھو جاتی ہے
نا خدا عقل کے پتوار اٹھاتا ہے کہ جب
کشتئ دل مری منجدھار میں کھو جاتی ہے
بے سبب سوچنے والے کبھی سوچا تو نے
آگہی کثرت افکار میں کھو جاتی ہے
اڑتے رہتے ہیں خیالات کے جگنو پھر بھی
بات کیوں پردۂ اظہار میں کھو جاتی ہے
اس کے کاموں کا ہے رنگین خوشامد پہ مدار
اور محنت مری ایثار میں کھو جاتی ہے
حرمت پردہ ضروری ہے عطاؔ جی ورنہ
چیز جیسی بھی ہو بازار میں کھو جاتی ہے
عطا عابدی
فرصت ہجر میں کچھ کار تماشہ ہی سہی
تو نہیں مجھ کو میسر تو یہ دنیا ہی سہی
میں کسی رحم و کرم پر تو نہیں تیری طرح
زیست کی راہ پہ اب چاہے میں تنہا ہی سہی
قریۂ غیر میں الفاظ کا دم گھٹتا ہے
فرط اظہار کے پل اپنا علاقہ ہی سہی
پہلے بڑھ چڑھ کے محبت میں کیا وقت بسر
اب زبوں حالیٔ جذبات میں اتنا ہی سہی
جانے والے تو کوئی اک تو بھرم رہنے دے
کچھ نہ کچھ دل کے لیے حاصل رفتہ ہی سہی
سرسری رنج پہ بنتا ہے حسن ضبط مگر
اس بہانے سے چلو ورزش گریہ ہی سہی
عطاالحسن
پارساؤں نے بڑے ظرف کا اظہار کیا
ہم سے پی اور ہمیں رسوا سر بازار کیا
درد کی دھوپ میں صحرا کی طرح ساتھ رہے
شام آئی تو لپٹ کر ہمیں دیوار کیا
رات پھولوں کی نمائش میں وہ خوش جسم سے لوگ
آپ تو خواب ہوئے اور ہمیں بیدار کیا
کچھ وہ آنکھوں کو لگے سنگ پہ سبزے کی طرح
کچھ سرابوں نے ہمیں تشنۂ دیدار کیا
تم تو ریشم تھے چٹانوں کی نگہ داری میں
کس ہوا نے تمہیں پا بستۂ یلغار کیا
ہم برے کیا تھے کہ اک صدق کو سمجھے تھے سپر
وہ بھی اچھے تھے کہ بس یار کہا وار کیا
سنگساری میں تو وہ ہاتھ بھی اٹھا تھا عطاؔ
جس نے معصوم کہا جس نے گنہ گار کیا
عطا شاد
اک تھکن قوت اظہار میں آ جاتی ہے
وقت کے ساتھ کمی پیار میں آ جاتی ہے
بس کہیں چھور سمندر کا نظر آ جائے
کوئی طاقت مری پتوار میں آ جاتی ہے
وہ گزرتا ہے تو کھلتے ہیں دریچے گھر کے
اک چمک سی در و دیوار میں آ جاتی ہے
ٹوٹے گھنگھرو کی جو آواز ہوا کرتی ہے
وہ کھنک کیوں مری گفتار میں آ جاتی ہے
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے ہونٹوں پر
خوشبوئے گل مرے اشعار میں آ جاتی ہے
ہر گھڑی اپنی تمناؤں سے لڑتے لڑتے
اک چمک چہرۂ خوددار میں آ جاتی ہے
جب غزل میرؔ کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی مری دیوار میں آ جاتی ہے
اتل اجنبی
جب تک خراب حال کا مارا نہیں بنا
وہ آدمی کسی کا سہارا نہیں بنا
اظہار پیار کا وہ اشارے میں کر گئی
مجھ سے جواب کا بھی اشارہ نہیں بنا
اتنی پسند تھی اسے یہ سونی تیرگی
وہ مر گیا تھا پھر بھی ستارہ نہیں بنا
کس آس میں سفینوں نے چھوڑا ہے چھور یہ
اس اور تو ابھی بھی کنارا نہی بنا
اس پر لٹائیں سب نے زکاتیں بھی تب تلک
جب تک کہ اوروں پہ وہ خسارا نہیں بنا
اویناش جوشی
عاشقی جرأت اظہار تک آئے تو سہی
وہ ذرا خوف جہاں دل سے مٹائے تو سہی
کیسے اٹھتے ہیں قدم دیکھیے منزل کی طرف
دل کے ارشاد پہ سر کوئی جھکائے تو سہی
اس کے قدموں میں رفاقت کے خزانے ہوں گے
میری جانب وہ قدم اپنے بڑھائے تو سہی
جذبۂ جوش محبت تجھے سو بار سلام
میری آہٹ پہ وہ دہلیز تک آئے تو سہی
ہر غزل میری قصیدہ ہی سہی تیرا مگر
تجھ کو اشعار میں یوں کوئی سجائے تو سہی
داستاں ہوں گے خود اس اجڑے ہوئے شہر کے غم
اس اندھیرے میں کوئی شمع جلائے تو سہی
خود بخود راستہ دے گا یہ زمانہ طالبؔ
دوستی کے لئے وہ ہاتھ بڑھائے تو سہی
ایاز احمد طالب
گزر اوقات نہیں ہو پاتی
دن سے اب رات نہیں ہو پاتی
ساری دنیا میں بس اک تم سے ہی
اب ملاقات نہیں ہو پاتی
جو دھڑکتی ہے مرے دل میں کہیں
اب وہی بات نہیں ہو پاتی
جمع کرتا ہوں سر چشم بہت
پھر بھی برسات نہیں ہو پاتی
لاکھ مضموں لب اظہار پہ ہیں
اور مناجات نہیں ہو پاتی
ہاتھ میں ہاتھ لیے پھرتی ہے
ختم یہ رات نہیں ہو پاتی
ایوب خاور
اس قدر غم ہے کہ اظہار نہیں کر سکتے
یہ وہ دریا ہے جسے پار نہیں کر سکتے
آپ چاہیں تو کریں درد کو دل سے مشروط
ہم تو اس طرح کا بیوپار نہیں کر سکتے
جان جاتی ہے تو جائے مگر اے دشمن جاں
ہم کبھی تجھ پہ کوئی وار نہیں کر سکتے
جتنی رسوائی ملی آپ کی نسبت سے ملی
آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے
آپ کر سکتے ہیں خوشبو کو صبا سے محروم
اور کچھ صاحب کردار نہیں کر سکتے
ایک زنجیر سی پلکوں سے بندھی رہتی ہے
پھر بھی اک دشت کو گل زار نہیں کر سکتے
یہ گل درد ہے اس کو تو مہکنا ہے حضور
آپ خوشبو کو گرفتار نہیں کر سکتے
ایوب خاور
کون واں جبہ و دستار میں آ سکتا ہے
گھر کا گھر ہی جہاں بازار میں آ سکتا ہے
کس لیے خود کو سمجھتا ہے وہ پتھر کی لکیر
اس کا انکار بھی اقرار میں آ سکتا ہے
مجھ کو معلوم ہے دریاؤں کا کف ہے تجھ میں
تو مرے موجۂ پندار میں آ سکتا ہے
اے ہوا کی طرح اٹھکھیلیاں کرنے والے
بل کبھی وقت کی رفتار میں آ سکتا ہے
سر پہ سورج ہے تو پھر چھاؤں سے محظوظ نہ ہو
دھوپ کا رنگ بھی دیوار میں آ سکتا ہے
یہ جو میں اپنے تئیں شاعری کرتا ہوں عظیمؔ
کیا تخیل مرا اظہار میں آ سکتا ہے
عظیم حیدر سید
اضطراب دل بیمار سے ڈر لگتا ہے
نبض کی سرعت رفتار سے ڈر لگتا ہے
حسن کے عشوۂ طرار سے ڈر لگتا ہے
لغزش فطرت خوددار سے ڈر لگتا ہے
منزل حشر بہت دور سہی پر اب بھی
پرسش بخت سیہ کار سے ڈر لگتا ہے
اک المناک فسانہ ہے جنون الفت
جس کی تفسیر کے اظہار سے ڈر لگتا ہے
جادۂ ہوش سے ہٹ جائیں نہ مے کش کے قدم
جام کی گرمئ رفتار سے ڈر لگتا ہے
یا تو ناموس محبت پہ تھا مرنا برحق
یا تو ذکر رسن و دار سے ڈر لگتا ہے
رخ بدل دے نہ محبت کا یہ آشفتہ سری
اعتبار نگہ یار سے ڈر لگتا ہے
یہ عقیدت ہی کہیں درپئے آزار نہ ہو
شرف پا بوسیٔ اغیار سے ڈر لگتا ہے
توڑ ڈالیں نہ کہیں آپ مرا شیشۂ دل
آپ کی شومیٔ گفتار سے ڈر لگتا ہے
غم و آلام سے اس درجہ سراسیمہ ہوں
کہ مجھے عکس رخ یار سے ڈر لگتا ہے
بھول جاؤں نہ کہیں اپنی ہی ہستی کا مقام
آپ کی چشم فسوں بار سے ڈر لگتا ہے
بد گمانی ہوئی… ا
اب یہ کاروبار کریں
غیروں سے بھی پیار کریں
البم کھول کے دیکھیں اور
یادوں کو گلزار کریں
مر جائے گا اپنی موت
دشمن پر کیوں وار کریں
کب تک خالی بیٹھیں ہم
مل کر ذکر یار کریں
چاہت کے ہر جذبے کا
برجستہ اظہار کریں
سوچ کے اس کے بارے میں
جینا کیوں دشوار کریں
نفرت شور شرابے سے
خاموشی سے پیار کریں
عظیم ملک
جو دشمن ہے اسے ہمدم نہ سمجھو
نمک کو زخم کا مرہم نہ سمجھو
سکوں ملتا ہے دل سے دل کو لیکن
ہر اک ساغر کو جام جم نہ سمجھو
جو پی لو گے تو مٹ جانا پڑے گا
یہ ہے زہراب غم زمزم نہ سمجھو
تم اپنے دامن حرص و ہوس کو
مثال دامن مریم نہ سمجھو
نہ ہو اپنی خطاؤں پر جو نادم
اسے ہم مشرب آدم نہ سمجھو
قرینہ یہ بھی ہے اظہار غم کا
تبسم کو حریف غم نہ سمجھو
ہوں ذرے لاکھ روشن پھر بھی ان کو
جواب نیر اعظم نہ سمجھو
گھٹا غم کی ہے روئے زندگی پر
فضائے گیسوئے برہم نہ سمجھو
قیامت ہیں عزیزؔ ان کی ادائیں
کسی کو بھی کسی سے کم نہ سمجھو
عزیز مبارکپوری
تمہارا عشق جب سے کیا ہوا اے نازنیں ہم کو
پسند آتا نہیں ہے کوئی بھی اب مہ جبیں ہم کو
کیا اظہار جب ہم نے غم فرقت تو وہ بولے
تمہارے کہنے کا ہوتا نہیں ہے کچھ یقیں ہم کو
پس مردن پئے پامال گورستاں میں پھرتے ہیں
نشان تربت عشاق مل جائے کہیں ہم کو
بتان سنگ دل سے کیا ہو امید وفا اے دل
جہاں میں ڈھونڈ بیٹھے کچھ پتہ ملتا نہیں ہم کو
نہ جائیں مر کے وہ ہیں عاشق جانباز اے ہمدم
ترے کوچے میں گر مل جائے تھوڑی سی زمیں ہم کو
ترے در پر کھڑے ہیں دید کو ہم ایک مدت سے
دکھا دے شکل نورانی اب اے پردہ نشیں ہم کو
عزیزؔ زار گر عشق بتاں میں یہ رہی صورت
کسی دن مار ڈالے گا دل اندوہ گیں ہم کو
عزیز الرحمٰن عزیز پانی پتی
راس آئی مجھے خودی میری
لوگ کرتے رہے بدی میری
اس کا صدمہ شدید ہے مجھ کو
بات خالی چلی گئی میری
اس نے کچھ دیر بات مانی تو
دیر تک پر نہیں چلی میری
صاف اظہار عشق تھا اس میں
پر وہ سمجھانا شاعری میری
اب وہ کہتا ہے جان حاضر ہے
جان جس نے نکال لی میری
میرؔ و غالبؔ کا بھی زمانہ تھا
پر ہے اکیسویں صدی میری
ساتھ اس کے ہے بزم اک اظہرؔ
ہوگی محسوس کیا کمی میری
اظہر بخش اظہر
جب تک سفید آندھی کے جھونکے چلے نہ تھے
اتنے گھنے درختوں سے پتے گرے نہ تھے
اظہار پر تو پہلے بھی پابندیاں نہ تھیں
لیکن بڑوں کے سامنے ہم بولتے نہ تھے
ان کے بھی اپنے خواب تھے اپنی ضرورتیں
ہم سایے کا مگر وہ گلا کاٹتے نہ تھے
پہلے بھی لوگ ملتے تھے لیکن تعلقات
انگڑائی کی طرح تو کبھی ٹوٹتے نہ تھے
پکے گھروں نے نیند بھی آنکھوں کی چھین لی
کچے گھروں میں رات کو ہم جاگتے نہ تھے
رہتے تھے داستانوں کے ماحول میں مگر
کیا لوگ تھے کہ جھوٹ کبھی بولتے نہ تھے
اظہرؔ وہ مکتبوں کے پڑھے معتبر تھے لوگ
بیساکھیوں پہ صرف سند کی کھڑے نہ تھے
اظہر عنایتی
تو بھی وفا کے روپ میں اب ڈھل کے دیکھ لے
اس آگ میں ہماری طرح جل کے دیکھ لے
دشت طلب میں پیار کے غنچے بھی کھل اٹھیں
کچھ روز میرے ساتھ کبھی چل کے دیکھ لے
ممکن ہے کوئی صبح تمنا ہو اس کے بعد
اے حسرتوں کی رات ذرا ڈھل کے دیکھ لے
کچھ گرد باد غم کے امیدوں کے کچھ سراب
منظر ہمارے دل میں کوئی تھل کے دیکھ لے
رکھتے ہیں ہم بھی جرأت اظہار زندگی
محرومیوں کا خوف اگر ٹل کے دیکھ لے
اس دل میں ہو چکا ہے بہت ولولوں کا خون
اے جذب شوق تو بھی یہاں پل کے دیکھ لے
اظہرؔ ترا نصیب ہے یہ شبنمی بہار
چہرے پہ تو بھی رنگ خزاں مل کے دیکھ لے
اظہر جاوید
گر دوا کے لئے ڈھونڈا ہے تو بے کار کیا
چارہ گر ہی تو ہے جس نے ہمیں بیمار کیا
ہم سے کرتا نہ طلب کم سے کم اظہار خوشی
اس طرح اور بھی جینا ہمیں دشوار کیا
دار تک کھینچ کے تم لے گئے اس کو ناحق
اس نے کب بات نہ سننے پہ تھا اصرار کیا
کبھی فولاد بھی بن جاتا تھا تم کو یارو
بس لچک جانے کی عادت نے تمہیں خار کیا
کام شر دیتا ہے جب خیر سے بنتی نہیں بات
میرے بد خواہوں نے اظہار کئی بار کیا
ہم اسے دوست جو سمجھیں بھی تو کیسے اظہرؔ
چھپ کے پیچھے سے ابھی اس نے کہاں وار کیا
اظہر ندوی
کھل کر نہ سر عام ہو اظہار بھلے ہی
ہے بغض کریں ہم سے وہ انکار بھلے ہی
بچوں نے تو آپس میں نہیں کھیلنا چھوڑا
آنگن میں اٹھائی گئی دیوار بھلے ہی
پھیلایا نہ ہاتھوں کو کبھی آگے کسی کے
ہر وقت مسائل سے ہوں دو چار بھلے ہی
مسجد کی شہادت میں رہی یہ بھی ملوث
کرتی رہے انکار یہ سرکار بھلے ہی
دولت ہی جھکا پائی نہ قانون ہی اس کو
فاقوں سے مرا ہے وہ قلم کار بھلے ہی
ہے سچا پرستار وہ اردو کا اے ساحلؔ
ہے ایک رسالے کا خریدار بھلے ہی
عظیم الدین ساحل کلم نوری
سر صحرائے جاں ہم چاک دامانی بھی کرتے ہیں
ضرورت آ پڑے تو ریت کو پانی بھی کرتے ہیں
کبھی دریا اٹھا لاتے ہیں اپنی ٹوٹی کشتی میں
کبھی اک قطرۂ شبنم سے طغیانی بھی کرتے ہیں
کبھی ایسا کہ آنکھوں میں نہیں رکھتے ہیں کوئی خواب
کبھی یوں ہے کہ خوابوں کی فراوانی بھی کرتے ہیں
ہمیشہ آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پہ رکھتے ہیں
مگر یہ یاد رکھیے گا کہ من مانی بھی کرتے ہیں
میاں تم دوست بن کر جو ہمارے ساتھ کرتے ہو
وہی سب کچھ ہمارے دشمن جانی بھی کرتے ہیں
یہ کیا قاتل ہیں، پہلے قتل کرتے ہیں محبت کا
پھر اس کے بعد اظہار پشیمانی بھی کرتے ہیں
تجھے تعمیر کر لینا تو اک آسان سا فن ہے
رفاقت کے محل! ہم تیری دربانی بھی کرتے ہیں
عزیز نبیل
یادوں کا جزیرہ شب تنہائی میں
مصروف ہے یادوں کی پذیرائی میں
اب بھی وہی اظہار تغافل کا مزاج
اب بھی وہی اندیشہ شناسائی میں
اثبات نفی ہو کہ نفی ہو اثبات
کیوں جاؤں میں الفاظ کی گہرائی میں
کچھ لوگ تو منزل کی خبر بھی لے آئے
ہم مست رہے لذت خود رائی میں
چھوڑوں بھی خیال ان کا تو کیا حاصل ہو
کیا خاک کمی آئے گی رسوائی میں
آنے میں مسیحا کو تھا پہلے ہی حجاب
ناصح بھی تھا اندیشۂ رسوائی میں
تفریق کے خوگر تو سبھی ایک ہوئے
مصروف ہیں ہم لوگ صف آرائی میں
کس درجہ مسرت ہے کہ اب خون شہیدؔ
کام آیا تری انجمن آرائی میں
عزیز الرحمن شہید فتح پوری
اتنے نزدیک سے آئینے کو دیکھا نہ کرو
رخ زیبا کی لطافت کو بڑھایا نہ کرو
درد و آزار کا تم میرے مداوا نہ کرو
رہنے دو اپنی مسیحائی کا دعوا نہ کرو
حسن کے سامنے اظہار تمنا نہ کرو
عشق اک راز ہے اس راز کو افشا نہ کرو
اپنی محفل میں مجھے غور سے دیکھا نہ کرو
میں تماشا ہوں مگر تم تو تماشا نہ کرو
ساری دنیا تمہیں کہہ دے گی تمہیں ہو قاتل
دیکھو مجھ کو غلط انداز سے دیکھا نہ کرو
کیسے ممکن ہے کہ ہم دونوں بچھڑ جائیں گے
اتنی گہرائی سے ہر بات کو سوچا نہ کرو
تم پہ الزام نہ آ جائے سفر میں کوئی
راستہ کتنا ہی دشوار ہو ٹھہرا نہ کرو
وہ کوئی شاخ ہو مضراب ہو یا دل ہو عزیزؔ
ٹوٹنے والی کسی شے کا بھروسا نہ کرو
عزیز وارثی
کیا سنائیں حال دل اظہار کے قابل نہیں
لطف ہی کیا زندگی میں تم اگر شامل نہیں
اک ذرا سی ٹھیس پہونچی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی
کوئی شیشہ ہے مرے سینے میں شاید دل نہیں
مسکرا دیتا ہوں اکثر گردش حالات پر
سوچتا ہوں زیر پا اب کون سی منزل نہیں
غم دئے دنیا نے لیکن مجھ کو پہچانے بغیر
کوئی غم شایان موج اضطراب دل نہیں
جانے لے آئی ہمیں کس موڑ پر دیوانگی
ڈھونڈنے نکلے تھے جس کو ہم یہ وہ منزل نہیں
کس طرح آئے تری صورت نظر کے سامنے
دل کا آئینہ ہی جب تصویر کے قابل نہیں
اک مسلسل درد منزل ایک جہد مستقل
کوئی لمحہ زندگی میں لمحۂ حاصل نہیں
چھوڑ کر عظمتؔ کو تنہا ہم سفر کہنے لگے
ایسا دیوانہ ہمارے ساتھ کے قابل نہیں
عظمت بھوپالی
اپنے احساس شرر بار سے ڈر لگتا ہے
اپنی ہی جرأت اظہار سے ڈر لگتا ہے
اتنی راہوں کی صعوبت سے گزر جانے کے بعد
اب کسے وادیٔ پر خار سے ڈر لگتا ہے
کتنے ہی کام ادھورے ہیں ابھی دنیا میں
عمر کی تیزئ رفتار سے ڈر لگتا ہے
ساری دنیا میں تباہی کے سوا کیا ہوگا
اب تو ہر صبح کے اخبار سے ڈر لگتا ہے
خود کو منواؤں زمانے سے تو ٹکڑے ہو جاؤں
کچھ روایات کی دیوار سے ڈر لگتا ہے
شوق شوریدہ کے ہاتھوں ہوئے بدنام بہت
اب تو ہر جذبۂ بیدار سے ڈر لگتا ہے
جانتی ہوں کہ چھپے رہتے ہیں فتنے اس میں
آپ کی نرمیٔ گفتار سے ڈر لگتا ہے
عذرا نقوی
اک قصۂ پارینہ کے کردار ہیں ہم لوگ
گزری ہوئی تہذیب کے آثار ہیں ہم لوگ
گم کردہ روایات کی افسردہ سی خوشبو
کمہلائے ہوئے باغ کی مہکار ہیں ہم لوگ
ایسا بھی نہیں سارے زمانے سے خفا ہیں
جھلائے ہوئے وقت کا اظہار ہیں ہم لوگ
یہ تو نہیں کہتے کہ سنگھاسن پہ بٹھا دو
تھوڑی سی مروت کے تو حق دار ہیں ہم لوگ
جینے کے لئے اور جتن کتنے کریں گے
یہ کیسے مسائل میں گرفتار ہیں ہم لوگ
عذرا نقوی
Conclusion
I hope enjoy our collection of the Mohabbat ka Izhaar Shayari in Urdu. If you have any questions, please do not hesitate to reach out to us through the comment box. Your thought and opinions are very valuable to us and we would love to hear from you. Also, you may share your own Urdu Shayari, Ghazals below in the comment box.
Thank You very much for your valuable time to visit our website.