Rasool e Pak SW Ka Adab/رسول پاک ﷺ کا ادب

Rasool e Pak SW Ka Adab
Rasool e Pak SW Ka Adab

ایک دفعہ ایک سید صاحب حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آئے اور اپنے کفن کے لئے کپڑ ے کا سوال کیا۔اس وقت مخدوم صاحب ؒکے پاس نہ کوئی کپڑا تھا اور نہ روپیہ لیکن وہ سوالی کو کبھی اپنے دروازے سے خالی ہاتھ نہ بھیجتے تھے۔اپنے خادم سے فرمایا:

”بھائی !سردی کا موسم گزر چکا ہے ۔میرے جاڑے کے بستر سے روئی نکال کر ان صاحب کو دے دو ۔اور روئی بیچ کر جو رقم ملے اس کو غریبوں میں تقسیم کر دو۔“
یہ فرما کر انھوں نے نماز کی نیت باندھ لی۔خادم نے مخدوم صاحب کے حکم کے مطابق عمل کیااور ساتھ ہی کہا:
”حضرت مخدوم جہانیاں سوال کر نے والے پر کس قدر مہربانی فرماتے ہیں ۔پھر اس نے قرآن پاک کی یہ آیت پڑھی:
” وَمَا اَرسَلنٰکَ اِلّا رَحمَتَہ لِلعٰلَمِین“

”اور ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا۔“
مخدوم صاحبؒ نے یہ آیت سنی تو فوراً نماز توڑدی اور خادم کی طرف غصے سے دیکھ کر فرمایا:
”یہ آیت رسول ِ پاک ﷺ کے لئے خاص ہے کسی دوسرے کے لئے نہیں ہو سکتی۔“
خادم نے توبہ کی اور یہ عہد کیا کہ آئندہ احتیاط کرے گا۔


Deeni Ghairat/دینی غیرت

Rasool e Pak SW Ka Adab
Rasool e Pak SW Ka Adab

حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمتہ اللہ علیہ آٹھویں صدی ہجری میں بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ایک دفعہ ان کے شہر اُچ میں ایک شخص آیا اور اس نے دعویٰ کیا کہ میں اللہ کا ولی ہوں۔

ولی اس انسان کو کہتے ہیں جو اللہ کے بہت قریب ہو۔اُچ کے بہت سے لوگ اس شخص کے مرید بن گئے ،یہاں تک کہ شہر کا حاکم بھی اس کو ولی ماننے لگا۔
ایک دن مخدوم جہانیاں رحمتہ اللہ علیہ اس سے ملنے گئے اور اس کے قریب جاکر بیٹھ گئے۔اس نے مخدوم صاحب کی طرف دیکھا اور کہا:

”اے سید!اللہ تعالیٰ ابھی میرے پاس آگیا ہے۔“
یہ سن کر مخدوم صاحب ؒکو بہت غصہ آگیا اور انھوں نے کڑک کر فرمایا:
”اے بد بخت!تو کافر ہو گیا ہے۔توبہ کر پھر سے کلمہ شہادت پڑھ کرمسلمان بن۔“
یہ فرما کر وہ شہر کے قاضی کے پاس گئے اور اس سے فرمایا کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرتا ہے اور کفر کے الفاظ بکتا ہے۔اگر وہ توبہ کر لے تو معاف کر دیں ورنہ اسے سخت سزادیں۔

قاضی کو معلوم تھا کہ شہر کا حاکم اس شخص کو بہت مانتا ہے۔اس لئے وہ اس شخص کو سزا دینے پر تیار نہ ہوا۔مخدوم صاحب ؒنے حاکم کو پیغام بھیجا کہ یہ شخص جھوٹا ہے اور لوگوں کو دھوکا دے کر ان کو غلط راستے پر ڈال رہاہے،اگر تم نے اس کو سزا نہ دی تو میں بادشاہ کے پاس شکایت کروں گا۔اس پر حاکم نے اس شخص کو شہر سے باہر نکال دیا۔


Apni Tazeem Chahnay walo Ka Anjam/اپنی تعظیم چاہنے والوں کا انجام

Rasool e Pak SW Ka Adab
Rasool e Pak SW Ka Adab

دسویں عباسی خلیفہ التوکل علی اللہ نے ایک دفعہ ملک کے بڑے بڑے علما کو بغداد بلا بھیجا۔ جب سب علما آ گئے اور ایک مجلس میں جمع ہوئے تو خلیفہ بھی اس مجلس میں شریک ہونے کے لیے آیا۔ ایک عالم کے سوا باقی سب علما خلیفہ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے۔ خلیفہ نے اپنے ساتھ آنے والے ایک وزیر سے کھڑے نہ ہونے والے عالم کی طرف اشارہ کر کے پوچھا:
”کیا اس شخص نے ہماری بیعت نہیں کی؟“

وزیر نے جواب دیا:
”امیرالمومنین! انہوں نے بیعت ضرور کی ہے مگر ان کی نظر کمزور ہے۔ اس لیے کھڑے نہیں ہوئے۔“
یہ سن کروہ عالم دین جن کا نام”احمد بن معدل“ تھا، فوراً بولے:

”امیر المومنین! میری نظر بالکل درست ہے اور میں اچھی طرح دیکھ سکتا ہوں۔ میں اس لیے آپ کی تعظیم کے لیے کھڑ انہیں ہوا کہ آپ کو اللہ کے عذاب سے بچانا چاہتا ہوں۔ شاید آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا علم نہیں ہے کہ جوشخص لوگوں سے یہ امید رکھے کہ وہ اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوں، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔“

یہ سن کر خلیفہ چپ چاپ ان کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
اللہ تعالیٰ کے سواکسی سے نہ ڈرنے والے علما ہر زمانے میں موجودر ہے ہیں لیکن ایسے فرمانروا بہت کم ہوئے ہیں جنھوں نے رعایا کے کسی فرد کی سچی اور کھری کھری باتیں برداشت کر لی ہوں۔


Insan k Ikhtiar k Khad/انسان کے اختیار کی حد

Rasool e Pak SW Ka Adab
Rasool e Pak SW Ka Adab

شہید کر بلا سید نا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پڑپو تے حضرت امام جعفرصادق رحمۃ اللہ علیہ دین کے بہت بڑے عالم تھے۔ ایک دفعہ کوئی شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوااوران سے کہا:
”یا حضرت! انسان مختار ہے یا مجبور، کیا اس زندگی میں وہ سب کچھ اپنی کوشش سے کر سکتا ہے یا سب کچھ اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔“

امام صاحب نے اس سے فرمایا:”کھڑے ہو جاؤ۔“
وہ کھڑا ہو گیا۔
آپ نے فرمایا:”اپنا ایک پاؤں اوپر اٹھالو۔“
اس نے اٹھالیا۔
پھر فر مایا،”دوسرا پاؤں بھی اٹھا ؤ۔“

اس نے عرض کیا:
”دوسرا پاؤں تو میں اس صورت میں اٹھا سکتا ہوں جب پہلا اٹھا ہوا پاؤں زمین پر ٹکا دوں۔ یا حضرت! ایک وقت میں دونوں پاؤں زمین سے اٹھانامیرے اختیار میں نہیں ہے۔“
امام صاحب نے فرمایا:

”جاؤ تمہارے سوال کا جواب ہو گیا۔ تم اپنے اختیار سے کھڑے ہو گئے، پھر اپنے اختیار سے اپنا ایک پاؤں اٹھایا۔ بس یہاں تمہارے اختیار کی حدختم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتناہی اختیار دیا ہے۔ دوسرا پاؤں تم نہیں اٹھا سکے کیونکہ ایک وقت میں دونوں پاؤں اٹھانے کا اختیار اللہ تعالیٰ نے تمہیں نہیں دیا۔ اس میں تم مجبور ہو۔“

حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کو ہرقسم کے دینی اور دنیوی علوم پر عبور حاصل تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو کمال درجے کی حکمت اورفراست عطا کی تھی۔ بے شمار لوگ ان سے طرح طرح کے مسئلے پوچھنے آتے رہتے تھے اور وہ سب مسئلے قرآن اور حدیث کی روشنی میں حل کر دیتے تھے۔

امام اعظم حضرت ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے علم کے سمندر نے بھی امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ عرصہ علم حاصل کیا تھا۔ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نہایت پر ہیز گار، عبادت گزار، سخی اور خوش اخلاق تھے۔ ان کی پاکیزہ زندگی کو دیکھ کر لوگ دل و جان سے ان کی عزت کرتے تھے۔ انھوں نے 148یا149 ہجری میں 67یا68سال کی عمر میں وفات پائی۔


Niqab Posh Mujahid/نقاب پوش مجاہد

Rasool e Pak SW Ka Adab
Rasool e Pak SW Ka Adab

نو امیہ کے پانچویں خلیفہ عبدالملک کے ایک بیٹے کا نام مسلمہ تھا۔ وہ بڑا بہادر اور لائق نو جوان تھا اور نہ صرف ہرقسم کے ہتھیار چلانے کا ماہر تھا بلکہ دشمنوں سے لڑنے کا فن بھی خوب جانتا تھا۔ اس لیے والد (عبدالملک)نے اسے اپنی فوج کے ایک حصے کا سپہ سالار بنا دیا تھا۔ وہ ہر سال سردی کے موسم میں پڑوس کے رومی علاقوں پر فوج کشی کیا کرتا تھا۔ (کیونکہ روم کا بادشاہ اسلامی حکومت کا دشمن تھا اس طرح اس نے متعدد روی قلعے فتح کر ہے تھے۔

ایک دفعہ مسلمہ بن عبدالملک نے ایک رومی قلعے کا محاصرہ کیا لیکن کافی عرصہ گزر جانے کے باوجودقلعہ فتح ہونے میں نہ آیا۔ ایک دن مسلمہ فوج کے ایک خاص دستے کو ساتھ لے کر قلعے پر ایک زور دار حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ قلعہ میں موجود رومی فوج نے اس دستے پر تیروں اور آگ کے گولوں کی بارش کر دی جس سے اس کے لیے آگے بڑھنا مشکل ہو گیا۔ اس وقت لوگوں نے دیکھا کہ ایک مجاہد جان ہتھیلی پر رکھ کر تیروں اور آگ کی بارش میں دیوانہ وار قلعے کی طرف بڑھ رہا ہے، یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

واقعہ یہ تھا کہ اس مجاہد کو کسی طرح قلعے کی دیوار کے ایک کمز ور مقام کا علم ہو گیا تھا۔ وہ جان کی بازی لگا کر اس مقام تک پہنچ گیا اور دیوار میں نقب لگائی یہاں تک کہ اس میں شگاف ہو گیا۔ اس اثنا میں حملہ کر نے والا فوجی دستہ بھی ڈھالوں کی آ ڑ لیتا ہلہ مارکر قلعے کی دیوار کے نیچے پہنچ گیا۔ چند بہادروں نے اس شگاف سے قلعے کے اندر داخل ہو کر اس کا دروازہ کھول دیا۔ اب ساری فوج تکبیر کے نعرے لگاتی قلعے میں داخل ہوگئی۔ رومیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور قلعے پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔

اب سارے لوگوں کی نگا ہیں بہادر مجاہد کو تلاش کررہی تھیں جس نے جان پر کھیل کر قلعے کی دیوار میں نقب لگائی تھی لیکن کوئی اسے پہچانتا نہ تھا۔ مسلمہ نے پورے لشکر کو جمع کیا اور اس کے سامنے اعلان کیا کہ جس مجاہد نے قلعے کی دیوارمیں نقب لگائی، وہ سامنے آئے۔ لیکن اعلان کے جواب میں پورے لشکر پر سناٹا چھایا رہا اورکوئی سامنے نہ آیا۔

اب مسلمہ نے بلند آوازسے کہا:”میں اس مجاہد کو اس کے رب کی قسم دیتا ہوں کہ سامنے آجائے۔“ اچانک فوج میں سے ایک نقاب پوش(چہرے کو کپڑے سے ڈھانپے ہوئے)مجاہد آگے بڑھا۔ اس کی صرف آنکھیں نظرآتی تھیں۔ وہ :مسلمہ کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اورکہا

”اے امیر! نقب میں نے لگائی۔اگر آپ مجھے رب کی قسم نہ دیتے تو میں کبھی اپنے آپ کوظاہر نہ کرتا۔ اب میں آپ کو رب کی قسم دیتا ہوں کہ مجھ سے میرا نام نہ پوچھیے گا اور اگر آپ کومعلوم بھی ہوجائے تو کسی کو نہ بتائیے گا کیونکہ میں نے جو کچھ کیا، اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کیا۔ میں اس کام صلہ اللہ تعالیٰ ہی سے چاہتا ہوں اور کسی قسم کے انعام کی مجھے خواہش نہیں۔“

مسلمہ اب خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد وہ جب دعا کرتا توکہتا:
”اے اللہ مجھے نقب لگانے والے اس مجاہد کے ساتھ کر دیجیے گا۔“


Conclusion

I hope you enjoy and take lesson from our collection of “Rasool e Pak SW Ka Adab“.If you have any questions so, please do not hesitate to reach out to us through the comment box. Your thought, opinions and suggestion are more valuable to us, and we would love to hear from you. Also, you can share your own this kind of real Islamic Stories in the below comment box.

Thank You very much for your time!

For More Click Here

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here