Rasul Pak SAW Ki Khater Mazdoori/رسولِ پاک ﷺ کی خاطر مزدوری

Rasul Pak SAW Ki Khater Mazdoori
Rasul Pak SAW Ki Khater Mazdoori

رسولِ پاک ﷺ کی خاطر مزدوری : حضرت کعب بن عجرہ بلوی ؓ ہمارے رسول ِپاکﷺ کے ایک پیارے( صحابی )تھے۔ان کو رسولِ پاکﷺ سے بے انتہا محبت تھی۔

ایک دن وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے آپﷺ کے چہر ہ مبارک سے اندازہ لگایا کہ آپ کی حالت بدلی ہوئی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ بہت کمزور ہوگئے ہیں۔

انھوں نے عرض کیا:
”یارسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں ،میں دیکھ رہاہوں کہ آپ کی حالت بدلی ہوئی ہے۔“

آپﷺ نے فرمایا:
”تین دن ہو گئے ہیں پیٹ میں کوئی ایسی چیز نہیں گئی جو کسی جاندار کے پیٹ میں جاتی۔“

یہ سن کر حضرت کعب ؓتڑپ اٹھے لیکن خود ان کی اپنی یہ حالت تھی کہ بے حد غریب تھے،اتنے غریب کہ اپنے پاس سے اپنے پیارے آقا ﷺ کے لئے کھانا مہیا کرنا بھی ممکن نہ تھا۔

دوسری طرف وہ یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ ان کے آقا ﷺ بھوکے رہیںاور وہ چپکے سے گھر چلے جائیں۔

اسی وقت ایک یہودی کے باغ میں گئے۔وہاں دیکھا کہ وہ یہودی اپنے اونٹوں کو پانی پلانے کے لئے کنویںسے پانی نکال رہا ہے۔انھوں نے اس سے ایک ڈول کے عوض ایک کھجور کی اجرت طے کر کے ڈول نکالنے کا سودا کیا۔

پھر اس کی ضرورت کے مطابق اوراس کے عوض جتنی کھجوریں بنیں ،وہ حاصل کیں

اور انہیں لے کر رسول اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کھجوریں پیش کیں۔آپﷺ نے فرمایا:
”کعب!کہاں سے لائے ہو؟“

انہوں نے عرض کیا:
”یارسول اللہ !ایک یہودی کے باغ میں کنویں سے پانی نکالنے کی مزدوری کی۔اس کے عوض یہ کھجوریں حاصل کی ہیں۔“اس پر آپﷺ نے پوچھا:
”کعب مجھ سے محبت کرتے ہوئے؟“

انھوں نے عرض کیا:
”ہا ں یا رسو ل اللہ !میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔“آپﷺ نے فرمایا:

”جو آدمی مجھ سے محبت کرتا ہے اس پر فقر و فاقہ کی آزمائش آئے گی۔اس کے لئے ڈھال تیار رکھو۔
مطلب یہ کہ رسول پاکﷺ سے محبت کرنے والا آپﷺ کی سادہ حیات پاک کو اپنے لئے نمونہ بناتا ہے،

دنیا کی محبت میں گرفتار نہیں ہوتا اور نیکی کے کام کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرتا ہے تاکہ آخرت میں اس کی رضا کام آئے۔


Imandar Charwaha/ایماندار چرواہا

Imandar Charwaha
Imandar Charwaha

حضرت عمر فاروق ؓ کے فرزند حضرت عبداللہ ؓ بھی رسول اکرمﷺ کے پیارے ساتھی(صحابی )تھے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ سے باہرتشریف لے گئے۔ایک جگہ ان کے ساتھیوں نے کھانے کے لئے دسترخوان بچھایا۔قریب ہی ایک چرواہا بکریاں چرارہاتھا۔حضرت عبدا للہ بن عمرؓ نے اس سے کہا:

”آﺅ بھائی چرواہے،اس دسترخوان سے تم بھی کچھ کھا پی لو۔“

چرواہے نے کہا :”میرا روزہ ہے۔“

حضرت عبدا للہ بن عمر ؓنے فرمایا:

”اس سخت گرم دن میں تم روزے کی مصیبت برداشت کر رہے ہو جبکہ سخت گرم لو بھی چل رہی اور پھر ان تپتے ہوئے پہاڑوں میں تم بکریاں بھی چرا رہے ہو۔“

چرواہے نے کہا:

”جی ہاں،میں اس وقت کی تیاری کر رہا ہوں جب عمل کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔“

(یعنی مرنے کے بعد کا وقت)اس لئے اس دنیا کی زندگی میں عمل کر رہا ہوں۔(یعنی روزہ رکھ کر حلال روزی کے لئے محنت کر رہا ہوں۔)

حضرت عبداللہ ؓ نے چرواہے کی پر ہیز گاری اور اللہ کے خوف کا امتحان لینے کے لئے اس سے کہا:

”کیا تم اس ریوڑ میں سے ایک بکری بیچ سکتے ہو،ہم تمہیں اس کی نقد قیمت دیں گے اور روزہ افطار کرنے کے لئے تمہیں گوشت بھی دیں گے۔“

چرواہے نے جواب دیا:

”یہ بکریاں میری تو نہیں کہ ان میں سے کوئی بکری بیچ دوں۔یہ میرے آقا کی ہیں،وہی ان بکریوں کا مالک ہے۔اس کی اجازت کے بغیر میں کوئی بکری بیچ نہیں سکتا۔“

حضرت عبداللہؓ نے کہا:

”تمہارا آقا اگر ریوڑ میں کوئی بکری کم پائے گا اور تم اس سے کہہ دو کہ گم ہوگئی ہے تو تمہیں کچھ نہیں کہے گاکیونکہ ریوڑ سے ایک دو بکریاں گم ہوتی رہتی ہیں۔“

حضرت عبداللہ کی بات سن کر چرواہا ان کے پاس سے چل دیا۔وہ اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر بار بار یہ الفاظ دہرائے جا رہا تھا کہ این اللہ؟این اللہ؟اللہ کہاں ہے؟اللہ کہاں ہے؟مطلب یہ کہ کیا اللہ سب کچھ نہیں دیکھ رہا۔

یہ چرواہا ایک شخص کا غلام تھا۔اسکی ایمانداری اور اس کا خوف ِخدا دیکھ کر حضرت عبدا للہ بن عمر ؓ بہت خوش ہوئے اور اپنے آدمی اس چرواہے کے آقا کے پاس بھیج کر اس سے تمام بکریاں اور چرواہے کو خرید کر اسے آزاد کردیا اور پھر تمام بکریاں بھی اسی کو دے دیں۔(اسے ان بکریوں کا ما لک بنا دیا۔)


Tarbiat Aise Bhi Hoti He/تربیت ایسے بھی ہوتی ہے

Tarbiat Aise Bhi Hoti He
Tarbiat Aise Bhi Hoti He

نو امیہ کے آٹھویں خلیفہ حضرت عمر بن عبدا لعزیزؓ کی پرورش بچپن میں بڑے امیر انہ طریقے سے ہوئی تھی۔اس کے ساتھ ان کی تربیت بھی بڑے اچھے طریقے سے کی گئی تھی۔تربیت کا مطلب ہے،اچھی عادتیں سکھانا اور تعلیم دینا وغیرہ۔ان کے والد عبدا لعزیز مصر کے گورنر تھے۔

انہوں نے حضرت عمرؓ کے لڑکپن میں ان کو مدینے بھیج دیا تاکہ وہاں کے ایک بڑے عالم حضرت صالح بن کیسان ؒ کی نگرانی میں ان کی تعلیم و تربیت ہو سکے۔

ایک دن عمر بن عبدالعزیز نماز کے لئے مسجد میں دیر سے آئے۔استاد نے پوچھا:
”نماز میں دیر کیوں کی۔“انہوں نے جواب دیا:
”میں ذرا بال سنوار رہا تھا، اس لئے دیر ہو گئے۔“

استاد نے کہا:
”بالوں کوسنوارنے میں اس قدر مصروف ہوجاتے ہو کہ نماز کا وقت نکل جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تم بالوں کے سنوارنے کو نماز سے زیادہ ضروری سمجھتے ہو۔“اس کے بعد استاد نے یہ واقعہ عبدالعزیز کو لکھ بھیجا۔

عبدالعزیز نے استاد کا خط ملتے ہی اپنا ایک خاص خادم مدینے روانہ کیا اور حکم دیا کہ” مدینہ پہنچتے ہی عمر کے سر کے بال مونڈ نا اس کے بعد کوئی اور کام کرنا۔“

وہ خادم مدینے آیا اور سب سے پہلے عمر کاسر مونڈا،اس کے بعد کوئی دوسرا کام کیا۔
یہی عمرؓ جب خلیفہ بنے تو اتنی سادگی اختیار کی کہ’ فاروق ثانی‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔


————————————-Thanks For Reading———————————-

For More Click Here

Please Follow Us on Instagram Continue Aim

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here