Shoq Shahadat Kee Inteha/شوق شہادت کی انتہا

Shoq Shahadat Kee Inteha
Shoq Shahadat Kee Inteha

۲ہجری میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثاروں کے ساتھ غزوہ بدر کے لیے مد ینہ منورہ سے چلنے لگے تو آپ ﷺکے دو جاں نثاروں کے درمیان عجیب قسم کی تکرار ہوگئی۔ ان دو جاں نثاروں کے نام خیثمہ بن حارث اور سعدبن خیثمہ تھے۔ خیثمہ رضی اللہ عنہ باپ تھے اور سعد رضی اللہ عنہ بیٹے، دونوں کا تعلق مدینہ کے خاندان اوس سے تھا۔

تکرار اس بات پر ہورہی تھی کہ دونوں میں سے کون رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کافروں سے لڑنے کے لیے جائے۔ باپ (حضرت خیثمہ رضی اللہ عنہ)بیٹے(حضرت سعد رضی اللہ عنہ) سے کہہ ر ہے تھے۔

بیٹا! گھر میں ہم دونوں کے سوا کوئی مرد نہیں ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم دونوں میں سے ایک یہیں گھر میں رہے اور دوسرا جہاد میں شریک ہو۔تم جوان ہو اور گھر کی اچھی طرح دیکھ بھال اور حفاظت کر سکتے ہو، اس لیے تم یہیں رہو اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کے لیے جانے دو۔“

ان کے جواب میں بیٹے (حضرت سعد) والد سے کہہ رہے تھے:
”ابا جان! اگر شہادت اور شہادت کے بدلے میں جنت کے علاوہ کوئی اور معاملہ ہوتا تو مجھے گھر پر رہنے میں کوئی عذر نہ تھا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے اتنی طاقت دی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہونے کا حق پوری طرح ادا کر سکوں۔ اس لیے آپ گھر پر رہیں اور مجھے جہاد پر جانے کی اجازت دیجیے۔ شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب فرمائے۔“

لیکن باپ کا اصرار تھا کہ بیٹا گھر پر رہے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جائیں۔ بڑی بحث اور تکرار کے بعد دونوں نے طے کیا کہ قرعہ ڈالتے ہیں،جس کا نام قرعہ میں نکلے وہ لڑائی پر جائے اور دوسرا گھر پر رہے۔(ایک روایت یہ ہے کہ باپ حضرت خیثمہ نے قرعہ ڈالنے کی تجویز پیش کی جسے بیٹے نے منظور کرلیا۔)

قرعہ ڈالا گیا تو بیٹے (حضرت سعد) کا نام نکلا۔ ان کواس قد رخوشی ہوئی کہ قدم زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ والد بھی اب مجبور ہو گئے کہ گھر پر رہیں اور بیٹے کو جہاد کے لیے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے دیں۔ چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر پہنچ گئے۔

لڑائی شروع ہوئی تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ اس جوش اور جذبے کے ساتھ لڑے کہ جانبازی کا حق ادا کر دیا۔ دشمن کے ایک سوار نے ان کو اس طرح بے جگری سے لڑتے دیکھا تو اس نے تاک کر ان پر حملہ کیا۔ انھوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن دشمن گھوڑے پر سوار تھا، اس کا وار کارگر ہو گیا اور وہ شہید ہو کر جنت میں پہنچ گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی دلی آرزو پوری کر دی۔

۳ ہجری میں غزوہ احد پیش آیا تو شہید بدر حضرت سعد کے والد حضرت خیثمہ بن حارث رضی اللہ عنہ شہادت کی تمنا دل میں لیے اس میں شریک ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تمنا بھی پوری کر دی اور وہ ایک کافر ہبیرہ بن ابی وہب کے ہاتھ سے شہید ہو کر جنت میں پہنچ گئے۔


Mujhe Islam Kee Nemat Kaise Millia? /مجھے اسلام کی نعمت کیسے ملی؟

Mujhe Islam Kee Nemat Kaise Millia?
Mujhe Islam Kee Nemat Kaise Millia?

عزیز بچو! پچھلی (بیسویں) صدی عیسوی میں سائنس نے اس قدر ترقی کی کہ انسان چاند پر پہنچ گیا۔ ہماری زمین سے چاند کا فاصلہ دولاکھ چالیس ہزار میل ہے۔سب سے پہلے روس نے ایک ایسا خلائی جہاز یا سیارہ تیار کیا جو اکتوبر95ء کو چاند پر اتر گیا اور چاند کی پرلی طرف کی تصویر یں (فوٹو) لینے کے بعد زمین پر واپس پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔

اس میں کوئی انسان نہیں تھا۔ چند سال بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے خلاء میں سفر کے لیے ایک خاص ہوائی جہاز تیار کیا جس میں تین خلا بازوں کو بٹھا کر چاند کی طرف روانہ کیا تا کہ وہ چاند میں اتر کر اس کے بارے میں ہر طرح کی معلومات حاصل کر یں۔

خلا کا مطلب ہے زمین اور آسمان کے درمیان خالی جگہ یا زمین کے اوپر کا وہ خطہ جہاں زمین کی کشش ختم ہو جاتی ہے۔ اس کشش کو”کشش ثقل“ کہتے ہیں یعنی وہ کشش یا کھینچنے کی طاقت جس سے بھاری چیزیں زمین کی طرف کھنچتی ہیں۔

خلا باز اس انسان کو کہتے ہیں جو خلا میں سفر کرے (خلائی جہاز میں بیٹھ کر) یعنی جہاں زمین کی کشش ختم ہو جاتی ہے اس سے اوپر جائے۔امریکہ نے جن خلابازوں کو چاند کی طرف بھیجا ان کے لیڈر کا نام نیل آرمسٹرانگ(NEIL ARMSTRONG) تھا۔ وہ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے شہر بوسٹن کا رہنے والا تھا۔

چاند کی سرزمین پر سب سے پہلے قدم رکھنے والا انسان یہی نیل آرمسٹرانگ تھا۔ جب وہ اپنے کامیاب خلائی سفر کے بعد زمین پر واپس آیا تو اس نے خلا میں جو کچھ دیکھا یا سنا تھا۔ اس نے اس پر ایسا اثر ڈالا کہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اس نے اسلام قبول کر لیا۔

یہ خبر اخباروں میں شائع ہوئی تو امریکہ کے بہت سے عیسائیوں نے اس خبر کو ماننے سے انکار کر دیا اور اخباروں میں اعلان کر دیا کہ یہ خبر غلط تھی۔ اس پر برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر ڈاکٹر غلام نبی امریکہ پہنچے اور کیلیفورنیا کے شہر بوسٹن جا کر نیل آر مسٹرانگ سے ملے۔

ان کا بیان ہے کہ میں نیل آرمسٹرانگ کو عمامہ اور تہبند میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ پھر میرے اور اس کے درمیان یہ سوال جواب ہوئے۔
سوال: ”کیا یہ خبر صحیح ہے کہ آپ نے اسلام قبول کر لیا ہے؟“
جواب:”صحیح ہے۔“
سوال:”آپ کے اسلام لانے کا کیا سبب تھا؟“
جواب:”خلائی سفر کے موقع پر جب میں ساؤنڈ بیریر (SOUND BARRIER) (رفتار کی حد سے پرے) کے علاقے (زون) میں پہنچا تو میں نے عربی زبان میں ایک آواز سنی جس کا مفہوم میں نہ سمجھ سکا اور سخت حیران ہوا کہ یہاں کیسی آواز میں نے سنی ہے۔

میں اس حیرت کی حالت میں اپنا خلائی سفر پورا کر کے زمین پر واپس آ گیا۔ یہاں ڈاکٹروں نے میراطبی معائنہ کیا تو مجھے اداس پا کر انھوں نے فیصلہ کیا کہ مجھے میرے بال بچوں کے پاس بھیج دیا جائے۔ ان کے فیصلے کے مطابق جب میں کار میں اپنے گھر جا رہا تھا تو صبح کا وقت تھا۔

راستے میں کالوں کی ایک مسجد تھی۔ (سفید فام امریکی امریکہ کے اصل باشندوں کو کالے کہتے ہیں کیونکہ ان کا رنگ سیاہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ سفید فام لوگوں کے امریکہ میں آنے سے پہلے امریکہ میں آباد تھے۔) اس مسجد کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے مسجد سے وہی آواز سنی جو میں نے خلا میں سنی تھی۔

(یہ آواز دراصل مسلمانوں کی اذان تھی جو ایک کالامسلمان مسجد میں دے رہا تھا۔) میں نے کار روکی اور مسجد میں داخل ہو کر وہاں بیٹھے ہوئے مسلمانوں سے درخواست کی کہ یہ آواز جوتمہاری مسجد سے آ رہی تھی،میں اسے دوبارہ سننا چاہتا ہوں۔

آپ کی مہربانی ہوگی اگر یہ مجھے دوبارہ سناد یں۔ انھوں نے دوبارہ یہ آواز سنائی تو میں نے اسے ٹیپ کرلیا۔ جب مجھے پورا یقین ہو گیا کہ یہی آواز میں نے خلا میں سنی تھی تو میں نے اسی وقت کلمہ پڑھ لیا اور اسلام لے آیا۔ جب یہ خبر ملک میں پھیلی تو کلیسا والوں (عیسائی پادریوں) نے مشہور کر دیا کہ میرا دماغ چل گیا ہے

یعنی میں پاگل ہو گیا ہوں لیکن میں بالکل پاگل نہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت میں ایک سو چھ آدمیوں کو مسلمان کر چکا ہوں۔“
ڈاکٹر غلام نبی صاحب نے اس سے کہا:

”آپ یہ حالات مجھے اپنے قلم سے لکھ کر دے دیں تا کہ میں دوسروں سے ذکر کروں تو مجھ پر غلط بیانی کا الزام نہ آئے۔“
چنانچہ نیل آرمسٹرانگ نے اپنے قلم سے یہ حالات انہیں لکھ کر دے دیے۔
(زبورخیال، ص126-127مؤلفہ ابوالامتیازع میں مسلم بحوالہ کشکول مظہری 95-96 ڈاکٹرمحمدمظہر بقا،فاضل دیو بند، ایم اے پی ایچ ڈی)


Subah ka Bhola Sham Ko Ghar Agaya/صبح کا بھولا شام کو گھر آگیا

Subah ka Bhola Sham Ko Ghar Agaya
Subah ka Bhola Sham Ko Ghar Agaya

آج سے کئی سو سال پہلے کا ذکر ہے کہ ملک شام کے ایک شہر میں ایک نہایت پرہیزگار بزرگ تھے۔ ان کا زیادہ وقت عبادت میں گزرتا تھا اور وہ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔لوگ ان کو اللہ کا ولی سمجھتے تھے اور ان کی بہت عزت کرتے تھے۔

بدقسمتی سے شیطان نے ان کو غلط راستے پر ڈال دیا۔ وہ اللہ کو بھلا بیٹھے اور ہر وہ کام کرنے گئے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کی نظروں میں ان کی کوئی عزت نہ رہی اور وہ ان کو ایک ذلیل دھوکے بازسمجھنے لگے۔

اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دل کا سکون اور چین چھین لیا، ان کے کسی کام میں برکت نہ رہی اور وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کی رحمت سے مایوس ہو گئے۔ ایک دن وہ شہر کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک جگہ انھوں نے دیکھا کہ ایک گھر کا دروازہ کھلا اور اس گھر سے ایک بچہ روتا چلاتا ہوا نکلا۔

اس نے کوئی ایسی حرکت کی تھی جس سے اس کی والدہ ناراض ہوگئی تھی۔ اس نے بچے کو گھر سے دھکے دے کر نکال دیا تھا اور گھر کا دروازہ بند کر لیا تھا۔ بچہ روتا روتا کچھ دور تک گیا پھر ایک جگہ کھڑا ہو گیا اور سوچنے لگا کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر کے سوا کہاں جاسکتا ہوں اور کون مجھے اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔

یہ سوچ کر وہ بجھے ہوئے دل کے ساتھ اپنے گھر کی طرف پلٹ پڑا۔ دروازے پر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ درواز ہ اندر سے بند ہے تو بے چارہ دروازے کے باہر چوکھٹ پر سر رکھ کر لیٹ گیا یہاں تک کہ اس کو نیند آ گئی۔

کافی دیر کے بعد ماں نے دروازہ کھولا تو بچے کو چوکھٹ پر سر رکھے سوتا دیکھ کر اس کا دل بھر آیااور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ مامتا کی ماری کو بچے کی بری حرکت یاد نہ رہی۔ اس نے اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور اس کا منہ سر چوم کر کہا:

”میرے بچے! تو نے دیکھا کہ میرے سوا تیرا کون ہے، تو نے میرا کہا نہ مان کر اور بری حرکتیں کر کے میرا دل دکھایا اور مجھے ایسا غصہ دلایا جو ایک ماں کو (عام حالات میں) اپنے جگر کے ٹکڑے پر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ماں کے دل کو ایسا بنایا ہے کہ وہ اپنے بچوں سے پیار کرتی ہے اور ان کو سکھ پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔

میں بھی تمہاری ماں ہوں اور میرا بھی دل چاہتا ہے کہ تجھے پیار کروں،تجھے ہر طرح کا آرام اور سکھ پہنچاؤں اور تیرے لیے ہر بھلائی اور بہتری چاہوں۔ میرے پاس جو کچھ ہے تیرے ہی لیے ہے۔“
وہ راہ سے بھٹکے ہوئے بزرگ گلی میں ایک جگہ بیٹھ کر یہ ساراماجراد یکھ ر ہے تھے۔ ان پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ یہ کہتے ہوئے زار زار رونے لگے۔

”الٰہی میں سیدھے راستے سے بھٹک گیا تھا اور تجھے بھلا بیٹھا تھا،میں اپنے کیے پر شرمندہ اور پشیمان ہوں، میں سچے دل سے توبہ کرتا ہوں۔ تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے، تیرے در پر رحم اور معافی کا بھکاری بن کر آیا ہوں، میری خطاؤں کو بخش دے، اے میرے خالق، اے میرے مالک،مجھے اپنے دروازے سے نہ دھتکارنا کہ تیرے سوا میرا کوئی اور آسرا نہیں ہے۔“

اس کے بعد وہ بزرگ پھر اپنی پرانی حالت پر آ گئے۔ انھوں نے زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ کی عبادت اور مخلوق خدا کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ لوگ ان کی پھر عزت کرنے لگے اور ان کے دل کو بھی اب سکون اور چین مل گیا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر لی ہے۔

For More Click Here

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here