Introduction: Khushi Quotes in Urdu
Looking for Khushi quotes in Urdu that lift your mood and make your heart smile? You’re in the right place! This page gathers simple, beautiful Urdu quotes about happiness you can read, share, and use as captions.
Whether you want short lines for Whats App status, Instagram, or just a daily boost, these happiness quotes in Urdu will remind you to appreciate life’s little moments, practice gratitude, and spread positivity. Read on, save your favorites, and keep a little khushi with you wherever you go.
Khushi Quotes in Urdu

خوشی آتی ہے جب بھی زندگی میں غم سمجھتے ہیں
عجب الٹا زمانے کی روش کو ہم سمجھتے ہیں
مرے زخموں پہ جو اشکوں کا پھاہا رکھ دیا تم نے
مری جاں ہم بھی اس کو پیار کا مرہم سمجھتے ہیں
نہ جانے آتش فرقت میں ہم کیوں جلتے رہتے ہیں
نہ جی کو جی سمجھتے ہیں نہ دم کو دم سمجھتے ہیں
ہمارے دل کو آخر چٹکیوں سے کیوں مسلتے ہو
تمہاری اس ادا کو جان جاناں ہم سمجھتے ہیں
تمہاری مدھ بھری آنکھوں سے پینے کی تمنا ہے
تمہارے آنسوؤں کو ہم تو جام جم سمجھتے ہیں
تمہارے حسن کی رنگین ادائیں دیکھ کر ہم بھی
کبھی شعلہ کبھی کانٹا کبھی شبنم سمجھتے ہیں
یہ مانا شاعری اخترؔ کی شیرینی سے خالی ہے
مگر لذت ہے جو اس شاعری میں ہم سمجھتے ہیں

گر شریک بدی نہیں ہوتا
لہجہ اب ملتجی نہیں ہوتا
درد وہ درد ہی نہیں ہوتا
درد جو دائمی نہیں ہوتا
کام جو با خوشی نہیں ہوتا
قاعدے سے کبھی نہیں ہوتا
دل میں عشق نبی نہ ہو جب تک
کامل ایمان بھی نہیں ہوتا
سرنگوں ہونا دین کی خاطر
درجۂ بزدلی نہیں ہوتا
ذکر ہوتا ہے جب بھی دولت کا
آدمی آدمی نہیں ہوتا
قوم بے حس نہ گر ہوئی ہوتی
عالم بے کسی نہیں ہوتا
وار کرتا ہے جو قریب آکر
دوستو اجنبی نہیں ہوتا
جس کو دولت عزیز ہو وہ غنی
ہو نہ ہو پر سخی نہیں ہوتا
میں غلط تھا یا ہوں یہ ممکن ہے
فیصلہ ہر سہی نہیں ہوتا
مرضی کے جو خلاف ہو رشتہ
باعث سر خوشی نہیں ہوتا
بے غرض جو نہیں وہ کچھ بھی ہو
جذبۂ دوستی نہیں ہوتا
آپ کو شیخ کون سمجھائے
ہر مسلماں ولی نہیں ہوتا
مال فتنہ ہے اخترؔ اور فتنہ
حاصل زندگی نہیں ہوتا

زندگی کیا ہوئے وہ اپنے زمانے والے
یاد آتے ہیں بہت دل کو دکھانے والے
راستے چپ ہیں نسیم سحری بھی چپ ہے
جانے کس سمت گئے ٹھوکریں کھانے والے
اجنبی بن کے نہ مل عمر گریزاں ہم سے
تھے کبھی ہم بھی ترے ناز اٹھانے والے
آ کہ میں دیکھ لوں کھویا ہوا چہرہ اپنا
مجھ سے چھپ کر مری تصویر بنانے والے
ہم تو اک دن نہ جیے اپنی خوشی سے اے دل
اور ہوں گے ترے احسان اٹھانے والے
دل سے اٹھتے ہوئے شعلوں کو کہاں لے جائیں
اپنے ہر زخم کو پہلو میں چھپانے والے
نکہت صبح چمن بھول نہ جانا کہ تجھے
تھے ہمیں نیند سے ہر روز جگانے والے
ہنس کے اب دیکھتے ہیں چاک گریباں میرا
اپنے آنسو مرے دامن میں چھپانے والے
کس سے پوچھوں یہ سیہ رات کٹے گی کس دن
سو گئے جا کے کہاں خواب دکھانے والے
ہر قدم دور ہوئی جاتی ہے منزل ہم سے
راہ گم کردہ ہیں خود راہ دکھانے والے
اب جو روتے ہیں مرے حال زبوں پر اخترؔ
کل یہی تھے مجھے ہنس ہنس کے رلانے والے

سفر ہی شرط سفر ہے تو ختم کیا ہوگا
تمہارے گھر سے ادھر بھی یہ راستہ ہوگا
زمانہ سخت گراں خواب ہے مگر اے دل
پکار تو سہی کوئی تو جاگتا ہوگا
یہ بے سبب نہیں آئے ہیں آنکھ میں آنسو
خوشی کا لمحہ کوئی یاد آ گیا ہوگا
مرا فسانہ ہر اک دل کا ماجرا تو نہ تھا
سنا بھی ہوگا کسی نے تو کیا سنا ہوگا
پھر آج شام سے پیکار جان و تن میں ہے
پھر آج دل نے کسی کو بھلا دیا ہوگا
وداع کر مجھے اے زندگی گلے مل کے
پھر ایسا دوست نہ تجھ سے کبھی جدا ہوگا
میں خود سے دور ہوا جا رہا ہوں پھر اخترؔ
وہ پھر قریب سے ہو کر گزر گیا ہوگا

رواں دواں ہے زندگی چراغ کے بغیر بھی
ہے میرے گھر میں روشنی چراغ کے بغیر بھی
تھے جس کی جستجو میں سب حریف کاروان شب
وہ راہ ہم نے ڈھونڈ لی چراغ کے بغیر بھی
محبتوں کے دیپ ہر قدم پہ میں جلاؤں گا
ہے مجھ میں ذوق آگہی چراغ کے بغیر بھی
وہ زندگی جو مشعل وفا کی ہم رکاب تھی
گزر گئی ہنسی خوشی چراغ کے بغیر بھی

جب مخالف مرا رازداں ہو گیا
راز سر بستہ سب پر عیاں ہو گیا
مجھ کو احساس شرمندگی ہے بہت
قصۂ درد کیسے بیاں ہو گیا
کتنی حسرت سے تکتی رہی ہر خوشی
اور دامن مرا دھجیاں ہو گیا
مسئلہ بن گئی فکر تفہیم کا
لفظ کا حسن بھی رائیگاں ہو گیا
لوگ یہ سوچ کے ہی پریشان ہیں
میں زمیں تھا تو کیوں آسماں ہو گیا
شکوہ سنجان تنہائی ہیں سب کے سب
میرا غم بھی غم دو جہاں ہو گیا
پیڑ کیا میرے آنگن کا اخترؔ گرا
لوگ سمجھے کہ میں بے اماں ہو گیا

سمندر سب کے سب پایاب سے ہیں
کناروں پر مگر گرداب سے ہیں
ترے خط میں جو اشکوں کے نشاں تھے
وہی اب کرمک شب تاب سے ہیں
چہک اٹھتا ہے ساز زندگانی
ترے الفاظ بھی مضراب سے ہیں
دلوں میں کرب بڑھتا جا رہا ہے
مگر چہرے ابھی شاداب سے ہیں
ہمارے زخم روشن ہو رہے ہیں
مسیحا اس لیے بیتاب سے ہیں
وہ جگنو ہو ستارہ ہو کہ آنسو
اندھیرے میں سبھی مہتاب سے ہیں
کبھی نشتر کبھی مرہم سمجھنا
مرے اشعار بھی احباب سے ہیں
خوشی تیرا مقدر ہوگی اخترؔ
یہ امکاں اب خیال و خواب سے ہیں

جو قطرے میں سمندر دیکھتے ہیں
تجھے منظر بہ منظر دیکھتے ہیں
قبائے درد جب سے زیب تن ہے
خوشی کو اپنے اندر دیکھتے ہیں
چلو امن و اماں ہے میکدے میں
وہیں کچھ پل ٹھہر کر دیکھتے ہیں
کبھی تنہائی نے تنہا نہ چھوڑا
تماشہ پھر بھی گھس کر دیکھتے ہیں
کرم فرمائی ہے سورج کی یہ بھی
اسے اپنے برابر دیکھتے ہیں
ہم اپنے پاؤں پھیلائیں گے اخترؔ
کہاں تک ہے یہ چادر دیکھتے ہیں

اے دل وہ عاشقی کے فسانے کدھر گئے
وہ عمر کیا ہوئی وہ زمانے کدھر گئے
ویراں ہیں صحن و باغ بہاروں کو کیا ہوا
وہ بلبلیں کہاں وہ ترانے کدھر گئے
ہے نجد میں سکوت ہواؤں کو کیا ہوا
لیلائیں ہیں خموش دوانے کدھر گئے
اجڑے پڑے ہیں دشت غزالوں پہ کیا بنی
سونے ہیں کوہسار دوانے کدھر گئے
وہ ہجر میں وصال کی امید کیا ہوئی
وہ رنج میں خوشی کے بہانے کدھر گئے
دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی
اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے

مجھے اپنی پستی کی شرم ہے تری رفعتوں کا خیال ہے
مگر اپنے دل کو میں کیا کروں اسے پھر بھی شوق وصال ہے
اس ادا سے کون یہ جلوہ گر سر بزم حسن خیال ہے
جو نفس ہے مست بہار ہے جو نظر ہے غرق جمال ہے
انہیں ضد ہے عرض وصال سے مجھے شوق عرض وصال ہے
وہی اب بھی ان کا جواب ہے وہی اب بھی میرا سوال ہے
تری یاد میں ہوا جب سے گم ترے گم شدہ کا یہ حال ہے
کہ نہ دور ہے نہ قریب ہے نہ فراق ہے نہ وصال ہے
تری بزم خلوت لا مکاں ترا آستاں مہ و کہکشاں
مگر اے ستارۂ آرزو مجھے آرزوئے وصال ہے
میں وطن میں رہ کے بھی بے وطن کہ نہیں ہے ایک بھی ہم سخن
ہے کوئی شریک غم و محن تو وہ اک نسیم شمال ہے
میں بتاؤں واعظ خوش نوا ہے جہان و خلد میں فرق کیا
یہ اگر فریب خیال ہے وہ فریب حسن خیال ہے
یہی داد قصۂ غم ملی کہ نظر اٹھی نہ زباں ملی
فقط اک تبسم شرمگیں مری بے کسی کا مآل ہے
وہ خوشی نہیں ہے وہ دل نہیں مگر ان کا سایہ سا ہم نشیں
فقط ایک غم زدہ یاد ہے فقط اک فسردہ خیال ہے
کہیں کس سے اخترؔ بے نوا ہمیں بزم دہر سے کیا ملا
وہی ایک ساغر زہر غم جو حریف نوش کمال ہے

نہ تمہارا حسن جواں رہا نہ ہمارا عشق جواں رہا
نہ وہ تم رہے نہ وہ ہم رہے جو رہا تو غم کا سماں رہا
نہ وہ باغ ہیں نہ گھٹائیں ہیں نہ وہ پھول ہیں نہ فضائیں ہیں
نہ وہ نکہتیں نہ ہوائیں ہیں نہ وہ بے خودی کا سماں رہا
نہ وہ دل ہے اب نہ جوانیاں نہ وہ عاشقی کی کہانیاں
نہ وہ غم نہ اشک فشانیاں نہ وہ درد دل کا نشاں رہا
نہ چمن ہے وہ نہ بہار ہے نہ وہ بلبلیں نہ ہزار ہے
یہی چار سمت پکار ہے نہ وہ رت ہے اب نہ سماں رہا
نہ وہ عمر ہے نہ مسرتیں نہ وہ عیش ہے نہ وہ عشرتیں
نہ وہ آرزوئیں نہ حسرتیں نہ خوشی کا نام و نشاں رہا
نہ نشاں ہے ساقی و جام کا نہ وہ بادہ ہائے چمن ادا
نہ مغنیہ رہی محو ساز نہ ساز مست فغاں رہا
یہ بہار گلشن آب و گل ہے فنا اثر تو ہوں کیوں خجل
وہ گل فسردہ ہے میرا دل کہ ہمیشہ نذر خزاں رہا
نہیں صبر ساقیا لا بھی دے قدح بہار اٹھا بھی دے
ابھی سن ہے لا کے پلا بھی دے کہ ہمیشہ کون جواں رہا
کہوں کیا کہ رنج رسیدہ ہوں میں برنگ ابر رمیدہ ہوں
نفس شمیم پریدہ ہوں کہ رہا تباہ جہاں رہا
اثر بہار خزاں اثر ہے کہ ہے فسردہ مری نظر
نہ ہوائے عشرت بال و پر نہ جنون باغ جناں رہا
میں گل رمیدۂ رنگ و بو تو بہار مے کدۂ نمو
میں ہمیشہ خستۂ آرزو تو ہمیشہ عیش جواں رہا
نہ سکون دل نہ قرار جاں نہ قیام صبر کوئی زماں
یہ سرشک غم کا ہے کارواں کہ یوں ہی ہمیشہ رواں رہا
تو متاع گل کدۂ نظر گل نو بہار بہشت اثر
میں وہ عندلیب شکستہ پر کہ ہمیشہ محو فغاں رہا
نہ وہ سوز و ساز دروں ہے اب نہ وہ چشم گل کدۂ گوں ہے اب
نہ وہ سر ہے اب نہ جنوں ہے اب نہ وہ ذوق شعلہ چکاں رہا
ہے فلک کی بدلی ہوئی نظر کہیں کسی سے اخترؔ نالہ گر
کہ میں اس کے جور الم اثر سے ہمیشہ محو فغاں رہا

خیالستان ہستی میں اگر غم ہے خوشی بھی ہے
کبھی آنکھوں میں آنسو ہیں کبھی لب پر ہنسی بھی ہے
انہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا
اندھیری رات کے پردے میں دن کی روشنی بھی ہے
یوں ہی تکمیل ہوگی حشر تک تصویر ہستی کی
ہر اک تکمیل آخر میں پیام نیستی بھی ہے
یہ وہ ساغر ہے صہبائے خودی سے پر نہیں ہوتا
ہمارے جام ہستی میں سرشک بے خودی بھی ہے

مرے وجود پہ کس بد دعا کا سایہ ہے
جسے بھی اپنا سمجھ لوں وہی پرایا ہے
نہ جانے کیوں مری آنکھوں میں اشک آیا ہے
کسی نے دوستی کا ہاتھ جب بڑھایا ہے
نہ انتشار نہ شورش نہ کوئی ہنگامہ
مری حیات پہ یوں بے حسی کا سایہ ہے
تمہارے گھر کو بھی اک روز وہ نہ بخشے گا
تماش بینو مرا جس نے گھر جلایا ہے
مرے مکاں سے خوشی آ کے لوٹ جاتی ہے
اداسیوں نے مجھے یوں گلے لگایا ہے
غموں کی دھوپ میں کٹتی ہے زندگی اخترؔ
وہ کوئی اور ہے جس پر خوشی کا سایا ہے

زندگی تیرے عجب ٹھور ٹھکانے نکلے
پتھروں میں تری تقدیر کے دانے نکلے
درد ٹیس اور جلن سے ہیں ابھی ناواقف
زخم جو بچے ہتھیلی پہ اگانے نکلے
میں تو ہر شے کا خریدار ہوں لیکن وہ آج
اتنی جرأت کہ مرے دام لگانے نکلے
نئی تحقیق نے قطروں سے نکالے دریا
ہم نے دیکھا ہے کہ ذروں سے زمانے نکلے
تلخ جملوں کے کہاں تیر خطا ہو پائے
دیکھنے میں تو غلط اس کے نشانے نکلے
ذہن میں اجنبی سمتوں کے ہیں پیکر لیکن
دل کے آئینے میں سب عکس پرانے نکلے
دے نہ پایا وہ کوئی وعدہ خلافی کا جواز
مضمحل اس کے نہ آنے کے بہانے نکلے
میں تو خوشیوں کے اگاتا رہا پودے اکملؔ
اور ہر شاخ پہ زخموں کے خزانے نکلے

بیٹھا ہوں اپنی ذات کا نقشہ نکال کے
اک بے زمین ہاری ہوں صحرا نکال کے
ڈھونڈا بہت مگر کوئی رستہ نہیں ملا
اس زندگی سے تیرا حوالہ نکال کے
الماری سے ملے مجھے پہلے پہل کے خط
بیٹھا ہوا ہوں آپ کا وعدہ نکال کے
ویرانیوں پہ آنکھ چھما چھم برس پڑی
لایا ہوں میں تو دشت سے دریا نکال کے
آسانیاں ہی سوچتے رہتے ہیں یار لوگ
عقبیٰ نکال کر کبھی دنیا نکال کے
ہم رفتگاں سے ہٹ کے بھی دیکھیں تو شعر میں
موضوع کم ہی بچتے ہیں نوحہ نکال کے
ملنا کہاں تھا سہل در آگہی مجھے
آیا ہوں میں پہاڑ سے رستہ نکال کے
واعظ نہال آج خوشی سے ہے کس قدر
اک تازہ اختلاف کا نکتہ نکال کے
منعم کو اس نوالے کی لذت کا کیا پتا
مزدور جو کمائے پسینہ نکال کے
حالات کیا غریب کے بدلے کہ ہر کوئی
لے آیا ہے قریب کا رشتہ نکال کے
جاذبؔ کہاں خبر تھی کہ ہے باز تاک میں
ہم شاد تھے قفس سے پرندہ نکال کے

چاہ کے الجھے ہوئے رشتے کو سلجھانے چلے
الجھنیں حد سے بڑھیں تو دل کو بہکانے چلے
پی گیا تشنہ دہانی میں خدا جانے میں کیا
کیوں رسیلی آنکھ سے وہ آگ بھڑکانے چلے
آئنہ جوہر سے خالی ہو تو آئینہ نہیں
اس ڈھلے چہرے پہ کیا تم حسن چمکانے چلے
سرگزشت اپنے فسانے کی کہوں کیا اے ندیم
منصفی پھر اٹھ گئی جب خود وہ سمجھانے چلے
معجزہ اس ماجرائے دل کا اب تو مان لو
سب ہوئے مشتاق جب ہم کہہ کے افسانے چلے
غم ہو یا راحت کسی سے دل بہلتا ہی نہیں
جب نہ کچھ بھی بن پڑی تو خود کو پھسلانے چلے
راہ میں کانٹے بچھائے تھے جنہوں نے آج کیوں
باغ میں دیکھا تو ہنس کر پھول برسانے چلے
راز دل کچھ پا گئے دیوانؔ صاحب ورنہ تو
کس خوشی میں وہ ہمارے رنج و غم کھانے چلے

رعنائی حیات ہوئی کم ہے ان دنوں
یادش بخیر زیست کو اک غم ہے ان دنوں
وہ دن گئے کہ قطرۂ شبنم تھی کائنات
دل اپنا اب تو قطرۂ شبنم ہے ان دنوں
فکر بہار ہے نہ تو گلشن کی یاد ہے
لے دے کے ایک تیرا ہی بس غم ہے ان دنوں
راہ وفا میں ٹھوکریں کھاتا جبھی تو ہوں
قسمت میں اپنی لغزش پیہم ہے ان دنوں
آنکھیں چراتا پھرتا ہوں ہر جلوہ گاہ سے
ڈرتا ہوں روشنی سے یہ عالم ہے ان دنوں
اے واعظ حریص مبارک تجھے وہ خلد
میری نظر میں خلد دو عالم ہے ان دنوں
فرمائش خمار پر کیسے کہوں غزل
مشق سخن بھی دیکھیے اب کم ہے ان دنوں
دیوانؔ کس خوشی میں چلے جھومتے ہوئے
کیا پھر کسی سے رشتۂ محکم ہے ان دنوں

گھڑی بھر مسکراؤ مسکراؤ
حقیقت بھول جاؤ بھول جاؤ
نظر پر کوندھتی جاتی ہے خوشیاں
غموں کی لو جلاؤ لو جلاؤ
بھٹک کر آ گیا تھا خواب کوئی
اسے پھر ڈھونڈ لاؤ ڈھونڈ لاؤ
ذرا سی چوٹ سے ہوتا ہوں گھائل
جو چاہو آزماؤ آزماؤ
ذہن کے ملک میں سوکھا پڑا ہے
کبھی تو یاد آؤ یاد آؤ
بڑی ہی ناتواں دھڑکن ہے میری
اسے یوں مت بھگاؤ، مت بھگاؤ
ابھی تو رات نے کروٹ بدل دی
الخؔ تم اور گاؤ اور گاؤ

ترے خیال کو زنجیر کرتا رہتا ہوں
میں اپنے خواب کی تعبیر کرتا رہتا ہوں
تمام رنگ ادھورے لگے ترے آگے
سو تجھ کو لفظ میں تصویر کرتا رہتا ہوں
جو بات دل سے زباں تک سفر نہیں کرتی
اسی کو شعر میں تحریر کرتا رہتا ہوں
دکھوں کو اپنے چھپاتا ہوں میں دفینوں سا
مگر خوشی کو ہمہ گیر کرتا رہتا ہوں
گزشتہ رت کا امیں ہوں نئے مکان میں بھی
پرانی اینٹ سے تعمیر کرتا رہتا ہوں
مجھے بھی شوق ہے دنیا کو زیر کرنے کا
میں اپنے آپ کو تسخیر کرتا رہتا ہوں
زمین ہے کہ بدلتی نہیں کبھی محور
میں کیسی کیسی تدابیر کرتا رہتا ہوں
جو میں ہوں اس کو چھپاتا ہوں سارے عالم سے
جو میں نہیں ہوں وہ تشہیر کرتا رہتا ہوں

کیوں آنکھیں بند کر کے رستے میں چل رہا ہوں
کیا میں بھی رفتہ رفتہ پتھر میں ڈھل رہا ہوں
چاروں طرف ہیں شعلے ہم سایے جل رہے ہیں
میں گھر میں بیٹھا بیٹھا بس ہاتھ مل رہا ہوں
میرے دھوئیں سے میری ہر سانس گھٹ رہی ہے
میں راہ کا دیا ہوں اور گھر میں جل رہا ہوں
آنکھوں پہ چھا گیا ہے کوئی طلسم شاید
پلکیں جھپک رہا ہوں منظر بدل رہا ہوں
تبدیلیوں کا نشہ مجھ پر چڑھا ہوا ہے
کپڑے بدل رہا ہوں چہرہ بدل رہا ہوں
اس فیصلے سے خوش ہیں افراد گھر کے سارے
اپنی خوشی سے کب میں گھر سے نکل رہا ہوں
ان پتھروں پہ چلنا آ جائے گا مجھے بھی
ٹھوکر تو کھا رہا ہوں لیکن سنبھل رہا ہوں
کانٹوں پہ جب چلوں گا رفتار تیز ہوگی
پھولوں بھری روش پر بچ بچ کے چل رہا ہوں
چشمے کی طرح عالمؔ اشعار پھوٹتے ہیں
کوہ گراں کی صورت میں بھی ابل رہا ہوں

آگ دامن میں لگ جائے گی، دل میں شعلہ مچل جائے گا
مرا ساغر نہ چهونا کبھی، ساقیا ہاتھ جل جائے گا
ایک دن وہ ضرور آئیں گے، درد کا سایہ ٹل جائے گا
اس زمانے کی پرواہ نہیں، یہ زمانہ بدل جائے گا
آ گیا مرا آنکھوں میں دم، اب تو جلوہ دکھا دیجئے
آپ کی بات رہ جائے گی، مرا ارماں نکل جائے گا
بے سبب ہم سے روٹهو نہ تم، یہ لڑائی بُری چیز ہے
صلح کر لو خدا کے لئے،یہ بُرا وقت ٹل جائے گا
کوئی آنسو نہیں آنکھ میں، بات گھر کی ابھی گھر میں ہے
تم جو یوں ہی ستاتے رہے، درد اشکوں میں ڈھل جائے گا
دور ہیں جب تلک تم سے ہم، کیسے ہو گا مداوا غم
ایک دفعہ تم ملو تو صنم، غم خوشی میں بدل جائے گا
گر یونہی گھر میں بیٹھا رہا، مار ڈالیں گی تنہایاں
چل ذرا میکدے میں چلیں، اے فناؔ دل بہل جائے گا

تم میری آنکھ کے تیور بھولا نہیں پاو گے
ان کہیں بات کو سمجھو گے تو یاد آوں گا
ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے ہیں
صفحہِ زیست کو پلٹوگے تو یاد آوں گا
اس جدائی میں تم اندر سے بکھر جاو گے
کسی معذور کو دیکھو گے تو یاد آوں گا
اسی انداز سے ہوتے تھے مخاطب مجھ سے
خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آوں گا
میری خوشبو کھولے گی تمہیں گلابوں کی طرح
تم اگر خود سے نہ بولوں گی تو یاد آوں گا
آج تو محفلِ یاراں پے ہو مغرور بہت
جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو گے تو یاد آوں گا

غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں
لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں
اور کوئی گناہ یاد نہیں
سجدۂ بے خودی کے مجرم ہیں
استغاثہ ہے راہ و منزل کا
راہزن رہبری کے مجرم ہیں
مے کدے میں یہ شور کیسا ہے
بادہ کش بندگی کے مجرم ہیں
دشمنی آپ کی عنایت ہے
ہم فقط دوستی کے مجرم ہیں
ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا
خدمت آدمی کے مجرم ہیں
کچھ غزالان آگہی ساغر
نغمہ و شاعری کے مجرم ہیں

ایک سپیشل پرسن ہوتا ہے ہر کسی کی زندگی میں ۔
جس سے باتیں کئیے بنا کبھی رہا نہیں جاتا ۔
جس کے ایک مسج سے مسکان آجاتی ہے چہرے پر۔
بہت سکون ملتا ہے اس سے باتیں کر کے
ہم اپنے سارے غم بھول جاتے ہے ،
نہ جانے کیا جادو ہوتا ہے اس کے باتوں میں اس کرتے ہوئے بنا بات ہی مسکراتے ہیں ۔کبھی بور نہیں ہوتے ہم۔
چاہے دن رات بھر باتیں کر لے اس سے۔
کتنا اچھا لگتا ہےکہ جب صبح اس کا گڈ مارننگ کا مسج اتا ہے۔
دل ہمارا خوشیوں سے بھر جاتا ہے۔ اور پھر اس کے یہ مسجز کہ کیسے ہو،
کھانا کھایا ،اپنا خیال راکھنا۔
اور پھر رات گڈ نائٹ والا مسج دیکھے بغیر تو سکون نہیں ملتا۔
اور جب اس سے باتیں نہیں ہوتی!!!!! بس اسی کا خیال ہوتا رہتا ہیں ۔
اتنے اچھے لگتے ہیں وہ ہمیں کہ ہر کسی سے اس کی بات کرتے رہتے ہے۔

اپنے لبوں کی ہنسی
اے کااااااااش
میں دے دوں تمہیں
چین کے سارے غم
اپنا سکون دے دوں تمہیں
اگر لگ جاتی عمر تو
قسم سے یارا
یہاں عمر تیری خوشیوں کو لگا دیتی
آنکھوں میں غم کے جو آنسو ہے
اےکااااااااش
ان کو خوشی کے آنسوؤں میں بدل دوں

دسمبر چل پڑا گھر سے۔
سنا ہے پہنچنے کو ہے۔
مگر اس بار کچھ یوں ہے۔
کہ میں ملنا نہیں چاہتا۔
ستم گر سے۔
میرا مطلب۔۔۔دسمبر سے۔
کبھی خوشیاں بھی دیتا تھا۔
مجھے جاتا دسمبر یہ۔
مگر اب کے برس ہمدم۔
بہت ہی خوف آتا ہے۔
مجھے آتے دسمبر سے۔
دسمبر جو کبھی مجھ کو۔
بہت محبوب لگتا تھا۔
وہی سفاک لگتا ہے۔
بہت بے باک لگتا ہے۔
ہاں اس سنگدل مہینے سے۔
اب کے نہیں ملنا۔
قسم اسکی۔۔۔نہیں ملنا۔
مگر سنتا ہوں یہ بھی میں۔
کہ اس ظالم مہینے کو۔
کوئی بھی روک نہ پایا۔
نہ آنے سے نہ جانے سے۔
صدائیں یہ نہیں سنتا۔
وفائیں یہ نہیں کرتا۔
یہ کرتا ہے فقط اتنا۔
سزائیں سونپ جاتا ہے۔

یہ بے خودی یہ لبوں کی ہنسی مبارک ہو
تمہیں یہ سالگرہ کی خوشی مبارک ہو
زندگی بھر یہ آسماں تجھ کو
کسی آفت میں مُبتلا نہ کرے
یہ بہاریں جہاں جہاں جائیں
کوئی تجھ کو ان سے جدا نہ کرے
تیری زندگی کی روشنی کو خُدا
کسی ظلمت سے آشنا نہ کرے
کِھلتے پھولوں کی رِدا ہو جائے
اِتنی حسّاس ہوا ہو جائے
مانگتے ہاتھ پہ کلیاں رکھ دے
اِتنا مہربان خُدا ہو جائے
تمھاری سالگرہ پہ یہ دُعا ہے میری
کہ ایسا روزِ مبارک ہزار بار آئے
تمھاری ہنستی ہوئی زندگی کی راہوں میں
ہزاروں پُھول لٹاتی ہوئی بہار آئے
رفعتیں اور بلندی بھی تجھ پہ ناز کرے
تیری یہ عمر خدا اور بھی دراز کرے
حسین چہرے کی تابندگی مبارک ہو
تمہیں یہ سالگرہ کی خوشی مبارک بو….

ذکر ہے یہ مری مات کا
دل کی اک ان کہی بات کا
میں چراغوں سے ڈرتا رہا
دل پہ آسیب تھا رات کا
مچ گیا بادلوں میں بھی شور
میری آنکھوں کی برسات کا
ایسا رشتہ ہے خوشیوں سے میرا
ٹوٹی شاخوں سے جوں پات کا
ایک صدیوں پرانا ہے ساتھ
روح کا اور غمِ ذات کا
کاش ہوتا مرے ہاتھ میں
لیکھ لکھنا مرے ہاتھ کا
بس کہ پائےگا نقصاں ربیعؔ
تو بھی تاجر ہے جذبات کا

–آؤ کہ دسمبر کو رخصت کریں۔۔
کچھ خوشیوں کو سنبھال کر
کچھ آنسوؤں کو ٹال کر،
جو لمحے گزرے چاہتوں میں
جـو پل بیتے رفاقتـوں میں
کبھی وقت کے ساتھ چلتے چلتے
جو تھک کے رکے رستوں میں
کبھی خوشیوں کی امید مِلی
کبھی بچھڑے ہوؤں کی دید مِلی
کبھی بے پناہ مسکرا دیے
کبھی ہنستے ہنستے رو دیے
ان سارے لمحوں کو مختصر کریں
آؤ کہ دسمبر کو رخصت کریں

میرے رگ و پے میں سما گیا وہ شخص
میری زندگی میں چھا گیا وہ شخص
میرے دل سے دل ملا گیا وہ شخص
مجھے خوش نصیب بنا گیا وہ شخص
مجھے دے گیا اپنی ہر خوشی
میری آنکھوں سے نیند چرا گیا وہ شخص
جانے کیا بات تھی اس میں ایسی
مجھے محبت کرنا سکھا گیا وہ شخص

گزری باتیں یاد کرو گے
دریا جب تم پار کرو گے
پار افق میں جاؤں گا جب
یاد مجھے صد باد کرو گے
اتنی باتیں یاد آئیں گی
یاد میری ہر بات کرو گے
شام-سویرے روتے روتے
ہفتے کے دن سات کروگے
آئے گی رت ساون کی تو
رو رو کر برسات کرو گے
رشتوں کے سب تانےبانے ہر اک کو تم یاد کرو گے
رنج اور خوشیاں یاد آئیں گی
ھر اک لمحہ یاد کرو گے
جانے والے کب آتے ہیں سب سے یہ تم بات کرو گے
شام ڈھلے آنگن میں انور مجھ کو اکثر یاد کرو گے
“یہ کس مرض کی دوائیں خرید رکھی ہیں
زمین ہے نہیں اینٹیں خرید رکھی ہیں
اگر وہ ساتھ چلے تو مجھے خوشی ہو گی
وگرنہ میں نے تو ٹکٹیں خرید رکھی ہیں
گزر رہے ہیں یوں آوارہ گردی میں دن رات
کہ جیسے ہم نے یہ سڑکیں خرید رکھی ہیں

آج ان خوشگوار آنکھوں سے تیری دید کرتے ہیں
آج تجھے اس دل سے ہم خوش آمدید کرتے ہیں
تھورا سا تتلیوں کا رنگ، تھوڑی سے پھولوں کی مہک سے
تیری آمد سے اس جہاں کو پرمسرت مذید کرتے ہیں
تو پروانا ہی سہی ، ہم دیوانے خود کو آج تیرا مرید کرتے ہیں
لبوں پہ مسکراہٹ بکھیر کے ، آؤ تجھے خوش مزین کرتے ہیں
یہ دل تیرے قدموں میں رکھیں یا یہ جان تجھ پہ وار دیں
تو ہی بتا تجھے آج کیسے ہم خوشی سے نوازیں؟
تو اگر آہی گیا ہے تو ، چلو آج یومِ عید کرتے ہیں
میری جان مل کے تجھ کو ہم خوش آمدید کرتے ہیں
چلو آج یومِ عید کرتے ہیں
رومیسہ راج ❤ میری زندگی

امرت میں وہ ہمیں زہر گھول کر پِلایا کرتے تھے !
ہم ان کی محبت سمجھ کر اس کو پی جایا کرتے تھے
وہ بہت غلطیاں کوتاہیاں کیا کرتے تھے !
ہم اس کو ان کی نادانیاں سمجھ کے بُھلایا کرتے تھے
وہ ہم سے مل کر اپنی کہانیاں سنایا کرتے تھے !
ہم اپنے غم بھول کر ان کے ساتھ مسکرایا کرتے تھے
وہ صبح معذرت کر کے ہمیں بہلایا کرتے تھے !
جبکہ ہم رات دیر تک ان کا انتظار کر کے سو جایا کرتے تھے
دن رات ہم ان کی خوشیوں کی دعا کیا کرتے تھے !
وہ اپنی خوشیوں میں اکثر ہم کو بھول جایاکرتے تھے
کوئی کمی تو تھی تیرے پیار میں اے راج
جو دوسروں کر در بھی وہ جایا کرتے تھے

کبھی تو آؤ مری چشم تر میں شام ڈھلے
کہ کوئی آتا نہیں اس نگر میں شام ڈھلے
میں اپنے چہرے پہ خوشیاں سجائے پھرتا ہوں
چراغ جلتے ہیں اشکوں کے گھر میں شام ڈھلے
میں بن کے چاند اسے راستہ دکھاتا رہوں
کبھی تو مجھ کو ملے وہ سفر میں شام ڈھلے
نہ آئی راس ہمیں آپ کی مسیحائی
کہ درد اٹھتا ہے اب بھی جگر میں شام ڈھلے
خلیلؔ وہم ہے میرا یا بد حواسی ہے
یہاں پہ صبح چلے اور نظر میں شام ڈھلے✍

ظلم کر دے نہ تیرا مائلِ فریاد مجھے
اِس قدر بھی نہ ستا او ستم ایجاد! مجھے
رات پڑتی ہے تو آتا ہے کوئی یاد مجھے
تُو نے رکھا نہ کہیں قابلِ ناشاد مجھے
جو خوشی آپ کی وہ میری خوشی بسم اللہ
آپ کرتے ہیں تو کر دیجئے برباد مجھے

محبت عشق کی باتیں کتابوں میں ہی رہنے دو
وصال یار کے قصے حجابوں میں ہی رہنے دو
وجود مرمریں لے کر نہ کانٹوں کے قریب آؤ
گل و گلزار میں رکھو، گلابوں میں ہی رہنے دو
وہ میرا ہو نہیں سکتا میں جس کا خواب بھی دیکھوں
اگر یہ ہی حقیقت ہے تو خوابوں میں ہی رہنے دو
مجھے خوشیاں نہیں بھاتیں، میری تسکین کی خاطر
حصارِ دردورنج رکھو، عذابوں میں ہی رہنے دو
مجھے پاکر تمہاری سب امیدوں کا قتل ہو گا
مجھے خدارا مت ڈھونڈو، سرابوں میں ہی رہنے دو

ملی جو دل کو خوشی تو خوشی سے گھبرائے
ہم اجنبی کی طرح زندگی سے گھبرائے
وہ اور کچھ ہے مگر کائنات ہوش نہیں
اک آدمی ہی اگر آدمی سے گھبرائے
کبھی کبھی تو تری دوستی میں ہم اے دوست
خود اپنے عالم آوارگی سے گھبرائے

دشتِ وحشت سے بھی کب سنبھالے گئے
جو تِرے دائرے سے نکالے گئے
اپنے کمرے میں اتنا ٹہلنا پڑا
زندگی بھر نہ پیروں کے چھالے گئے
تم بنائے گئے ہو خوشی گھول کر
ہم اداسی کے سانچے میں ڈھالے گئے✍

یہ غم بھی ہے کہ تیرے پیار کا دعویٰ نہیں کرتا
خوشی بھی ہے کہ اپنے آپ سے دھوکا نہیں کرتا
اگر میں نے تُجھے دُنیا پہ قرباں کردیا تو کیا
یہاں انسان جینے کے لیے کیا کیا نہیں کرتا
جو اُن سونے کی دہلیزوں پہ جا کر ختم ہوتی ہیں
میں اُن گلیوں سے اب تیرا پتہ پوچھا نہیں کرتا

سکُوت لہجہ
ادھُوری آنکھیں
جمود سوچیں
تیرا تصور….
الفاظ بکھرے
مزاج مدھم
ناراض موجیں
تیرا تصور….
عذاب لمحے
خیراج آہیں
بارات خوشیاں
جیہات برہم
تمنا رخصت
دفن اُمیدیں
بےرنگ سوچیں
تیرا تصور….
جوان رنجش
دردتازہ
اُدھار سانسیں
جُھلستاآنگن
ویران دامن
اُجڑ پہلو
وہ تیری کھوجیں
تیرا تصور….
سوال عادت
جواب حکمت
علاج درشن
مریضِ اُجلت
جمالِ مقصود
حسنِ مقصود
نگاہیں پوچھیں
تیراتصور….
انجان راہیں
فریب باہیں
نقاب چہرے
سرد نگاہیں
اصنام پتھر
قُلوب پتھر
اَنائیں پتھر
اِنسان پتھر
سکونِ دلبر
نرم کلامی
غداز سوچیں
تیراتصور….
زوال دُوری
محال جینا
محال سہنا
وبال کہنا
وہ تلخ لمحے
زہرِ لہو میں
طریاق چاہیں
تیرا تصور….
سکُوت لہجہ
ادھُوری آنکھیں
جمودسوچیں
تیرا تصور….
الفاظ بکھرے
مزاج مدھم
ناراض موجیں
تیرا تصور….

جہاں ملتی سبھی سکھ ہے وہی در ڈھونڈنے نکلا
مری خوشیاں کہاں ہوگی؟ وہی گھر ڈھونڈنےنکلا
بہت تکلیف دیتی ہے__اکیلے زندگی جینا ۔۔!
سدا جو ساتھ ہو میرے__وہ رہبر ڈھونڈنے نکلا ۔!

بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں
ضبطِ کے زرد آنچل میں اپنے
سارے درد چُھپالیتی ہیں
روتے روتے ہنس پڑتی ہیں
ہنستے ہنستے دل ہی دل ہی رولیتی ہیں
خوشی کی خواہش کرتے کرتے
خواب اور خاک میں اَٹ جاتی ہیں
سوحصّوں میں بٹ جاتی ہیں
گھر کے دروازے پر بیٹھی
اُمیدوں کے ریشم بنتے ….ساری عُمر گنوا دیتی ہیں
میں جو گئے دنوں میں
ماں کی خوش فہمی پہ ہنس دیتی تھی
اب خود بھی تو
عُمر کی گرتی دیواروں سے ٹیک لگا ئے
فصل خوشی کی بوتی ہوں
اور خوش فہمی کا ٹ رہی ہوں
جانے کیسی رسم ھے یہ بھی
ماں کیوں بیٹی کو ورثے میں
اپنا مقدّر دے دیتی ہے

مجھے معلوم ہے آسان لگتا ہے
تمہیں راہیں بدل لینا
کوئی بھی موڑ مُڑ جانا
کسی منزل کو ٹھوکر مار کر واپس چلے آنا
یا منزل کو فقط اک جنبش لب سے
بہت نزدیک لے آنا
مجھے معلوم ہے پیارے
بہت آسان ہے تم کو واپس پلٹ جانا
میری تم بے بسی دیکھو
مجھے تم سے محبت کے سوا کچھ نہیں آتا
مگر اس میں بھی کب کوئی قرینہ سیکھ پائی میں
یہ دیکھو آنکھ رونا چاہتی ہے
پھر بھی بنجر ہے
یہ دیکھو ہاتھ کتنے سرد ہیں میرے
یہ دیکھو دل کی دھڑکن کس تیرا ترتیب کھو کر ڈوبنے کو ہے
یہ دیکھو میرا آنچل میرے ہاتھوں سے پھسل کر اُڑ گیا کب سے
یہ دیکھو سانس کی ڈوری بھی مجھ سے چھوٹنے کو ہے
میرے احساس کا ریشم الجھ کر ٹوٹنے کو ہے
مجھے تو یہ ہنر بالکل نہیں آتا
کے کیسے اپنے زخموں کو چھپاتے ہیں
یا کیسے درد کو درمان بناتے ہیں
یا کیسے روٹھتی سانسوں کا دامن
تھام کر واپس بلاتے ہیں
بہت بے خواب اور ویران موسم میں
خفا نیندوں کو کیا کہہ کر مناتے ہیں
مجھے یہ ہنر بالکل نہیں آتا
کے کیسے اپنے مر جانے پہ نوحے آپ کرتے ہیں
یا اپنے ہی گلے لگ کر دلاسا کیسے بانٹتے ہیں
پھر اپنی ہی لاش کو کیسے
کسی پایاب دریا
یا کسی کی ادھ بجھی تازہ چِتا میں جھونک دیتے ہیں
یا پھر آکاش کے نیچے کھلا ہی چھوڑ دیتے ہیں
مجھے تو یہ ہنر بالکل نہیں آتا
کے کیسے زرد موسم میں
کسی بھی سرد اور بے درد موسم میں
خوشی کا ایک بھی غنچہ
بھلا کیسے کھلاتے ہیں
یا کیسے آدھے راستے سے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں
مجھے بالکل نہیں آتا
مجھے تم سے محبت کے سوا
مگر وہ بھی کہاں آئی
کوئی ہنر بالکل نہیں آتا

بے اعتبار وقت پے جھنجلا کے رو پڑے
کھو کر کبھی اسے تو کبھی پا کے رو پڑے
خوشیاں ہمارے پاس کہاں مستقل رہیں
باہر کبھی ہنسے بھی تو گھر آ کے رو پڑے
کب تک کسی کے سوگ میں روے گے بیٹھ کر
خود کو یہ کیئ بار ہم سمجھا کر رو پرے

اے دوست بتا تو کیسا ہے
کیا اب بھی محلّہ ویسا ہے ؟
وہ لوگ پرانےکیسے ہیں ؟
کیا اب بھی وہاں سب رہتے ہیں ؟
جن کو میں تب چھوڑ گیا
دوکان تھی جوایک چھوٹی سی
کیا بوڑھا چاچا ہوتا ہے ؟
کیا چیزیں اب بھی ہیں ملتی
بسکٹ ، پاپڑ اور گولی
اور گولی کھٹی میٹھی سی ؟
بیری والے گھر میں اب بھی
کیا بچّے پتھر مارتے ہیں ؟
اوربوڑھی امّاں کیا اس پر
اب بھی شور مچاتی ہے ؟
بجلی جانے پر اب بھی
کیا خوشی منائی جاتی ہے
پھر چھپن چھپائی ہوتی ہے ؟
کیا پاس کسی کے ہونے پر
مٹھائی بھی بانٹی جاتی ہے ؟
بارش کے پہلے قطرے پر
کیا ہلّہ گلّہ ہوتا ہے ؟
اور غم میں کسی کے اب بھی
کیا پورا محلّہ روتا ہے ؟
گلی کے کونے میں بیٹھے
کیا دنیا کی سیاست ہوتی ہے ؟
گڈے گڑیوں کی کیااب بھی
بچوں میں شادی ہوتی ہے ؟
اے دوست بتا سب کیسا ہے
کیا محلّہ اب بھی ویسا ہے ؟
کیا اب بھی شام کو سب سکھیاں
دن بھر کی کہانی کہتی ہیں ؟
پرلی چھت سے چھپ چھپ کر
کیا اب بھی انہیں کوئی دیکھتا ہے ؟
کیا اب بھی چھپ چھپ کر ان میں
کوی خط و کتابت ہوتی ہے ؟
وہ عید پہ بکروں بیلو ں کا
کیا گھر گھرمیلہ سجتا ہے ؟
خاموش ہےتو کیوں دوست میرے
کیوں سر جھکا کر روتا ہے ؟
ہلکے ہلکے لفظ دبا کر کہتا ہے
سب لوگ پرانے چلے گئے
سب بوڑھے چاچا ، ماما ، خالو
خالہ ، چاچی ، امّاں
سب ملک عدم کو لوٹ گئے
گھر بکے اور تقسیم ہوئے
اپنےحصّے لے کر سب
اپنے مکاں بنا بیٹھے
انجانوں کی بستی ہے وہ
اب لوٹ کے تو کیا جائے گا
دل تیرا بھر بھر آئے گا….

اک ان کہی ، خموش محبت پہ بات کر
جو کر سکے تو باپ کی چاہت پہ بات کر
رکھتا ہے جس خلوص سے بچوں کے سر پہ ہاتھ
اس بے پناہ پیار پہ ، شفقت پہ بات کر
ماں کی فضیلتوں سے تو واقف ہیں سب یہاں
دل ہے کہ آج باپ کی عظمت پہ بات کر
اولاد کو جو پالتا ہے آن بان سے
اس با وقار شخص کی الفت پہ بات کر
کرتا نہیں ہے کوئی یہاں جس کا تذکرہ
تو رب کی اس عظیم عنایت پہ بات کر
بیٹی کی رخصتی پہ جو ہوتا ہے اشک بار
اس آبدیدہ باپ کی راحت پہ بات کر
اولاد کی خوشی میں جو ملتی ہے اس کو بھی
والد کی اس کمال مسرت پہ بات کر
اس بزم میں سبھی نے کی ہے “ماں” پہ گفتگو
چل اٹھ ذکی تو “باپ” کی حرمت پہ بات کر

اے جانے والے جا تجھے دعاؤوں سے خیر آباد کرتے ہیں
تیرے جانے کے بعد ،،،ہم بھی،، تجھ سے ملنے کی اِلتجاء کرتے ہیں
تُو نے جو چھوڑا اس طرح سے ،،
کہاں اور جینے کی تمنّا کرتے ہیں
سب سے دعاؤں کی التجاء ہے میرے کزن کے لئیے
اس طرح جانے سے رُک سی گئی زندگی کی گھڑی چاند
اب تو سیکنڈوں کو گھنٹوں میں گِنا کرتے ہیں
ملے تم کو ہر خوشی لحد سے جنت تک کی
جاؤ اب تیرے لیئے یہی التجاء کرتے ہیں
یہ چاند اُس چاند کی طرح جنت میں چمکے
اب اس دعاء سے الوداع کرتے ہیں

اونوں آکھیں ڈھیر نا رنا کر
دکھ رنیا ویندے مک نہیں۔۔۔!!
ساری زندگی ہکو جئے خوشیاں دے
میرا سجنڑ بھریندے بک نہیں۔۔۔!!
اودے نہوں نبھدی تاں واپس ول آ
انجے ہجر دی شاخ تے سک نہیں۔۔۔!!
تیرا سگواں سجنڑ “حیات” تاں ھاں
اوراں ٹر آ شرم تو لک نہیں۔۔۔!!

حسن سادہ کا وار آنکھیں ہیں
بِن ترے بے قرار آنکھیں ہیں
میری جانب ہے جو ترا چہرہ
میری جانب ہزار آنکھیں ہیں
عیب تیرا کہاں چھپے گا اب
شہر میں بے شمار آنکھیں ہیں
میں نے طرزِ وفا تھا اپنایا
اس لیے اشکبار آنکھیں ہیں
پارسائی کہاں گئی بولو
آج کیوں داغدار آنکھیں ہیں
ایک نقشہ تھا خواب کا کھینچا
اس لیے تار تار آنکھیں ہیں
جیسے ان میں سحاب رہتے ہوں
کتنی زار و قطار آنکھیں ہیں
جن کی تعبیر میں ملے وحشت
ایسے خوابوں پہ بار آنکھیں ہیں
وہ جو چہرہ ہی پڑھ نہیں سکتیں
کتنی جاہل گنوار آنکھیں ہیں
ہر نظر آر پار ہوتی ہے
ہائے کیا دل فگار آنکھیں ہیں
خواب دیکھا ربابؔ نے کیوں کر
کیوں بہت سوگوار آنکھیں ہیں
یوں ہی دکھ ہو جاویں گے کم شہزادے
آ جا سکھ کے خواب بنین ہم شہزادے
اپنے ہوش گنوا بیٹھی ہوں پھر سے آج
سوچ رہی ہوں تجھ کو ہر دم شہزادے
شہزادی کے خواب عذاب نہ کر جانا
ہو جاویں گی آنکھیں پُر نم شہزادے
میری روح میں تیری یاد اُترتی ہے
ہولے ہولے مدھم مدھم شہزادے
ایسا سخت تکلّم آخر کیوں بولو
کیوں رہتے ہو برہم برہم شہزادے
کب تک تنہا تنہا ٹوٹیں بکھریں گے
روح میں روح کو ہونے دے ضم شہزادے
شہزادے! کچھ اور نہ مانگے شہزادی
نکلے تیری بانہوں میں دم شہزادے
رفتہ رفتہ ہو گئے آخر تیرے نام
میرا جیون میرے موسم شہزادے
تجھ سے ہی مانوس ہوا سو توٗ جانے
جگ کیا جانے دل کا عالم شہزادے
آنسو تجھ کو ڈھونڈیں ہیں دیوانہ وار
شہزادی کی آنکھیں ہیں نم شہزادے
کب تک تنہا چُنتی جائے زخم ربابؔ
رکھ میٹھے لفظوں کے مرہم شہزادے
مزاج کی نہیں ہو پھر بھی سننی پڑتی ہے
کہ بات زہر بھی اُس کی نگلنی پڑتی ہے
یہ عشق ہے سو یہاں دیکھنے کا کام نہیں
کہ الٹے پاوں یہ سیڑھی اترنی پڑتی ہے
یہ آنکھ مفت میں کب خواب دیکھتی ہے میاں
اسے بھی نیند کی قیمت تو بھرنی پڑتی ہے
پرانے عشق کی تکمیل میں مگن ہے کوئی
برا نہ مان اُسے رہ بدلنی پڑتی ہے
یہ بے قراری وہیں سے نکالی جاتی ہے
ہماری آنکھ میں خوابوں کی چھلنی پڑتی ہے
تمہارے بعد محبت کسی سے کیا ہوگی
مگر یہ وقت گزاری تو کرنی پڑتی ہے
رباب ایسے نہیں وصل کی خوشی ملتی
کسیلی ہجر کی گولی نگلنی پڑتی ہے
اسی کا ذکر کہانی سے اقتباس رہے
وہ ہر گھڑی جو مرے واسطے اداس رہے
یہ اس کا قرب مجھے عشق کی عطا سے ملا
وہ دور جائے مگر میرے آس پاس رہے
طرح طرح سے مجھے تو بچھڑ بچھڑ کے ملا
طرح طرح کے مرے ذہن میں قیاس رہے
تمہارے غم کے سوا اور کوئی غم بھی نہ تھا
تمہارے درد مرے درد کی اساس رہے
وہ کتنے ناز سے کہنے لگے، رباب اگر
اداس رہنے لگی ہے تو پھر اداس رہے

درختوں کے پتوں کو
جب ہوائیں چھو کر گزرتی ہیں
وہ رقص کرتے ہیں
ہاں وہ رقص کرتے ہیں
وہ بھول جاتے ہیں
خزاں کے دور کو
آندھیوں کے زور کو
وہ بھول جاتے ہیں
پھر جوم جوم کر
ہر ڈالی کو چوم کر
وہ رقص کرتے ہیں
ہاں وہ رقص کرتے ہیں
درخت جانتے ہیں کہ
ان کی خوشیاں ہیں آرضی
اک ایسا دور آئے گا
جو ان کو توڑ جائے گا
آندھی کا ایک ہی جھٹکا
خوشیوں کا رخ موڑ جائے گا
مگر وہ خاموش رہتے ہیں
کیونکہ دیکھتے ہیں وہ
وہ رقص کرتے ہیں
ہاں وہ رقص کرتےہیں

♡ سنو جاناں ♡
چلو مان لیتے ہیں
تمہاری خوشی کی خاطر یہ بھی
تمہیں چھوڑ دیتے ہیں
کسی اور کا ہونے دیتے ہیں
پر اس بات کا یقین دلاؤ
تمہارے چلے جانے بعد
مجھے تمہارے یاد کبھی نہیں آئی گی
اگر ایسا ہی ہوا
تو ہم تمہیں چھوڑ دیتے ہیں
کسی اور کا ہونے دیتے ہیں
چلو مان لیتے ہیں
تمہاری خوشی کی خاطر یہ بھی
لیکن وہ اک شام جو اب بھی
میری آنکھوں میں بوجھل ہے
اسے کیسے گزارو گے
تمہیں وہ شام یاد تو آئی گی نا

دنیا کیا ہے ؟
اک جنگل ہے۔
کیا کرتے ہو ؟
اُس سے محبّت۔♥♥
کیا سوچا ہے ؟
اُس سے محبّت۔♥
دل کی خواہش ؟
اُس کو پانا ۔♥
مطلب پیشہ ؟
اُس سے محبّت۔♥♥♥
لب کی خواہش ؟
اُس کا ماتھا۔♥
میٹھا کیا ہے ؟
اُسکا لہجہ۔♥
کڑوا کیا ہے ؟
میری باتیں۔
خوشیاں کیا ہیں ؟
اُس کا ہونا۔♥
تو غم کیا ہے ؟
اُس سے جدائی۔
سردی کیا ہے ؟
اُس کی اداسی۔
ساون کیا ہے ؟
اُس کا رونا۔
اور بہاریں ؟
اُس کا ہنسنا۔♥
عرض کیا ہے۔
جھیلیں کیا ہیں ؟
اس کی آنکھیں۔♥
عمدہ کیا ہے؟
اُس کا چہرہ۔♥
لب کی خواہش ؟
اُس کا ماتھا۔♥
کیا پڑھنا ہے ؟
اس کا لکھا۔♥
کیا سننا ہے ؟
اُس کی غزلیں۔♥
اور تم کیا ہو ؟
مجنو اس کا۔ ♥
اور وہ کیا ہے ؟
لیلیٰ میری ۔♥
Conclusion
Happiness grows when we notice small blessings. With these Khushi quotes in Urdu, you can brighten your day, inspire your friends, and keep your heart light. Save a few favorites, share them freely, and return anytime you need a gentle reminder to smile.
Thank You
Thanks for visiting! We hope these Urdu happiness quotes add warmth to your day. If you enjoyed them, share this page with someone who could use a little khushi today.
FAQs: Khushi Quotes in Urdu
1) What are Khushi quotes in Urdu?
They’re short, meaningful lines in Urdu that talk about joy, peace, gratitude, and positive living. Perfect for statuses, captions, and daily motivation.
2) Why should I read happiness quotes in Urdu?
Urdu has a soft, poetic tone. Reading Urdu happiness quotes feels calming and inspiring—great for resetting your mindset.
3) Can I use these quotes for social media captions?
Yes! Khushi quotes in Urdu for Instagram, Facebook, WhatsApp, or TikTok captions work perfectly—short, deep, and shareable.
4) Are there short one-line Urdu quotes for happiness?
Absolutely. Short lines like “Khushi dil se paida hoti hai” or “Shukr se zindagi haseen hoti hai” are ideal for quick statuses.
5) How do Khushi quotes help with stress?
They encourage gratitude and positive focus. Reading a few uplifting lines can shift your mood and reduce stress.
6) Can I share these quotes with friends and family?
Please do! Sharing Urdu quotes about happiness spreads love and positivity in your circle.
7) What are some keywords to find more quotes?
Try: Khushi quotes in Urdu, Urdu happiness quotes, Urdu positive quotes, Urdu motivational quotes, Urdu life quotes.
8) Any tips to use these quotes daily?
Pick one quote each morning, set it as your phone wallpaper or status, and revisit it during the day for a quick lift.