Jaun Elia Best Quotes

سارے رشتے تباہ کر آیا
دل برباد اپنے گھر آیا

دید حیران اس گلی میں ہے
کیا عجب شان اس گلی میں ہے

میں اگر کہہ بھی دوں چلے جاؤ
تم میرا__ اعتبار مت کرنا

وہ مجھے بھول بھی تو سکتا ہے
اس کا ایمان تو نہیں ھوں میں.

کیا خبر راہ میں مجھ سے کوئی سر ٹکرا دے
ہوں گے کچھ اور بھی مدہوش مرے ساتھ رہو

”بعض لوگوں کے لیے دودھ
حرام اور ملائی حلال ہوتی ہے
…..?
ذرا سوچیے غور کیجیے،

قیامت خیز ہیں آنکھیں تمہاری
تم آخر خواب کس کے دیکھتے ہو۔

برباد ہوگئی میری دنیائے جستجو
دنیائے جستجو میری دنیا چلی گئی

وہ اتفاق سے راستے میں مل جاے کہیں
بس اسی شوق نے ہمیں آوارا بنادیا.

آؤ، آپس میں کچھ گلے کر لیں
ورنہ یوں ہے کہ پھر گلے بھی کہاں

اس کے غم میں کیا سبھی کو__ معاف
کوئی شکوہ بھی اب کسی سے__نہی

بے نام و نشاں زخم ہیں سینے میں ہمارے
کچھ وار ہوئے ہیں جو مقابل کے نہیں ہیں

گلہ کر اب بچھڑنے میں ہمارے
میری جان کوئی دشواری نہیں ہے

عجب ناقدر ہے وہ شخص اپنا
مجھے کہنا پڑا ہر اک سے مت مل

میں تم کو بھول جاؤں بھولنے کا دکھ نہ بھولوں گا
نہیں ہے کھیل یہ آسان میرا جی نہیں لگتا

جسم و جاں کو تو بیچ ہی ڈالا
اب مجھے بیچنی ہے لاش اپنی

دل کی ہر بات دھیان میں گزری
ساری ہستی گمان میں گزری

ہم نے حصے میں صرف غم پایا
آج یوں قسمتیں ہوئی تقسیم

تری بانہوں سے ہجرت کرنے والے
نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں

میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو

آج بہت دن بعد میں اپنے کمرے تک آ نکلا تھا
جوں ہی دروازہ کھولا ہے اس کی خوشبو آئی ہے

!!!…..میں وہ کیوں بنوں جو تمہیں چاہیۓ
تمہیں وہ کیوں قبول نہیں جو میں ہوں

ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر
سوچتا ہوں تیری حمایت میں

تیری آنکھیں بھی کیا مصیبت ہیں
میں کوئی بات____کہنے آیا تھا

وہ میرا اک گمان کہ منزل تھا جس کا نام
ساری متاعِ شوقِ سفر اس میں گم ہوئی

حد ادب کی بات تھی ، حد ادب میں رہ گئی
میں نے کہا میں چلا ، اُس نے کہا کہ جائیے

جانے مُجھ سے کون کہتا تھا
آپ اپنا خیال تو رکھیے

روح آزاد ہو ، مجبور تقاضا نہ رہے
ہے تمنا کہ مجھے کوئی تمنا نہ رہے

اک طرف میں ہوں ، اک طرف تُم ہو
جانے کس نے کسے خراب کی

جرم میں ہم کمی کریں بھی کیوں
تم سزابھی تو کم نہیں کرتے

انھیں میں تیری تمنا کافن سکھاتاہوں
جو لوگ تیری تمنا سے ڈرنے لگتے ہیں

بہت نزدیک آتی جارہی ہو
بچھڑنے کا ارادہ کرلیا کیا ؟

تری بانہوں سے ہجرت کرنے والے
نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں

غم بانٹنے کی چیز نہیں پھر بھی دوستو
اِک دوسرے کے حال سے واقف رہا کرو

! __کتنے جھوٹے تھے ہم محبت میں
!__تم بھی زندہ ہو ہم بھی زندہ ہیں

تم سوچتی بہت ہو تو پھر یہ بھی سوچنا
میری شکست اصل میں کس کی شکست ہے

اب اٹھا بھی لو جنازہ….؟؟
لگ رہا ہے وہ نہیں آئیں گے__؟.

وہ میرا اک گماں کہ منزل تھا جس کا نام
ساری متاعِ شوقِ سفر اس میں گم ہوئی

بکھرا ہوا ہوں صرصر شام فراق سے
اب آ بھی جاؤ اور مجھے آ کر سمیٹ لو

چاہ میں اسکی طمانچے کهائے
دیکھ لو سرخی میرے رخسار کی۔۔۔

اُس کے اور میرے درمیاں نکلا
عُمر بھر کی جُدائی کا رشتہ۔۔۔۔

ایک ہی اپنا ملنے والا تھا
ایسا بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں

!!..کچھ سانپ نایاب تھے حیات سفر میں
!!..نہ چاہتے ہوۓ بھی آستین میں پالنے پڑے

دیکھ لو میں کیا کمال کر گیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
زندہ بھی ہو اور انتقال کر گیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

!!……. میری راتیں مجھے اکثر:
!!……….سلانا بھول جاتی ہیں

ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم
ہر بار تم سے مل کر بچھڑتا رہا ہوں میں

وہ جو تعمیر ہونے والی تھی
لگ گئی آگ اس عمارت میں

ایک ناٹک ہے زندگی جس میں
آہ کی جائے ، واہ کی جائے

مدتوں ان کے تصور میں گزاریں راتیں
مدتوں ان کی توجہ سے گریزاں بھی رہے

غلط راستے پر چلی جا رہی ہے
زرا بڑھ کے دنیا کو آواز دینا

میں اگر کہہ بھی دوں، “چلے جاؤ”
تم میرا اعتبار مت کرنا

کیا سنائیں تمھیں حکایت دل
ھم کو دھوکہ دیا گیا جاناں

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں

ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جونؔ یاروں کے یار تھے ہم تو

مجھ کو عادت ہے روٹھ جانے کی
آپ مجھ کو منا لیا کیجے

مرا اِک مشورہ ہے اِلتجا نئیں
تو میرے پاس سے اس وقت جا نئیں

داستاں ختم ہونے والی ہے
تم مری آخری محبت ہو

گماں نہیں ہے یقیں ہے میرا یقین کرو
کوئی کسی کا نہیں ہے میرا یقین کرو۔۔۔

تھی جو خوشبو صبا کی چادر میں
وہ تمہاری ہی شال کی ہوگی

یہ نہ پوچھو بچھڑ کے تم سے مجھے
کتنے برس اس کا غم رہا جاناں

شہر تعبیر ہو گیا آباد
خواب برباد ہو گیا جاناں

کیا خبر راہ میں مجھ سے کوئی سر ٹکرا دے
ہوں گے کچھ اور بھی مدہوش مرے ساتھ رہو

ستم یہ ہے کہ تمہارا نام لے کر
میری ہنسی اڑائی جا رہی ہے

کیا کہیں کچھ نہیں ہے کہنے کو
ہاے کیا غم مِلا ہے سہنے کو

ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر
اُس کے بغیر، اُس کی تمنا کیے بغیر

!تیری نگاہ ناز میں میرا وجود!بے وجود
میری نگاہ شوق میں،تیرے سوا کوی نہیں

گزر جائیں گے اک دن ہم بھی
تم بھی تو حد سے گزر گئے ہو

کون کہتا گهر گیا تها میں
اس کے جاتے ہی مرگیا تها میں

برہنہ ہیں سر بازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم

بہت محبتـــــ ” تھی” آپـــــ سے صـاحب۔۔
“تــھی” کا مطلبـــــــ تو جانتے ہیں نا ۔۔۔ ؟

اشک آنکھوں میں,لہجے میں تھکن اتار بیٹھا ہوں
عجیب شخص ہوں…..خود ہی سے ہار بیٹھا ہوں

غمِ فرقت کا شکوا کرنے والی
مری موجودگی میں سو رہی ہے

تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی
کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو

وہ میرا اک گمان کہ منزل تھا جس کا نام
ساری متاعِ شوقِ سفر اس میں گم ہوئی

حد ادب کی بات تھی ، حد ادب میں رہ گئی
میں نے کہا میں چلا ، اُس نے کہا کہ جائیے

انھیں میں تیری تمنا کافن سکھاتاہوں
جو لوگ تیری تمنا سے ڈرنے لگتے ہیں

…ہاں میں نے __ توڑا ہے
…آئینہ مجھ پہ ___ہنستا تها

تم نے اچھا کیا تنہائی دی
کچھ نہ دیتے تو گلہ رہتا،

بے ملے ہی بچھڑ گئے ہے ہم تو
سؤ گلے ہیں کوئی گلہ ہی نہیں

،تم تماشہ سمجھتے ہو
خدارہ! زندگی ہے یہ میری۔

تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے
ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں

تم کو اپنایا تھا تم کو چھوڑ بھی سکتا ہوں میں
بت بناتا ہی نہیں ہوں توڑ بھی سکتا ہوں میں

یہی تو محبت ہے یارو کہ اب وہ
ہماری طرف کم سے کم دیکھتے ہیں

ہم عجب ہیں کہ اس کی باہوں میں
شکوۂ نارسائی کرتے ہیں

ہم کو ہرگز نہیں خدا منظور
یعنی ہم بے طرح خدا کے ہیں

اب کہ جب جانانہ تم کو ہے سبھی پر اعتبار
اب تمہیں جانانہ مجھ پر اعتبار آیا تو کیا

پھر اس گلی سے اپنا گزر چاہتا ہے دل
اب اس گلی کو کون سی بستی سے لاؤں میں

میں سہوں کرب زندگی کب تک
رہے آخر تری کمی کب تک

اور کتنی کروں اداکاری ؟؟
خون لگتا ہے مسکرانے میں۔۔۔

ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں
اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں

،ممکن کہاں ہے تجھ سے جدائی متاع جاں
!!..تو ہے میرا لباس، میں تیرا لباس ہوں

اے زندگی بتا کہ سرِ جادۂِ شباب
یہ کون کھو گیا ہے؟؟کسے ڈھونڈتا ہوں میں؟

کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم

کیوں ہمیں کر دیا گیا مجبور؟؟؟
خود ہی بے اختیار تھے ہم تو
خوش نہ آیا ہمیں جیے جانا
لمحے لمحے پہ بار تھے ہم تو
(بے سبب بار بار تھے ہم تو)
سید جون ایلیاء

کتنا رویا تھا میں تیری خاطر
اب جو سوچوں تو ہنسی آتی ہے

وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا

کیا میں آنگن میں چھوڑ دوں سونا
جی جلائے گی چاندنی کب تک

سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا

میں خود نہیں ہوں کوئی اور ہے مرے اندر
!_جو تم کو اب بھی ترستا ہے اب بھی آجاؤ

کبھی اُف ، کبھی ہائے ، کبھی فریاد کرتے ہیں
خدایا کیوں نہیں ملتے جنہیں ہم یاد کرتے ہیں

کیا کہا خواب میں دیکھا ہے مجھے
اس کا مطلب کہ سو لیا تم نے؟

آپ بس مجھ میں ہی تو ہیں، سو آپ
__مـیرا بـے حـد خـیال کـیجیئـے گا

عشق سمجھے تھے جس کو وہ شاید
تھا بس اک نارسائی کا رشتہ
میرے اور اُس کے درمیاں نکلا
عمر بھر کی جدائی کا رشتہ

دل کو اب یہ بھی یاد ہو، کہ نہ ہو
کون تھا، کیا ملال چھوڑ گیا

یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
…وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے

تم تو چل بسے جون ایلیاء
ہم پہ جو گزری بیاں کون کرے گا
#مرشد_جون_ایلیاء

،تم اہلِِ نظر ھو تو تمہیں کیوں نہیں آتا
.نظروں کی گُزارش کو سمجھنے کا سلیقہ

تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی
کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو

دید تھی انتظار کے مانند
وصل تھا ہجر یار کے مانند

بچھڑ کر تیرے آستاں سے۔۔
…..لگایا جی بہت پر جی لگا نہیں

ہوں بیحد تنگ اپنے آپ سے میں

مدت ہوئی کہ آپ نے دیکھا نہیں ہمیں
. مدت کے بعد آپ سے دیکھا نہ جائے گا

جو زندگی بچی ہے اسے مت گنوائیے
بہتر یہی ہے آپ مجھے بھول جائیے

کتنی وحشت ہے درمیانِ ہجوم
جس کو دیکھو، گیا ہوا ہے کہیں

اب کوئی مجھ کو دلائے نہ محبّت کا یقیں
جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وہی بھول گئے

بچھڑ کے یاد نہیں کتنے ماہ و سال ہوئے
سیاہ لے کے چلے تھے، سفید بال ہوئے

اُڑتے جاتے ہیں دھول کی مانند
آندھیوں پر سوار تھے ہم تو

صدقہ ہوں کسی کا مجھے وار دیجئے
کسی کام کا نہیں ہوں مجھے مار دیجئے

تم جو ہوتے کبھی ساتھ نبھانے والے
محبتوں میں ہمارا قِصّہ مثال ہوتا

کیا کہا خواب میں دیکھا ہے مجھے
اس کا مطلب کہ سو لیا تم نے؟

سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا

کیا میں آنگن میں چھوڑ دوں سونا
جی جلائے گی چاندنی کب تک

دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت
خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا؟

وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا

کیا کہیں، کچھ نہیں ہے کہنے کو
..ہائے! کیا غم ملا ہے سہنے کو

آؤ، آپس میں کچھ گلے کر لیں
ورنہ یوں ہے کہ پھر گلے بھی کہاں

،بے دلی اس قدر ہے کہ آج ہمیں تم سے
کچھ نہیں چاہیۓ حتٰی کے محبت بھی نہیں

میری تو منتیں بھی ابھی باقی ہیں۔
اتنی جلدی وہ شخص بچھڑ گیا مجھ سے۔۔

نظر حیران دل ویران میرا جی نہیں لگتا
بچھڑ کے تم سے میری جان میرا جی نہیں

مجھ سے تم کام نہ لو کام میں لاؤ مجھ کو
کوئی تو شہر میں ایسا ہے کہ بیکار نہیں

جانے مجھ سے یہ کون کہتا تھا
آپ اپنا خیال تو رکھیئے

ہو گئے ہیں اک اور شخص کے ہم
مگر اس شخص کا جواب کہاں

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

اشک آنکھوں میں,لہجے میں تھکن اتار بیٹھا ہوں
عجیب شخص ہوں…..خود ہی سے ہار بیٹھا ہوں

دل کا جلسہ بکھر گیا تو کیا
سارے جلسے بکھرتے رہتے ہیں

ہم ترا ہجر منانے کے لیے نکلے ہیں
شہر میں آگ لگانے کے لیے نکلے ہیں

صلیب وقت پر میں نے پکارا تھا محبت کو
میری آواز جس نے بھی سنی ہوگی ہنسا ہوگا

آئیے نہ ، سمیٹیۓ مجھ کو
دیکھئیے نہ ، بکھر گیا ہوں میں

نظر حیران دل ویران میرا جی نہیں لگتا
بچھڑ کے تم سے میری جان میرا جی نہیں

مجھ سے تم کام نہ لو کام میں لاؤ مجھ کو
کوئی تو شہر میں ایسا ہے کہ بیکار نہیں

کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو

دوستو ہم نے اپنا حال اسے
جب بھی لکھا خراب ہی لکھا

اشک آنکھوں میں,لہجے میں تھکن اتار بیٹھا ہوں
عجیب شخص ہوں…..خود ہی سے ہار بیٹھا ہوں

دل کا جلسہ بکھر گیا تو کیا
سارے جلسے بکھرتے رہتے ہیں

آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں
دل مری جان مر گیا کب کا

میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے
اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو

کیا ہیں وہ اپنی وعدہ گاہیں
ہر چیز بدل گئی یہاں تو
میں شہر وفا سے آرہا ہوں
کوئی بھی نہیں ملا وہاں تو

ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر
اُس کے بغیر، اُس کی تمنا کیے بغیر

عاجزی، منت،——— خوشامد، التجا
اورمیں کیا کیا کروں__مرجاؤں کیا؟؟

الوداع کہہ چکے ہیں تمہیں
جاؤ,, آنکھوں پہ دھیان نہ دو۔

تم سے بھی اب تو جا چکا ہو میں
دور ہاں دور اچُکا ہو میں
یہ بہت غم کی بات ہو شاید
اب تو غم بھی گنوا چکا ہو میں

گنہگار ہوں گنہگاروں سےہےواسطہ میرا
پرہیز گاروں سے میں اکثر پرہیز کرتا ہوں

سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں
بحث کیا تھی اسی کو بھول گیا

اس کے ہونٹوں پہ رکھ کے ہونٹ اپنے
بات ہی ہم تمام کر رہے ہیں

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم

ستم یہ ہے کہ تمہارا نام لے کر
میری ہنسی اڑائی جا رہی ہے

تجھ کو کھو کر ہی تو یہ عہد کیا ہے خود سے
اب کسی شخص کی عادت نہیں ہونے دینی

صدموں سے لوگ مر نہیں جاتے
تمہارے سامنے ہے مثال میری

تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی
کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو

بچھڑ کر تیرے آستاں سے۔۔
…..لگایا جی بہت پر جی لگا نہیں

غارتِ روز و شب کو دیکھ، وقت کا یہ غضب تو دیکھ
کل تو نڈھال بھی تھا میں، آج نڈھال بھی نہیں
میرے زبان و ذات کا ہے یہ معاملہ کہ اب
صبحِ فراق بھی نہیں، شامِ وصال بھی نہیں

صلیب وقت پر میں نے پکارا تھا محبت کو
میری آواز جس نے بھی سنی ہوگی ہنسا ہوگا

ہے اپنے اپنے طور پہ ہر چیز اس گھڑی
مژگانِ خشک و دامنِ تر خیریت سے ہیں
ہم جن گھروں کو چھوڑ کے آئے تھے ناگہاں
شکوے کی بات ہے وہ اگر خیریت سے ہیں

جب تری جان ہو گئی ہو گی
جان حیران ہو گئی ہو گی

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ مَلتے ہیں

جانے کیا واقعہ ہوا، کیوں لوگ
…اپنے اندر نہیں رہے آباد

دکھ ہوا آج دیکھ کر اس کو
وہ تو ویسی ہی خوبصورت ہے

کیا کہا دهواں پسند ہے انہیں
!!!!تو کیا آگ لگا لوں خود کو

کون ہے یہ میری میت پر صفہِ ماتم بچھائے ہوئے
ہوگئی ہو اگر اداکاری____تو اُٹھو دفناؤ مجھے

کوٸ ہمارا بھی تھا
،،،غالب
خدا جانے کب کی بات ہے

بچھڑ کر تیرے آستاں سے۔۔
…..لگایا جی بہت پر جی لگا نہیں

وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا

دلیلوں سے اسے قائل کیا تھا
دلیلیں دے کے اب پچھتا رہے ہیں

یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم

وقت کے راستے سے ہم تم کو
ایک ہی ساتھ تو گزرنا تھا
ہم تو جی بھی نہیں سکے اک ساتھ
ہم کو تو اک ساتھ مرنا تھا

اور جنازے میں ہو یہ شور حزیں
آج وہ مر گیا جو تھا ہی نہی

تمہارے پاس تو پھر بھی تم ہو
میرے پاس تو میں بھی نہیں

یار علاج کرو میرا
مجھے رات بھر نیند نہیں آتی

وہ بات جس کا گلہ تک نہیں مجھے، پر ہے
کہ میری چاہ نہیں تھی، میری ضرورت تھی

دید تھی انتظار کے مانند
وصل تھا ہجر یار کے مانند

اسے معلوم تھا یہ شام جدائی ہے سو ہم
آخری بار بہت دیر اکھٹے بیٹھے

وہ اتفاق سے رستے میں مل جائے کہیں
بس اسی شوق نے ہمیں آوارہ بنا دیا ہے

سونگھ لو ان کا تار تار کفن
اب یہ خوشبو! دہر نہ آئے گی
دیکھنے والے دیکھ لیں صورت
پھر یہ صورت نظر نہ آئے گی

کیا خبر راہ میں مجھ سے کوئی سر ٹکرا دے
ہوں گے کچھ اور بھی مدہوش مرے ساتھ رہو

عہد رفاقت ٹھیک ہے لیکن مجھ کو ایسا لگتا ہے
تم تو میرے ساتھ رہو گی میں تنہا رہ جاؤں گا

یہ تو عالم ہے خوش مزاجی کا
گھر میں ہر شخص سے الجھتا ہوں

کچھ ایسے بھی ہیں جن سے تو ملا کر
مرا کہنا ہے کیا ہر اک سے مت مل

دل نے وحشت گلی گلی کر لی
اب گلہ کیا، بہت خوشی کر لی
یار! دل تو بلا کا تھا عیاش
اس نے کس طرح خود کشی کر لی

بیوفائی کا کچھ تو لیں بدلہ
کوئی الزام اس پہ دھر چلیے

وقت درماں پذیر تھا ہی نہیں
دل لگایا تھا، دل لگا ہی نہیں
ایک ہی اپنا ملنے والا تھا
ایسا بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں

کون سودوزیاں کی دنیا میں
دردِ غربت کا ساتھ دیتا ہے
جب مقابل ہو عشق اور دولت
حسن دولت کا ساتھ دیتا ہے
سرکار جون ایلیا

جو مرنے پر تٌلا ھے
اس نے جی کر بھی تو دیکھا ھوگا

کیا طور اب گلے کا کریں اختیار ہم
اک طور بے طرح ہے کہ فرقت گزر میں ہے

!.کوئے جاناں میں سوگ برپا ہے
!.کہ اچانک سدھر گیا ہوں میں

کتنے چارہ گروں نے زحمت کی
پر وہی میرا حال ہے تاحال

اتنا تو جانتا ہوں کہ اب تیری آرزو
بیکار کر رہا ہوں ، اگر کر رہا ہوں میں

یه کون شخص ھے___اس کو ذرا بلاؤ تو
یہ میرے حال پے کیوں مسکرا کے گزرا ھے

سب سمجھتے ہیں میں تمہارا ہوں
تم بھی رہتے ہو اس گماں میں کیا

کیا کہا خواب میں دیکھا ہے مجھے
اس کا مطلب کہ سو لیا تم نے؟

ایک ناکام محبت ھی ، ھمیں کافی ھے
…ھم دوبارہ بھی اگر کرتے،تو خسارہ ھوتا

ﺍﺏ ﺧﻮﺷﯽ ﺩﮮ ﮐﮯ ﺁﺯﻣﺎ ﻟیجئے
!…ﺍﻥ ﻏﻤﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺮﺗﺎ

آپ کو کون ”تم” پُکارے گا؟؟
آپ کس کو کہا کریں گی ”آپ؟؟

اور میرے دل کو بھایا تھا بس ایک شخص
آہ…..! مگر بخت کی ___ سیاہ بختی

فکر اپنے شرابیوں کی نہ کر
لڑکھڑاتے چلے گئے ہوں گے

اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی

زندگی سے بہت بدظن ہیں
کاش اک بار مر گئے ہوتے

خوش نہ آیا ہمیں جیے جانا
لمحے لمحے پہ بار تھے ہم تو

ہائے جون اس کا وہ پیالۂ ناف
جام ایسا کوئی ملا ہی نہیں

لال ہیں اس کے ہونٹ اور کتنے
تو انہیں اور لال مت کیجو

کچھ تو رشتہ ہے تم سے کم بختو
کچھ نہیں کوئی بد دعا بھیجو

یہ بہت غم کی بات ہو شاید
اب تو غم بھی گنوا چکا ہوں میں

عمر ترتیب سے نہیں گزری اپنی
!!ٹھیک ملنے کے وقت بچھڑے ہم۔۔۔۔

کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں
!!..کیا سِتم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

میرے خیال میں توہین ہے جوانی کی
!!__یہ میرا عین جوانی میں پاگل ہونا

!!!جاو قاصد پتا کرو۔ وہ ٹھیک تو ہے۔۔۔
میں نے خواب میں خود کو مرتے دیکھا ہے

مجھ کو عادت ہے روٹھ جانے کی
آپ مجھ کو منا لیا کیجے

آپ جو میری جاں ہیں میں دل ہوں
مجھ سے کیسے جدائی کرتے ہیں

آئینوں کو زنگ لگا
اب میں کیسا لگتا ہوں

غیر کے دل میں گر اترنا تھا
میرے دل سے اتر گئے ہوتے

کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں
!!..کیا سِتم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
جون_ایلیاء

یوں جوانی تباہ کرنے کا
مجھ کو ہوتا نہ اختیار اے کاش
جون ایلیاء

سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے
جون ایلیا

اور کیا کرسکتا ہو اپنی بے بسی پر
ہنستا ہوں ، روتا ہو ، اور سو جاتا ہو

کچھ بھی کیا ہو ہم نے ، کہیں بھی گئے ہوں ہم
!!حد سے تمہاری یاد کی باہر گئے ہیں کیا۔۔۔۔

تھکا دیا ہے تمھارے فراق نے مجھکو ۔ ۔ ۔
کہیں میں خود کو گِرا لوں اگر اجازت ہو

ﮨﺎﺋﮯ ___ﺻﺪﻗﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﺭﮐﮭﻮﮞ؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﺠﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﺗﺤﻔﮯ ﻣﯿﮟ

تیری گلیوں میں ہو کے ہم بدنام
کتنے شہروں میں نیک نام ہوئے

،تم تماشہ سمجھتے ہو
خدارہ! زندگی ہے یہ میری۔

وصل ہر لمحے کی جدائی ہے
خود سے اور تجھ سے میں ٹلا، تو جا
مجھ کو تیری تلاش کرنا ہے
لے میاں! خود سے میں چلا، تو جا

سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے

کچھ بھی کیا ہو ہم نے ، کہیں بھی گئے ہوں ہم
!!حد سے تمہاری یاد کی باہر گئے ہیں کیا۔۔۔۔

اس کی جُنبش ہے تِشنگی انگیز
حشرِحالت ہے وہ پیالۂ ناف
یار پستاں تو گوشت پارے ہیں
رمز نزہت ہے وہ پیالۂ ناف
جون ایلیا

کون کہتا ہے یہ سویرا ہے
دل کے گھر میں بڑا اندھیرا ہے

!…تم کو جہان شوق و تمنا میں کیا ملا
ہم بھی ملے تو درہم و برہم مِلے تمہیں

مجھے محسوس ہوتا ہے مجھ سے
یقیناً اِک جسارت ہوگئی ہے
تمہیں کوئی شکایت تو نہ ہوگی؟
مجھے تم سے محبت ہو گئی

میرے مرنے سے کچھ نہیں ہوگا
میرے ہونے سے کچھ ہوا ہے کیا

تیرے بغیر گزارا نہیں کسی صورت
اسے یہ بات بتانے سے بات بگڑی ہے

مجھے محسوس ہوتا ہے مجھ سے
یقیناً اِک جسارت ہوگئی ہے
تمہیں کوئی شکایت تو نہ ہوگی؟
مجھے تم سے محبت ہو گئی

میں خود چاہتا ہوں کہ خراب ہو حالات
میرے خلاف زہر اُگلتا پھرے کوئی

مر چکا ہے دل مگر زندہ ہوں میں
زہر جیسی کچھ دوائیں چائیں
پوچھتے ہیں آپ , آپ اچھے تو ہیں
…جی میں اچھا ہوں دعائیں چاہیں

،،چبالیں کیوں نہ خودہی اپنا #ڈھنچا
،،تمہیں #راتب مہیا کیوں کریں ہم

کبھی جب مدتوں کے بعد اُس کا سامنا ہو گا
سوائے پاس آدابِ تکلّف اور کیا ہو گا ؟
ہنسی آتی ہے مجھ کو مصلحت کے ان تقاضوں پر
کہ اب ایک اجنبی بن کر اُسے پہچاننا ہو گا

اور جن سے مان جُڑے ہوتے ہیں وہ لوگ
ایسے چُھپتے ہیں کہ الہام بھی نہیں ہوتا

وقت درماں پذیر تھا ہی نہیں
دل لگایا تھا، دل لگا ہی نہیں
ایک ہی اپنا ملنے والا تھا
ایسا بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں

مُسکرائے ہم اُس سے ملتے وقت
رو نہ پڑتے اگر خوشی ہوتی

نہ کوئی عہد نبھائے نہ ہمنوائی کرے
اسے کہہ دو تسلی سے بیوفائی کرے۔

اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفاکا ذکر
کاش!اس زباں درازکامنہ نوچ لے کوئی

اب کی بار اس کا حذف میری اناتھی
سو صلح کا پرچم جلادیامیں نے ۔

میں بھی کتناعجیب ہوں اتناعجیب ہوں
کہ بس خود کوتباہ کرلیا اورملال بھی نہیں۔

آج وہ پڑھ لیا جس کو پڑھانہ جاسکا
آج کسی کتاب میں کچھ بھی لکھاہوانہیں۔

کیا ستم ہے کہ اب تیری صورت
غورکرنے پہ یاد آتی ہے ۔

وفا۔۔۔اخلاص۔۔۔قربانی۔۔۔محبت۔۔۔
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم۔۔۔؟
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم ۔۔؟
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم ۔۔؟

ہے اپنے اپنے طور پہ ہر چیز اس گھڑی
مژگانِ خشک و دامنِ تر خیریت سے ہیں
ہم جن گھروں کو چھوڑ کے آئے تھے ناگہاں
شکوے کی بات ہے وہ اگر خیریت سے ہیں

تو نے پوچھی نہ خیریت جس کی
حال اس کا خراب ہے تاحال

آپ نے جس کو کہ دیا اپنا
وہ تو سنتے ہی مر گیا ہو گا

نیند آئے گی تو اس قدر سوئیں گے
ہمیں جگانے کے لیے لوگ روئیں گے۔۔۔

ہاں کسی کو بہت چاہتے تھے ہم
خیر اب بات پرانی ہوگئی

اب میں رہ گیا ہوں راتوں میں
مر گئے جون ! مر گئے میرے دن

اسے بھی اب کوئی دلدار مل گیا ہو گا
ہمیں بھی اب کوئی حسرت نہیں جگاتی ہے
ترے بغیر مجھے چین کیسے پڑتا ہے
مرے بغیر تجھے نیند کیسے آتی ہے

بات ہی، کب کسی کی، مانی هے
اپنی هٹ پوری کرکے چهوڑو گی
یہ کلائی— یہ جسم، اور، یہ کمر
تم صراحی—— ضرور توڑو گی

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کی

مجھ کو عادت ہے روٹھ جانے کی
آپ مجھ کو منا لیا کیجے ۔۔

مر چکا ہے دل مگر زندہ ہوں میں
زہر جیسی کچھ دوائیں چائیں
پوچھتے ہیں آپ , آپ اچھے تو ہیں
جی میں اچھا ہوں دعائیں چاہیں

کیسے کیسے جھگڑے ہیں اِس شکستہ حالی میں
ہم شکستہ حالوں سے ، ہم شکستہ حالوں کے

اب میں سارے جہاں میں ہوں بدنام
اب بھی تم مجھ کو جانتی ہو کیا

صدموں سے لوگ مر نہیں جاتے
تمہارے سامنے ہے مثال میری

….جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں
….تم سزا بھی تو کم نہیں کرتے

….ہر کسی سے بچھڑ گیا ہوں میں
….کون دل میں میرا ملال رکھے
….شہرِ ہستی کا اجنبی ہوں میں
….کون آخر میرا خیال رکھے

….چند سانسوں کا کهیل باقی هے پهر آپ رونے والے هیں

تیرا لہجہ بتا گیا ۔۔۔۔۔ مجھ کو
تیرے دل میں عارضی تھا میں

میں جب اوسان اپنے کھونے لگتا ہوں تو ہنستا ہوں
میں تم کو یاد کر کے رونے لگتا ہوں تو ہنستا ہوں

اب تو کچھ بھی نہیں ہوں میں ویسے
کبھی وہ بھی تھا مبتلا میرا

سو جاٶ کہ
ایک اور اُداس دن
تمھاری راہ دیکھ رہا ہے۔
انتظار میں ہے اک صبح جسمیں
مشین کی طرح کام اور ناکام امیدیں
تمھارا راستہ دیکھ رہی ہونگی۔

اب میرے اشک محبت بھی نہیں آپ کو یاد
آپ تو اپنے ہی دامن کی نمی بھول گئے
اب مجھے کوئی دلائے نہ محبت کا یقیں
جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وہی بھول گئے

ایک ناکام محبت ھی ، ھمیں کافی ھے
…ھم دوبارہ بھی اگر کرتے،تو خسارہ ھوتا

آؤ آپس میں کچھ گلے کر لیں
ورنہ یوں ہے کہ پھر گلے بھی کہاں

اے جانِ داستاں کبھی آیا تجھے خیال؟
وہ لوگ کیا ہوئے جو تیری داستاں کے تھے۔۔

شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں۔۔۔

کس کو فرصت کہ مجھ سے بحث کرے
اور ثابت کرے کہ میرا وجود۔۔
زندگی کے لیے ضروری ہے

میں جو ہوں اک حیرت کا سماں
کیا وہ سماں ہوں میں یا میں

میری دوئی ہے میرا زیاں
اپنا زیاں ہوں میں یا میں

نہیں مِلا ہے کوئی تجھ سا آج تک مجھ کو
..پھر یہ ستم الگ ہے کہ مِلا تو بھی نہیں

گذر آیا میں چل کے خود پر سے
اک بلا تو ٹلی مرے سر سے
مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے

کیا تکلف کریں ، یہ کہنے میں
جو بھی خُوش ہے ، ہم اُس سے جلتے ہیں

اب کون ُُُ ُ خود پرست ٗ ٗ ستائے گا آپ کو
کِس ُ ُ بے وفا ٗ ٗ کے ناز اُٹھایا کرینگی آپ

غم گساروں کو مجھ سے مطلب کیا
جو بھی ہونا تھا ہو چکا ،اب کیا

حالت یہ ہے کہ گردشِ حالات کے سبب
دل بھی میرا تباہ ہے، ہمت بھی پست ہے
تم سوچتی بہت ہو تو پھر یہ بھی سوچنا
میری شکست اصل میں کس کی شکست ہے!

اے قاتلوں کے شہر بس اتنی سی عرض ہے
میں ہوں نہ قتل کوئی تماشا کیے بغیر

عذاب ہجر بڑھا لوں اگر اجازت ہو
اک اور زخم کھا لوں گراجازت ہو

میں تم کو بھول جاؤں بھولنے کا دکھ نہ بھولوں گا
نہیں ہے کھیل یہ آسان میرا جی نہیں لگتا

میں تم کو بھول جاؤں، بھولنے کا دکھ نا بھولوں گا
نہیں ہے کھیل یہ آسان، میرا جی نہیں لگتا

دل نے جو عمر بھر کمائی ہے
وہ دکھن دل سے جائے گی کب تک

,وقت درماں پذیر تھا ہی نہیں
دل لگایا تھا، دل لگا ہی نہیں
ایک ہی اپنا ملنے والا تھا
ایسا بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں

یہ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے میعادِ ستم
جُز حریفانِ ستم کس کو پکارا جائے
وقت نے ایک ہی نکتہ تو کیا ہے تعلیم
حاکمِ وقت کو مسند سے اتارا جا ئے

میں تو کب کا گزر چکا خود سے
تم بھی خود سے گزر تو سکتی ہو
کوئی درمان دل نہیں لیکن
تم مری جان! مر تو سکتی ہو

وقت کے راستے سے ہم تم کو
ایک ہی ساتھ تو گُزرنا تھا
ہم تو جی بھی نہیں سکے اِک ساتھ
ہم کو تو ایک ساتھ مرنا تھا

یہ نہ پوچھو بچھڑ کے تم سے مجھے
کتنے برس اس کا غم رہا جاناں

مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے

شیشے کے اس طرف سے میں سب کو تک رہا ہوں
مرنے کی بھی کسی کو فرصت نہیں ہے مجھ میں

ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﻮﺕ ﺁﻧﮯ تکــــ
ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﻨـــﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻗﺒﺎﺣﺖ ﮨﮯ.

روز محشر جواب کیا دوگے ؟
!.تم میری ہر خوشی کے قاتل ہو

ایک لمحے کو تیر کر نے میں
میں نے اک زندگی گنوائی ہے

یہئ تو محبت ھے یارو کہ اب وہ
ہماری طرف کم سے کم دیکھتے ہیں

داستاں ختم ہونے والی ہے
تم میری اخری محبت ہوں

……حرف زَن نہ ہونگے لب جاوداں خاموشی میں
ہاں کسی بھی معنی میں اب نہیں ملیں گے ہم

یہ بہت غم کی بات ہو شاید
اب تو غم بھی گنوا چکا ہوں میں

ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو

علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

گماں ہے تیرے لوٹ آنے کا
دیکھ کتنا بدگمان ہوں میں

نہ ہوا نصیب قرار جاں ہوس قرار بھی اب نہیں
ترا انتظار بہت کیا ترا انتظار بھی اب نہیں
تجھے کیا خبر مہ و سال نے ہمیں کیسے زخم دیے یہاں
تری یادگار تھی اک خلش تری یادگار بھی اب نہیں
نہ گلے رہے نہ گماں رہے نہ گزارشیں ہیں نہ گفتگو
وہ نشاط وعدۂ وصل کیا ہمیں اعتبار بھی اب نہیں

کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے

روح آزاد ہو مجبورِ تقاضا نہ رہے
ہے تمّنا کہ مجھے کوئ تمّنا نہ رہے

اب میں سمجھا ہوں بے کسی کیا ہے
اب تمہیں بھی مرا خیال نہیں
ہائے یہ رشق کا زوال کہ اب
ہجر میں ہجر کا ملال نہیں

آج کے بعد عشرت مجلس شام غم کہاں
_جی نہ لگے گا تیرے بعد ، پر ترے بعد ہم کہاں
اب یہ جبین و چشم و لب تجھ کو نظر نہ آئیں گے
_غور سے دیکھ لے ہمیں _آج کے بعد ہم کہاں

سہنا تو اک سزا تھی مرادِ محال کی
اب ہم نہ مل سکیں گے ، میاں جان الوداع

دید حیران اُس گلی میں ہے
کیا عجب شان اُس گلی میں ہے

میں جو کافر ہوں اُس گلی باہر
میرا ایمان اُس گلی میں ہے

اس نے منزل کو بے نشاں رکھ کر
میرے قدموں کو راستہ بھیجا

ختم ہے بس جون پر اردو غزل
اس نے کی ہیں خون کی گل کاریاں

کاش ہم کو بھی ہو نصیب کبھی
عیش دفتر میں گنگنانے کا

ترک الفت ہے کس قدر آسان
آج تو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں

ثابت ہُوا سکونِ دل و جاں نہیں کہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی

گھر سے جاتے ہیں خریدار پلٹ آتے ہیں
جنس کمیاب کے بیمار کہاں ہیں جانے
اے مسیحا ترے دکھ سے ہے سوا دکھ کس کا
کس سے پوچھوں ترے بیمار کہاں ہیں جانے

دل محلے میں عجب ایک قفس تھا یارو
صید کو چھوڑ کے رہنے لگا صیاد اس میں

نہیں معلوم کیا سازش ہے دل کی
کہ خود ہی مات کھائی جا رہی ہے

جو نہیں ہے مرے دل کی دنیا
کیوں نہ میں جون مٹا دوں اس کو

ایلیا جون کچھ نہیں کرتا
صرف خوشبو میں رنگ بھرتا ہے

بہت کمِیں ، بہت ہی ذلیل نکلا تُو
کہ قاتلِ دل و جاں کا وکیل نکلا تُو
تجھے نبُود کی غزلیں سنانے والا ہُوں
میں تیرے پاس بہت جلد آنے والا ہُوں

ہم “حسین ترین” “امیر ترین” “ذہین ترین” اور زندگی میں ہر
حوالے سے ”بہترین” ہو کر بھی بالآخر مر ہی جائیں گے۔

ہم فقط فرض ہی تو کرتے ہیں
نئی منزل کی راہ ڈھونڈو تم
میرے غم سے پناہ ڈھونڈو تم
بھول جاؤ تمام رشتوں کو
چاک کر دو مرے نوشتوں کو
گل حسرت کھلا نہ سمجھو تم
مجھ کو اپنا صلہ نہ سمجھو تم

یوں جوانی تباہ کرنے کا
مجھ کو ہوتا نہ اختیار اے کاش

گزر جائیں گے اک دن ہم بھی
تم بھی تو حد سے گزر گئے تھے

اور اک بار مجھ کو جانے دو
سارا سامان اس گلی میں ہے

وہ جون کون ہے جانے جو کچھ نہیں سنتا
ہے جانے کون جو کہتا ہے، اب بھی آ جاؤ

مرد میداں ہوں اپنی ذات کا میں
میں نے سب سے شکست کھائی ہے
خود کو بھولا ہوں، اس کو بھولا ہوں
عمر بھر کی یہی کمائی ہے۔

ہوں مبتلاِ یقین، میری مشکلیں مت پوچھ
گماں اقدا کش بھی نہیں رہا اب تو

کس سے کہوں کہ ایک سراپا وفا مجھے
تنہائیوں میں چھوڑ کر تنہا چلی گئی

!___یار سُکھ نیند ہو نصیب اُن کو

جون! ہم زندگی کی راہوں میں
اپنی تنہا روی کے مارے ہیں

تُو کبھی سوچنا بھی مت تُو نے گنوا دیا مجھے
مجھ کو مِرے خیال کی موج بہا کے لے گئی

یقین جانو کہ تمہارے حق میں سب سے ذیادہ مفید بات
وہ ہے جس سے تمہاری سماعت میں زہر گُھل جائے۔

قافلہ رہ گیا اک دشت بلا میں پیاسا
جن کی میراث تھی کوثر انھیں پانی نہ ملا.

عہد رفاقت ٹھیک ہے لیکن مجھ کو ایسا لگتا ہے
تم تو میرے ساتھ رہو گی میں تنہا رہ جاؤں گا

تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کہ جو
تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا

تم سے بھی اب تو جا چُکا ہوں میں
دُور ہا دُور آ چُکا ہوں میں
یہ بہت غم کی بات ہو شاید
اب تو غم بھی گنوا چُکا ہوں میں

اس گمانِ گماں کے عالم میں
آخرش کیا بُھلا چُکا ہوں میں
اب ببر شیر اشتہا ہے میری
شاعروں کو تو کھا چُکا ہوں میں

میں ہوں معمار پر یہ بتلا دوں
شہر کے شہر ڈھا چُکا ہوں میں
حال ہے اک عجب فراغت کا
اپنا ہر غم منا چُکا ہوں میں

لوگ کہتے ہیں میں نے جوگ لیا
اور دھونی رَما چُکا ہوں میں
نہیں اِملا دُرست غالب کا
شیفتہ کو بتا چُکا ہوں میں

مجھ سے اب لوگ کم ہی ملتے ہیں
یوں بھی میں ہٹ گیا ہوں منظر سے
میں خمِ کوچہء جدائی تھا
سب گزرتے گئے برابر سے

انجمن میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میری خاموشی
بربادی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وحشت ہے
خواہشیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل کا ساتھ چھوڑ گئیں
-:یہ اذیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بری اذیت ہے

کتنے چارہ گروں نے زحمت کی
پر وہی میرا حال ہے, تاحال

حالت یہ ہے کہ گردشِ حالات کے سبب
دل بھی میرا تباہ ہے، ہمت بھی پست ہے
تم سوچتی بہت ہو تو پھر یہ بھی سوچنا
!میری شکست اصل میں کس کی شکست ہے

باز رہتے ہیں جو محبّت سے
ایسے احمق ذہین ہوتے ہیں

جو میں زہر اُگلتا ہوں نہ
ایک ناگن کو منہ لگایا تھا

زِندگی کس طرح بسر ہوگی؟
دل نہیں لگ رہا محبّت میں

کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

کچھ پلٹ کر نہیں کہا میں نے
یہ مجھے مات ہو گئی ہے کیا؟

میں تمہیں بھول بھی تو سکتا تھا
ہاں مگر یہ نہیں ہوا مجھ سے

نہ کوئی زخم نہ مرہم کہ زندگی اپنی
گزر رہی ہے ہر احساس کو گنوانے میں

اب وہ شرارتوں کے زمانے گزر گئے
چونکے گا کون کس کو ڈرایا کریں گی آپ

زندگی کس طرح گزاروں میں
مجھ کو روزی نہیں کمانی ہے

بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا میری نیند بھی تمھاری ہے ؟

توڑو دل مرا شوق سے توڑو
چیز میری نہیں تمھاری ہے

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے

اپنی محرومیوں پہ ہنستے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا ؟

ایک ہی شخص پہ مرکوز تھی دنیا میری
یعنی ایک شخص مجھے ارض و سماں جیسا تھا

خواہشیں دل کا ساتھ چھوڑ گئیں
یہ اذیت بڑی اذیت ہے

ایک ہی اپنا ملنے والا تھا
ایسا بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں

ہم شہید خیال بے چارے
گئے رانوں کے درمیاں مارے

حالت حال کے سبب حالت حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی

مجھ سے بچھڑ کر بھی وہ لڑکی کتنی خوش خوش رہتی ہے
اس لڑکی نے مجھ سے بچھڑ کر مر جانے کی ٹھانی تھی

جو عطا ہو وصال جاناں کی
وہ اداسی کمال کی ہوگی

وہ بات جس کا گلہ تک نہیں مجھے پر ہے
کہ میری چاہ نہیں تھی مری ضرورت تھی

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا

کیا ستم ہے کہ اب تیری صورت
غور کرنے پر یاد آتی ہے

کیا میں آنگن میں چھوڑ دوں سونا
جی جلائے گی چاندنی کب تک

مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے

مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا

ہے یہ بازار جھوٹ کا بازار
پھر یہی جنس کیوں نہ تولیں ہم

کر کے اک دوسرے سے عہدِ وفا
آؤ کچھ دیر جھوٹ بولیں ہم

خواہشیں دل کا ساتھ چھوڑ گئیں
یہ اذیت بڑی اذیت ہے

غیر کے دل میں گر اترنا تھا
میرے دل سے اتر گئے ہوتے

ہم نے حصے میں صرف غم پایا
آج یوں قسمتیں ہوئی تقسیم

زندگی کس طرح بسر ہوگی
دل نہیں لگ رہا محبت میں

آپ اپنی گلی کے سائل کو
کم سے کم پر سوال تو رکھئے

رکھو دیر و حرم کو اب مقفل
کئی پاگل یہاں سے بھاگ نکلے

میں اس دیوار پر چڑھ تو گیا تھا
اتارے کون اب دیوار پر سے

وفا اخلاص قربانی محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم

آئینوں کو زنگ لگا
اب میں کیسا لگتا ہوں

کون سے شوق کس ہوس کا نہیں
دل میری جان تیرے بس کا نہیں

جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں
تم سزا بھی تو کم نہیں کرتے

کوئی مجھ تک پہنچ نہیں پاتا
اتنا آسان ہے پتا میرا

دل کی تکلیف کم نہیں کرتے
اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے

تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے

کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو

ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں
اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا

کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے
اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو

ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون یاروں کے یار تھے ہم تو

سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے

زندگی ایک فن ہے لمحوں کو
اپنے انداز سے گنوانے کا

میں رہا عمر بھر جدا خود سے
یاد میں خود کو عمر بھر آیا

اب میری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا

یاد اسے انتہائی کرتے ہیں
سو ہم اس کی برائی کرتے ہیں

بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا میری نیند بھی تمہاری ہے

اپنا رشتہ زمیں سے ہی رکھو
کچھ نہیں آسمان میں رکھا

نیا ایک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

کام کی بات میں نے کی ہی نہیں
یہ میرا طور زندگی ہی نہیں

مجھ کو عادت ہے روٹھ جانے کی
آپ مجھ کو منا لیا کیجے

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں

آج مجھ کو بہت برا کہہ کر
آپ نے نام تو لیا میرا

ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا میریض ہوں
آخر میرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی

اب جو رشتوں میں بندھا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر
کب پرند اڑ نہیں پاتے ہیں پروں کے ہوتے

شب جو ہم سے ہوا معاف کرو
نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے

ہر شخص سے بے نیاز ہو جا
پھر سب سے یہ کہہ کہ میں خدا ہوں

گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے
وہ کون ہے جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے

یہ بہت غم کی بات ہو شاید
اب تو غم بھی گنوا چکا ہوں میں

تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی
کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو

میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ میرے بیان میں کیا

رویا ہوں تو اپنے دوستوں میں
پر تجھ سے تو ہنس کے ہی ملا ہوں

جانیے اس سے نبھے گی کس طرح
وہ خدا ہے میں تو بندہ بھی نہیں

جانیے اس سے نبھے گی کس طرح
وہ خدا ہے میں تو بندہ بھی نہیں

ہم کہاں اور تم کہاں جاناں
ہیں کئی ہجر درمیاں جاناں

بولتے کیوں نہیں میرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

ہمارے زخم تمنا پرانے ہو گئے ہیں
کہ اس گلی میں گئے اب زمانے ہو گئے ہیں

کیا ہے جو بدل گئی ہے دنیا
میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں

اب تم کبھی نہ آؤ گے یعنی کبھی کبھی
رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر

چاند نے تان لی ہے چادر ابر
اب وہ کپڑے بدل رہی ہوگی