Badnaam Sad Shayari in Urdu
رہروی ہے نہ رہنمائی ہے
آج دور شکستہ پائی ہے
عقل لے آئی زندگی کو کہاں
عشق ناداں تری دہائی ہے
ہے افق در افق رہ ہستی
ہر رسائی میں نارسائی ہے
شکوے کرتا ہے کیا دل ناکام
عاشقی کس کو راس آئی ہے
ہو گئی گم کہاں سحر اپنی
رات جا کر بھی رات آئی ہے
جس میں احساس ہو اسیری کا
وہ رہائی کوئی رہائی ہے
کارواں ہے خود اپنی گرد میں گم
پاؤں کی خاک سر پہ آئی ہے
بن گئی ہے وہ التجا آنسو
جو نظر میں سما نہ پائی ہے
برق ناحق چمن میں ہے بدنام
آگ پھولوں نے خود لگائی ہے
وہ بھی چپ ہیں خموش ہوں میں بھی
ایک نازک سی بات آئی ہے
اور کرتے ہی کیا محبت میں
جو پڑی دل پہ وہ اٹھائی ہے
نئے صافی میں ہو نہ آلائش
یہی ملاؔ کی پارسائی ہے
لمحے بھر میں تم نے میری ہر خوبی کو خام کیا
میں نے کہا کہ نام کیا ہے تم نے کہا بدنام کیا
اپنا کام تھا اس تک جانا گردش ہو یا سوزش ہو
اس کے در تک پہنچے دستک دیتے ہی آرام کیا
جس کے سر پر تاج کبھی تھا فکر میں گزری اس کی بھی
دیکھے دنیا اس الفت نے کیا تیرا انجام کیا
لکھنی تھی بیتابی دل کی امرتؔ خط میں یوں لکھی
کچھ کاٹا کچھ لکھا قاصد کے ہاتھوں پیغام کیا
سچ کہنے کا آخر یہ انجام ہوا
ساری بستی میں میں ہی بدنام ہوا
قتل کا مجرم رشوت دے کر چھوٹ گیا
قسمت دیکھو میرے سر الزام ہوا
میرے غم پر وہ اکثر ہنس دیتا ہے
یہ تو غم کا غیر مناسب دام ہوا
زخم یہاں تو ویسے کا ویسا ہی ہے
تم بتلاؤ تم کو کچھ آرام ہوا
تنہائی نے جب سے قید کیا مجھ کو
باہر آنے میں تب سے ناکام ہوا
روز مسائل گھیرے ہیں مجھ کو تو اب
سوچ رہا ہوں گردش ایام ہوا
اخباروں میں خود کو پڑھتے سوچوں ہوں
میتؔ یہاں پر میرا بھی کچھ نام ہوا
ہم کنارا کئے کناروں سے
کھیلا کرتے ہیں منجدھاروں سے
ہم گزرتے ہیں کھیلتے ہنستے
شعلہ زاروں سے خارزاروں سے
نام پاتے ہیں ناصح بے نام
ہم سے بدنام بادہ خواروں سے
تف بہ مطلب براری یاراں
اف یہ اطوار خاکساروں سے
جن کے دل میں گلوں کی چاہت ہے
پہلے وہ سرخ رو ہوں خاروں سے
دل کی راہوں میں بو لیے کانٹے
کر کے امید گلعذاروں سے
یوں ہے جنبش میں پھول کی ڈالی
وہ بلاتے ہیں جوں اشاروں سے
یوں تو مہ وش ہزار دیکھے ہیں
تم جدا ہو مگر ہزاروں سے
بوالہوس ہے رقیب باطن میں
طور ظاہر میں جاں نثاروں سے
اک فسانہ کہ تھا دیار اپنا
اک حقیقت کہ بے دیاروں سے
تو نے اے دوست ساتھ کیا چھوڑا
دل لرزتا ہے اب سہاروں سے
گرم بازار ہے مرے فن کا
داد پاتا ہوں نقد کاروں سے
روٹھ جائیں نہ وہ کہیں عامرؔ
شعر پڑھیے نہ یوں اشاروں سے
لطف اب زیست کا اے گردش ایام نہیں
مے نہیں یار نہیں شیشہ نہیں جام نہیں
کب مجھے یاد رخ و زلف سیہ فام نہیں
کوئی شغل اس کے سوا صبح سے تا شام نہیں
ہر سخن پر مجھے دیتا ہے وہ بد خو دشنام
کون سی بات مری قابل انعام نہیں
نیک نامی میں دلا فرقۂ عشاق ہیں عشق
ہے وہ بدنام محبت میں جو بدنام نہیں
چہرۂ یار کے سودے میں کہا کرتا ہوں
رخ ہے یہ صبح نہیں زلف ہے یہ شام نہیں
بوسہ آنکھوں کا جو مانگا تو وہ ہنس کر بولے
دیکھ لو دور سے کھانے کے یہ بادام نہیں
حلقۂ زلف بتاں میں ہے بھری نکہت گل
اے دل اس لام میں بوئے گل اسلام نہیں
ابتدا عشق کی ہے دیکھ امانتؔ ہشیار
یہ وہ آغاز ہے جس کا کوئی انجام نہیں
ہو گئی عشق میں بدنام جوانی اپنی
بن گئی مرکز آلام جوانی اپنی
ماضی و حال ہیں محروم شراب و نغمہ
ہائے افسردہ و ناکام جوانی اپنی
آہ وہ صبح جو تھی صبح بہار ہستی
ہے اسی صبح کی اب شام جوانی اپنی
ایک تاریک فضا ایک گھٹا سا ماحول
کسی مفلس کا ہے انجام جوانی اپنی
انہیں راہوں میں انہیں مست و جواں گلیوں میں
لڑکھڑائی ہے بہر گام جوانی اپنی
ایک وہ دن تھا کہ مے خانوں پہ ہم بھاری تھے
آج ہے دور تہہ جام جوانی اپنی
اکتفا کر کے کھنکتے ہوئے روز و شب پر
بن گئی زیست پر الزام جوانی اپنی
دن ہوا دھوپ چڑھی ڈھل گئے سائے الطافؔ
اب ہے اک بجھتی ہوئی شام جوانی اپنی
راز چشم مے گوں ہے کیف مدعا میرا
غیر کی نظر سے ہے دور میکدہ میرا
واسطے کی خوبی نے سہل منزلیں کر دیں
حسن عشق کا رہبر عشق رہنما میرا
کر دیا مجھے بے خود ان کی بے نیازی نے
کہہ رہا ہوں خود ان سے دل سنبھالنا میرا
ہائے خوف بدنامی وائے فکر ناکامی
بے وفا کے ہاتھوں میں حاصل وفا میرا
لطف خلوت و جلوت ہم نہ پا سکے لیکن
دھوم ہر طرف ان کی ذکر جا بہ جا میرا
طرز والہانہ کی داد کب ملی مجھ کو
ناز دوست کب نکلا صورت آشنا میرا
سوچنے لگے گی کچھ تیری خوش نگاہی بھی
رائیگاں نہ جائے گا یوں ہی دیکھنا میرا
میں نے جب کبھی دیکھا سر جھکا لیا تو نے
تو نے جب کبھی دیکھا دل تڑپ گیا میرا
عشرت حجاب از خود چارہ ساز دل کیا ہو
ساز ہو جب اے ظالم سوز آشنا میرا
میری خستہ حالی نے سعیٔ خود شناسی کی
ان کی خود نمائی نے جب کیا گلہ میرا
ہے جو حضرت منظورؔ اعتبار ایں و آں
اذن بے خودی لے کر پوچھئے پتا میرا
برہم زن شیرازۂ ایام ہمیں ہیں
اے درد محبت ترا انجام ہمیں ہیں
اس قافلۂ شوق میں یہ وہم ہے سب کو
آوارہ و سر گشتہ و ناکام ہمیں ہیں
ہوں گے کئی گردن زدنی اور بھی لیکن
اس شہر نگاراں میں تو بدنام ہمیں ہیں
ہم دھوپ میں تپتے تو پنپ جاتے مگر اب
دریوزہ گر مہر لب بام ہمیں ہیں
کیا آن تھی ناکامیٔ تدبیر سے پہلے
اب لائق فہمائش دشنام ہمیں ہیں
حق نقد مسرت کا اگر ہے تو ہمیں کو
کچھ نبض شناس غم و آلام ہمیں ہیں
جس تک کوئی کوئی ابھی پہنچا ہی نہیں ہے
وہ مشعل بے نور سر شام ہمیں ہیں
انکار ہی سر چشمۂ ایمان و یقیں ہے
اب روز جزا لائق انعام ہمیں ہیں
کلیوں سے دم صبح جو زیدیؔ نے سنا تھا
فطرت کا وہ نا گفتہ سا پیغام ہمیں ہیں
مستی گام بھی تھی غفلت انجام کے ساتھ
دو گھڑی کھیل لیے گردش ایام کے ساتھ
تشنہ لب رہنے پہ بھی ساکھ تو تھی شان تو تھی
وضع رندانہ گئی اک طلب جام کے ساتھ
جب سے ہنگام سفر اشکوں کے تارے چمکے
تلخیاں ہو گئیں وابستہ ہر اک شام کے ساتھ
اب نہ وہ شورش رفتار نہ وہ جوش جنوں
ہم کہاں پھنس گئے یاران سبک گام کے ساتھ
اڑ چکی ہیں ستم آراؤں کی نیندیں اکثر
آپ سنئے کبھی افسانہ یہ آرام کے ساتھ
اس میں ساقی کا بھی درپردہ اشارہ تو نہیں
آج کچھ رند بھی تھے واعظ بدنام کے ساتھ
غیر کی طرح ملے اہل حرم اے زیدیؔ
مجھ کو یک گو نہ عقیدت جو تھی اصنام کے ساتھ
اس میں کیا جرم کیا خطا صاحب
دل تو ٹھہرا ہی بے وفا صاحب
پھر کسی دوسرے کا سجدہ ہو
پھر نیا ہو کوئی خدا صاحب
جو ہمیں یاد ہی نہیں تھے کبھی
کیا بھلا ان کو بھولنا صاحب
وہ بھی میری طرح بھلا ڈالیں
کیا کہیں کچھ کبھی ہوا صاحب
دل تڑپتا نہیں ہے ان کے لئے
کر چکے سب دوا دعا صاحب
ہے یہ مشہور اپنے بارے میں
وہ کسی کا نہ ہو سکا صاحب
ہم پہ تہمت کہ کر دیا بدنام
اس قدر جھوٹ انتہا صاحب
ذکر اکثر کیا ہے عشق کا پر
نام کس کا کبھی لیا صاحب
جو ذہن و دل کے زہریلے بہت ہیں
وہی باتوں کے بھی میٹھے بہت ہیں
چلو اہل جنوں کے ساتھ ہو لیں
یہاں اہل خرد سستے بہت ہیں
مری بے چہرگی پر ہنسنے والو
تمہارے آئنے دھندلے بہت ہیں
ذرا یادوں کے ہی پتھر اچھالو
نواح جاں میں سناٹے بہت ہیں
تری بالا قدی بدنام ہوگی
یہاں کے بام و در نیچے بہت ہیں
شجر بے سایہ ہیں سورج برہنہ
مگر ہم عزم کے پکے بہت ہیں
کرو اب فتح کا اعلان اخترؔ
سروں سے سرخ رو نیزے بہت ہیں
یہ آنے والا زمانہ ہمیں بتائے گا
وہ گھر بنائے گا اپنا کہ گھر بسائے گا
میں سارے شہر میں بدنام ہوں خبر ہے مجھے
وہ میرے نام سے کیا فائدہ اٹھائے گا
پھر اس کے بعد اجالے خریدنے ہوں گے
ذرا سی دیر میں سورج تو ڈوب جائے گا
ہے سیرگاہ یہ کچی منڈیر سانپوں کی
یہاں سے کیسے کوئی راستہ بنائے گا
سنائی دیتی نہیں گھر کے شور میں دستک
میں جانتا ہوں جو آئے گا لوٹ جائے گا
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ان اڑانوں میں
وہ اپنے گاؤں کی مٹی کو بھول جائے گا
ہزاروں روگ تو پالے ہوئے ہو تم نظمیؔ
بچانے والا کہاں تک تمہیں بچائے گا
آہ لب تک دل ناکام نہ آنے پائے
عظمت عشق پہ الزام نہ آنے پائے
ہم سے قائم ترے میخانے کی عظمت ساقی
اور ہم تک ہی کوئی جام نہ آنے پائے
زیر ترتیب ہے تاریخ روایات وطن
حکم ہے اس میں مرا نام نہ آنے پائے
تیری آنکھوں کے اگر ہوں نہ اشارے ساقی
جام میں بادۂ گلفام نہ آنے پائے
مژدہ اے اہل چمن آ تو گئی صبح بہار
اب ضرورت ہے کہ پھر شام نہ آنے پائے
دل شکن یوں تو ہے انجام محبت لیکن
دل میں اندیشۂ انجام نہ آنے پائے
ہے طلب گار مسرت تو زباں پر اے دوست
شکوۂ گردش ایام نہ آنے پائے
پی کے تھوڑی سی بہک جاتا ہے ساقی نے کہا
بزم میں اخترؔ بدنام نہ آنے پائے
بند ہونٹوں سے بھی اظہار تمنا کرتے
آئنہ بن کے ترے حسن کو دیکھا کرتے
اپنا سایہ بھی یہاں غیر نظر آتا ہے
اجنبی شہر میں ہم کس پہ بھروسہ کرتے
اس کی محفل میں تو اک بھیڑ تھی دیوانوں کی
پہلے دل اہل نظر اہل وفا کیا کرتے
عشق ہر حال میں پابند وفا ہوتا ہے
ہم تو بدنام تھے کیوں آپ کو رسوا کرتے
اتنی گزری ہے جہاں اور گزر جائے گی
زندگی کے لئے اتنا نہیں سوچا کرتے
جب تلک سانس چلے بس یوں ہی چلتے رہئے
چل کے دو چار قدم یوں نہیں ٹھہرا کرتے
اے خدا ہم تری وحدت پہ یقیں رکھتے ہیں
کیوں ترے در کے سوا ہم کہیں سجدہ کرتے
جنون عشق کا جو کچھ ہوا انجام کیا کہئے
کسی سے اب یہ روداد دل ناکام کیا کہئے
پھری کیوں کر نگاہ ساقیٔ گلفام کیا کہئے
بھری محفل میں اسباب شکست جام کیا کہئے
یہ کیسی دل میں ہے اک ظلمت بے نام کیا کہئے
بجھا کیوں دفعتاً از خود چراغ شام کیا کہئے
تغافل پر وہ دو حرف شکایت بھی قیامت تھے
زمانے بھر کے ہم پر آ گئے الزام کیا کہئے
مرا درد نہاں بھی آج رسوائے زمانہ ہے
اک آہ زیر لب بھی بن گئی دشنام کیا کہئے
در و دیوار پر چھائے ہوئے ہیں یاس کے منظر
دیار نامرادی کے یہ صبح و شام کیا کہئے
جہان آرزو بھی رفتہ رفتہ ہو چلا ویراں
اک آغاز حسیں کا آہ یہ انجام کیا کہئے
امید و یاس میں یہ روز و شب کی کشمکش توبہ
بہر لمحہ فریب گردش ایام کیا کہئے
یہ کس کے در سے طعنے مل رہے ہیں سجدہ و سر کو
یہ کس در پر ہے ذوق بندگی بدنام کیا کہئے
کہاں کا شکوۂ غم ہم تو بس شکر ستم کرتے
مگر شکر ستم کا بھی ہے جو انجام کیا کہئے
ادائے بدگمانی بھی سرشت عشق ہے لیکن
یہ کیوں کر بن گئی منجملۂ الزام کیا کہئے
رہیں گے حشر تک ممنون احسان دل آزاری
خلوص عشق پر یہ قیمتی انعام کیا کہئے
بڑھی جاتی ہے اب تو اور بھی کچھ دورئ منزل
اچانک نو بہ نو دشوارئی ہر گام کیا کہئے
وہ اپنی سعئ تجدید جنوں بھی رائیگاں ٹھہری
بس اب آگے مآل حسرت ناکام کیا کہئے
نہ سمجھے آج تک رنگ مزاج یار بے پروا
مگر پھر بھی زباں پر ہے اسی کا نام کیا کہئے