Kisi Ko Badnaam Karna Status in Urdu

مجھے بدنام کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہو کیوں
میں خود ہو جاؤ گا بدنام پہلے نام ہونے دو

تم اپنی اچھائی میں مشہور رہو
ہم برے ہیں ہم سے دور رہو

یوں سرعام مجھے ملنے بلایا نہ کرو
لوگ کر دیتے ہیں بدنام زمانے بھر کے

دیکھ میں ہو گیا بدنام کتابوں کی طرح
میری تشہیر نہ کر اب تو جلا دے مجھ کو

دیوانہ کہہ کر شہر میں رسوا کیے گئے
ہم میں فقط یہ عیب تھا ہم بےوفا نہ تھے

اب تو خود سے بھی ملنے کو جی نہیں کرتا
بہت برے ہیں ہم کچھ اپنوں سے سنا ہے میں نے

کوئی الزام رہ گیا ہے تو وہ بھی مجھے دے دو
ہم تو پہلے بھی برے تھے تھوڑے اور سہی

کاش کے میں اس کے نام سے بدنام ہوتا
گزرتا جس راہ سے لیکر نام اس کا لوگ بلاتے مجھے

میرے قصے سر بازار اچھالے اس نے
جس کا ہر عیب زمانے سے چھپایا میں نے

نہ کامیاب ہوتا ہے نہ ناکام ہوتا ہے
آدمی عشق میں بس بدنام ہوتا ہے

خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو

تو بدنام کر کے تو دیکھ مجھے محفل میں قسم سے
مشہور میں شھر میں تجھے بھی نا کر دوں تو کہنا

میں بدنام نہیں کرتا سارے راز چھپا لیتا ہوں
کوئی پوچھے اس کے بارے ميں ہلکا سا مسکرا دیتا ہوں

اتنے برے تو نہ تھے ہم جتنے الزام لگائے لوگوں نے
بس کچھ مقدر برے تھے کچھ آگ لگائی اپنوں نے

میں نے پھر ویسا ہی بنا لیا خود کو
جیسا ہونے کا الزام لگایا تھا اس نے

کبهی آ کے تهوڑا وقت میرے ساتھ گزار
جتنا تو نے سنا ہے اتنا برا نہیں ہوں میں

تماشے سب یہاں عشق ہی نہیں کرتا
اس پیٹ نے بھی دی ہیں رسوائیاں بہت

بدنام زمانہ ہم پر کچھ بهی الزم لگائے
ہم تو جیتے ہیں آخرت میں کامیاب ہونے کیلئے

میں زمانے میں بدنام فقط اس لیے ہوں
مجھے دنیا کی طرح بدل جانا نہیں آتا

ناکامیوں نے اور بھی سرکش بنا دیا
اتنے ہوئے ذلیل کہ خوددار ہوگئے

جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں

آوارگی چھوڑ دی تو بھولنے لگی دنیا
بدنام تھے تو اک نام تھا اپنا

غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رسوا کریں مجھے
ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے

منصوب اس کے قصے اوروں سے بھی تھے
لیکن وہ بات بہت پھیلی جو بات چلی ہم سے

اچھا کرتے ہیں وہ لوگ جو اظہار نہیں کرتے
مر تو جاتے ہیں پر کسی کو بدنام نہیں کرتے

غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

اگر دنیا میں رہنا ہے تو راز کسی کو مت دینا
یہ دنیا اک نقارہ ہے تجھے بدنام کر دے گی

میں وہ بدنام محبت ہوں جدھر جاوں زمانے میں
نگاہیں خلق کی اٹھتی ہیں مجھ پر انگلیاں بن کر

اب بھی الزام محبت ھے ہمارے سر پر
اب تو بنتی بھی نہیں یار ، ہماری اُن کی

اپنے احساس شرر بار سے ڈر لگتا ہے
اپنی ہی جرأت اظہار سے ڈر لگتا ہے
اتنی راہوں کی صعوبت سے گزر جانے کے بعد
اب کسے وادیٔ پر خار سے ڈر لگتا ہے
کتنے ہی کام ادھورے ہیں ابھی دنیا میں
عمر کی تیزئ رفتار سے ڈر لگتا ہے

ساری دنیا میں تباہی کے سوا کیا ہوگا
اب تو ہر صبح کے اخبار سے ڈر لگتا ہے
خود کو منواؤں زمانے سے تو ٹکڑے ہو جاؤں
کچھ روایات کی دیوار سے ڈر لگتا ہے

شوق شوریدہ کے ہاتھوں ہوئے بدنام بہت
اب تو ہر جذبۂ بیدار سے ڈر لگتا ہے
جانتی ہوں کہ چھپے رہتے ہیں فتنے اس میں
آپ کی نرمیٔ گفتار سے ڈر لگتا ہے

اور کس کو مرے جینے سے علاقہ ہوگا
کوئی ہوگا مرا قاتل تو مسیحا ہوگا
بھیڑ کی بھیڑ اسے ڈھونڈنے نکلی ہوگی
ایک وہ شخص جو ہر بھیڑ میں تنہا ہوگا
ریت میں پیاس کے دوزخ کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے سوکھے ہوئے ہونٹوں میں ہی دریا ہوگا

دیکھ کر تجھ کو جو نم ہو گئیں میری آنکھیں
تجھ پہ جو وقت پڑا مجھ پہ بھی گزرا ہوگا
بس اسی دھن میں پس و پیش نہ دیکھا ہم نے
اس کے آگے بھی ذرا دیکھ تو لیں کیا ہوگا
میں تو بدنام بھی ہوں شہر میں برباد بھی ہوں
آپ کو بات نبھانے کا سلیقہ ہوگا

مر گئے راہ پہ یہ آس لئے آنکھوں میں
کوئی مردہ تو کسی سینے میں زندہ ہوگا
یوں ہی تو روندتے پھرتے نہیں بے خوف و خطر
تم نے لاشوں سے ہی یہ شہر بسایا ہوگا
بات کچھ ہوگی جوانی کے دنوں سے قیسیؔ
قیس سے اپنا تعلق جو بتاتا ہوگا

باتوں میں بہت گہرائی ہے، لہجے میں بڑی سچائی ہے
سب باتیں پھولوں جیسی ہیں، آواز مدھر شہنائی ہے
یہ بوندیں پہلی بارش کی، یہ سوندھی خوشبو ماٹی کی
اک کوئل باغ میں کوکی ہے، آواز یہاں تک آئی ہے
بدنام بہت ہے راہگزر، خاموش نظر، بے چین سفر
اب گرد جمی ہے آنکھوں میں اور دور تلک رسوائی ہے

دل ایک مسافر ہے بے بس، جسے نوچ رہے ہیں پیش و پس
اک دریا پیچھے بہتا ہے اور آگے گہری کھائی ہے
اب خواب نہیں کمخواب نہیں، کچھ جینے کے اسباب نہیں
اب خواہش کے تالاب پہ ہر سو مایوسی کی کائی ہے
پہلے کبھی محفل جمتی تھی محفل میں کہیں تم ہوتے تھے
اب کچھ بھی نہیں یادوں کے سوا، بس میں ہوں مری تنہائی ہے

صاف باطن دیر سے ہیں منتظر
ساقیا خذ ما صفا دع ما کدر
پھر حیات چند روزہ کا مآل
موت پر جب زندگی ہے منحصر
رت بدلتے ہی فضا میں گونج اٹھا
نغمۂ یا ایہا الساقی ادر

ایسے وادی میں نہیں کیا رہ نما
خود جہاں گم کردہ منزل ہوں خضر
مشورہ رحمت سے کر اے عدل حق
کیا سزا جو ہو خطا کا خود مقر
کیوں ہے اسرار دو عالم کی تلاش
پردۂ دل میں ہیں تیرے مستر

کیوں مری دیوانگی بدنام ہے
ان کی آنکھیں خود ہوئیں جب مشتہر
الحذر پیر فلک کی سرکشی
دیکھنے میں تو ہے اتنا منکسر

کھو چکا آنکھیں مگر اے برق حسن
دل رہے گا اور رہے گا منتظر
سن لے فریاد عزیزؔ جاں بہ لب
رب انی مستغیث فالفقر

روشن نہ ہوئی تھی صبح ابھی منہ کھول رہی ہے شام کہیں
آغاز نہ ہونے پایا تھا اور ہونے لگا انجام کہیں
اس دنیا میں کیا ملنا ہے بس ارمانوں کے خوں کے سوا
اے خواب حسیں تیرے چلتے ہو جائیں نہ ہم بدنام کہیں
مانند صبا آوارہ ہم پھرتے ہی رہے شہروں شہروں
رمتا جوگی بہتا پانی ہے صبح کہیں تو شام کہیں

اس وقت تو خوش آتے ہیں نظر کچھ سادہ لوح عنادل بھی
دیکھو تو نہ پھر پھیلایا ہو صیاد نے کوئی دام کہیں
صیاد سے گر لڑنا ہے تجھے شاہیں کا جگر پیدا کر لے
بلبل جیسے نازک دل سے ہوتا ہے جری اقدام کہیں
کچھ زیست کا غم کچھ ملت کا مغموم رہے ہر دم اظہرؔ
حساس طبیعت والوں کو ملتا ہے بھلا آرام کہیں