Introduction
Rain has a magical way of touching our hearts. The soft drops, the cool breeze, and the rhythm of falling rain can make us feel romantic, thoughtful, and peaceful. Barish Quotes in Urdu beautifully capture these feelings, expressing love, longing, joy, and nostalgia. Whether it’s a gentle drizzle or a heavy downpour, rain inspires emotions that words alone can sometimes fail to express. Explore these quotes and let the beauty of rain and Urdu poetry fill your heart with warmth and romance.
Barish Quotes in Urdu

کچھ لوگ جی رہے ہیں خدا کے بغیر بھی
سناٹے گونجتے ہیں صدا کے بغیر بھی
مٹی کی مملکت میں نمو کی زکوٰۃ پر
زندہ ہیں پیڑ آب و ہوا کے بغیر بھی
یہ نفرتوں کے زرد الاؤ نہ ہوں گے سرد
پھیلے گی آگ تیز ہوا کے بغیر بھی
ربط و تعلقات کا موسم نہیں کوئی
بارش ہوئی ہے کالی گھٹا کے بغیر بھی
دنیا کے کار زار میں بچوں کو ماؤں نے
رخصت کیا ہے حرف دعا کے بغیر بھی
خوف خدا میں عمر گزاری تو کیا ملا
کچھ دن جئیں گے خوف خدا کے بغیر بھی

ششدر و حیران ہے جو بھی خریداروں میں ہے
اک سکوت بے کراں ہر سمت بازاروں میں ہے
نوبت قحط مسیحائی یہاں تک آ گئی
کچھ دنوں سے آرزوئے مرگ بیماروں میں ہے
وہ بھی کیا دن تھے کہ جب ہر وصف اک اعزاز تھا
آج تو عظمت قباؤں اور دستاروں میں ہے
اڑ رہے ہیں رنگ پھولوں کے فقط اس بات پر
التفات فصل گل کا ذکر کیوں خاروں میں ہے
اے مرے ناقد مرے اشعار کم پایہ سہی
کم سے کم ابلاغ تو میرے سخن پاروں میں ہے
بجھ نہیں سکتی کسی صورت ہوس کی تشنگی
بحر بے پایاں بھی بارش کے طلب گاروں میں ہے
خوبصورت شکل میں ہم سب درندے ہیں اسدؔ
آدمی کہتے ہیں جس کو وہ ابھی غاروں میں ہے

حروف عرض طلب کی صورت گزرتے لمحوں کا خواب لکھنا
ہماری آنکھوں کے سامنے ہی ہمارے دل کی کتاب لکھنا
کسی کی نظروں کی نرم بارش سے جب بھی بھیگے بدن کی مٹی
سلگتی سانسوں کے پیرہن پر حدیث حسن و شباب لکھنا
ہمارے ہونٹوں کی تشنہ کامی تمہاری آنکھوں سے جب بھی لپکے
کہیں یہ تتلی کہیں پہ غنچہ کہیں شگفتہ گلاب لکھنا
کبھی حقیقت سے کھیل لینا کبھی الجھنا مجاز سے تم
کبھی کسی سے کرم کی خواہش کبھی کسی سے عذاب لکھنا
مجھے تم اتنی بلندیوں پر نہ لاؤ کہ میں خدا نہیں ہوں
مری حقیقت کے حاشیے میں مرے فسانے کا باب لکھنا
تم اپنے جیتے گھروں میں اپنے گھروں کی سازش بھی کرنا شامل
اکھڑتے خیموں کی قیمتوں میں اسدؔ فریب طناب لکھنا

چاہے جگنو کہ ستارہ کہ گہر میں رہنا
تم بہر رنگ بہر شکل نظر میں رہنا
تھک کے رستے میں کہیں بیٹھ نہ جانا راہی
چلتے رہنا کہ مقدر ہے سفر میں رہنا
تیرے اک روز کے دیدار میں ہے کتنی کشش
روز کا کام ہوا تیری ڈگر میں رہنا
خوب صورت تو بہت ہے یہ ترا گاؤں مگر
کوئی دن آ کے ہمارے بھی نگر میں رہنا
موت کے بعد پھر اک گردش پیہم کی خبر
ٹوٹے پتوں کا ہواؤں کے بھنور میں رہنا
اژدہا بھیڑ کا پھر تم کو نگل جائے گا
دور ہونا تو بس اتنا کہ نظر میں رہنا
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے بارش میں اسیرؔ
گھر میں رہتے ہوئے آساں نہیں گھر میں رہنا

اک عالم حیرت ہے فنا ہے نہ بقا ہے
حیرت بھی یہ حیرت ہے کہ کیا جانیے کیا ہے
سو بار جلا ہے تو یہ سو بار بنا ہے
ہم سوختہ جانوں کا نشیمن بھی بلا ہے
ہونٹوں پہ تبسم ہے کہ اک برق بلا ہے
آنکھوں کا اشارہ ہے کہ سیلاب فنا ہے
سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی
کچھ خواب ہے کچھ اصل ہے کچھ طرز ادا ہے
ہے تیرے تصور سے یہاں نور کی بارش
یہ جان حزیں ہے کہ شبستان حرا ہے

اندھیرے میں تجسس کا تقاضا چھوڑ جانا ہے
کسی دن خامشی میں خود کو تنہا چھوڑ جانا ہے
سمندر ہے مگر وہ چاہتا ہے ڈوبنا مجھ میں
مجھے بھی اس کی خاطر یہ کنارہ چھوڑ جانا ہے
بہت خوش ہوں میں ساحل پر چمکتی سیپیاں چن کر
مگر مجھ کو تو اک دن یہ خزانہ چھوڑ جانا ہے
طلوع صبح کی آہٹ سے لشکر جاگ جائے گا
چلا جائے ابھی وہ جس کو خیمہ چھوڑ جانا ہے
نہ جانے کب کوئی آ کر مری تکمیل کر جائے
اسی امید پہ خود کو ادھورا چھوڑ جانا ہے
کہاں تک خاک کا پیکر لیے پھرتا رہوں گا میں
اسے بارش کے موسم میں نہتا چھوڑ جانا ہے

وہ مجھ کو دستیاب بڑی دیر تک رہا
میں اس کا انتخاب بڑی دیر تک رہا
دیکھا تھا اس نے مڑ کے مجھے اک نظر تو پھر
آنکھوں میں اضطراب بڑی دیر تک رہا
خوشبو بھی قید ہو گئی لفظوں کے جال میں
خط میں وہ اک گلاب بڑی دیر تک رہا
چہرے پہ پھیلنے لگی تعبیر کی تھکن
پلکوں پہ ایک خواب بڑی دیر تک رہا
پہلے پہل تو عشق کے آداب یہ بھی تھے
میں آپ وہ جناب بڑی دیر تک رہا
بارش کی طرح مجھ پہ برستا رہا وہ شخص
بن کر وہ اک سحاب بڑی دیر تک رہا
پھر صبح تک ہی چھت پہ ستارے مقیم تھے
کھڑکی میں ماہتاب بڑی دیر تک رہا
اس کے سوال پر سبھی الفاظ مر گئے
اشکوں میں پھر جواب بڑی دیر تک رہا
گن گن کے مجھ پہ کتنے وہ احسان کر گیا
پوروں پہ پھر حساب بڑی دیر تک رہا

محبتوں کی وسعتیں خیال اس سے پوچھنا
پھر اس کے بعد دفعتاً زوال اس سے پوچھنا
ہنسانا اس کو پہلے تم محبتوں کے ذکر سے
ہنسی میں غم کو ڈھونڈھنا ملال اس سے پوچھنا
نظر بچا کے دیکھنا وہ کپکپاتے ہونٹ تم
مری خودی پہ جب کوئی سوال اس سے پوچھنا
وہ کہہ رہی تھی تم سے تو بچھڑنا بھی محال ہے
کیا ہے کس طرح سے یہ کمال اس سے پوچھنا
دیا تھا پچھلے سال اس کو ایک تحفہ پیار سے
وہ اب بھی اوڑھتی ہے نا وہ شال اس سے پوچھنا
کبھی جو اس کے شہر میں اٹھا سوال حسن پر
زمانہ اس کی دیتا تھا مثال اس سے پوچھنا
وہ پہلا پہلا عشق تھا اسے خبر نہ ہو سکی
ہوا ہے جینا کس طرح محال اس سے پوچھنا
تھیں آنسوؤں کی بارشیں بھی قہقہوں کے درمیاں
وہ ہجر اس سے پوچھنا وصال اس سے پوچھنا
وہ لاکھ ٹال دے مگر وہ لاکھ مسکرائے بھی
جو حال دل کا ہو رہا وہ حال اس سے پوچھنا

کسی خطا سے ہمیں انحراف تھوڑی ہے
ہمارا خود سے کوئی اختلاف تھوڑی ہے
بصارتوں کے علم دار ہیں یہاں کچھ لوگ
ہر اک نظر پہ اندھیرا غلاف تھوڑی ہے
کبھی تو ہم بھی تمہارا سراغ پا لیں گے
تمہارا شہر کوئی کوہ قاف تھوڑی ہے
یہ آئینہ تمہیں تم سا دکھا نہیں سکتا
اگرچہ صاف ہے اتنا بھی صاف تھوڑی ہے
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
یہ جانتے ہیں سبھی انکشاف تھوڑی ہے
زمیں کا گھاؤ ہے مٹی سے بھر ہی جائے گا
ہمارے دل کی طرح کا شگاف تھوڑی ہے
ہم احتجاج بپا کر رہے ہیں اپنے خلاف
ہمارا شہر ہمارے خلاف تھوڑی ہے
اسی لیے تو نہاتا ہے بارشوں میں وجود
ہے آب دیدہ مگر اعتراف تھوڑی ہے

میں نے پوچھا تھا کہ بارش بھی کہیں ہوتی ہے
کھول کے زلف وہ بولے کہ یہیں ہوتی ہے
ایک چہرہ ہے جسے دیکھ نہیں پاتا ہوں
ہار ایسی ہے کہ برداشت نہیں ہوتی ہے
ڈھونڈھنا ہم کو وہیں اس نے جہاں چھوڑا ہو
اس کی رکھی ہوئی ہر چیز وہیں ہوتی ہے
ہم مسیحا تھے سبھی کے سو رہے تنہا ہم
کیمرے کی کوئی تصویر کہیں ہوتی ہے
خواہشیں آپ کی ڈکورتھ لوئس جیسی ہیں
دل ناداں کو سمجھ اس کی نہیں ہوتی ہے

رات آنکھوں میں گزری سپنے بھیگ گئے
بارش سے کھڑکی کے شیشے بھیگ گئے
بارش کی بوچھاڑ تو اندر تک آئی
خشک تنوں کے سب اندازے بھیگ گئے
بھیگ گئے سب اپنی اپنی یادوں میں
کچھ روتے کچھ ہنستے ہنستے بھیگ گئے
بھیگ گئے سب خط رکھے الماری میں
اور ان میں سب لکھے وعدے بھیگ گئے
دیکھ دیے کی لو تو نے تو دیکھے ہیں
کتنی آنکھیں کتنے تکیے بھیگ گئے
بادل کے ہم راہ سکول سے نکلے تھے
گھر تک آتے آتے بستے بھیگ گئے
اڑتے پنچھی تیری منزل دور ہے کیا
دیکھ مسافر تیرے کپڑے بھیگ گئے
رات ستارے آنگن اور اداس آنکھیں
تیری باتیں کرتے کرتے بھیگ گئے
باہر آ کر دیکھ یہ منظر شہزادی
ہم تیری دہلیز پہ بیٹھے بھیگ گئے
جانے کیسے موسم کی یہ بارش تھی
میری آنکھیں تیرے سپنے بھیگ گئے
جس بستی میں دھوپ سا روپ چمکتا تھا
اس بستی کے سارے رستے بھیگ گئے

آنکھ جب آئنے میں پڑتی ہے
زندگی دیکھنے میں پڑتی ہے
روز کٹتی ہے فصل خوشبو کی
اور ترے تولیے میں پڑتی ہے
دن کسی معرکے میں کٹتا ہے
شب کسی مورچے میں پڑتی ہے
چھوڑ دنیا کی بات دل کی سن
چھوڑ کس وسوسے میں پڑتی ہے
تو نہیں ہے تو رات بھر بارش
جانے کس سلسلے میں پڑتی ہے
پاؤں کو لاکھ کھینچتا ہوں مگر
وہ گلی راستے میں پڑتی ہے
گردش وقت تیری آنکھ کے اس
پر کشش دائرے میں پڑتی ہے
عشق کے اور ہیں مکان و زماں
عمر اک ثانئے میں پڑتی ہے
زندگی تو وہاں بھی ہے اشرفؔ
برف جس منطقے میں پڑتی ہے

دل کو اب ہجر کے لمحات میں ڈر لگتا ہے
گھر اکیلا ہو تو پھر رات میں ڈر لگتا ہے
ایک تصویر سے رہتا ہوں مخاطب گھنٹوں
جب بھی تنہائی کے حالات میں ڈر لگتا ہے
میری آنکھوں سے مرے جھوٹ عیاں ہوتے ہیں
اس لیے تجھ سے ملاقات میں ڈر لگتا ہے
لمحۂ قرب میں لگتا ہے بچھڑ جائیں گے
ہاتھ جب بھی ہو ترے ہاتھ میں ڈر لگتا ہے
آج کل میں انہیں جلدی ہی بدل دیتا ہوں
آج کل دل کے مکانات میں ڈر لگتا ہے
جسم کی آگ کو بارش سے ہوا ملتی ہے
ساتھ میں تو ہو تو برسات میں ڈر لگتا ہے

لاکھوں کی بھیڑ میں بھی کوئی ہم نفس نہ ہو
اللہ تیری خلق کا مطلب قفس نہ ہو
رنگ جمال عشق سے کونچی بھری ہو پر
تصویر کھینچنے کے لیے کینوس نہ ہو
کہئے کہ کیسے دل لگے ایسی جگہ جہاں
باتیں تو بے حساب ہوں باتوں میں رس نہ ہو
میں عشق کر رہا ہوں مگر سوچتا بھی ہوں
پچھلے برس جو ہو چکا اب کے برس نہ ہو
حیرت ہے ایک عمر کی بارش کے باوجود
آنکھوں میں کوئی شکل ہے جو ٹس سے مس نہ ہو
مشراؔ جی ایسے شخص سے رہتے ہیں دوردور
جس میں کہ رنگ عشق ہو رنگ ہوس نہ ہو

بارش کیسی جادوگر ہے
قطرہ قطرہ نور نظر ہے
آس کا پنچھی ڈھونڈ کے لاؤ
جس کی نشانی ٹوٹا پر ہے
اس میں آنکھیں جڑ جاؤں گا
جس دیوار میں اندھا در ہے
ٹوٹی کھاٹ پہ سو جاتا ہوں
اپنا گھر پھر اپنا گھر ہے
رستے کی انجان خوشی ہے
منزل کا انجانا ڈر ہے

ہمیں تعبیر پہلے دی گئی پھر خواب اترے
کتاب زندگی کے اس طرح کچھ باب اترے
مری آنکھوں سے لے لے روشنی اور نور کر دے
کسی قیمت پہ مالک منظر شب تاب اترے
کھلے برتن اٹھا کر رکھ دئے جو بارشوں میں
یہاں وہ رہ گئے خالی وہاں سیلاب اترے
تحائف کی جنہیں امید تھی وہ منتظر ہیں
مسافر آ چکا ہے اب ذرا اسباب اترے
بہت آنسو بہائے چاہتوں کی ابتدا میں
بڑی مشکل سے ہم پر عشق کے آداب اترے
سمندر نے کہانی مختصر کر کے کہا بس
بہت گرداب اترے اور بس گرداب اترے
خزاں سے نسبتیں اتنی پرانی اور پھر بھی
انہی لوگوں پہ لہجے اس قدر شاداب اترے

ملنے کا امکان بنائے بیٹھے ہو
کس کو دل اور جان بنائے بیٹھے ہو
برسیں آخر بارش جیسے کیوں آنکھیں
تم بادل مہمان بنائے بیٹھے ہو
دشت کی خاک سمیٹی میں نے پلکوں سے
گھر اپنا دالان بنائے بیٹھے ہو
کس کے آنے کی امید میں آخر یوں
رستے کو گلدان بنائے بیٹھے ہو
کون کسی کی یاد بھلائی جانے کو
تم آنگن شمشان بنائے بیٹھے ہو
قسمیں وعدے جھوٹے جس کی خاطر تم
دل اپنا ویران بنائے بیٹھے ہو
تنہا تنہا رہتے ہو عاصمؔ تنہاؔ
یہ کیسی پہچان بنائے بیٹھے ہو

یہ معجزہ بھی مقدر مجھے دکھائے کہیں
وہ اب کے آئے تو جانے کی رہ نہ پائے کہیں
چھپا چھپا کے رکھا میں نے جس کو خود سے بھی
وہ تیرا ذکر کتابوں میں اب نہ آئے کہیں
ہوئی ہے عمر نبھاتے ہوئے ترے غم سے
یہ حوصلہ بھی مگر اب نہ مات کھائے کہیں
عجیب جشن بہاراں ہے باغ سب اجڑے
مکان تب یہ گلوں سے گئے سجائے کہیں
تمام فصل کروں نذر ابر کی عاصمؔ
جو بارشوں میں مرا کھیت بھی نہائے کہیں

ہر اک سانس سے سینے میں گھاؤ لگتا ہے
فضا میں آج بھی کل سا تناؤ لگتا ہے
یہ ٹھیک ہے یہ سمندر ہے پر سکوں سا مگر
نہیں ادھر کا جدھر کا بہاؤ لگتا ہے
موافقت ہی بنا اہلیت کی ہو جس میں
مجھے تو ڈھونگ وہ سارا چناؤ لگتا ہے
میں جس سحر کے تقاضے سے جاگ اٹھا اس کا
کچھ اب بھی شب کے سفر میں پڑاؤ لگتا ہے
یہ بارشوں کی نہیں رت اگر تو کیوں عاصمؔ
ہوا میں ایسا نمی کا دباؤ لگتا ہے

شکستہ پائی سے بچ کر مری نکل بھی گیا
جو راہ بر تھا مرا راستہ بدل بھی گیا
کروں گا کیا جو ہوئی پھر بھی آتشیں بارش
جو سائباں تھا مرے سر پہ وہ تو جل بھی گیا
ہوا شدید ہے اتنی یہ جھونپڑے ہی نہیں
امیر شہر ترا خوش نما محل بھی گیا
کمان کھینچنے والا ہدف شناس نہ تھا
شکار زد میں نہیں تھا کہ تیر چل بھی گیا
میں سوچتا ہی رہا راستے ہیں پیچیدہ
جو میرے ساتھ چلا تھا کہیں نکل بھی گیا
جو تیرنا ہی نہیں جانتا وہ ڈوبے گا
ذرا سی دیر کو کیا ہے اگر سنبھل بھی گیا
بڑا ہی بپھرا ہوا دست شاہ ہے عاصمؔ
بچاؤ روح وہ جسموں کو تو کچل بھی گیا

لاکھ دُوری ہو مگر عہد نبھاتے رہنا
.
جب بھی بارش ہو میرا سوگ مناتے رہنا
.
تم گئے ہو تو سرِ شام یہ عادت ٹھہری
.
بس کنارے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے رہنا
.
ایک مدت سے یہ معمول ہوا ہے اب تو
.
آپ ہی روٹھنا اور آپ ہی مناتے رہنا
.
تم کو معلوم ہے فرحت یہ پاگل پن ہے
.
دُور جاتے ہوئے لوگوں کو بُلاتے رہنا…

عجیب سی اُداسیوں کا موسم ہے…
.
ہنسنے کا دل اور نہ بولنے کا من ہے…
.
باہر جاری ہے موسم کی بارش شاید…
.
ہمارے اندر تو آوارگی کا موسم ہے …

چل خواب نگر میں چلتے ہیں
تتلی کے رنگ پکڑتے ہیں
بھنوروں سے ریس لگاتے ہیں
بارش میں بھیگ کے آتے ہیں
چل خواب نگر میں چلتے ہیں
پھولوں سے باتیں کرتے ہیں
کلیوں کے ناز اٹھاتے ہیں
جو روشن کر دیں تن من کو
وہ جگنو ﮈھونڈکے لاتے ہیں
چل خواب نگر میں چلتے ہیں
کچھ سپنے بُن کر آتے ہیں
چل پیار کے نغمے گاتے ہیں
دنیا کے ہر اک جھنجھٹ کو
ہم یہیں پہ چھوڑ کے چلتے ہیں
چل خواب نگر میں چلتے ہیں
چل خواب نگر میں چلتے ہیں

“ہاں میں وہی لڑکی ہوں”
جو اپنی دنیا میں جیتی ہے ❣
جو زندگی کی تلخیوں پہ ہنستی ہے
جو چاند تاروں سے باتیں کرتی ہے
جو پھولوں کو اپنا دوست رکھتی ہے
❤جس کا دل کالے رنگ کا دیوانہ ہے❤
جو پیڑوں اور پودوں کے ساتھ کھیلتی ہے، ☘
جو بچوں کے ساتھ بچی ہو جاتی ہے
جو بارش کی دیوانی ہے ♥
“ہاں میں وہی لڑکی ہوں”

محبت بھی بارش کی طرح ہوتی ہیںہ
جس کے چھونے کی ہوائش میں
ہتھیلی تو گیلی ہو جاتی ہیں
مگر ہاتھ ہمیشہ کے لیے خالی رہ جاتے ہیں

دسمبر کی پہلی بارش،
مٹی کی خوشبو،
سنہری یادیں،
سردی کی خبر دیتی ہواؤں کی سنسناہٹ،
کھڑکی پر دستک دیتی
بارش کی بوندیں،
میرے کمرے میں بکھری ادھوری شاعری،
اور چائے کا
ایک بھاپ اڑاتا کپ…….
میں اور تیری یاد
خیالوں میں تیرا ساتھ

کھڑکیاں کھول رہا تھا کہ ہوا آئے گی
کیا خبر تھی کہ چراغوں کو نگل جائے گی
مجھ کو اِس واسطے بارش نہیں اچھی لگتی
جب بھی آئے گی کوئی یاد اُٹھا لائے گی
اُس نے ہنستے ہوئے کر لی ہیں علیحدہ راہیں
میں سمجھتا تھا کہ بچھڑے گی تو مر جائے گی
میں مسافر ہوں بہر طور چلا جاوں گا
تُو میرے بعد بھلا کیسے سنبھل پائے گی
میری آواز کو ترسے گی سماعت تیری
عمر بھر تجھ کو مِری کال نہیں آئے گی☎

خدا کرے میری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کِھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارش برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ مِرے اِک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جُرم نہ ہو ، زندگی وبال نہ ہو

تیز بارش میں کبھی سرد ہواؤں میں رہا
اک ترا ذکر تھا جو میری صداؤں میں رہا
کتنے لوگوں سے میرے گہرے مراسم تھے مگر
تیرا چہرہ ہی فقط میری دعاؤں میں رہا

بارش ، بادل ،
تم اور میں .
خوشبو ، موسم ،
تم اور میں
کالے بادل ، رم جھم بارش ،
نیلا آنچل
تم اور میں
تُم_اور_میں

یہ موسم کی بارش،
یہ بارش کا پانی،
:-
یہ پانی کی بوندیں _
تجھے ہی تو ڈھونڈیں،
یہ ملنے کی خواہش
یہ خواہش پرانی
ہو پوری تجھ ہی سے _
میری یہ کہانی ….

آج ہلکی ہلکی بارش ہے ۔
آج سرد ہوا کا رقص بھی ہے ۔
آج پھول بھی نکھرے نکھرے ہیں ۔
آج ان میں تیرا عکس بھی ہے ۔
آج بادل کالے گہرے ہیں ۔
آج چاند پہ لاکھوں پہرے ہیں
۔کچھ ٹکڑے تیری یادوں کے بڑی دیر سے دل میں ٹھہرے ہیں
آج دل کے ہر ایک گوشے میں بس تم ہی تم سمائے ہو۔
آج یاد بہت تم آئے ہو ۔آج یاد بہت تم آئے ہو ۔

جب میں نے اس سے پوچھا تھا
کیا دھوپ میں بارش ھوتی ھے
وہ ھنستے ھنستے رونے لگی
اور دھوپ میں بارش ھونے لگی
نازک سی کلی مرجھا سی گئ
اور رو کر مجھ سے کہنے لگی
تم چھوڑ نہ جانا او ساجن
دل توڑ نہ جانا او ساجن
تم کیا جانو دھوپ کی بارش
تم کیا جانو ہجر کا غم
جب تم دور تھے مجھ سے ساجن
میرے ہاتھ کی چوڑی اورکنگن
جب گیت تمہارے گاتے تھے
مجھے یاد بہت تم آتے تھے
میں ہنستے ہنستے روتی تھی
اور دھوپ میں بارش ہوتی تھی

برس گئ ہیں میرے سرد آرمانوں پہ بارشیں
اندھیرا بڑھ رہاہےتم ابھی آئے کیوں نہیں
یہ ٹوٹے شیشے گھٹنوں کہ بل گر رہے ہیں
دیوار ان کی سہارا تھی ابھی وہ کیوں نہیں
اُداس ہوا کہ دوش پر جلتیں تھی سرد شمیں
ذریعےتھی جو جلنےکی ابھی وہ ہوا کیوں نہیں

میرا بچپن
جانے بچن میرا وہ کہاں رہ گیا
اس کی یادیں رہیں وہ کہاں رہ گیا
میرے اپنے پیارے کہاں چل بسے
میرے گھر کا چمن وہ کہاں رہ گیا
میرا چھوٹا سا بستہ تختی و قلم
پڑھنے لکھنے کا سامان کہاں رہ گیا
اپنا سبق وہ فرفر سنانا
بھلانا سنانا کہاں رہ گیا
کبھی بارش میں آنااسکول سے
کچے راستوں پر چلنا کہاں رہ گیا
سب کھلونے میرے تھے خزانہ میرا
وہ خزانہ و ساماں کہاں رہ گیا
یاد آتی ھے شدت سے بچپن کی اب
جانے رستے میں رک کر کہاں رہ گیا
وہ چڑیوں کا آنا میرے صحن میں
دانہ دنکأ کھلانا کہاں رہ گیا
لاکھ چاہا میں اس کو بھلا دوں مگر
وہ خیالوں میں آ کر کہاں رہ گیا
فقط یادوں میں اب رونقیں رہ گئیں
لکھنا پڑھنا پڑھانا کہاں رہ گیا
رفتہ رفتہ ھی بڑھتے رھے فاصلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یادوں میں ان کا گماں رہ گیا
سال پر سال گنتے چلے آئے ہیں
زندگی کا سفر اب کہاں رہ گیا
وہ رستے ؤہ گلیاں وہ پگڈنڈیاں
میرے گھر کا شجر وہ کہا ں رہ گیأ
لہلہاتے گلابوں کا موسم کہاں
ڑرد پھولون کا منظر کہا ں رہ گیا
میرا بچپن کوئی مجھ کو لا دے ذرا
انور جانے وہ پیچھے کہاں رہ گیا

فراقِ یار کی بارش، ملال کا موسم
ہمارے شہر میں اترا کمال کا موسم
وہ اک دعا میری، جو نامراد لوٹ آئی
زباں سے روٹھ گیا پھر سوال کا موسم
بہت دنوں سے میرے نیم وا دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے تمہارے خیال کا موسم
جو بے یقیں ہو بہاریں اجڑ بھی سکتی ہیں
تو آ کے دیکھ لے میرے زوال کا موسم
محبتیں بھی تیری دھوپ چھاؤں جیسی ہیں
کبھی یہ ہجر، کبھی یہ وصال کا موسم
کوئ ملا ہی نہیں جس کو سونپتے محسنؔ
ہم اپنے خواب کی خوشبو، خیال کا موسم☔☔

اسے میں نے ہی لکھا تھا
کہ لہجے برف ہو جائیں
تو پگھلا نہیں کرتے
اسے میں نے ہی لکھا تھا
گر یقین اٹھ جائے
تو شاید کبھی واپس نہیں آتا
ہواؤں کا کوئی طوفان
کبھی بارش نہیں لاتا
اسے میں نے ہی لکھا تھا
آئینہ جب ٹوٹ جائے
پھر کبھی جڑ نہیں پاتا
وابستہ جن سے امید ہو
وہ بدل جائیں
تو جیا نہیں جاتا

رات آنکھوں میں گزری سپنے بھیگ گئے
بارش سے کھڑکی کے شیشے بھیگ گئے
بھیگ گئے سب اپنی اپنی یادوں میں
کچھ روتے کچھ ہنستے ہنستے بھیگ گئے
رات ستارے آنگن اور اداس آنکھیں
تیری باتیں کرتے کرتے بھیگ گئے

سنو جاناں !
تمہیں بھی پسند ہے ناں
میری طرح
بارش کا موسم
ہاتھ میں چاۓ کا کپ
ساتھ تمھارا
خیال ہمارا
ہونٹ تمھارا
زائقہ ہمارا
سنو جانان !
سچ کہو ناں
تمہیں بھی پسند ہے ناں
ساتھ ہمارا

ہوا تھی ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی تھی اور دریا تھا
کہیں نزدیک ہی جنگل میں کوئی گیت گاتا تھا
فضا میں رس بھرے نغموں کی ہلکی ہلکی بارش تھی
مرے دامن میں چھم چھم آنسوؤں کا مینہ برستا تھا

کسی خیال میں مدہوش جا رہا تھا میں
اندھیری رات تھی تاریکیوں کی بارش تھی
نکل گئی کوئی دوشیزہ دل کو چھوتی ہوئی
یہ میرے ساز جوانی کی پہلی لرزش تھی

چیخ سن کے بھی کسی نے مڑ کے نہیں دیکھا
بے حسی نے شہر کے لوگوں کو بہرہ کر دیا
بارشوں میں بھیگ کر سب پیڑ اجلے ہو گئے
رات بھر رونے نے کچھ مجھ کو بھی ہلکا کر دیا
روز ملتا تھا میں تم سے، روز جدا ہوتا تھا
اس طرح کے حادثوں نے زخم گہرا کر دیا

ھم نےدریا کی موجوں سے الجھتے دیکھا
اس شخص کو صحرا میں بھٹکتے دیکھا
ٹھکرایا زمانے نے توسمجھا وہ حقیقت
اپنوں نے بھی تھا اسکو اجڑتے دیکھا
وہ پرندے تھے انسان تو نہیں تھے
أشیاں کی سمت لوٹے جو بھڑکتے دیکھا
چہرے پہ جو اسکے نیا جہرہ دیکھا
دلکو بے ھنگم سا دھڑکتے دیکھا
یاد آیا جو جوانی میں دسمبر کا مہینہ
سرد شاموں میں خود کو ٹہلتے دیکھا
سو گیا لال میرا بھوک کی چادر اوڑھے
ماں نے تھا بچےکو تھپکتے دیکھا
برسی نہ یہ بارش کچھ اعمال تھے ایسے
بادل تھا گرجتا بجلی کو چمکتے دیکھا
باتوں باتوں میں آئینہ جو وفا کا دیکھا
اسکو محفل سے کھسکتے دیکھا
یاد أیا جو اداسی کا سبب انور
دل میں اک کانٹا سا کھٹکتے دیکھا

ہجر کے موسم میں یہ بارش کا برسنا کیسا
اک صحرا سے سمندر کا گزرنا کیسا
اے میرے دل نہ پریشاں ہو تنہا ہوکر
وہ تیرے ساتھ چلا کب تھا، بچھڑنا کیسا
لوگ تو کہتے ہیں گلشن کی تباہی دیکھو
میں تو اک ویران سا جنگل تھا،اجڑنا کیسا
دیکھنے میں تو کوئی درد نہیں دکھ بھی نہیں
پھر یہ آنکھوں میں یوں اشکوں کا ابھرنا کیسا
بے وفا کہنے کی کبھی جرات نہ کرنا
اس نے اقرار کیا کب تھا مکرنا کیسا

بھلا یہ کون ہے میرے ہی اندر مجھ سے رنجش میں
وہ مجھ کو ہی گنوا بیٹھا نہ جانے کس کی خواہش میں
سمندر ایک ٹھہرا سا ابھی تک ہے ترے اندر
ندی بن کر مرا بہنا تجھے ملنے کی کوشش میں
دریچے پر کھڑے ہو کر تجھے بس سوچتے رہنا
بہت سے کام باقی ہے بہت تھوڑی سی بارش میں

سنا ہو گا بہت تم نے
کہیں آنکھوں کی رم جھم کا
کہیں پلکوں کی شبنم کا
پڑھا ہوگا بہت تم نے
کہیں لہجے کی بارش کا
کہیں ساگر کے آنسو کا
مگر تم نے کبھی ہم دم
کہیں دیکھے کہیں پڑھے
کسی تحریر کے آنسو
مجھے تو اس جدائی نے
یہی معراج بخشی ہے
کہ میں جو لفظ لکھتا ہوں
وہ سارے لفظ روتے ہیں
کہ میں جو حرف بنتا ہوں
وہ سارے باتیں کرتے ہیں
میرے سنگ اس جدائی میں
میرے الفاظ مرتے ہیں

میرے ہمسفر میرے ساتھ تم
سبھی موسموں میں رہا کرو
کبھی دھواں بن کے اڑا کرو
کبھی پھول بن کے اگا کرو
کبھی دھوپ بن کے گرا کرو
کبھی شام بن کے چھایا کرو
میرے ہمسفر میرے ساتھ تم
کبھی چاندبن کے دیکھا کرو
کبھی تاروں میں ہنسا کرو
کبھی سانسوں میں تم بسا کرو
کبھی آنسو میں بہا کرو
میرے ہمسفر میرے ساتھ تم
کبھی رنگوں میں تم دیکھا کرو
کبھی خوشبو سے چھوا کرو
کبھی نظروں سے تم چھپا کرو
کبھی سپنوں میں بھی ملا کرو
میرے ہمسفر میرے ساتھ تم
کبھی آس بن کے دعا کرو
کبھی حوصلہ بھی بنا کرو
کبھی انتظار بھی بنا کرو
کبھی ساتھ ساتھ میرے چلا کرو
میرے ہمسفر میرے ساتھ تم
کبھی بارشوں میں ملا کرو
کبھی بادلوں میں چھپا کرو
کبھی ہم سے تم کچھ گلہ کرو
کبھی شروع اک نیا سلسلہ کرو
میرے ہمسفر میرے ساتھ تم
کبھی لہروں میں بہا کرو
کبھی ساحلوں پہ ملا کرو
کبھی یو ہی یاد آیا کرو
کبھی خیالوں سے نہ جایا کرو
میرے ہمسفر میرے ساتھ تم
سبھی موسموں میں رہا کرو

یہ شیشے یہ سپنے یہ رشتے یہ دھاگے
کسے کیا خبر ہے کہاں ٹوٹ جائیں
محبت کے دریا میں تنکے وفا کے
نہ جانے یہ کس موڑ پر ڈوب جائیں
عجب دل کی بستی عجب دل کی وادی
ہر اک موڑ موسم نئی خواہشوں کا
لگائے ہیں ہم نے بھی سپنوں کے پودے
مگر کیا بھروسہ یہاں بارشوں کا
مرادوں کی منزل کے سپنوں میں کھوئے
محبت کی راہوں پہ ہم چل پڑے تھے
ذرا دور چل کے جب آنکھیں کھلیں تو
کڑی دھوپ میں ہم اکیلے کھڑے تھے
جنہیں دل سے چاہا جنہیں دل سے پوجا
نظر آ رہے ہیں وہی اجنبی سے
روایت ہے شاید یہ صدیوں پرانی
شکایت نہیں ہے کوئی زندگی سے

اک روز تو کوئی تو سوچے گا
اک روز کوئی تو سوچے گا
اک روز کوئی تو سوچے گا
فرزانوں کی اس بستی میں
اک شخص تھا پاگل پاگل سا
پر باتیں ٹھیک ہی کہتا تھا
بارش کی طرح پر شور تھا
دریا کی طرح چپ رہتا تھا
جن سے اسے پیار بلا کا تھا
طعنے بھی انہیں کے سنتا تھا
اک شخص تھا پاگل پاگل سا
پر باتیں ٹھیک ہی کہتا تھا
اک روز کوئی تو سوچے گا
دنیا نے اسے کچھ بھی نہ دیا
پر اس نے جگ کو پیاردیا
جاں روتے روتے کھو بیٹھا
دل ہنستے ہنستے ہار دیا
جونظم لکھی بھرپور لکھی
جو شعر دیا شہکار دیا
کیوں جیتے جی درگور ہوا
کس چاہ میں تن من واردیا
تھا دشمن کون بےچارے کا
کس رنج نے اس کو مار دیا
اک روز کوئی تو سوچے گا
اور پہروں بیٹھ کے روئے گا

اُسے میں نے ہی لکھا تھا
کہ لہجے برف ہوجائیں
تو پھر پگھلا نہیں کرتے
پرندے ڈر کر اڑ جائیں
…تو پھر لوٹا نہیں کرتے
یقیں اک بار اٹھ جائے
کبھی واپس نہیں آتا
ہواؤں کا کوئی طوفاں
بارش نہیں لاتا
اسے میں نے ہی لکھا تھا
جو شیشہ ٹوٹ جائے تو
کبھی پھر جڑ نہیں پاتا
جو راستے سے بھٹک جائیں
وہ واپس مڑ نہیں پاتا
اُسے کہنا وہ بے معنی ادھورا خط
اُسے میں نے ہی لکھا تھا
اُسے کہنا کے دیوانے مکمل خط نہیں لکھتے

محبت ایسا نغمہ ہے
ذرا بھی جھول ہے لَے میں
تو سُر قائم نہیں ہوتا
محبت ایسا شعلہ ہے
ہوا جیسی بھی چلتی ہو
کبھی مدھم نہیں ہوتا
محبت ایسا رشتہ ہے
کہ جس میں بندھنے والوں کے
دلوں میں غم نہیں ہوتا
محبت ایسا پودا ہے
جو تب بھی سبز رہتا ہے
کہ جب موسم نہیں ہوتا
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا

اے دوست بتا تو کیسا ہے
کیا اب بھی محلّہ ویسا ہے ؟
وہ لوگ پرانےکیسے ہیں ؟
کیا اب بھی وہاں سب رہتے ہیں ؟
جن کو میں تب چھوڑ گیا
دوکان تھی جوایک چھوٹی سی
کیا بوڑھا چاچا ہوتا ہے ؟
کیا چیزیں اب بھی ہیں ملتی
بسکٹ ، پاپڑ اور گولی
اور گولی کھٹی میٹھی سی ؟
بیری والے گھر میں اب بھی
کیا بچّے پتھر مارتے ہیں ؟
اوربوڑھی امّاں کیا اس پر
اب بھی شور مچاتی ہے ؟
بجلی جانے پر اب بھی
کیا خوشی منائی جاتی ہے
پھر چھپن چھپائی ہوتی ہے ؟
کیا پاس کسی کے ہونے پر
مٹھائی بھی بانٹی جاتی ہے ؟
بارش کے پہلے قطرے پر
کیا ہلّہ گلّہ ہوتا ہے ؟
اور غم میں کسی کے اب بھی
کیا پورا محلّہ روتا ہے ؟
گلی کے کونے میں بیٹھے
کیا دنیا کی سیاست ہوتی ہے ؟
گڈے گڑیوں کی کیااب بھی
بچوں میں شادی ہوتی ہے ؟
اے دوست بتا سب کیسا ہے
کیا محلّہ اب بھی ویسا ہے ؟
کیا اب بھی شام کو سب سکھیاں
دن بھر کی کہانی کہتی ہیں ؟
پرلی چھت سے چھپ چھپ کر
کیا اب بھی انہیں کوئی دیکھتا ہے ؟
کیا اب بھی چھپ چھپ کر ان میں
کوی خط و کتابت ہوتی ہے ؟
وہ عید پہ بکروں بیلو ں کا
کیا گھر گھرمیلہ سجتا ہے ؟
خاموش ہےتو کیوں دوست میرے
کیوں سر جھکا کر روتا ہے ؟
ہلکے ہلکے لفظ دبا کر کہتا ہے
سب لوگ پرانے چلے گئے
سب بوڑھے چاچا ، ماما ، خالو
خالہ ، چاچی ، امّاں
سب ملک عدم کو لوٹ گئے
گھر بکے اور تقسیم ہوئے
اپنےحصّے لے کر سب
اپنے مکاں بنا بیٹھے
انجانوں کی بستی ہے وہ
اب لوٹ کے تو کیا جائے گا
دل تیرا بھر بھر آئے گا….

درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بھر جاتے ہیں
نرم الفاظ بھلی باتیں مہذب لہجے
پہلی بارش ہی میں یہ رنگ اتر جاتے ہیں

دل میرا دھڑکتا ہے یوں
جیسے بارش میں آندھی ہو کوئی
دل میرا تڑپتا ہے یو
جیسے تپتی دھوپ میں ننگے پاؤں کھڑا ہو کوئی
دل میرا ملنے کو چاہتا ہے یوں
جیسے مردہ قبر سے باہر نکلنے کو ہو کوئی

فراق یار کی بارش ملال کا موسم
ہمارے شہر میں اترا کمال کا موسم
وہ ایک دعا جو میری نا مراد لوٹ آئی
زباں سے روٹھ گیا پھر سوال کا موسم
بہت دنوں سے میرے ذہن کے دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے تمہارے خیال کا موسم
جو بے یقین ہوں بہاریں اجڑ بھی سکتی ہیں
تو آ کے دیکھ لے میرے زوال کا موسم
محبتیں بھی تیری دھوپ چھاوں جیسی ہیں
کبھی یہ ہجر کبھی یہ وصال کا موسم
کوئی ملا ہی نہیں جس کو سونپتے محسن
ہم اپنے خواب کی خوشبو خیال کا موسم

لہریں اٹھ اٹھ کےمگر اس کا بدن چومتی تھیں
وہ جو دریا پہ گیا خوب ہی دریا چمکا
یوں تو ہر رات چمکتے ہیں ستارے لیکن
وصل کی رات بہت صبح کا تارا چمکا
جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں امجد
آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرا چمکا

میں اور تم ہوں بارش ہو
اور ایک چھتری ہو
پھر تم کو چھتری دے کر
میں خود بارش میں بھیگ جائوں
تم سے یہ امید لگائوں
مجھے پھر سے تم بلا لو
اور چھتری مجھے تھما دو
پر تم نے تو منہ ہی موڑ لیا
اور مجھ کو بھیگتا چھوڑ دیا
اس دن جو میں ہوا ہوں تنہا
آج تلک اشکوں میں ہوں بھیگ رہا

اے مرے ابر کرم دیکھ یہ ویرانۂ جاں
کیا کسی دشت پہ تو نے کبھی بارش نہیں کی
کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے
مقتل شہر میں ٹھہرے رہے جنبش نہیں کی
وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فرازؔ
ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی

خواب کی کچی ململ میں جب آنکھیں لپٹی ہوں
یادیں اوڑھ کے سوتے رہنا اچھا لگتا ہے
سانجھ سویرے کھلتے ہیں جب تیتریوں کے پر
اس منظر میں منظر ہونا اچھا لگتا ہے
بارش آ کر برس رہے گی موسم آنے پر
پھر بھی اپنا درد چھپانا اچھا لگتا ہے

یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
جو برس گئی تو بہار ہیں
جو ٹھہر گئی تو قرار ہیں
،
کبھی آ گئی یونہی بے سبب
کبھی چھا گئی یوں ہی روزِ و شب
کبھی شور ہیں، کبھی چپ سی ہیں
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
۔
کسی یاد میں کسی رات کو
اک دبی ہوئی سی راکھ کو
کبھی یوں ہوا کہ بجھا دیا
کبھی خود سے خود کو جلا دیا
کبھی بوند بوند میں گم سی ہیں
،
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں

وہ اکثر کہا کرتی تھی،،،
محبت کا رنگ نیلا ہوتا ہے۔
ایک دن میں نے اس سے پوچھا،،،
مجھے تمہاری بات کی سمجھ نہیں آئی۔
میں نے تو سنا ہے محبت کا رنگ سرخ ہوتا ہے،،،
وہ مسکرا کے بولی۔
تم نے کبھی آسماں کو دیکھا ہے،،،؟
آسماں بھی تو نیلا ہے۔
سمندر بھی تو نیلا ہے، پرسکون، گہرا، نمکین،،،
محبت میٹھی نہیں ہوتی۔ نمکین ہوتی ہے۔
محبت تو آنسو دیتی ہے، آنسو بھی تو نمکین ہوتے ہیں،،،
محبت بھی تو بارش کی صورت ہوتی ہے۔
تھوڑی برسے کم لگتی ہے،،،
زیادہ برس جائے تو سب برباد کر دیتی ہے۔
وہ اکثر کہا کرتی تھی محبت کا رنگ نیلا ہوتا ہے،،،
پچھلے سال اس کی بھی موت ہو گئی تھی۔!!!
کسی زہریلی چیز کے کاٹنے سے،،،
دیکھنے والے کہتے ہیں کے مرنے کے بعد اس کا رنگ بھی نیلا ہو گیا تھا۔!!!
وہ اکثر کہا کرتی تھی محبت کا رنگ نیلا ہوتا ہے۔

بہت یاد آتا ہے گُزرا زمانہ،
وہ گاؤں کی گلیوں میں پیپل پُرانا۔
وہ گرمی کی چُھٹّی مزے سے بِتانا،
وہ نانی کا قِصّہ کہانی سُنانا۔
وہ باغوں میں پیڑوں پہ ٹائر کے جھولے،
وہ بارش کی بوندوں میں چھت پر نہانا۔
وہ گاؤں کے میلے میں گُڑ کی جلیبی،
وہ سرکس میں خوش ہو کے تالی بجانا۔
وہ اِملی کے پیڑوں پہ پتّھر چلانا،
جو پتّھر کسی کو لگے بھاگ جانا۔ ♂
وہ اُنگلی چُھپا کر پہیلی بُجھانا،
وہ پیچھے سے ہو کر کے سب کو ڈرانا۔
چُھپا کر کے سب کی نظر سے ہمیشہ،
وہ ماں کے دوپٹے سے سِکّے چُرانا۔
وہ کاغذ کے ٹکڑوں پہ چور اور سپاہی، ♂
وہ شادی میں اُڑتا ہوا شامیانہ۔
وہ سائیکل کے پہیے کی گاڑی بنانا،
بڑے فخر سے دوسروں کو سکھانا۔
مگر یادِ بچپن کہیں سو گئی ہے،
کہ خوابوں کی جیسے سحر ہو گئی ہے۔
وہ ماں کی محبت وہ والد کی شفقت،
وہ ماتھے پہ کاجل کا ٹیکہ لگانا۔
یہ نفرت کی آندھی عداوت کے شعلے،
یہ سیاست دلوں میں زہر بو گئی ہے۔
وہ کاغذ کی چڑیا بنا کر اُڑانا،
وہ پڑھنے کے ڈر سے کتابیں چُھپانا۔
زبان بند رکھنے کا آیا زمانہ،
لبوں پہ نہ آئے امن کا ترانہ۔
وہ نرقل کی قلموں سے تختی پہ لکھنا،
وہ گھر سے سبق یاد کر کے نہ جانا۔✍
کہ جب مل کے رہتے تھے سارے مسلماں،
نہیں آئے گا اب وہ موسم سُہانا_”

اسکی باتوں سے مہک آتی ہے
ایسا لگتا ہے پھول کھاتی ہے
بادلوں میں گرج نہیں ہوتی
جب بھی بارش میں وہ نہاتی ہے
دردِ سر کم نہ ہو رہا ہو تو
اپنے ہاتھوں کی چائے پلاتی ہے
میں بھی ویسے سنورنے لگتا ہوں
جیسے جیسے وہ مسکراتی ہے
پوچھ بیٹھوں جو پیار کا مطلب
شعر میرے مجھے سناتی ہے
نام لکھتی ہے میرا ہاتھوں پر
اور پھر چوم کر دکھاتی ہے
اس سے ہوتی ہیں رات بھر باتیں
دن کو پھر میں جہاں جاؤں نیند آتی ہے

اسکی باتوں سے مہک آتی ہے
ایسا لگتا ہے پھول کھاتی ہے
بادلوں میں گرج نہیں ہوتی
جب بھی بارش میں وہ نہاتی ہے
دردِ سر کم نہ ہو رہا ہو تو
اپنے ہاتھوں کی چائے پلاتی ہے
میں بھی ویسے سنورنے لگتا ہوں
جیسے جیسے وہ مسکراتی ہے
پوچھ بیٹھوں جو پیار کا مطلب
شعر میرے مجھے سناتی ہے
نام لکھتی ہے میرا ہاتھوں پر
اور پھر چوم کر دکھاتی ہے
اس سے ہوتی ہیں رات بھر باتیں
دن کو دفتر میں نیند آتی ہے ❤

اسکی باتوں سے مہک آتی ہے
ایسا لگتا ہے پھول کھاتی ہے
بادلوں میں گرج نہیں ہوتی
جب بھی بارش میں وہ نہاتی ہے
دردِ سر کم نہ ہو رہا ہو تو
اپنے ہاتھوں کی چائے پلاتی ہے
میں بھی ویسے سنورنے لگتا ہوں
جیسے جیسے وہ مسکراتی ہے
پوچھ بیٹھوں جو پیار کا مطلب
شعر میرے مجھے سناتی ہے
نام لکھتی ہے میرا ہاتھوں پر
اور پھر چوم کر دکھاتی ہے
اس سے ہوتی ہیں رات بھر باتیں
دن کو پھر میں جہاں جاؤں نیند آتی ہے

اسکی باتوں سے مہک آتی ہے
ایسا لگتا ہے پھول کھاتی ہے
بادلوں میں گرج نہیں ہوتی
جب بھی بارش میں وہ نہاتی ہے
دردِ سر کم نہ ہو رہا ہو تو
اپنے ہاتھوں کی چائے پلاتی ہے
میں بھی ویسے سنورنے لگتا ہوں
جیسے جیسے وہ مسکراتی ہے
پوچھ بیٹھوں جو پیار کا مطلب
شعر میرے مجھے سناتی ہے
نام لکھتی ہے میرا ہاتھوں پر
اور پھر چوم کر دکھاتی ہے
اس سے ہوتی ہیں رات بھر باتیں
دن کو پھر میں جہاں جاؤں نیند آتی ہے

ہر عیب چھپاتے ہیں قباؤں کی طرح ہیں
مخلص ہیں مرے یار وفاؤں کی طرح ہیں ۔
کچھ لوگ بچھڑ کر بھی مرے ساتھ رھے ہیں
ہونٹوں پہ کئی نام دعاؤں کی طرح ہیں
چہرے سے ذرا سخت نظر آتے ہیں تم کو
ہم لوگ تو معصوم دعاؤں کی طرح ہیں ۔۔
سامان میں چھتری کی طرح ساتھ رہیں گے
ہم تپتی ہوئی دھوپ میں چھاؤں کی طرح ہیں
لفظوں میں اثر ہے تو کئی لہجے شفا ہیں
کچھ لمس اذیت میں دواؤں کی طرح ہیں
کچھ ہم بھی محبت میں اصولوں کے تھے قائل
کچھ ان کے رویے بھی اناؤں کی طرح ہیں
بارش کی طرح شور مچائیں گے کسی دن
خاموش تعلق جو ہواؤں کی طرح ہیں

اب کے بارش کو بھی تو آنے دے
کچھ ستم موسموں کو ڈھانے دے
ہر کوئی مجھ کو آزماتا ہے
اب مجھے اس کو آزمانے دے
دل کو اس سے سکون ملتا ہے
درد کی محفلیں سجانے دے

وہ کیسی، کہاں کی زندگی تھی
جو تیرے بغیر کَٹ رہی تھی
اُس کو جب پہلی بار دیکھا
میں تو حیران رہ گئی تھی
وہ چَشم تھی سِحر کار بے حد
اور مُجھ پہ طلِسم کر رہی تھی
لَوٹا ہے وہ پچھلے موسموں کو
مُجھ میں کِسی رنگ کی کمی تھی
صحرا کی طرح تھیں خُشک آنکھیں
بارش کہیں دِل میں ہو رہی تھی
آنسُو مِرے چُومتا تھا کوئی
دُکھ کا حاصل یہی گھڑی تھی
سُنتی ہُوں کہ میرے تَذکرے پر
ہَلکی سی اُس آنکھ میں نَمی تھی
غُربت کے بہت کَڑے دِنوں میں
اُس دِل نے مُجھے پناہ دی تھی
سب گِرد تھے اُس کے، اور ہم نے
بَس دُور سے اِک نگاہ کی تھی
———————– ✍

چلو خوابوں میں ملتے ہیں
کہ نیندیں بانٹ لیتے ہیں
زمانے کی نظر سے دور جا کر گھوم آتے ہیں
نئی دنیا بساتے ہیں
جہاں
نہ کوئی روکنے والا
نہ کوئی ٹوکنے والا
نہ کوئی خوف دنیا کا
نہ کوئی ڈر زمانے کا
جہاں بارش محبت کی
ہمیں مدہوش کر جائے
تمھارے سامنے میں ہوں
ہمارے سامنے تم ہو
چلو اس زندگی میں
امر کرلیں اس کہانی کو
تو پھر خوابوں میں ملتے ہیں
محبت اوڑھ لیتے ہیں ۔ ۔✍

آ جا ، کہ ابھی ضبط کا ، موسم نہیں گزرا
آ جا ، کہ پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ھے !
خوشبو کے جزیروں سے ، ستاروں کی حدوں تک
اِس شہر میں سب کچھ ھے ، بس تیری کمی ھے
حالات دنیا نے کب چاک کیا دل…….؟
تیرے ہجر کے غم میں میری سانس تھمی ہے
تو بہار، تو ہی بارش، تو ہی موسم ہے گرم و سرد
یہ دنیا تو تیرے بن دنیا ہی نہیں ہے
محسن یہ تیرے لفظ ہیں یا پاگل کا حال دل
تیرے لفظوں میں میرا درد، اور ایک شخص کی کمی ہے

چلو خواب میں ملتے ہیں!. اور اُسی خواب میں پھر سے اِک نیا خواب بنتے ہیں
خواب میں تتلیاں ہیں، جُگنوں، چاند اور تارے ہیں…خواب میں تم میرے ہو اور یہ سب تمہارے ہیں !
خواب میں ہم بھیگتے ہیں جیسے کوئی بارش ہو ! خواب اِک دُھندلی وادی ہے جیسے بادلوں کی سازش ہو! خواب میں سب خواب سہ ہے ہر اک چہرہ جناب سہ ہے !
خواب جیسے کوئی پھول نگر ہے کچھ موتیا تھوڑا گلاب سہ ہے…
تو چلو نا اس خواب میں چلتے ہیں!!!
صبر کے کچھ گھونٹ اتنے کڑوے ہوتے ہیں کہ پوری زندگی کی مٹھاس چھین لیتے ہیں.___
ساری خوشیاں مل جاونڑ تے
پچھے کی رہ جانڑاں

پتھر کی بارشوں کا اثر دیکھتے چلیں
کیسے بچا ہے شیشے کا گھر دیکھتے چلیں
گھر کی تباہیوں سے جو مغموم تھے بہت
اجڑے ہوئے وہ دل کے نگر دیکھتے چلیں
انورؔ جو لوگ شام مسرت میں مست تھے
ان سے کہو کہ غم کی سحر دیکھتے چلیں

آج ہلکی ہلکی__________ بارش ہے_
اور سرد ہوا_________ کا رقص بھی ھے
آج پھول بھی____ بکھرے بکھرے ہیں_
اور ان میں تیرا_____ عکس بھی ہے،
آج بادل ______گہرے گہرے ہیں
اور چاند_______ پہ لاکھوں پہرے ہیں
کچھ ٹکڑے_____ تمھاری یادوں کے_
بڑی دیر سے_____ دل میں ٹھرے ہیں
میرے دل پہ ______یوں تم چھائے ہو
آج یاد بہت _______ تم آئے ہو

سنو! تم دیر مت کرنا
کوئی آنسو، کوئی آنکھیں
کوئی چہرہ، کوئی لہجہ
کوئی آواز تم کو جس قدر رو کے
مگر تم دیر مت کرنا
کسی کی یاد کی آنکھیں
تمہیں ہر لمحہ تکتی ہیں
کسی کی آنکھ میں جاناں
تمہاری یاد کی بارش
ہر اک لمحہ برستی ہے
تمہیں بس سوچتے رہنا
کسی کا کام رہتا ہے
سنو! تم دیر مت کرنا
کوئی آنسو، کوئی آنکھیں
کوئی چہرہ، کوئی لہجہ
کوئی آواز تم کو جس قدر روکے
مگر تم دیر مت کرنا
تمہاری یاد کا موسم
تو صبح و شام رہتا ہے
کسی کے ہونٹ پر ہر دم
تمہارا نام رہتا ہے
سنوا تم دیر مت کرنا
کوئی آنسو کوئی آنکھیں،
کوئی چہرہ، کوئی لہجہ
کوئی آواز تم کو جس قدر روکے
مگر تم دیر مت کرنا
سنو! تم دیر مت کرنا

راہوں کا خوف ہے نہ مجھے فاصلوں کا ڈر
اُس کو سفر کا شوق ، مجھے رہبروں کا ڈر
جب سر پہ دھوپ تھی تو رہی بادلوں کی آس
اب سر پہ چھت ہوئی تو مجھے بارشوں کا ڈر
اک شخص جاتے جاتے بہت خامشی کے ساتھ
کانوں پہ رکھ گیا ہے دبی آہٹوں کا ڈر
محتاط چل رہا ہوں کہ چاروں طرف مرے
شیشہ مزاج لوگ ہیں اور کرچیوں کا ڈر
دیکھے ہیں میری آنکھ نے سورج کے جب سے داغ
دل سے نکل گیا ہے مرے آئنوں کا ڈر

بجھتی یادوں کو ہوا دیتی ہیں
بارشیں اور جلا دیتی ہیں
بوندیں مٹی پہ پڑیں تو تیرے
نقش خوشبو سے بنا دیتی ہیں
بیتی گھڑیاں بھی ہیں بارش جیسی
یوں برستی ہیں بہا دیتی ہیں
ایسے موسم میں ہماری انکھیں
سارے منظر کو رلا دیتی ہیں
یونہی دل بارشوں پر مرتا ہے
کیا یہ حسرت کے سوا دیتی ہیں
Conclusion
We hope these Barish Quotes in Urdu bring a smile to your face and warmth to your heart. Rain has a way of making moments memorable, and these quotes help you express those feelings beautifully. Whether you’re sharing them with someone special or enjoying them alone, let the magic of rain and the charm of Urdu words create unforgettable moments for you.
Thank You
Thank you for visiting our collection of Barish Quotes in Urdu. We hope you enjoyed reading them as much as we loved sharing them. May these quotes bring peace, love, and inspiration to your day. Don’t forget to share your favorites with your friends and loved ones!
FAQs
1. What are Barish Quotes in Urdu?
Barish Quotes in Urdu are short and beautiful sayings that describe feelings, thoughts, and emotions inspired by rain. They often reflect love, romance, memories, and life’s gentle moments.
2. Can I share these quotes on social media?
Yes! These quotes are perfect for WhatsApp, Instagram, Facebook, and other social media platforms. Share them to express your emotions or spread the beauty of rain with your friends.
3. Are these quotes suitable for romantic messages?
Absolutely! Many of these quotes capture the romance and charm of rain, making them perfect for sending to someone special.
4. How often do you add new Barish Quotes?
We regularly update our collection with fresh and unique quotes, so you can enjoy new rain-inspired poetry anytime.
5. Can I contribute my own Barish Quotes?
Yes, we love hearing from our readers! If you have a beautiful rain-inspired quote in Urdu, you can share it with us, and we may feature it on our website.