Life Quotes in Urdu

تھوڑا میں تھوڑی تم اور تھوڑی سی محبت بس اتنا کافی ہے جینے کے لیے

پیار کا تو پتا نہیں پر جو فیلنگ تیرے ساتھ آتی ہے وہ اور کسی کے ساتھ نہیں ہے

اے زندگی جتنی مرضی تلخیاں بڑھا وعدہ ہے تجھے ہنس کے گزاریں گے

زندگی بھی کتنی عجیب ہوتی ہے کبھی ڈوبتے سورج کی طرح کبھی چمکتے چاند کی طرح

شہر والوں سے حقارت کے سِوا کچھ نہ ملا زندگی آتجھے لے جاوں کسی گاوں میں

زندگی کا نام تو سُنا ہوگا تم نے بس اسی سے نفرت ہوگئی ہے

اصولوں کے لیے جنگ کرنا بہت آسان ہے لیکن اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا بہت مشکل ہے

بنا روئے تو پیاز بھی نہیں کٹتا یہ تو پھر زندگی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روز روتے ہوئے کہتی ہے زندگی مجھ سے صرف اک شخص کی خاطر مجھے برباد نہ کر

اکثر کتابوں کے صفحے پلٹ کر سوچتا ہوں میں اے کاش پلٹ جائے یوں زندگی تو کیا بات ہے

اتنا کیوں سکھائے جارہی ہے زندگی ہم نے کون سا صدیاں گزارنی ہیں یہاں

غرور کس بات کا صاحب آج مٹی کے اوپر کل مٹی کے نیچے

زندگی کا تھا اپنا عیش مگر سب کی سب امتحان میں گزری

مقدّر کی زنجیروں سے بندھے ہم بے بس لوگ، عمر گزار دیتے ہیں معجزے کے انتظار میں

ہے تبسم ہمارے لَب پہ ابھی، ہم کہاں زندگی سے ہارے ہیں

تھک گیا ہوں تیری نوکری سے اے زندگی ، مناسب ہوگا میرا حساب کر دے

سرے آم مجھے یہ شکایت ہے زندگی سے ، کیوں ملتا نہیں مزاج میرا کسی سے

زندگی کو اتنا سیریس لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں سے زندہ بچ کر کوئی نہیں گیا ۔

لوگ ہماری زندگی کا ایک صفحہ پڑھ کر پوری کتاب خود ہی لکھ لیتے ہیں۔

گُزرتی زندگی جو سبق سِکھاتی ہے وہ کوئی سکول نہیں سِکھا سکتا

زندگی تو نے مُجھے قبر سے کم دی ہے زمیں، پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سَر لگتا ہے

جو لوگ موت کو ظالم قرار دیتے ہیں، خدا ملاۓ اِنھیں زندگی کے ماروں سے

زندگی اَب بتا کہاں جائیں ، زہر بازار میں دستیاب نہیں

زندگی تو نے دِکھاۓ ہیں اِتنے بھنور کہ اب تو ٹھہرے ہوۓ پانی سے بھی ڈر لگتا ہے

زندگی سے بڑی سزا نہیں، اور کیا جرم ہے پتہ ہی نہیں

اِتنا کافی ہے کہ تٌجھے جی رہا ہوں میں، زندگی اِس سے زیادہ میرے منہ نہ لگا کر

حیات اِک مرگِ مسلسل کا نام ہے شاید، وگرنہ کِس میں یہ ہمت تیرے بغیر جئے

زندگی دیکھ تیرے دیدہِٕ تمسخر کی قسم، ہم تٌجھے چھوڑنے والے ہیں تماشا نہ بنا

زندگی جب عذاب ہوتی ہے، عاشقی کامیاب ہوتی ہے

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم، گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

زندگی میری تھی لیکن اَب تو تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے

مُحبت رہی چار دِن، زندگی میں رہا چار دِن کا اثر زندگی بھر

لے دے کے اپنے پاس فقط اِک نظر تو ہے کیوں دیکھیں زندگی کو کِسی کی نظر سے ہم

مت پوچھ کہ کس طرح چل رہی ہے زندگی اس دور سے گُزر رہے ہیں جو گُزرتا ہی نہیں

تُم مُحبت کو کھیل کہتے ہو ہم نے برباد زندگی کر لی

زندگی میں کبھی کس کا دل مت دکھانا ورنہ آپ کا بھی دل کوئی دکھائے گا۔

آواز دے کے چھُپ گئی ہر بار زندگی ہم اِتنے سادہ دِل تھے کہ ہر بار آگئے

زندگی کی حقیقت کو بس اِتنا ہی جانا ہے درد میں اکیلے ہیں، خوشیوں میں زمانہ ہے

آج تک ہے دل کو اُس کے لوٹ آنے کی اُمید آج تک ٹھہری ہوئی ہے زندگی اپنی جگہ

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

جن میں تنہا چلنے کے حوصلے ہوتے ہیں ایک دن انہی کے پیچھے قافلے ہوتے ہیں

آگ لگانے والوں کو کہاں خبر رخ ہواؤں نے بدلہ تو خاک وہ بھی ہونگے

کچھ لوگ مسکراہٹیں بکھیر کر بھی یہ احساس نہیں ہونے دیتے کہ وہ اندر سے مر چکے ہیں

زندگی ایک بار ملتی ہے سراسر غلط تصور ہے زندگی تو
ہر روز ملتی ہے دراصل موت صرف ایک بار ملتی ہے

انسان غیروں سے ملی عزت اور
اپنوں سے ملی ذلت کبھی نہیں بھولتا

خود پر یقین ہونا چاہیے
سہارے ہی تو بے سہارا کرتے ہیں

زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی

زندہ رہنا چاہو تو موت قیامت ہے اور
مرنا چاہو تو زندگی قیامت ہے

فکر میں رہو گے تو خود جلو گے
بے فکر رہوگے تو دنیا جلے گی

بے قدری تو ہونی تھی
ہم اس کو میسر جو تھے

خواب جن کے اونچے اور مست ہوتے ہیں
امتحان بھی ان کے زبردست ہوتے ہیں

جس نے سکھ میں شکر ادا کیا
اس نے دکھ میں رب کو بہت قریب پایا

سانپ سو سال بعد انسان بن جاتا ہے اور
انسان کو جب موقع ملتا ہے سانپ بن جاتا ہے

پوری دنیا میں صرف ایک ہی شخص ہےجو
آپ کی زندگی کو بدل سکتا ہے اور وہ آپ خود ہیں

کہنے والوں کا کچھ نہیں جاتا
سہنے والے کمال کرتے ہیں

احسان کی خوبی یہ ہے کہ
اسے جتایا نہ جائے

وقت گہرےسمندر میں گرا ہوا موتی ہے
جس کا دوبارہ ملنا نہ ممکن ہے

محبت تو اک احساس ہے جس سے
ہو جائے، بس وہی خاص ہے

زندگی کی لڑائی اکیلے ہی لڑنی پڑتی ہے
لوگ صرف تسلی دیتے ہیں ساتھ نہیں

غصے کے وقت تھوڑا رک جائیں اور غلطی کے وقت
تھوڑا جھک جائیں زندگی آسان ہو جائے گی

زندگی محبت کے بغیر ایسی ہے جیسے
وہ پیڑ جس میں بھول ہوں نہ پھل

کبھی زندگی ایک پل میں گزر جاتی ہے
کبھی زندگی کا ایک پل نہیں گزرتا

مجھے لوگوں کو پڑھنا نہیں آتا
مگر ان پر اعتبار کر کے سبق ضرور مل جاتا ہے

جنھیں احساس ہی نا ہوان کے ساتھ
کیسے گلے، کیسے شکوے؟

غور کیا جب زندگی کے فلسفوں پر
بات مٹی سے شروع ہو کر مٹی میں جا ملی

عروج ملنے پر انسان خدا نہ بن جائے
اسی لیے خدا نے زوال رکھا ہے

آستنیوں کو جھار کے دیکھو
آدھا زہر تو اپنوں کا نکلے گا

انسان جب زندگی کے امتحانوں سے گزر کر پتھر
ہو جاتا ہے تا کوئی دل دکھا بھی دے تو برا نہیں لگتا

جو دل کے سچے ہوتے ہیں
وہ اکثر اکیلے ہوتے ہیں

ہم سب رہتے تو ایک ہی دنیا میں ہیں
لیکن سب کی دنیا الگ الگ ہے

زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے

جبر کے اندھیروں میں زندگی گزاری ہے
اب سحر جو آئے گی ، وہ سحر ہماری ہے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے

ناصر بہت سی خواہشیں دل میں ہیں بے قرار
لیکن کہاں سے لاؤں ، وہ بے فکر زندگی

آرام سے تنہا کٹ رہی تھی توہ اچھی تھی
زندگی تو کہاں دل کی باتوں میں آ گئی

نا رہو اتنا قریب کہ ارباب غم نہیں اچھے
ہماری شاعری تو اچھی ہے مگر ہم نہیں اچھے

تیری فرقتوں میں مہکے،تیری قربتوں میں بہکے
کہیں ہجر نے بکھیرا ، کہیں وصل نے نکھارا

زندگی کچھ تو بھرم تُو مِرے احباب کا رکھ
سارے چہرے تو مِرے سامنےعریاں نہ کر

ہم کہانی کے وہ بوسیدہ اداکار جنہیں
زندگی کیا ہے بتانے کیلئے مارا گیا
