Mohabbat Badnaam Shayari

جگر تھامے ہوئے یاں طالب دیدار بیٹھے ہیں
مزے واں لوٹنے کو بزم میں اغیار بیٹھے ہیں
فقط اتنا کہا تھا تم ذرا صورت دکھا جاؤ
یہ سن کر آج مجھ سے وہ بہت بیزار بیٹھے ہیں
محبت ان سے کیا کی لے لیا کوہ الم سر پر
مجھے بدنام کرنے کو سر بازار بیٹھے ہیں

ذرا مقتل میں تم آ کر نکالو اپنے خنجر کو
یہاں ہم قتل ہونے کے لئے تیار بیٹھے ہیں
چلا تو ہے عزیزؔ ان کی گلی میں شوق سے لیکن
قدم رکھنا سنبھل کر وہ بنے عیار بیٹھے ہیں

مجھ کو معلوم نہ تھا ان سے محبت ہوگی
درد پر درد مصیبت پہ مصیبت ہوگی
یہی حالت ہے تو اک روز یہ صورت ہوگی
قیس و فرہاد سے بڑھ کر مری وحشت ہوگی
کر کے بدنام مجھے اور یہ کہنا اس پر
آپ کے ملنے سے بے شک مری ذلت ہوگی

اضطراب دل مضطر ہے بیاں سے باہر
تیرے دیدار سے حاصل اسے راحت ہوگی
لے خبر جلد مسیحا تو خدارا آ کر
تیرے بیمار کی ورنہ بری حالت ہوگی
دل یہ کہتا ہے ذرا چل تو در جاناں تک
شرم کہتی ہے ترے جانے میں ذلت ہوگی

میں نے پوچھا کہ بھلا پھر بھی ملو گے صاحب
بولے منہ پھیر کے ہاں گر ہمیں فرصت ہوگی
آپ چل پھر کے ذرا چال دکھائیں تو سہی
آپ کی جانے بلا ہوگی قیامت ہوگی
میں تو گھل گھل کے یوں ہی ہجر میں جاں دوں گا عزیزؔ
اس کو معلوم مرے بعد حقیقت ہوگی

پامال آرزو دل ناکام ہی تو ہے
خوش ہوں کہ یہ بھی عشق کا انجام ہی تو ہے
گو زندگی کی شام سہی شام ہی تو ہے
ایک ابتدائے صبح خوش انجام ہی تو ہے
انسانیت کا خون نہیں شیخ محترم
میرے سبو میں بادۂ گلفام ہی تو ہے

تم تو غم حیات سے بچتے ہو اس طرح
جیسے یہ کوئی زہر بھرا جام ہی تو ہے
میرے لبوں پہ شکوۂ تقدیر تو نہیں
ذکر مآل گردش ایام ہی تو ہے
میں جب سے مبتلائے غم روزگار ہوں
تکلیف تو نہیں مجھے آرام ہی تو ہے

جس آرزوئے شوق سے چھوٹے نہ جاں کبھی
وہ آرزوئے شوق کہاں دام ہی تو ہے
اس نام سے کہ شاعر شیریں مقال ہے
تیرا عتیقؔ شہر میں بدنام ہی تو ہے

ڈرتا ہوں محبت میں مرا نام نہ ہووے
دنیا میں الٰہی کوئی بدنام نہ ہووے
شمشیر کوئی تیز سی لینا مرے قاتل
ایسی نہ لگانا کہ مرا کام نہ ہووے
گر صبح کو میں چاک گریبان دکھاؤں
اے زندہ دلاں حشر تلک شام نہ ہووے

آتا ہے مری خاک پہ ہم راہ رقیباں
یعنی مجھے تربت میں بھی آرام نہ ہووے
جی دیتا ہے بوسہ کی توقع پہ فغاںؔ تو
ٹک دیکھ لے سودا یہ ترا خام نہ ہووے

کہا کس نے مسلسل کام کرنے کے لیے ہے
یہ دنیا اصل میں آرام کرنے کے لیے ہے
محبت اور پھر ایسی محبت جو ہے تجھ سے
چھپائیں کیوں یہ خوشبو عام کرنے کے لیے ہے
کرے گا کون تجھ کو تیری بے مہری کا قائل
یہاں جو بھی ہے تجھ کو رام کرنے کے لیے ہے

یہ کار عشق میں الجھی ہوئی بے نام دنیا
حقیقت میں نمود و نام کرنے کے لیے ہے
بہت چھوٹا سا دل اور اس میں اک چھوٹی سی خواہش
سو یہ خواہش بھی اب نیلام کرنے کے لیے ہے

غزل کہنی پھر اس میں اپنے دل کی بات کہنی
یہی کافی ہمیں بدنام کرنے کے لیے ہے
بہت دن رہ چکے نام آوروں کے بیچ اشفاقؔ
اب اپنا نام بس گمنام کرنے کے لیے ہے

سوجھی تدبیر نہ کچھ رنج و بلا سے پہلے
زندگی چھوڑ گئی ساتھ قضا سے پہلے
یہ سلگتا ہوا افلاس کا چڑھتا سورج
مار ڈالے نہ کہیں گرم ہوا سے پہلے
آسماں پر بھی پہنچنا کوئی دشوار نہیں
چاہیے دل میں تڑپ حرف دعا سے پہلے

راکھ کے ڈھیر تمہیں اس کی گواہی دیں گے
مجھ کو اپنوں نے جلایا چتا سے پہلے
پیار کا نام بھی بدنام ہو جائے اثرؔ
تم بجھا دو یہ دیا تیز ہوا سے پہلے

پھونک ڈالے گی یہ اشکوں کی شررباری مجھے
راکھ میں کب تک دبا رکھے گی چنگاری مجھے
تنگ میرے جسم پر ہے پارسائی کا لباس
مار ڈالے گی کسی دن یہ ریا کاری مجھے
بیچتا ہوں اپنے فن پارے کھلے بازار میں
کر گئی رسوا سر بازار ناداری مجھے

میرے حصے میں تو غیروں کی عزا داری بھی ہے
کب گوارا ہوگی اپنوں کی دل آزاری مجھے
اپنی بیداری کا خود مجھ کو یقیں آتا نہیں
لگ گئی ہے آج کل خوابوں کی بیماری مجھے

اپنے ہی دل کی گواہی پر کیا تھا اعتبار
کر گئی بدنام خود اپنی طرف داری مجھے
وہ سلوک ناروا مجھ سے بہ نام التفات
دوستوں کی یاد ہے اب تک اداکاری مجھے

خالی بیٹھے کیوں دن کاٹیں آؤ رے جی اک کام کریں
وہ تو ہیں راجہ ہم بنیں پرجا اور جھک جھک کے سلام کریں
کھل پڑنے میں ناکامی ہے گم ہو کر کچھ کام کریں
دیس پرانا بھیس بنا ہو نام بدل کر نام کریں
دونوں جہاں میں خدمت تیری خادم کو مخدوم بنائے
پریاں جس کے پاؤں دبائیں حوریں جس کا کام کریں

ہجر کا سناٹا کھو دے گی گہما گہمی نالوں کی
رات اکیلے کیوں کر کاٹیں سب کی نیند حرام کریں
میرے برا کہلانے سے تو اچھے بن نہیں سکتے آپ
بیٹھے بیٹھائے یہ کیا سوجھی آؤ اسے بدنام کریں
دل کی خوشی پابند نہ نکلی رسم و رواج عالم کی
پھولوں پر تو چین نہ آئے کانٹوں پر آرام کریں

ایسے ہی کام کیا کرتی ہے گردش ان کی آنکھوں کی
شام کو چاہے صبح بنا دیں صبح کو چاہے شام کریں
لا محدود فضا میں پھر کر حد کوئی کیا ڈالے گا
پختہ کار جنوں ہم بھی ہیں کیوں یہ خیال خام کریں
نام وفا سے چڑھ ان کو اور آرزوؔ اس خو سے مجبور
کیوں کر آخر دل بہلائیں کس وحشی کو رام کریں

انقلاب سحر و شام کی کچھ بات کرو
دوستو گردش ایام کی کچھ بات کرو
جام و مینا تو کہیں اور سے لے آئیں گے
مے کشو ساقیٔ گلفام کی کچھ بات کرو
غیر کی صبح درخشاں کا تصور کب تک
اپنی کجلائی ہوئی شام کی کچھ بات کرو

پھر جلانا مہ و خورشید کی محفل میں چراغ
پہلے اپنے ہی در و بام کی کچھ بات کرو
کیا یہ ٹوٹے ہوئے پیمانے لئے بیٹھے ہو
بادہ نوشو ستم عام کی کچھ بات کرو
ذکر فردوس و ارم کل پہ اٹھا رکھتے ہیں
آج تو عارض اصنام کی کچھ بات کرو

میں تو خیر اپنی وفاؤں پہ ہوں نازاں لیکن
وہ جو تم پر ہے اس الزام کی کچھ بات کرو
تلخیٔ کام و دہن سے کہیں غم دھلتے ہیں
ظالمو تلخیٔ ایام کی کچھ بات کرو

اتنا سناٹا کہ احساس کا دم گھٹتا ہے
صبح کا ذکر کرو شام کی کچھ بات کرو
وہی ارشدؔ کہ جلاتا ہے جو آندھی میں چراغ
ہاں اسی شاعر بدنام کی کچھ بات کرو

ہم گھر ہی میں رہتے تو تماشا تو نہ ہوتے
یوں کشتۂ بیداد زمانہ تو نہ ہوتے
غم دل پہ شکست طلب جاں کا ہے بھاری
مٹ جاتے تگ و تاز میں پسپا تو نہ ہوتے

کھو جاتے کسی بادیۂ ہفت بلا میں
خلقت میں مگر راندۂ دنیا تو نہ ہوتے
دنیا سے جو رکھتے کبھی دنیا سے روابط
اپنے ہی زمانے میں یوں تنہا تو نہ ہوتے

ہو رہتے حرم کے تو جئے جاتے سکوں سے
بدنام رہ دیر و کلیسا تو نہ ہوتے
آوارہ مزاجی کی سزا خوب تھی لیکن
پا بستۂ خاک لب دریا تو نہ ہوتے

جیتے ہیں تو سب کھل گئے اوصاف جہاں پر
مر جاتے تو اچھا تھا کہ رسوا تو نہ ہوتے
اونچا جو اٹھا رکھتے علم اپنی انا کا
اعلیٰ نہ سہی عرش پہ ادنیٰ تو نہ ہوتے

سورج اگا تو زندگی کی شام ہو گئی
اب صبح نو بھی موت کا پیغام ہو گئی
دل میں سما گئیں وہ زمانے کی نفرتیں
مہر و وفا بھی آخرش بدنام ہو گئی
انسان سارے مسجد و مندر میں بٹ گئے
انسانیت اس دور میں ناکام ہو گئی

زیتون کی جو شاخ اٹھائے تھا ہاتھ میں
گردن قلم اسی کی سر عام ہو گئی
افشاںؔ کہاں سے لائیں وہ اسلاف کا خلوص
تاریخ کی کتاب ہی نیلام ہو گئی

سب کے ہونٹوں پر ہمیشہ اس کا افسانہ رہے
سارا عالم میرے دیوانے کا دیوانہ رہے
ساقیا یوں ہی ہمیشہ حال مے خانہ رہے
رقص میں ساغر رہے گردش میں پیمانہ رہے
دل کا عالم دیکھ میری یاد میں یوں غرق ہے
شمع پر جیسے تصدق کوئی پروانہ رہے

گھر میں بچے بھوک سے بیتاب ہیں بے حال ہیں
باپ لیکن سوچتا ہے ٹھاٹ شاہانہ رہے
یہ خدا کی مصلحت ہے ورنہ اس دربار میں
مستحق جو ہے محبت کا وہ بیگانہ رہے

آدمی بدنام ہو جاتا ہے لفظوں کے طفیل
گفتگو کرنے میں انداز شریفانہ رہے
آفتوں کا اور بلاؤں کا نہ ہو اس پر نزول
سایۂ رحمت میں شاطرؔ تیرا کاشانہ رہے

کوئی خوش ہے کوئی ناکام ہے ایسا کیوں ہے
ہے کہیں صبح کہیں شام ہے ایسا کیوں ہے
جن کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا میں کانٹے کی طرح
ان کے ہونٹوں پہ مرا نام ہے ایسا کیوں ہے
چاہے جس کی ہو خطا کوئی بھی مجرم ہو مگر
ترے دیوانوں پہ الزام ہے ایسا کیوں ہے

حسن کی انجمن آرائیاں تسلیم مگر
عشق آوارہ و بدنام ہے ایسا کیوں ہے
آج ہر شخص کو ہر موڑ پہ ہر محفل میں
شکوۂ گردش ایام ہے ایسا کیوں ہے

میں بھی ممنون ہوں ساقی کا مگر میرے لئے
کوئی ساغر نہ کوئی جام ہے ایسا کیوں ہے
جب ہے بے پردہ کوئی صاحب جلوہ انورؔ
روشنی صرف لب بام ہے ایسا کیوں ہے

آج ہر چہرے پہ پھیلا ہوا اک ڈر کیوں ہے
گھر میں رہتے ہوئے ہر آدمی بے گھر کیوں ہے
اک دہکتا ہوا لاوا ہے اگرچہ اندر
منجمد برف کے کہسار سا باہر کیوں ہے
کیوں چلی جاتی ہے اس کو مرے حصے کی خوشی
اس کا ہر درد مرے دل کو میسر کیوں ہے

لوگ کہتے ہیں محبت ہے ارم کا تحفہ
آج یہ پیار جہنم کے برابر کیوں ہے
کیوں ترے نام پہ لڑتے ہیں زمانے والے
یا خدا چاروں طرف خوف کا منظر کیوں ہے
نرگسی آنکھوں میں اک جھیل نہیں شعلے ہیں
مرمریں ہاتھوں میں گل ہونا تھا خنجر کیوں ہے

بے گناہی کی مری جس میں تھی ہر دستاویز
بھیڑ کے ساتھ اسی ہاتھ میں پتھر کیوں ہے
چاند کو باہوں میں لینے کی للک ہے شاید
آج بپھرا ہوا اس درجہ سمندر کیوں ہے
خود کو جذبات سے عاری میں سمجھ بیٹھا تھا
پھر یہ احساس میں اک دھندلا سا پیکر کیوں ہے

آج سمجھا ہوں زمانے کی روش ہے کیسی
جو تھا بے داغ سر دار وہی سر کیوں ہے
تیری مے ریز نگاہی کا کہیں نام نہیں
طنز ساقی پہ ہے بدنام یہ ساغر کیوں ہے
رنگ و بو میں تو ہے وہ رشک چمن جان چمن
اپنی گفتار میں وہ اتنا ستم گر کیوں ہے

رات اک بدنام گھر کی ہو رہی تھی چاندنی
ایک میلی چاندنی کو دھو رہی تھی چاندنی
اک بڑے ہوٹل کی ویراں چاندنی پر لیٹ کر
جانے کیوں اپنا تقدس کھو رہی تھی چاندنی
دوستوں کے ساتھ وہ تھا میکدے میں رات بھر
اور بستر پر اکیلی سو رہی تھی چاندنی

شہر میں جلتے مکاں بہتے لہو کو دیکھ کر
جنگلوں میں منہ چھپاتے رو رہی تھی چاندنی
دھوپ جھلساتی رہی دن بھر جو کھیتوں کو تو کیا
رات کو اپنی شعاعیں بو رہی تھی چاندنی

رات تھی ویراں کھنڈر تھا میں تھا میرا کرب تھا
بوجھ میرے درد و غم کا ڈھو رہی تھی چاندنی
غم کا ساتھی کون ہے یہ سوچ کر تنہا تھا میں
ساتھ لیکن میرے نشترؔ رو رہی تھی چاندنی

ہم سب کو بتاتے رہتے ہیں یہ بات پرانی کام کی ہے
دس بیس گھروں میں چرچے ہوں تب جا کے جوانی کام کی ہے
یہ وقت ابھی تھم جائے گا ماحول میں دل رم جائے گا
بس آپ یوں ہی بیٹھے رہئے یہ رات سہانی کام کی ہے
آسان بھی ہے دشوار بھی ہے دکھ سکھ کا بڑا بازار بھی ہے
معلوم نہیں تو مجھ سے سنو یہ دنیا دوانی کام کی ہے

مشہور بھی ہیں بدنام بھی ہیں خوشیوں کے نئے پیغام بھی ہیں
کچھ غم کے بڑے انعام بھی ہیں پڑھیے تو کہانی کام کی ہے
جو لوگ چلے ہیں رک رک کر ہموار زمیں پر جھک جھک کر
وہ کیسے بتائیں گے تم کو دریا کی روانی کام کی ہے

ہمیں تو عشق میں سب کام اچھے لگ رہے تھے
یہاں تک کہ سبھی الزام اچھے لگ رہے تھے
سنائے جا رہے تھے عشق شوریدہ کے قصے
ہمیں قصے نہیں انجام اچھے لگ رہے تھے
یقیں کی منزلوں سے گو کہ آگے جا رہے تھے
پس منظر مگر اوہام اچھے لگ رہے تھے

شب تاریک میں شب تاب انجم آسماں پہ
یہ دونوں برسر پیغام اچھے لگ رہے تھے
نکو کاری کا دشنامی صلہ ہے کیا گلہ ہے
کہ ہم بدنام ہیں بدنام اچھے لگ رہے تھے
رقیباں خوش تھے شعر شوخ کے تیور پہ ہم بھی
کہ ان شعروں کے سب ایہام اچھے لگ رہے تھے

میاں مجنوں بھی گم تھے نجد کی عریانیوں میں
پہ ہم صحرا میں با احرام اچھے لگ رہے تھے
نماز عشق ادا کرنے کی کوئی جا نہیں تھی
سو یہ سجدے ہمیں ہر گام اچھے لگ رہے تھے
وہ وصلت بھی کوئی وصلت کہ جاں آسودہ خاطر
فراقوں میں انیسؔ خام اچھے لگ رہے تھے