Alama Iqbal Quotes in Urdu
The below are the best quotes of respective Alama Iqbal sahib.

یہ دیر کہن کیا ہے انبار خس و خاشا
مشکل ہے گزر اس میں بے نالۂ آتش ناک

زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا
طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امیرا کے در و دیوار ہلا دو

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں

بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر

اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند

مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہے ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خایکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے

زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادرایک

کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف
خدا کا شکر سلامت رہا حرم کا غلاف

اسی خطا سے عتاب ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآل سکندری کیا ہے

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

یہی زمانۂ حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بےبایک

ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

حرم پایک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کر گہر نکلے

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

ہیں عقدہ کشا یہ خار صحرا
کم کر گلۂ برہنہ پائی

یہ ہے خلاصۂ علم قلندری کہ حیات
خدنگ جستہ ہے لیکن کماں سے دور نہیں

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں

عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ میرا انتظار دیکھ

اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر
مجھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا

میرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا
وہ پیرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں

سو سو امیدیں بندھتی ہے ایک ایک نگاہ پر
مجھ کو نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی

تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں

ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی

تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں

آئین جواں مرداں حق گوئی و بےبایکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تیری رہے بے داغ

پرانے ہیں یہ ستارے فلک بھی فرسودہ
جہاں وہ چاہیے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخیز

میرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

میں نا خوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لئے مٹی کا حرم اور بنا دو

سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومت عشق
سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں

یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

ایک سرمستی و حیرت ہے سراپا تاریک
ایک سرمستی و حیرت ہے تمام آگاہی

یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ مسلمان بھی ہو

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزا تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

دنیا کی محفلوں سے ایکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

عروج آدم خایکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے

یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

جب عشق سکھاتا ہے آداب خودآگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
کھٹک سی ہے جو سینے میں غم منزل نہ بن جائے

خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں

گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے

ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں

سودا گری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالات کے بدلنے کا

ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش آہنگ
دنیا نہیں مردان جفاکش کے لیے تنگ